37 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

پیداوار میں اضافہ اور خوردنی اناجوں کی موثر تقسیم ہمارے ملک کو آگے لے جاسکتی ہے

Increased production and efficient distribution of food grains can move our country forward
Urdu News

نئیدہلی، نائب صدر  جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ پیداوار میں اضافہ اور خوردنی اناجوں کی موثر تقسیم ہمارے ملک کو آگے لے جاسکتی ہے تاکہ بھوک کے مکمل خاتمے اور سب کو تغذیہ بخش  خوراک  بہم پہنچانے کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔ وہ آج آندھرا پردیش کے نیلور میں واقع آچاریہ این جی رنگا ڈگری کلچرل یونیورسٹی (اے این جی آر اے یو)  کے 49 ویں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کررہے تھے۔ آندھرا پردیش کے گورنر اور اے این جی آر اے یو  کے چانسلر  جناب ای ایس ایل نرسمہن، آندھرا پردیش کے وزیر زراعت جناب سومی ریڈی چندر موہن ریڈی اور دیگر معزز شخصیات اس موقع پر موجود تھیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان دنیا میں دودھ، دالوں اور جوٹ کی پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور چاول، گیہوں، گنا،  مونگ پھلی، سبزیوں، پھلوں اور کپاس کی پیداوار میں اس کا دوسرا مقام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کی تکمیل کےل ئے یہ ضروری ہے کہ ہم غذائی تحفظ سے متعلق اپنا دیسی لائحہ عمل تیار کریں۔

نائب صدر جمہوریہ نے مشورہ دیا کہ سب سے پہلے ہمیں ایک اِنڈ ٹو اِنڈ (ای 2 ای) ماحولیاتی نظام فراہم کرانا ہوگا جو کہ 4۔ آئی یعنی  ’اریگیشن ‘، ’انفرا اسٹرکچر‘، ’انویسٹمنٹ کریڈٹ‘ اور انشورینس  (سنچائی، بنیادی ڈھانچہ، سرمایہ کاری کریڈٹ اور بیمہ) پر  مشتمل ہو۔  انہوں نے مزید کہا کہ دوسری چیز  لیب ٹو لینڈ (ایل 2 ایل) یعنی تجربہ گاہ سے زمین تک ٹکنالوجی کی منتقلی ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ زرعی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے دیہی سڑکوں کی ڈھانچہ جاتی بہتری، قابل اعتبار معیاری بجلی، گودام، کولڈ اسٹوریج سہولیات، ریفریجریٹڈ وین اور بازار مطلوبہ ضروری چیزیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زراعت کے لئے ایک مضبوط ماحولیاتی نظام بنانے کے لئے معقول شرح سود پر قرض کی بروقت دستیابی اور کسان دوست بیمہ پالیسی اہم ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے اس موقع پر ڈگری حاصل کرنے والے سبھی طلبا ، گولڈ میڈلسٹ اور انعام یافتگان کو مبارکباد دی۔

نائب صدر جمہوریہ کی تقریر کا متن حسب ذیل ہے:

آندھرا پردیش کے   قابل احترام گورنر اور آچاریہ این جی رنگا ایگریکلچرل یونیورسٹی (اے این جی آر اے یو)، کے چانسلر جناب ای ایس ایل نرسمہن  گارو، اے این جی آر  اے یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر وی دامودر نائیڈو، بورڈ آف منیجمنٹ کے اراکین، اکیڈمک کونسل کے اراکین، فیکلٹی، اہلکار اور یونیورسٹی کے اسٹاف، مہمانان کرام ، عزیز طلبا، معزز والدین ، پریس اور میڈیا کے نمائندگان، خواتین و حضرات:

مجھے اس موقر یونیورسٹی کے 49 ویں جلسۂ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے فخر کا احساس ہورہا ہے۔ میں اس موقع پر ڈگری حاصل کرنے والے سبھی طلبا، گولڈ میڈلسٹ اور انعام یافتگان کو تہہ دل سے مبارکبا د دیتا ہوں۔  یہ آپ کی حصولیابیوں کا جشن منانے کا لمحہ ہے  اور یہ ترغیب کا موقع بھی ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جس نے آپ کو آپ کے منتخب کردہ پیشے سے جوڑنے کا کام کیا اور آپ کو اپنی تمناؤں کو حقیقت کی شکل دینے میں معاون ہے۔

