26 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

پنڈت دین دیال اپادھیائے صدی تقریبات اور سوامی وویکا نند کی شکاگو تقریر کے125 سال پورا ہونے کے موقع پر طلبا کنونشن سے وزیراعظم کی تقریر کا متن

PMs address at Students' Convention on the occasion of Pandit Deendayal Upadhyay Centenary Celebrations, and 125th Year of Swami Vivekananda's Chicago Address
Urdu News

مجھے بتایا گیا تھا کہ یہاں بہت کم جگہ ہے، کچھ دوسرے کمرے میں، شاید کافی بڑی تعداد لوگ لوگ بیٹھے ہیں۔ ان کو بھی   میں بڑے احترام سے سلام کرتا ہوں۔

آج 11 ستمبر ہے۔ دنیا کو 2001 سے پہلے یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ 9/11 کی اہمیت کیا ہے۔ قصور دنیا کا نہیں تھا، قصور ہمارا تھا کہ ہم نے ہی اسے بھلا دیا تھا، اور اگر ہم نہ بھلاتے تو شاید 21 ویں صدی کا خوفناک 9/11 نہ ہوتا۔ سوا سو سال پہلے ایک 9/11 تھا، جس دن اس ملک کے ایک نوجوان نے ذرا تصورکیجئے  قریب قریب آپ ہی کی عمر کا، 5-7 سال آگے ہو سکتے ہیں۔ قریب قریب آپ ہی کی عمر کا گیروا  لباس پہنے  دنیا جس لباس سے بھی واقف نہیں تھی۔ دنیا جس نے غلام کو ایک ہندوستانی نمائندے کے طور پر دیکھا تھا۔ لیکن اس کے اعتماد میں وہ طاقت تھی کہ غلامی کے سائے اس کے  نہ فکر میں تھی، نہ عمل  میں تھی، نہ اس کی آواز میں تھی۔ وہ کون سی وراثت کو اس نے اپنے اندر سنبھالا  ہوگا کہ غلامی کے ہزار سال کے باوجود بھی اس کے اندر وہ شعلہ دہک رہا تھا۔ وہ یقین امڈ رہا تھا اور دنیا کو دینے کیطاقت اس زمین میں ہے، یہاں کے فکر  میں ہے، یہاں کی طرز زندگی میں ہے۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔

ہم خود سوچیں کہ ہمارے چاروں طرف   منفی بات ہوتی ہو ، ہماری سوچ کے  مخالف ہوتا ہو  ، چاروں طرف آواز  اٹھی ہو  اور  پھر ہمیں اپنی بات   بولنی ہو  تو کتنا ڈر لگتا ہے۔  چار بار سوچتے ہیں   پتہ نہیں کوئی غلط مطلب تو نہیں نکال دےگا۔  ایسا دباؤ پیدا ہوتا ہے  اس عظیم شخص کی وہ کون سی طاقت تھی کہ اس دباؤ کو  کبھی اس نے   تجربہ نہیں کیا۔ اندر کی جوالا  ،   اندر کی امنگ،    اندر کی خود اعتمادی،  اس زمین کی زمین کی طاقت   ، تھوڑا بہت  جاننے والا انسان، دنیا کو     سبق دینے  صحیح سمت دینے ، مسائل کےحل کا راستہ دکھانے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ دنیا کو پتہ نہیں تھا کہ      لیڈیز اور جینٹل  مین کے علاوہ    بھی کچھ بات ہوسکتی ہے۔     اور جس وقت   بروردس اینڈ  سسٹر آف امریکہ   یہ دو الفاظ نکلے    منٹوں تک تالیوں کی گونج بج رہی تھی۔    اس دو الفظوں میں بھارت کی وہ طاقت کا اس نے      پہنچان کروادیا تھا۔   وہ ایک 11/9 تھا۔     جس شخص نے اپنی ریاضت سے     ماں بھارتی کا پیدل سفر کرنے کے بعد   جس نے ماں بھارتی کو اپنے میں      سنجویا تھا۔    اتر سےدکن  ، پورب سےپچھم   ہر زبان کو ہربولی کو جس نے       سیکھا تھا    ۔  اس طرح   سے    بھارت ماں کی جادو    تپسیا کو اپنے اندر پایا تھا    ایسا ایک عظیم انسان     پل دو پل میں پورے عالم کو   اپنا بنالیتا  ہے۔   پوری دنیا کو اپنے اندر     سمولیتا ہے۔  ہزاروں سال کی      ترقی یافتہ مختلف النوع انسانی تہذیب کو  وہ اپنے میں سمیٹ کرکے دنیا کو اپنائیت کی پہنچا ن دیتا  ہے دنیا کو جیت لیتا ہے وہ 9/11 تھا   ۔  ملک کو فتح کرنے والا  دن   تھا میرے لئے۔   عالمی فتح کا سال تھا۔        اور 21 ویں صد ی کے شروع میں جس میں   انسانیت کی برباد ی کا راستہ     اسی امریکہ کی دھرتی پر ایک  9/11 کو پیار     اور اپنایئت کا پیغام دیا جاتا ہے اسی امریکہ کہ سرزمین پر اس پیغام کو بھلا دینےکا نتیجہ تھا کہ    انسانیت کی بربادی  کا دوسر ا روپ   دنیا کو ہلا دیا تھا۔  اسی 9/11 کو حملہ ہوا ور جب جاکر دنیا کو سمجھ آیا کہ   ہندستان سےنکلی ہوئی آواز     9/11 کو کس روپ میں   تاریخ میں جگہ دیتی ہے۔   اور بربادی اور تباہی کے راستے پر چل پڑا، یہ 9/11   دنیا کی تاریخ میں کس طرح  رقم  رہ جاتا ہے اور اس لئے جب   9/11 کے دن   وویکانند کو جی  الگ روپ سے سمجھنے کی ضرورت مجھے لگتی ہے۔

