34 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ہندوستان ، دنیا کے قدیم ترین آرگینک زراعتی ملکوں میں شامل ہے : رادھا موہن سنگھ

India is one of the oldest organic agricultural nations of the world Shri Radha Mohan Singh
Urdu News

 دہلی، زراعت  اورکسانوں  کی فلاح وبہبود کے مرکزی وزیر  جناب رادھا موہن سنگھ نے کہا ہے کہ  ہندوستان   آرگینک کھیتی کرنے والے دنیا کے قدیم ترین ملکوں میں شامل ہے اور ہمارے ملک میں آج بھی بڑے پیمانے پر ٓرگینک کاشت کاری کی جارہی ہے۔  جناب رادھا موہن سنگھ نے  ٓرگینک عالمی کانگریس 2017  کی افتتاحی تقریب  میں اپنے ان تاثرات کا اظہار کیا۔ اس تقریب کا انعقاد   گریٹر نوئیڈا میں    واقع  انڈیا ایکسپو سینٹر میں کیا گیا تھا ۔  انٹر نیشنل فیڈریشن آ ف ٓرگینک فارمنگ موومنٹس (آئی ایف او اے ایم ) اور او اے ایف آئی کے ذریعہ   مشترکہ طور پر کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں 110  ملکوں کے 1400  مندوبین  اور ہندوستان کے 2000  نمائندوں نے شرکت کی ۔

          اس موقع پر اپنی تقریر میں جناب رادھا موہن  سنگھ نے بتایا کہ ہندوستان میں سردست  22.5  لاکھ ہیکٹئر رقبہ زمین پر ٓرگینک کھیتی کی جارہی ہے ۔  اور پرم پراگت کرشی وکاس یوجنا سے  3  لاکھ 60  ہزار 400  کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے اور اب ہم نے  شمال مشرقی خطے میں  50 ہزار ہیکٹئر رقبہ زمین پرٓرگینک کھیتی کرنے  کا فیصلہ کیا ہے ۔  جس میں سے 45 ہزار 863  ہیکٹئیر رقبہ زمین   پر ٓرگینک کھیتی کی جارہی ہے ۔اسکے لئے  2406  فارمر ز انٹریسٹ گروپ (ایف آئی جی ) تشکیل دئے گئے ہیں اور 44 ہزار  64  کاشت  کاروں کو   اس اسکیم سے جوڑا گیا ہے ۔ جبکہ مقررہ نشانہ 2500 ایف آئی جی کا تھا۔

          جناب سنگھ نے کہا کہ اترپردیش میں پرم پراگت کرشی وکاس یوجنا کا آغاز  سال 16-2015  میں کیا گیا تھا اور اب تک   28750  ایکڑ رقبہ زمین سے  28750  کسانو ں کو فائدہ پہنچایا جاچکا ہے ۔ ٓرگینک مصنوعات کی فروخت کے لئے سرکار   بکری کی دوکانیں کھولنے کے لئے  ہر ضلع   میں  5 لاکھ روپے کی رقم مختص کرنے جارہی ہے ۔

          جناب رادھا موہن سنگھ نے کہا  کہ بعض بین الاقوامی   سائنسداں   ٓرگینک کھیتی کو ناقص  ٓرگینک کا نام دیتے ہیں ۔  تاہم یہ بات اپنے آپ میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ    ہمیں سمجھنا چاہئے  کہ اس طریقے سے کھیتی کرنے والے کسان  اپنی پسند کے مطابق ٓرگینک کھیتی کررہے ہیں۔   یہ کسان اپنی عقل استعمال کرکے صدیوں سے یہ طریقہ کاشتکاری اپنائے ہوئے ہیں ۔ وہ کیمیکل   اور پیسٹیسائڈ س  کا استعمال کھیتی میں بہتر نہیں سمجھتے ۔ اس  لئے ان کے طریقہ کاشتکاری کو ناقص کاشتکاری کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔

          جناب رادھا موہن سنگھ نے اپنی تقریر میں آگے کہا کہ خود سرکار کو اس بات کا اعتراف ہے کہ    گزشتہ دہائیوں کے دوران      کاشتکاری میں   کیمیائی مرکبات  کے استعمال نے    یہ سنگین سوال پیدا کردیا ہے کہ :’’  کب تلک اس طرح کی کھیتی کی جاتی رہے گی۔‘‘      کیمیائی مرکبات   پر مبنی   کھیتی   سے  متعدد سماجی   معاشی اور ماحولیاتی مسائل جڑے ہوئے ہیں اور ہمیں ان  پرفوری طور سے توجہ دینی چاہئے ۔ آج ملک میں  غذائی سلامتی کو  ئی بڑا مسئلہ نہیں رہ گیا ہے لیکن ہمیں اپنے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو صحت مند اور غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرانے کا سنگین چیلنج درپیش  ہے ۔

          ہم کھیتی میں   کیمیائی مرکبات  ، فرٹیلائزر  پیسٹیسائڈس  نیز دیگر کیمیائی  مرکبات  کے استعمال پر انحصار کرنے لگے ہیں جس کے ذریعہ کھیتی کی  پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے لیکن  کھیتی میں  کیمیائی مرکبات کے زیادہ استعمال کا نتیجہ   غیر صحت مند پیداواری فصلوں کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔

جناب رادھا موہن سنگھ نے مزید کہا کہ  اگر ہم  ان کیمیائی مرکبات کے بے محابہ استعمال کا تجزیہ کریں تو   ہمیں  محسوس ہوگا کہ  اس سے نہ صرف  ہماری ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ  ان کیمیائی مرکبات کا بیشتر حصہ   مٹی ،ہوا اور پودوں میں جذب ہوجاتا ہے ۔  کھیتو  ں  پر کیمیائی مرکبات کے چھڑکاؤ سے ان کھیتوں سے دور واقع  کھیتوں کی فصلوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہ کیمیائی مادے زمین میں جذب ہوکر  زیر زمین پانی کے  وسائل کو آلودہ بنادیتے ہیں ۔

          وزیر موصوف نے مزید کہا کہ   کیمیائی مرکبا ت  کے استعمال سے   نہ صرف تبدیلی ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ اس سے فضائی عدم توازن پیدا ہوا ہے ،جس سے   انسانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔ آج  زمین کی صحت  ، پائیدار پیداوار  اور  عوام کے لئے  صحت  مند غذائی اجناس   کی پیداوار کے لئے  ٓرگینک کھیتی  نہ صرف  قومی  بلکہ بین الاقوامی ضرورت بن گئی ہے۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More