آپ نے زرعی سائنس  داں بننے کا انتخاب کیا۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جس کی وسیع زرعی۔ ماحولیاتی تنوع سے متصف   اس ملک میں جہاں کی مجموعی دیہی افرادی قوت کا 64 فیصد حصہ زراعت سے منسلک ہے اور جو مجموعی دیہی گھریلو پیداوار میں 39 فیصد کا تعاون دیتا ہے،  زبردست معنویت ہے۔ ہندوستان کی معیشت میں زراعت کا انتہائی اہم کردار ہے۔ زراعت، ماہی پروری اور جنگل بانی کا مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں سب  سے بڑا تعاون ہے۔شماریات کے مرکزی دفتر (سی ایس او) کے دوسرے  تخمینے کے مطابق 17۔2016 کے دوران 12۔2011 کی قیمتوں کے مطابق زراعت اور اس کے متعلقہ شعبوں (بشمول زراعت، مویشی، جنگل بانی اور ماہی گیری)  کا گروس ویلیو ایڈیڈ (جی وی اے) میں 17.3 فیصد حصے داری متوقع ہے۔

آزادی کے بعد کے 70 سال قابل ذکر پیش رفت کے سال رہےہیں۔ ملک میں خوردنی اجناس کی پیداوار میں 8.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ 17۔2016 میں بڑھ کر 273.83 ملین ٹن کے ریکارڈ اعلی سطح پہنچ گئی ہے۔

جیسا کہ غذائی اور زرعی تنظیم نے اعتراف کیا ہے :

’’ ہندوستان دنیا میں دودھ، دالوں اور جوٹ کی پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور چاول، گیہوں، گنا،  مونگ پھلی، سبزیوں، پھلوں اور کپاس کی پیداوار میں اس کا دوسرا مقام ہے ۔ 1950 میں ہندوستان میں خوردنی اجناس کی پیداور 50 ملین ٹن تھی جو کہ 5 گنا سے زیادہ بڑھ کر 15۔2014 میں 257 ملین ٹن سے زیاہ ہوگئی۔ ہندوستان دودھ کی پیداوار کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو سالانہ 130 ملین ٹن سے زیادہ دودھ کی پیداوار کرتا ہے۔ ڈیری کا شعبہ دیہی علاقوں میں خاص طور پر خواتین کو روزگار فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے۔  10 ملین تن سالانہ سے زیادہ پیداوار کے ساتھ مچھلی کی پیداوار میں ہندوستان کا دوسرا مقام ہے۔ صرف چین ہندوستان سے اس معاملے میں آگے ہے‘‘۔

تاہم ہمیں ابھی  کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے۔

گیہوں کو چھوڑکر ملک میں دوسری فصلوں کی پیداوار عالمی اوسط سے کم ہے۔ اس کی خاص وجہ سنچائی  کی ناقص سہولت اور بہتر ٹیکنالوجی  کی کمی ہے۔  زرعی شعبے میں  تقریباً 2 فیصد سالانہ کی شرح سے افراد قوت میں کمی آرہی ہے۔  ایک اندازے کے مطابق 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لئے  ترقی کے متعدد وسائل میں 33 فیصد اضافے کی ضرورت ہوگی۔

واضح ہے کہ زرعی شعبے کی ترقی اور بنیادی طور پر اس سے شعبے پر منحصر لوگوں کے معیار زندگی پر اثرانداز ہونے والے متعدد امور پر مربوط اور مرکوز کارروائی کی ضرورت ہے۔غذائی تحفظ کی موجودہ صورتحال سے ہم مطمئن نہیں ہوسکتے۔ ہمارے ملک کی بڑھتی ہوئی  آبادی کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم غذائی تحفظ سے متعلق خود کا دیسی لائحہ عمل تیار کریں۔ پیداوار میں اضافہ اور غذائی اجناس کی موثر تقسیم ہمارے ملک کو آگے لے جاسکتی ہے تاکہ ہم بھوک کے مکمل طور پر خاتمے اور سبھی کے لئے خاطر خواہ مقدار میں تغذیہ بخش خوراک مہیا کرانے کا ہدف حاصل کرسکیں۔

ہمارے قابل احترام وزیراعظم نے 2022 تک ہندوستانی کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کرنے  کی اپیل کی ہے۔ مرکزی اور ریاستی، دونوں حکومتیں اس سلسلے میں متعدد اقدامات کررہی ہیں۔   میرے خیال میں ہمیں 2 جہتی نقطہ نظر اختیار کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے ہمیں ایک اِنڈ ٹو اِنڈ (ای 2 ای) ماحولیاتی نظام فراہم کرانا ہوگا جو کہ 4۔ آئی یعنی  ’اریگیشن ‘، ’انفرا اسٹرکچر‘، ’انویسٹمنٹ کریڈٹ‘ اور انشورینس  (سینچائی، بنیادی ڈھانچہ، سرمایہ کاری کریڈٹ اور بیمہ) پر  مشتمل ہو۔  انہوں نے مزید کہا کہ دوسری چیز  لیب ٹو لینڈ (ایل 2 ایل) یعنی تجربہ گاہ سے زمین تک ٹکنالوجی کی منتقلی ہے۔