وویکا نند  جی کے دو روپ  ، اگر باریکی سے دیکھو گے کہ دھیان میں ا ٓئے گا دنیا میں جہاں   گئےوہاں ،   جہاں بھی با ت کرنے کا موقع ملا   وہاں   بڑےاعتماد کے ساتھ بڑےفخر کے ساتھ بھارت کی عظمت اور شان و شوکت، بھارت کی عظیم وراثتوں کی عظمت ، بھارت کی عظیم تہذیب  کی عظمت،  بھارت کی عظیم   فکر کی عظمت  اس کو ظاہر کرنے میں وہ کبھی تھتکے نہیں تھے رکتے نہیں تھے کبھی الجھن  کا تجربہ نہیں کرتے تھے۔  وہ ایک روپ تھا وویکا نند کا۔      اور دوسرا روپ وہ تھا جب بھارت کے  اندر بات کرتے تھے تو ہماری برائی کو کوستے تھے۔     ہمارے اندر کی خرابیوں پر      زبردست حملہ کرتے تھے۔   اور وہ جس زبان کا استعمال  کرتے  تھے اس زبان کا استعمال بھی ہم کریں تو شاید لوگوں کو  تعجب ہوگا کہ  ایسے کیسے بول رہے ہیں۔  یہ سماج کے ہر برائیوں کے خلاف  آواز اٹھاتے تھے   اور       اس زمانے کی معاشرےکا  تصور کیجئے جب        روایتوں کی اہمیت زیادہ تھی۔      پوجا پاٹ   ، روایت،    یہ سماجی زندگی کی حقیقت تھی۔ ایسے وقت    تیس سال کا ایک نوجوان  ایسے ماحول میں کھڑ ا ہوکر کہہ دے کہ پوجا   پاٹھ ، پوجا ارچن مندر میں بیٹھے رہنے سےکوئی بھگوان  وگھوان  ملنے والا نہیں ہے۔   جن سیوا       یہی  پربھو سیوا ہے۔     جاؤ لوگوں غریبوں کی خدمت کرو تب جاکر خدا حاصل ہوگا۔ کتنی بڑی طاقت  ہے۔

 جو انسان دنیا کے اندر   جاکر کے بھارت کا     گن گان کرتا تھا    لیکن بھارت میں آتا تھا تو بھارت کے اندر کی برائیوں پر سخت حملہ کرتا تھا۔   وہ سنت روایت سے تھے لیکن جیون میں وہ کبھی گرو تلاش کرنےنہیں  نکلے تھے یہ سیکھنے اور سمجھنے کا موضوع ہے۔  وہ گرو تلاش کرنے کے لئے نہیں نکلے تھے۔  وہ سچائی کی تلاش میں تھے    مہاتما گاندھی بھی زندگی بھر  سچائی کی تلاش  سے جڑے تھے وہ سچائی کی تلا ش میں تھے۔      پرویوار  میں معاشی حالت سخت تھی۔    رام کرشن دیوما ں کالی کے پاس    بھجتے ہیں   ۔    جا تجھے جو چاہئے   ماں کالی سے مانگ اور بعد میں  پوچھا کچھ مانگا بولےنہیں مانگا۔   کون سا مزاج ہوگا  کالی کے سامنے کھڑےہوکر  کبھی مانگنے کے لئے تیار نہیں۔   اندر وہ کونسی طاقت رہی ہوگی وہ کون سی توانائی  رہی ہوگی یہ ہمت    پیدا ہوئی۔    اس لئے      موجودہ سماج میں  جو برائیاں ہیں    کیا ہمارے سماج کی برائیوں کےخلاف نہیں لڑیں گے۔  ہم قبول کرلیں گے   ۔  امریکہ کی سرزمین پر وویکا نند جی    برودرس  اینڈ سسٹر  کہیں ہم خود ناچ اٹھے۔   لیکن میرے ملک میں اپنے نوجوانوں کو خصوصی طور پر کہنا چاہوں گا     کیا ہم   عورتوں کی عزت کرتے ہیں     ہم لڑکیوں  کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں     جو دیکھتے ہیں ان کو میں    سو بار سلام کرتا ہوں۔ لیکن جو    اس کے اندر   انسان نہیں دیکھ پاتے ہیں، انسانیت نہیں دیکھ پاتے ہیں،   یعنی      یہ بھی    خدا کی ایک مخلوق اپنی برابری سے ہے یہ جذبہ اگرنہیں دیکھتے ہیں تو سوامی وویکا نند جی کے وہ   الفاظ   برادرس و سسٹر آف امریکہ      ہمیں تالیاں بجانے کا حق ہے یانہیں ، 50 بار ہمیں سوچنا ہے۔

  ہم کبھی  سوچیں ہیں کہ    وویکا نند جی کہتے تھے عام لوگوں کی خدمت ،بھگوان کی خدمت  ۔  اب دیکھئے ایک انسان    تیس سال کی عمر میں    پوری دنیا میں جے جے کار کرکے آیا ہے  اس غلامی کے تاریک دور میں      دو واقعات  جس نے بھارت میں ایک نئی  روح    ، نیا جذبہ، پیدا   کیا تھا۔     ایک جب   رویندر  ناتھ ٹیگور کو    نوبل انعام ملا اور   جب سوامی  وویکا نند جی کا 9/11 کی تقریر کا     ملک  اور بیرون ملک پوری دنیا میں چرچا ہونے لگا۔   بھار ت غلامی کے تاریک دور میں        ایک نئی فکر کا جوش پورے بھارت میں ان دو واقعات نے جگایا تھا۔      اور دونوں بنگال کے  سپوت تھے۔   کتنا فخر ہوتا ہے جب میں دنیا میں کسی کو جاکر کہتا ہوں کہ میرے   ملک کے رویندر ناتھ ٹیگور      ، شری لنکا کا قومی ترانہ بھی انہوں نے بنایا ، بھارت کا قومی ترانہ بھی انہوں نے بنایا۔  بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بھی انہوں  نے بنایا۔   کیا ہم  اپنی  اس وراثت کے تئیں      فخر کرتے ہیں ۔    آج ہندستان میں    دنیا میں ہم  ایک نوجوان ملک ہیں۔ 800 ملین لوگ  اس ملک میں  اس عمر کے ہیں جو   وویکا نند میں شکاگو میں تقریر کی اس سے بھی کم عمر کے ہیں۔  اس ملک کی  65 فی صد  آبادی     دنیا بھر میں ڈنکا بجانے والے وویکا نند جی کی  کم عمر سے   65 فی صد  آبادی جس ملک کی ہو اس ملک میں وویکا نند سے       بڑی تحریک کیا ہوسکتی ہے اور   اس لئے  کہ وویکا نند جی نے کام کیسا کیا وہ صرف پیغام دینے والےنہیں رہے وہ صرف آئیڈیاس  کو آئیڈلزم میں تبدیل کیا اور  آئیڈلزم کو ملا کر    انسٹی ٹیوشنل فریم ورک بنایا   ۔آج سے قریب 120 سال پہلے  اس عظیم شخص نے رام کرشن مشن کو جنم دیا    ۔ وویکا نند مشن کو جنم نہیں دیا، رام کرشن کو جنم دیا۔  بات چھوٹی ہوتی ہے لیکن عقل مند کواشارہ کافی ہوتا ہے اور  انہوں ں نے رام کرشن مشن نے جس جذبے سے       شروع کیا آج 120 سال پہلے بھی    نہ انحرا ف آیا ہے نہ کوئی  موڑ آیا ہے ۔     ایک ایسے ادارے کو    کسی مضبوط بنیاد بنائی ہوگی انہوں نے۔      فاؤنڈیشن کتنا مضبوط رہا ہوگا ۔ ویژن کتنا صاف ہوگا ،ایکشن پلان کتنا مضبوط ہوگا۔    بھارت کے    دنیا  میں کتنی گہرائی سے     تجربہ رہی ہوگی تب جاکر کے ایک تنظیم  120 سال   کے بعد بھی وہ آندولن     آج بھی اسی  انداز سے چل رہا ہے ۔

