37 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کے اعزاز میں یادگاری سکہ کے اجراء کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

نئی دہلی، اٹل جی ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔ یہ بات ہمارا ذہن ماننے کو تیار نہیں ہوتا ہے ۔ شاید ہی ایسا کوئی واقعہ ہوا ہو کہ کوئی شخص سیاسی پلیٹ فارم  پر آٹھ-  نو سال تک نظر نہیں  آئے، بیماری کی وجہ سے عوامی زندگی سے متعلق سبھی سرگرمیاں ختم ہو گئی ہوں لیکن اس کے باوجود اتنے سالوں کے بعد ، اتنے بڑے خلاء کے بعد ایک طرح سے عوامی زندگی میں ایک نسل بدل جاتی ہے لیکن ان کی وداعی کو جس طرح سے ملک نے احترام دیا، عزت دی ، اہل وطن نے جس طرح سے ان کی وداعی کو محسوس کیا ، یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی تپسیا کے منارۂ  نور کی شکل میں ہم محسوس کر سکتے ہیں دنیا کے جو سیاسی تجزیہ کار ہوں گے وہ کبھی نہ کبھی اس بات کا ضرور تفصیل سے تجزیہ کریں گے کہ اصولوں کے دم پر کھڑی ہوئی  ایک سیاسی جماعت کارکنوں کی معمولی تنظیم کے چھوٹے چھوٹے لوگوں کے بھروسے ، ایک طرف جددجہد کرتے رہنا، دوسری طرف تنظیم کا کا کرتے رہنا ، تیسری طرف عوام کو اپنے خیالات سے متوجہ کرنا ، متاثر کرنا ، ایک ایک فرد کو متحرک کرنا یہ ساری باتیں کرتے کرتے اینٹ سے اینٹ جوڑ کر اتنی بڑی تنظیم کی تعمیر کو اور شاید دنیا میں اتنا بڑا جمہوری نظام ، ایک طرف سو ، سواسو سال سے قائم سیاسی پلیٹ فارم اور دوسری طرف نئی سی ایک سیاسی جماعت اور اتنے کم وقت میں ملک میں اتنی پیٹھ پیدا کرے ، اتنی اس کی توسیع ہو تنظیم کے نقطہ نظر سے دنایا کی سب سے بڑی پارٹی بن جائے ۔ اس کی بنیاد میں جن سنگھ کے دور میں ، بی جے پی کے اس کے ابتدائی دور میں اٹل جی جیسے ایک پوری ٹیم کا اس کو قیادت ملی  ۔کندھے سے کندھا ملا کر چھوٹے سے چھوٹے کارکن کے ساتھ دور ، دور دراز علاقے میں جا کر کے کام کیا گیا۔ عوام سے سیدھا رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔ اور ایک طرح سے اٹل جی کی آواز ، وہ صرف بی جے پی کی آواز نہیں بنتی۔ اس ملک کی تین چار دہائی کا وقت ایسا ہوا کہ اٹل جی آواز بھارت کے عام لوگوں کی  امید وں اور آرزوؤں کی آواز  بن چکی تھی ۔

اٹل جی بول رہے ہیں ، مطلب ملک بول رہا ہے، اٹل جی بول رہے ہیں مطلب ملک سن رہا ہے۔ اٹل جی بول رہے ہیں مطلب اپنی آرزوؤں کو نہیں ملک کے ایک ایک شخص کے جذبات کو سمیٹ کر اسے اظہار دے رہے ہیں۔  اور اس نے صرف لوگوں کو متوجہ کیا، متاثر کیا ، اتنا ہی نہیں ،لوگوں کے من میں اعتماد ہوا اور یہ اعتماد لفظوں سے نہیں تھا اس کے پیچھے  پانچ چھ دہانیوں  پر مشتمل   طویل سادھنا تھی۔ آج سیاسی پارٹیوں کا نقشہ ایسا ہے ، دو پانچ سال کے لئے بھی اگر کسی کو اقتدار سے باہر رہنا پڑے تو وہ اتنا بے چین ہو جاتا ہے ، اتنا پریشان ہو چاجاہے ۔وہ ایسے ہاتھ پیر اٹھا پٹک کرتا ہے کہ کیا کرلوں میں ۔