مجھے کہنے دیجئے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ماحولیاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے متعدد اصلاحی اقدامات  کئے ہیں۔ تاہم میرا خیال ہے کہ اس کے لئے مزید پابند وقت، منظم  اور نظام پسندانہ  کوششوں  کی ضرورت ہے۔ بلا شبہ سینچائی سب سے اہم عنصر ہے۔ بارش کے پانی کو جمع کرنے اور چیک ڈیم کی تعمیر کرنے کے علاوہ حکومت دریاؤں کو جوڑنے پر غور کررہی ہے تاکہ  سینچائی کی سہولتوں سے لیس علاقوں  کا دائرہ بڑھایا جاسکے۔ 9 ریاستوں یعنی مہاراشٹر، گجرات، جھارکھنڈ، اوڈیشہ، بہار، راجستھان، تامل ناڈو ، کرناٹک او ر چھتیس گڑھ سے  انٹرا اسٹیٹ روابط کی 40 سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ گجرات میں نرمدا کو دوسری ندیوں سے، مدھیہ پردیش میں کین۔ بتوا لنک اور آندھرا پردیش میں کرشنا اور گوداوری کو جوڑنے کی تجاویز چند ایسی مثالیں ہیں جو آگے چل کر بہت ہی نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہیں۔

سینچائی کے علاوہ حکومت درست  طریقے پر دیہی سڑکوں، قابل اعتبار معیاری بجلی، گودام، گولڈ اسٹوریج سہولیات، ریفریجریٹیڈ وین اور بازار وغیرہ جیسی بنیادی ڈھانچہ جاتی سہولیات پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔  زرعی شعبے کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے ڈھانچہ جاتی بہتری شرط لازم ہے۔

مضبوط ماحولیاتی نظام کے دو اہم ستون معقول شرحوں پر بروقت قرض فراہمی کی سہولت اور کسان دوست بیمہ پالیسیاں ہیں۔ اس سے کسانوں کو بہتر اور آمدنی دینے والی فصلوں اور زرعی طور طریقوں میں سرمایہ کاری کرنے اور اپنی آمدنی بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔بیمہ پالیسیاں کسانوں کو نامعلوم موسمی اور قدرتی آفات کے تئیں تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ کسان کریڈٹ کارڈ اور پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (پی ایم ایف بی وائی) اس سمت میں درست اقدامات ہیں اور اسے آفاقی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔

حکومت کو اِنڈ ٹو اِنڈ سروسز یقینی بنانی ہوں گی۔ بیجوں کی خرید سے لیکر فصل کی کٹائی کے بعد تک کے کاموں  سے متعلق  کسانوں  کی ضرورتوں کی تکمیل  موثر اور کسان دوست اداروں کے نیٹ ورک کے ذریعہ کرنی ہوگی۔یقیناً ضرورت اس بات کی ہے کہ  زراعی شعبے میں سرکاری سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے جو کہ فی الحال مجموعی گھریلو پیداوار کا 2.7 فیصد ہے۔

مارکٹنگ: زرعی  پیداوار کی مارکٹنگ  اور اس پیداوار  کےلئے مناسب  قیمت  یا دام  حاصل کرنا  زیادہ تر کسانوں کےلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کسان اب تک مقامی بازاروں سے رجوع کرتے ہیں اور اکثر  انہیں کافی  پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال  کا حل نکالنے کے لئے ایک نئی پہل ای –نیم (ای ۔ این اے ایم) کا آغاز کیا گیا ہے جس میں زرعی  اشیاء  کی فروخت کے لئے ای  ٹریڈنگ   کا طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔ زرعی  پیداوار  مارکیٹ کمیٹی (اے پی ایم سی)  ایکٹ میں بھی ترمیم کئے جانے کی تجویز  ہے جس کے تحت  ریاست بھر میں بازار فیس  یا محصول کو وصولیابی  واحد مقام  پر اور متحدہ  واحد تجارتی لائسنس   کی تجویز سےمتعارف کرایا جائے گا۔

ای 2 ای: اسی طرح حکومت کی ای 2 ای پہلو کی تکمیل نجی شعبہ کی کوششوں کے ذریعہ ہورہی ہے۔ نائب صدر جمہوریہ نے مزید کہا کہ میں نے ایک  اور بہت اہم پوائنٹ کے بارے میں بات کی تھی جو ہے لیبارٹری سے زمین تک مضبوطی (ایل-2 ایل)  کا طریقہ کار یا اپروچ، آپ سب کو بہت بڑے چیلنج  کاسامنا ہے۔  یونیورسٹی میں قیام کے دوران آپ نے جو تعلیم ، معلومات اور ہنر  سیکھے  ہیں اسے  ملک کی زرعی اراضی  کے مدنظر  آپ کس طرح کسانوں تک پہنچائیں گے؟  آپ  دیہی ہندستان کے کسانوں کی زندگیوں میں کیسے  مثبت  اثرات مرتب کریں گے؟