  میر ی خوش قسمتی رہی   کہ  مجھےبھی اس عظیم روایت میں کچھ پل     پناہ لینے کا  مجھےبھی    موقع ملا۔   جب وویکا نند جی کی 9/11 کی تقریر کی صدی تھی  تو مجھے اس دن شکاگو میں جانے کا     موقع ملا تھا۔   اس  میٹنگ ہال میں  جانے کا موقع ملا تھا اور اس صدی  تقریب کےموقع پر مجھےموقع ملا تھا میں   تصور کرسکتا ہوں کہ      وہ کیسا  پل تھا۔

کیا کبھی دنیا میں کسی نے سوچا ہے کسی لیکچر کے سوا سو سال  منائی جائے۔ کچھ پل کے وہ لفظ سوا سو سال کے بعد بھی زندہ ہو ۔ بیدار ہو اور بیداری پیدا کرنے کا صلاحیت رکھتے ہوں یہ اپنے آپ میں ہم لوگوں کے لئے ایک عظیم وراثت کی شکل میں بنانے کا موقع ہے۔

میں یہاں اتنی پوری طاقت سے وندے ماترم وندے ماترم وندے ماترم سن رہا تھا۔ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دل کے اندر بھارت بھکتی کا ایک جذبہ سا جاگ جاتا ہے لیکن میں جلسہ کو نہیں پوچھ رہا ہوں میں پورے ہندوستان کو پوچھ رہا ہوں کیا ہمیں وندے ماترم کہنے کا حق ہے کیا۔ میں جانتا ہوں میری یہ بات بہت لوگوں کو چوٹ پہنچائے گی۔ میں جانتا ہوں پچاس بار پچاس  بار سونچ لیجئے، کیا ہمیں، کیا ہمیں، وندے ماترم کہنے کا حق ہے کیا۔ ہم وہ لوگ پان کھا کر کہ اس بھارت ماں پر پچکاری مار ررہے ہیں اور پھر وندے ماترم بولے۔ ہم وہ روز سارا کوڑا کچڑا بھارت ماں پر پھینکیں اور پھر وندے ماترم بولیں۔ وندے ماترم بولنے کا اس دیش میں سب سے پہلا کسی کو حق ہے تو دیش بھر میں صفائی کا کام کرنے والے بھارت ماں کے ان سچے اولادوں کو ہے جو صفائی کرتے ہیں اور اسی لئے اور اسی لئے ہم یہ ضرور سوچیں کہ یہ ہماری بھارت ماتا سجھلا  سفلام بھارت ماتا ہم صفائی کریں یا نہ کریں گندا کرنے کا حق ہمیں نہیں ہے۔ گنگا کے تئیں عقیدت ہو، گنگا میں ڈبکی لگانے سے پاپ ڈھلتے ہو ہر نوجوان کے دل میں رہتا ہے کہ میرے ماں باپ کو ایک بار گنگا اسنان کراؤں لیکن کیا اس گنگا کو ہم گندا کرنے سے ہم اپنے آپ کو رو ک پاتے ہیں کیا۔ کیا آج وویکا نند جی ہوتے تو ہمیں اس باپ پر ڈانٹے  کہ نہیں ڈانٹے۔ ہمیں کچھ کہتے کہ نہ کہتے اس لئے کبھی کبھی لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم خود اسی لئے کیونکہ ڈاکٹروں کی بھرمار ہے۔ اچھے سے اچھے ڈاکٹر ہے۔ جی نہیں ہم اس لئے صحت مند نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس اچھے سے اچھے ڈاکٹر ہے۔

ہم صحت مند اس لئے ہے کہ کوئی میرا کام دار صفائی کررہا ہے۔ ڈاکٹر سے بھی زیادہ اگر اس کے تئیں عزت رہے تب جا کر وندے ماترم کہنے کا مزا ا ٓ تا ہے اور اس لئے مجھے برابر یاد ہے کہ ا یک بار میں نے بول دیا کہ پہلے شوچالیہ پھر دیوالیہ۔ بہت لوگوں نے میرے بال نوچ لئے تھے لیکن آج مجھے خوشی ہے کہ ایسی بیٹیاں ہیں جو شوچالیہ نہیں تو شادی نہیں کرے گی ایسا طے کرلیا ہے ہم لوگ ہزاروں سال سے ٹکے ہیں اس کی وجہ کیا ہے ہم وقت کے مطابق تبدیلی کے مطابق لوگ ہے۔ ہم ہمارے اندر سے ایسے لوگ جنم دیتے ہیں جو ہماری برائیوں کے خلاف لڑائی لڑنے کے لئے قیادت دیتے ہیں اور وہ ہماری طاقت ہیں اور اس لئے سوامی وویکا نند کا ہم یاد کرتے ہیں تب وہ 9/11 الفاظ کا ذخیرہ نہیں تھا وہ ایک عبادت کرنے والے کے بول تھے ایک ایسی آواز تھی جس نے عبادت کی ہوں تب جا کر کے یہ نکلتا تھا جو دنیا کو  متاثر کردیتاتھا ورنہ ہندوستان یاد ہے  سانپ سپڑوں کا ملک، جادو ٹونا والوں کا دیش، ایک آدیشی کو کیا کھانا اور پورنیما کو کیا نہیں کھانا یہی ملک یہی ہماری پہچان تھی ۔ وویکا نند نے دنیا کے سامنے کہہ دیا تھا ہمارا ہماری روایات کے نیچے ان کی روایت نہیں ہے کیا کھانا کیا نہیں کھانا یہ میرے ملک کی روایت نہیں ہے۔ وہ تو ہماری انتظامات کا  حصہ ہوگا ہماراثقافتی انتظام الگ ہے۔سب کی خدمت کرنا یہ ہماری سوچ ہے اہم برہما سی ایسی نکلی ہوئی باتیں نہیں ہے۔ یہ آریہ لفظ پوری دنیا کو بتائیں گے اس مطلب میں ہے کہ کسی ذات تبدیلی ، دھرم تبدیلی کے لئے نہیں ہے اور اسی لئے اس عظیم وراثت کے ہم اس روایت سے پلے بڑے لوگ ہے یہ سب اس زمین کی پیداوار ہے۔