چاہے وہ تحصیل سطح کا لیڈر ہو، ضلع سطح کا لیڈر ہو ، ریاستی سطح کا لیڈر ہو ، قومی سطح کا لیڈر ہو ، کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اتنے سالوں تک ایک تپسوی  کی طرح ، ایک سادھن کی طرح اپوزیشن نے بیٹھ کر،، ہرپل عوام کی آواز بنتے رہنا اور زندگی اسی کو جیتے رہنا۔ یہ غیر معمولی واقعہ ہے ، ورنہ کیا اٹل جی کی زندگی میں ایسے پل نہیں آئے ہوں گے جب سیاسی عدم استحکام کےوقت  کسی نے کہا ہو کہ  ہمارے ساتھ آ جاؤ۔آپ کے سوا کون ہے ، آیئے ہم آپ کو لیڈر بنا دیتے ہیں ۔ آیئے ہم آپ کو یہ دے دیتے ہیں ، بہت کچھ ہوا ہوگا ۔ میرا اندازہ ہے، میرے پاس جانکاری نہیں ہے لیکن جیسا میں سیاسی نقشہ دیکھتا ہوں اس میں سب کچھ ہوا ہوگا لیکن بھیتر کا وہ میٹل تھا ۔اس  نے خیالات کے ساتھ ساتھ   اپنی زندگی  کا ناطہ جوڑا تھا۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے ایسے کسی لالچ دیئے جانے کی حالت کو گوارا نہیں کیا۔ اور جب قومی مفاد کی ضرورت تھی ، جمہوریت بڑھےکہ میری تنظیم بڑھے، جمہوریت بڑھے کہ میری قیادت بڑھے ،اِس کی کسوٹی کا جب وقت آیا تو یہ دور اندیش قیادت کی اہلیت تھی  کہ اس نے جمہوریت کو ترجیح دی۔ پارٹی کو ختم کر دیا جس جن سنگھ کو اپنے خون پسینے سے سینچا تھا ایسے جن سنگھ کو جنتا پارٹی میں کسی بھی طرح  کی توقع کے بغیر ضم کر دیا۔ واحد مقصد  جمہوریت امر رہے ، تھا۔ ہم رہیں یا نہ رہیں یہ کر کے دکھایا اور جنتا پار؎ٹی میں اصول کے نام پر جب کوسا جانے لگا ، ایسا لگ رہا تھا ، جمہوریت کے لئے ملک کے لئے ، افادیت کو ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ تب انہوں نے ہاتھ جوڑ کرکے ، نمستے کرکے کہہ   دیا  ،آپ کا راستہ آپ کو مبارک۔ ہم اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے ، ہم ملک کے لئے مر سکتے ہیں لیکن اپنے لئے اپنی قدروں کو چھوڑنے والے ہم لوگ نہیں ہیں اور نکل پڑے ۔پھر سے ایک بار کمل کا بیج بویا اور آج ہندوستان کے ہر کونے کا ہم کمل محسوس کر رہے ہیں ۔ اور دور اندیشانہ زندگی کیسی تھی ، اندھیرا چھٹے گا ، سورج نکلے گا ، کمل کھلے گا ۔ابھی تو ایک پارٹی جنم لے رہی ہے ، ابھی تو جنم کو  کچھ گھنٹے بھی نہیں ہوئے ہیں لیکن وہ کتنی بڑی خود اعتمادی ہو گی بھارت کے جن سنگھ پر ، کتنا بڑا بھروسہ ہوگا  ۔ اپنے افکار ، اپنی سادھنا ، اپنی تپسیا پر ۔اپنے کارکنوں کی زراعت مندی پر اتنا بڑا بھروسہ ہوگا کہ اس  شخص کے منھ سے نکلتا ہے اندھیرا چھٹے  گا، سورج نکلے گا، کمل کھلے گا اور وہ ان کی پیش گوئی کہیئے یا اندر سے نکلا ہوا پیغام کہئے، آج ہم محسوس کرتے ہیں ۔ قومی زندگی کے اندر تنوع ، یہ میں سمجھتا ہوں ہمارے وقار کو بڑھانے کی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ لیکن اس کو برقرار رکھنا ، یہ ہمارا فرض بھی ہے ۔ سیاسی افکار اور سیاسی قیادت کے تنوع ، یہ بھی بھارت کے لئے ایک بھارت کی طاقت نے کچھ نہ کچھ قدر کا اضافہ کرتا ہے۔