صدیوں کی عبادت سے نکلی ہوئی چیزیں اس ملک کے ہر شخص نے اس کے اندر کچھ کچھ جوڑا ہی ہے یہی تو ملک ہے بھیک مانگنے والا بھی تب تو علم سے بھرا ہوا ہوتا ہے جب کوئی آتا ہے تو کہتا ہے کہ دینے والے کا بھی بھلا۔ نہ دینے والے کا بھی بھلا۔ اور اس لئے سوامی وویکا نند کی کامیابی کی گنجی یہ تھی کہ ان کے اندر اعتماد اور عظم کابھی جذبہ تھا ۔ اندر کا مطلب نوٹ اے پرسن جس ملک کو وہ ری پریزینٹ کررہے تھے اس کی عظیم وراثت کو اپنا وقار ، عظمت کی شکل میں انہوں نے پیش کیا تھا کیا ہم کبھی سوچتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ کسی اچھی جگہ پر چلے جائیں بڑھتا قدرتی ماحول ہو۔ صاف ستھرا ہو اور بہت اچھا لگتا ہو تو پہلا لفظ کیا نکلتا ہے منہ سے یہ لگتا نہیں ہے کہ ہندوستان ہے کہتے ہیں کہ نہیں کہتے  ایسا۔ بتائیے ایسا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اگر اندرخود اعتمادی اور عظمت سے  پلے بڑے ہوتے تو یہ جذبہ نہیں آتا فخر ہوتا چلئے بھائی کچھ بھی ہو ہمارے ملک میں یہ ہیں۔ ایسا ہے۔

وویکا نند جی نے میں سچ بتاتا ہوں دوستوں آج کے سلسلہ میں وویکا نند جی کو دیکھیں کچھ لوگوں کو لگتا ہوگا جب میں کہتا ہوں  میک ان انڈیا، میک ان انڈیا ، بہت لوگ ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت کرنے والے بھی لوگ ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ میک ان انڈیا نہیں میک ان انڈیا چاہئے ایسا بھی لوگ کہتے ہیں  بڑے بڑے دانشور لوگ تو طرح طرح کی چیز نکال لیتے ہیں لیکن جس کو معلوم ہوگا کہ وویکا جی اور جمشید جی ٹاٹا کے بیچ جو گفتگو ہوئی اگر وہ گفتگو معلوم ہوگا تو وویکا نند جی اور جمشید جی ٹاٹا کے بیچ کا جو خط وکتابت ہے وہ کسی کو دیکھا ہوگا تو پتہ چلے گا کہ اس وقت غلام ہندوستان تھا تب بھی وویکا نند تیس سال کا نوجوان جمشید جی  ٹاٹا جیسے شخص کو کہہ رہا ہے کہ ہندوستان میں صنعت لگاؤں نہ میک ان انڈیا بناؤں نہ اور خود جمشید جی ٹاٹا نے لکھا ہے خود کہا کہ وویکا نند جی وہ لفظ وہ باتیں میرے لئے تحریک رہی اسی کے سبب میں اس ہندوستان کے اندر ہندوستان کے صنعت کاروں کو بنانے کے لئے گیا۔

آپ حیران ہوں گے جی ہمارے ملک میں پہلا زرعی انقلاب وویکا نند جی کے خیالات میں نکلتا ہے کہ ہندوستان میں زرعی انقلاب کیسے کرنا چاہئے اور ڈاکٹر سین جو پہلے زرعی انقلاب کے سربراہ مانے جاتے تھے انہوں نے یہ ادارہ بنایا تھا اس ادارہ کا نام وویکا نند زرعی ریسرچ ادارہ کے نام سے رکھتا تھا یعنی ہندوستان میں زراعت کو جدید بنانا چاہئے۔ سائنسی ریسرچ سے بناناچاہئے۔ اس سوچ کی باتیں وویکا نند جی اس عمر میں کرتے تھے۔

آج جس کو لے کر کہ گفتگو ہے کہ ہمارا نوجوان یونیورسٹی جاتا ہے یہ کرتا ہے آج 9/11 پنڈت دین دیال اپادھیائے کی صد سالہ تقریب سے ہی جڑا ہوا ہے اور آج 9/11 جس مہا پرش نے مہاتما گاندھی کو جی کرکے دکھایا ایسے آچاریہ ونوا بھاؤے کا بھی یوم پیدائش ہے اور آج جب اس بات کو کہتا ہوں تب دین دیال جی کے خیالات کو جنہوں نے دیکھا ہوگا۔ سنا ہوگا۔ پڑھا ہوگا۔ یہی بھاؤے کو جدید سلسلہ میں ترقی دینا ہے۔انتودیہ ہے عوامی خدمت ہی سب سے بڑی خدمت ہے یہ اس کو ظاہر کرنے کا کام زندگی کے ذریعہ ونوا جی نے کیا اور ونوا جی جو سوچتے تھے اس کو الفاظ ڈھالنے کا کام دادا دھرما جی کی نگرانی میں دکھتا ہے دادا دھرما ادھیکاری جی نے ا یک کتاب میں لکھا ہے بڑا مزے دار لکھا ہے کوئی نوجوان ان کے پاس آیا نوکری کے لئے کوئی تعرف  کے ذریعہ آیا تھا تو وہ چاہتا تھا کہ دھرم ادھیکاری کچھ سفارش کرے اور کچھ مد د کرے تو کہیں کام مل جائے۔ دادا دھرم ادھیکاری جی نے لکھا ہے کہ اس کو میں نے پوچھا تمہیں کیا آتا ہے اس نے کہا کہ میں گریجویٹ ہوں انہوں نے دوبارہ پوچھا تمہیں کیا آتا ہے تو اس نے دوبارہ کہا کہ میں گریجویٹ ہوں وہ سمجھ نہیں پایا دادا دھرم ادھیکاری کہہ رہے ہیں یا کچھ پوچھ رہے ہیں۔ تیسری بار پوچھا کہ بھائی تمہیں کیاآتا ہے نہیں بولے کہ میں گریجویٹ ہوں۔ دھرم ادھیکار ی نے پوچھا تمہیں ٹائپنگ کرنا آتا ہے کیا تو بولے نہیں۔ کھانا پکانا آتا ہے تو بولے نہیں۔ فرنیچر بنانا آتا ہے تو بولے نہیں۔ چائے ناشتہ بنانا آتا ہے جی نہیں مجھے نہیں میں تو گریجویٹ ہوں۔ اب دیکھئے وویکا نند جی نے کیا کہا تھا کہ وویکا نند جی ہر بات ہمارے دماغ کو بہت بڑا ہلا دینے والی ا ن کی فطرت تھی اور وہ اسی زبان میں بات کرتے تھے اور انہوں نے بڑے مزے دار کہا کہ It be have  assimilated five ideas and made than you life and character you have more education than any man who has got  by heart whole library

یعنی پوری لائبریری بھری پڑی ہے۔ سب کے دل دماغ میں لیکن پانچ اصولوں کو لے کر جیتا ہے کہنے کا مطلب ہے انہوں نے نالج اور اسکل کو الگ کیا آج پوری دنیا ہاتھ میں سرٹی فیکٹ ہے  اس کی اہمیت ہے کہ اس کے ہاتھ میں ہنر ہے اس کی اہمیت ہے اس سرکار نے اسی سوچ کو آگے بڑھانے کی  کوشش کی ہے۔ اسکل ڈیولپمنٹ ہمارے دیش میں اسکل ڈیولپمنٹ نیا موضوع نہیں ہے لیکن پہلے ڈپارٹمنٹوں میں بکھیرا پڑا تھا کوئی اس کا مالک نہیں تھا جس کو مرضی پڑے وہ اس سمت میں چلتاتھا ہم نے آکر کہ ان سارے اسکل ڈیولپمنٹ کو لایا اس کا الگ منسٹری بنایا الگ ڈپارٹمنٹ بنایا اور فوکس وے میں اسکل ڈیولپمنٹ جو کہ ملک میں  ایسے نوجوانوں کو تیار کرے جس کو کبھی کسی بھی بھروسہ نہ کرنا پڑے۔ میرے ملک کا نوجوان جاب سی کر نہیں جاب کریٹیر بننا چاہئے۔

میرے دیش کا نوجوان مانگنا والا نہیں دینے والا بننا چاہئے اور اس لئے میں آج سوامی وویکا نند جی کے خیالات کو یاد کررہا ہوں تب وہ اختراع کے نتیجہ میں انوسندھان کے وہ گھیسی پیٹی چیزوں کا بائیکاٹ کرنے کے لئے اپیل کرتے ہیں۔کتنا عظیم  کیوں نہ۔ کتنا اچھا نہ لگتا ہو لیکن چھوڑنے کے لئے اپیل کرتے ہیں۔

سماجی زندگی بھی تبھی ترقی کر سکتی ہے جب مسلسل اس میں نیا پن  ہو، مسلسل نئی زندگی آئے تبھی جاکر ہم کامیاب ہیں اور اس وجہ ہمارے ملک کی نوجوان نسل اس میں وہ ہمت چاہئے، وہ جذبہ  چاہئے جس میں نیا پن  کم ہو ارادہ رہے کچھ لوگوں کو یہی ڈر لگتا ہے یار کروں لیکن فیل ہو جاؤں تو میں کرو تو فیل ہو جاؤں دنیا میں کوئی انسان دیکھا ہے آپ نے جو فیلير ہوئے بغیرکامیاب  ہوا ہو کبھی کبھی تو کامیابی  کا راستہ ہی ناکامی  بناتی ہیں اور اسلئےناکامی  سے گھبرانا یہ زندگی نہیں ہوتی دوستو! جوساحل پر کھڑا ہے وہ  ڈوبتا نہیں  دوستوں! جو پانی میں چھلانگ لگاتا ہے وہ ڈوبتا بھی ہے   اور ڈوبنے ہوئے تیرنا بھی سیکھ لیتا ہے۔ کنارے پر کھڑے رہ کر لہریں گنتے ہوئے زندگی پوری کرلیتا ہے جی، جو لہروں کو پار کرنے کی اہلیت لیکر تالاب میں، ندی میں سمندر میں کودنے کا لوہا لیکر کے چلتا ہے، سوامی وویکانندجی ایسے نوجوانوں  سے توقعات رکھتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں سے توقعات کرتےہیں۔