ایک ہی طرح کے لیڈر ، ایک ہی طرح کی سوچ ، ایک ہی طرح کی بول چال یہ بھارت کی رنگا رنگی کے لئے ٹھیک نہیں بیٹھتی۔اور اس لئے ہم سب نے مل کر سبھی مکتبۂ فکر  سے پلے بڑھے، جس جس نے ملک کے لئے دیا ہے ،جہاں جہاں سے قیادت کی ہو ، بحث و مباحثہ کی ہو ، آمنے سامنے کھڑے ہو رہے ہوں گے۔ ایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے کھپا دی ہوگی زندگی ۔ پھر بھی ملک کے لئے جیئے ہیں ۔ یہ سب بھارت کی رنگا رنگی کو ایک قیادت کی طاقت بھی  قدر میں اضافہ کرتی ہے۔ اٹل جی اس میں سے ایک ہیں۔ اس تنوع کو بڑھانےوالا ایک متنوع شخصیت ہے۔ اس کو بھی ہندوستان کی قومی زندگی میں ، ہندوستان کی سماجی زندگی میں ، ہندوستان کی سیاسی زندگی میں وہی مقام ملنا چاہئے اور ایسے اوروں کو دستیاب ہونا چاہئے اور یہی ملک کو خوشحال بناتا ہے۔ آنے والی نسلوں کو ترغیب دیتا ہے ، نسلوں کو اِس راستے سے چلوں، یا اُس راستے سے چلوں  اس کا حساب کتاب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اٹل جی کی زندگی آنے والی نسلوں کو عوامی زندگی کے لئے ، انفرادی زندگی کے لئے ، قومی زندگی کے لئے ،خود کو وقف کرنے کے لئے ، ایک زندگی ایک مشن پر کیسے کام کیا جا سکتا ہے اس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ ترغیب دیتی رہے گی۔ کل اٹل جی کی ان کی وداعی کے بعد کی پہلی جینتی ہے اور اس کے ایک دن قبل آج بھارت سرکار کی طرف سے ایک یادگاری سکہ سو روپے  کا آپ سب کے درمیان ، اہل وطن کے درمیان ایک یادگار کی شکل میں آج دینے کا موقع ملا ہے۔ میں نہیں مانتا ہوں کہ یہ سو روپئے کا سکہ ہی سکہ ہے کیونکہ اٹل جی کا سکہ  ہم لوگوں کے دلوں پر 50 سال سے زیادہ وقت چلا ہے۔ اور جس کا سکہ آگے بھی چلنے والا ہے اور اس لئے جس کی زندگی بھی ایک سکہ بن کر کے ہماری زندگی کو چلاتی رہی ہے، ہم لوگوں کو ترغیب دیتی رہی ہے، اس کو آج ہم میٹل کے اندر بھی زندہ جاوید بنانے کی ایک چھوٹی سی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بھی اٹل جی کے تئیں احترام کے اظہار کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے اور اس کے لئے ہم سبھی ایک اطمینان محسوس کرتے ہیں۔

کل اٹل جی کا یوم پیدائش ہے ، 25 دسمبر ۔ ’سدیو اٹل ‘ایک یادگاری مقام ، وہیں پر کل جا کر کے ، راج گھاٹ کے قریب میں ہی ، ہم سب کو اٹل جی کے بغیر ایک ایک پل کاٹنا ہے۔ اس وقت یہ یادگاری مقام ہمیں بھی سدیو اٹل بنائے رکھے گا  اور فرد کی زندگی میں اٹل بنے رہنا جتنا طاقتور ہوتا ہے اتنا ہی قومی زندگی اور سماجی زندگی میں بھی ہمیشہ اٹل ہونا ۔ یہی ہمارا عہد ہونا ہے۔ اس عہد کو ہم پھر ایک بار کل وہاں جا کر کے دوہرائیں گے۔ ،اپنے آپ کو وقف کریں گے اور اسی اٹل جذبے کو لے کر کے ،اسی اٹل یقین کو لے کر کے ، یہی اٹل خواب کو لے کر کے ، وہی  اٹل چریویتی  چریویتی  کا منتر پڑھتے ہوئے ، عوام کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کا عہد کر کے چل پڑیں گے۔ اسی جذبے کے ساتھ آج سب کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ وقت نکال کر یہاں آئے۔ ہم سب اٹل جی کو جنہوں نے اٹل جی کو اپنے دل میں بٹھایا ہوا ہے لیکن جو انہوں نے ہم سے چاہا ہے  اسے پورا کرنے میں ہم کوئی کمی نہ رکھیں ۔ اسی ایک جذبے کے ساتھ میں احترام کے ساتھ اٹل جی کو سلام کرتا ہوں ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More