آج  حکومت ہند مہم چلا رہی ہے، اسٹار اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا مدرا سے بغیر بینک گاڑنٹی سے پیسہ ملتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ میرے مل کا نوجوان میرے ملک کے مسائل کے حل کے لئے نئی اختراع کرے، نئی مصنوعات لیکر آئے اور لوگوں کے پاس جائے۔ ہندوستان بہت بڑا بازار ہے۔ میرے ملک کےنوجوانوں کی دانشمندی اور اہلیت کا انتظار کررہا ہے اور وویکا نند جی نے جو علم اور ہنرمندی کو جو الگ الگ کیا ہے، آج وقت کا تقاضہ ہے، اسی جذبے سے ہم ہنر مندی کی عظمت بڑھاتےچلیں، راتوں رات نہیں ہوتا ہے۔ بڑھاتے چلیں۔ آپ  دیکھئے نتیجہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اختراع ہم نے اپنے نیتی آیوگ کے ذریعہ اٹل انوویشن مشن ایپ چلا رکھا ہے، اس کے ساتھ اٹل ٹنکرنگ لیبس ، اس کے ملک کے چھوٹے چھوٹے بچے جو اس قسم کی اختراع کرتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ایک پوری تحریک چل رہی ہے، خاموش تحریک ہے ، پر چل رہی ہے اور بہت لائق بچے نئی نئی چیزیں لیکر کے آئے، میں راشٹرپتی بھون میں جب پرنب دا راشٹرپتی تھے تو ملک بھر سے اس طرح کے بچوں کو ایک بار انہوں نے بلایا تھا، 12، 15 بچے آئے تھے، وہ اپنی اپنی اختراع کی چیزیں لائے تھے تو پرنب دا نے مجھ سے اصرار کیا  کہ ان بچوں سے ملوں، میں دیکھنے گیا، میں حیران تھا، ان میں سے آدھے سے زیادہ بچے، وہ اختراعی چیزیں لائے تھے اور آٹھویں ، نویں اور دسویں جماعت کے بچے تھے۔ کوڑے کچرے سے کیسے سامان تیار کرنا ، اس کے پروجیکٹ کو لیکرآئے تھے۔ دیکھئے سوچھتا ابھیان کا اثر کیسا تھا۔ وہ ان چیزوں کو لیکر کے آئے کہ کوڑے کچرے سے کیا بن سکتا ہے۔ کہنے کا میرا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں اہلیت کی کوئی کمی نہیں ہے اور اس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔ آج پوری دنیا میں غیر ملکی پالیسی پر مباحثے ہوتے ہیں۔ یہ خیمہ، وہ خیمہ، یہ گروپ، وہ گروپ، سرد جنگ، یہ بڑھیا بڑھیا کیا لفظوں کا انتخاب کیا ہے۔ کیا وویکانند جی کو کسی نے پڑھا ہے، کیا؟ ان کی غیر ملکی پالیسی کیا تھی؟ سوامی وویکانند جی نے اس وقت کہا تھا اور آج 120 سال کے بعد دنیا کے سامنے نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایک ایشیا، ایک ایشیا  کا خیال دیا تھا اور ایک ایشیا کے خیال کے ذریعہ انہوں نے کہا تھا کہ دنیا جب مصیبتوں سے گھری ہوگی تب اس کو راستہ دکھانے کی طاقت اگر کسی میں ہوگی تو ایک ایشیا میں ہوگی۔ ایک ثقافتی وراثت سے مالا مال ہے ، ایک ایشیا۔آج دنیا کہہ رہی ہے کہ 21 ویں صدی ایشیا کی ہے۔ کوئی کہتا ہے چین کی، کوئی کہتا ہے بھارت کی، لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ساری دنیا کہتی ہے کہ 21 ویں صدی ایشیا کی ہے۔

ایک سو پچیس سال پہلے جس عظیم شخص نے  یہ فلسفہ دیا تھا، ایک ایشیا کا تصور کیا تھا اور دنیا کی اس پوری تصویر کے اندر ایک ایشیا کیا رول ادا کرسکتا ہے، مسائل کو حل کرنے کی بنیادی طاقت اس ایک ایشیا میں کیا پڑی ہوئی ہے، اس کی ہزاروں سال کی وراثت اس کے پاس کیا ہے، یہ فلسفہ وویکانند جی کے پاس تھا اور اس لئے جدید  ضمن میں ہمیں وویکانند جی کو دیکھنا چاہیے۔ وہ صنعت کاری کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں، ان کی ہر بات چیت میں ہندوستان باصلاحیت اور طاقتور بنے، اس کی بنیاد کیا تو زرعی انقلاب کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف اختراع کی بات کرتے تھے تو تیسرے طرف وہ صنعت کاری کی بات کرتے تھے اور سماج کے اندر جو خامی ہے، اس کے خلاف لڑائی لڑنے کی بھی بات کرتے تھے۔ چھوا چھوت کے خلاف وہ اتنا بولتے تھے، پاگل پن کہتے تھے۔ یہ چھوا چھوت، اونچ نیچ کے جذبے کو پاگل پن کہتے تھے۔ جس عظیم شخص نے اتنا سب کچھ دیا، آج دین دیال جی کا  صد سالہ  یوم پیدائش منا رہے ہیں ، تب وہ بھی انتیو دیہ کی بات کرتے تھے۔ مہاتما گاندھی بھی کہتے تھے کوئی بھی فیصلہ کروں تو سماج کے آخری کنارے پر جو بیٹھا ہے، اس کا بھلا ہوگا کہ نہیں، اتنا دیکھ لینا۔ آپ کا فیصلہ صحیح ہوگا۔

پچھلے دنوں کچھ نوجوان نے پروگرام کیا، اور وہ پروگرام تھا جو اٹل جی کے زمانے میں گولڈن چتشکون بنا تھا، اس پر سفر کرنے کا، سائیکل لیکر کے گئے اور ریلے ریس کی۔ انہوں نے شاید 6000 کلومیٹر سائیکل پر ریلے ریس کی تھی۔ ان کا بڑا اچھا اصول تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ قانون پر عمل کرو اور ہندوستان کی حکمرانی قائم ہوجائے گی۔ ہم 125 کروڑ ہندوستانی اتنا کرلیں۔ قانون پر عمل کریں ، پھر وویکا نند جی کو جو خواب تھا ، میرا بھارت  دنیا کا گرو بنے گا، اپنے آپ ہندوستان حکومت کرے گا۔ مگر ہمیں قانون پر عمل کرنا ہوگا اور اس لئے ان جذبات کو لیکر کے ہم آج جب وویکانند جی کی شتابدی 125 سال  ان کی تقریر کے اور پنڈت دین دیال جی کی صد سالہ تقریب ہے اور خوش قسمتی سے وینوبا جی  کا بھی یوم پیدائش  اور دوسری طرف وہ بھیانک نائن الیون جس نے قتل کیا، تباہی برپا کی، دنیا کو دہشت گردی میں جھونک دیا۔  انسان ، انسان کو دشمن بن گیا۔ ایسے وقت وسودھیو کٹنبکم  کا خیال لیکر کے چلے ہوئے ہم لوگ قدرت میں بھی پرماتما دیکھنے والے ہم لوگ، پودے میں بھی پرمیشور دیکھنے والے ہم لوگ، دریا کو بھی ماں ماننے والے ہم لوگ ، پوری کائنات کو خاندان ماننے والے لوگ، مصیبتوں سے گھری ہوئی انسانیت کو بحران سے گری ہوئی دنیا کو ہم تب کچھ دے پائیں گے جب ہم اپنی باتوں پر فخر کریں اور وقت کے مطابق تبدیلی لائیں۔جو غلط ہے، سماج کے لئے تباہ کاری ہے۔ کتنے ہی نظریات اپنے زمانے میں صحیح ہوں گے۔ اگر آج کے زمانے میں ہو نہیں ہیں، اس کے خلاف آواز اٹھاکر اس کو ختم کرنے کے لئے نکلنا چاہیے۔

لیکن میرے نوجوانوں 2022   میں، سوامی وویکا نند نے جس  رام کرشن مشن کو شروع کیا تھا اس  کو 125 سال ہوگئے۔ 2022 ہندوستان کی آزاد کے 75 سال ہوگئے۔ ہم کوئی سنکلپ لے سکتےہیں کیا۔ اور سنکلپ … میری زندگی کا عزم بننا چاہیے، میں یہ کروں گا اور آپ دیکھئے زندگی جینے میں الگ مزہ ہوگا۔کبھی کبھی ہمارے ملک میں یہ تنازعہ ہوتا ہے کہ جو کالج یونیورسٹی والے طلبا ہوتےہیں، یونیورسٹی کے صدر کے عہدے پر بیٹھے ہوئے سارے الیکشن جیت کرکے آئے طلبا کے لیڈر ہیں سارے….  طلبا کی سیاست کہاں سے شروع اور کہاں پہنچی، یہ غور کرنے کو موضوع ہے۔ لیکن میں کبھی کبھی دیکھتا ہوں کہ طلبا سیاست کرنے والے لوگ جب الیکشن لڑتے ہیں تو ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے….. یہ سب کہتےہیں لیکن ابھی تک میں نے دیکھا نہیں ہے کہ کسی الیکشن میں امیدواروں ے یہ کہا ہو کہ ہم کیمپس صاف رکھیں گے۔ ہماری جو یونیورسٹی کا کیمپس ہے، آپ کسی بھی یونیورسٹی کے الیکشن ہونے کے دوسرے دن جایئے، کیا پڑا ہوتا ہے وہاں؟ کیا ہوتا ہے….. پھر وندے ماترم…. کیا 21 ویں صدی ہندوستان کی صدی بنانی ہے، 2022 آزادی کے 75 سال منارہے ہیں تو گاندھی کے خوابوں کا ہندوستان بھگت سنگھ، سکھدیو، راج گرو کے خوابوں کا ہندوستان، سبھاش بابو کا ہندوستان، وویکا نند کے خوابوں کا ہندوستان، کیا ہم لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے اور اس لئے وہ منیجمنٹ والوں کو پڑھاتے ہیں نا۔ ایوری بڈی از سم بڈی ، نو بڈی  ہیں جو منیجمنٹ کے طلبا ہیں، انہوں نے پڑھا ہوگا اور آخر کار کچھ نہیں۔ اور اس لئے ضرور ی ہے یہ میں کروں گا، یہ میری ذمہ داری ہے، آپ دیکھئے کہ ہندوستان کو بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ اگر 125 کروڑ ہندوستانی ایک قدم چلیں تو ہندوستان 125 کروڑ قدم آگے بڑھ جائے گا۔

میں نے دیکھا ہے کہ کالجوں میں کسی کو اچھا لگے، کسی کو برا لگے، لوگ کسی کی مخالفت بھی کرتے ہیں، ایسے لوگ بھی ہیں تھوڑے ہیں۔ کالجوں میں ڈے مناتے ہیں، الگ الگ ڈے مناتے ہیں، آج روز ڈے ہے، کچھ لوگوں کے کچھ لوگوں کے خیالت اس کے مخالف ہیں۔ اس میں یہاں بھی بیٹھے ہوں گے۔ میں اس کا مخالف نہیں ہوں۔ دیکھئے ہم نے روبوٹ تیار نہیں کرنے ہیں۔ ہمیں تخلیقی صلاحیت چاہیے۔ ہمارے اندر کا انسان، ہمارے جذبات اسے ظاہر ہونے کے لئے یونیورسٹی کیمپس سے بڑی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے۔ لیکن کیا کبھی ہمیں خیال آتا ہے کہ ہریانہ کا کالج ہو اور طے کرے کہ آج تمل ڈے منائیں گے، پنجاب کا کالج ہو اور فیصلہ کرے کہ آج کیرل ڈے منائیں گے۔ دو گیت اس کے گائیں گے، دو گیت اس کےسنیں گے، ان کا جیسا لباس پہن کر اس دن کالج آئیں گے۔ ہاتھ سے چاول کھانے کی عادت ڈالیں گے۔ کالج میں کوئی ملیالم فلم دیکھیں گے، تمل فلم دیکھیں گے، وہاں سے کچھ نوجوانوں کو بلائیں گے، بھائی تمہارے تمل ناڈو کے اندر گاؤں میں کیسے کیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں، آؤ کھیلتے ہیں۔ مجھے بتایئے کہ ڈے منے گا کہ نہیں منے گا۔ وہ ڈے تعمیری ہوگا کہ نہیں ہوگا۔ ایک بھارت شریشٹھ بھارت بنے گا کہ نہیں بنے گا۔ ہمیں  گونا گونیت، آپ لوگ تو بہت نعرہ بھی بولتے ہیں، گونا گونیت میں یکجہتی کو لیکر کے، لیکن کیا اس گوناگونیت کی عظمت کو جینے کی کوشش ہم کرتے ہیں۔ کیا جب تک ہندوستان میں ہماری ہر ریاست  کے تئیں عظمت کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا، ہر زبان کے تئیں عظمت کا جذبہ پیدا نہیں کریں گے…. مجھے یاد ہے ابھی مجھے تمل یونیورسٹی کے تمل ناڈو کے نوجوان ابھی اوپر آئے، میں نے انہیں وڑکم کہا، ایک دم سے خوش ہوگئے، ایک دم چھو گیا ان کو، یہ اپنے ہیں۔ کیا ہمارا من نہیں کرتا ہے کہ ہم ایسا ماحول بنائیں کہ ہماری یونیورسٹی میں ایسا بھی تو ڈے منائیں، کیا کبھی نہیں لگتا کہ ہماری یونیورسٹی میں سکھ گروؤں کا ڈے مناکر کے پنجاب کے سکھ گروؤں نے کیا کیا  تپسیہ کی ہے، قربانیاں دی ہیں۔ دیکھیں تو سہی یا صرف بھانگڑے سے ہی اٹک جائیں گے کیا۔ پراٹھا اور بھانگڑا۔ پنجاب اس سے بھی بہت آگے ہے اور اس لئے ہم کچھ کریں تو اس میں دیکھئے  تخلیقی صلاحیت کے بغیر زندگی نہیں ہے۔ ہم روبوٹ نہیں بن سکتے۔ ہمارے اندر کا انسان ہر پل اجاگر ہوتے رہنا چاہیے لیکن وہ کریں جس سے ملک کی طاقت بڑھے، ملک کی صلاحیت میں اضافہ ہو اور جو ملک کی ضرورت ہے وہ پوری ہو۔ جب تک ہم ان چیزوں سے اچھوت رہیں گے، ہم دھیرے دھیرے سمٹ جائیں گے۔

وویکانند جی  کنویں کا مینڈک بننے پر ایک کتھا سنایا کرتے تھے، کنویں کی مینڈک کی بات کرتے تھے، ہم ویسے نہیں بن سکتے ۔ ہم تو جے جگت والے لوگ ہیں۔ پوری دنیا کو اپنے اندر شامل کرنا ہے اور ہمیں ایک کوچلے میں بند ہوجائیں گے تو یہ کوئی ہم لوگوں کو سوچ بھی نہیں سکتا۔  اپنیشد سے اپ گریہہ تک کا ہمارا سفر، ہم نے دنیا کے ہر خیال کو اگر ہمارے لئے موافق ہے ، انسانیت کے لئے موافق ہے تو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے اور ہم ڈرے بھی نہیں ہیں کہ کوئی آئے گا اور ہمارا کچل جائے گا، جی نہیں جو آئے گا اس کو ہم پچالیں گے، یہ سوچ کے ہم لوگ ہیں، اسے اپنا بنالیں گے، اس کی جو اچھائی ہے اس کو لیکر کے آگے چلیں گے، تبھی تو ہندوستان دنیا کو کچھ دینے کا اہل بنے گا اور اس لئے کوئی ایک  دور ہوگا جب غلامی کی زندگی جی رہے تھے تب ہم  نے پروکٹیٹیو نیچر کے ساتھ اپنا گزارا کیا ہوگا۔ آج ہمیں اپنے اندر اتنی اہلیت ہونی چاہیے کہ باہر کی چیزوں سے ہم پریشان ہوجائیں گے، سوچنے کی ضرورت نہیں ہے دوستو اور میں تو ا ٓج دنیا میں  جہاں  جاتا ہوں میں تجربہ کررہا ہوں ہندستان کے تئیں دیکھنےکا نظریہ بدل چکا ہے یہ طاقت سیاسی طاقت سےنہیں ہے  یہ عوام کی طاقت سے ہے۔ یہ سوا سو کروڑ   ملک کے باشندوں کی طاقت  کےسبب ہے۔     لیکن ہمیں       ہماری برائیوں کو اب  دری کے نیچے   ڈالتے  چلیں جائیں تو سوائے  بدبو اور سڑنے کے علاوہ کچھ نہیں ہونے والا ۔ ہمیں     ان برائیوں کے خلاف لڑنا ہے     اپنے  اندر کی برائیوں کے خلا ف لڑنا ہے  ۔   بھارت  کو    جدید  ملک بنانے کا ہم لوگوں کا سپنا ہونا چاہئے  ۔ کیوں نہ میرا ملک      جدید ترین نہ ہو  کیوں میرے ملک کے  نوجوان کی برابری نہ کرے اس طاقت ور  کیون ہو، اور اس لئے میں ایک بار کسی شخص سےملا تھا۔      بہت پہلےکی بات ہے توکہیں انہو ں نے میری تقریر پڑھی ہوگی تو اسکے بارے میں بحث نکالی۔     تب میں سیاست میں نہیں تھا تب انہوں نے مجھےکہا  تھا کہ بھائی  آپ کو پتہ ہے    کہ ہمارے ہندستان کی  ایک دشواری کیا ہے میں نے کہا کیا۔    بولے ہم لوگ   ہمارےیہاں    پانچ ہزار سال پہلے ایسا تھا  ، دو ہزار سال پہلے ایسا تھا۔ بودھ کے زمانے میں ایسا تھا رام کے زمانے میں ایسا تھا۔ اس  سے باہر نہیں نکلے۔ بولے دنیا آج  آپ کہاں پر ہو ۔   اس   حساب سے    آپ کا موازنہ کرتی ہے    ۔   ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس  ایک عظیم وراثت ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے   کہ   ہم اسی کے     فخر کو  آگے بڑھانے کو تیار نہیں ہیں۔     ماضی پر فخر  آگےبڑھنے کے سبق کے لئے ہونا چاہئے۔ فخر  پیچھے کرکے رکنے کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔  ہمیں    ماضی پر فخر کرنے سے آگےبڑھنا اور نوجوان      ایک   حالات کا نام نہیں ہے۔ دوستو، نوجوان ایک     طبیعت کی حالت کا نام ہے۔ جو بیتے ہوئے کل میں رہتا اسے یووا نہیں مان سکتے  لیکن جو بیتی ہوئی باتوں  کو   جو عظیم ہے اس کو لیکر آگے آنےو الے بارے میں سوچتا ہے ، سمجھتا ہے  سنتا ہے وہ نوجوان ہے۔  اس نوجوان  جذبے کو  اندر سمیٹتے ہوئے کیسے آگےبڑھیں اس کا عہد لیکر کے آپ آگے بڑھیں اسی جذبے کے ساتھ آج  دین دیال اپادھیائے جی کو میں سلام کرتا ہوں۔ سوامی وویکا نند جی کو سلام کرتا ہوں  ، شریمان وونوبھا بھاوے کو بھی سلام کرتا ہوں اور آپ سب اپنے ملک کے نوجوانوں کے لئے بہت بہت   نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More