 نائب صدر جمہوریہ جناب  ونکیانائیڈو  نے کہا کہ   آپ متعدد  کام کرسکتے ہیں   اور اپنی  اختراعی صلاحیتوں کااستعمال  نظام کو بہتر بنانے میں  کرسکتے ہیں۔  نائب صدر کہا کہ اس سلسلہ میں اپنے کچھ مشورے  مشترک کرنا چاہوں گا  کہ ہماری  اہم توجہ زرعی  یونیورسٹیوں ،  دیگر  اعلی تعلیم  کے اداروں نیز ریسرچ اداروں کے معیار کو بہتر بنانے پر ہونی چاہئے۔

نائب  صدر جمہوریہ نے سب سے پہلے زیادہ پیداواری  صلاحیت  والے اعلی قسم کے بیجوں کے استعمال  کے ساتھ  زمین اور پانی  کے باصلاحیت  استعمال  سے کھیتوں  کی زرخیزی کو بڑھانے کی تجویز پیش کی۔ اناجوں کی فصلوں کے تحت کل رقبے کا محض 69 فی صد  احاطہ  اعلی اقسام کے بیچوں کےا ستعمال  کے ذریعہ  کیا جاتا ہے۔ اس رقبے میں اضافہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جبکہ حکومت نے آبپاشی کی سہولیات میں اضافہ کیا ہے تاہم پانی  کے سمجھداری  سے استعمال کرنے کے سلسلہ میں  کسانوں کو تعلیم  دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن اضلاع میں آبپاشی  کی ایک جیسی سہولیات مہیا ہیں تاہم  ا ن میں  بھی مجموعی    پیداوار  میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ اس کم ہوتے ہوئے وسیلے  کی ہر بوند کا استعمال بہتر اور مناسب  طریقے سے کیا جانا چاہئے۔ ایک ہی اراضی کے ٹکڑے سے پانی  کی یکساں تقسیم کے ذریعہ  بہتر فصلیں   حاصل  کی جاسکتی ہیں۔

 نائب صدر جمہوریہ  نے دوسرےمشورے کے طور پر  زراعت  میں تنوع لانے کو کہا۔  انہوں نے کسانوں کی زراعت میں تنوع   لانے کے لئے  حوصلہ افزائی  کرنے اور اچھے   دام یاقیمت دلانے والی فصلیں  جیسے پھل ، سبزیاں ، ریشے  ، مصالحہ جات، دالیں   ، مسالے  اور گنا وغیرہ  اگانے کی ترغیب دینے کے لئے کہا۔

 انہوں نے  کہا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ  اوسطاً  معین (اسٹیپل) فصلیں   جیسے اناج  اور تلہن  وغیرہ  کی کاشت کاری سےجہاں 41،169 روپے فی ہیکٹیئر   دام حاصل ہوتے ہیں  وہیں  اس کے مقابلے  میں اعلی  داموں کی فصلوں کی پیداوار   سے فی  ہیکٹیئر   1.4 لاکھ روپے  حاصل ہوتے ہیں۔ نائب صدر نے کہا کہ   زراعت  سےمتعلق  دیگر پیشے  جیسے  ڈیر ی فارمنگ  اور فوریسٹری  دیگر ایسے  زرعی  پیشے ہیں جن میں ترقی کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ انہوں نے کہاکہ  مویشی  پروری بھی ہمارے ملک میں  کافی کم ہے اور اس کے تحت  دودھ کی اوسط  پیداوار  ایک بھینس  سے 4.9  کلو گرام  جبکہ ایک     گائے سے 3.1 کلو گرام ہے۔

انہوں نے  مزید کہا کہ  اسی طرح ہمیں کسانوں کو جنگلاتی  پیداوار  اور فوریسٹری  کی جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے اور خصوصی   طورپر اب جبکہ  ہم جانتے ہیں کہ ہندستان میں غیر جلاو ن ( ایندھن)  لکڑی  یاٹمبر  اور لکڑی کی مصنوعات   کی موجودہ 40 فی صد ضروریات  برآمد سے پوری کی جاتی ہیں۔

 نائب صدر جمہوریہ نے کہاکہ مذکورہ بالا یہ دو کام ایسے ہیں جن کے نفاذ   سے ہم کسانوں کو کیسے  موثر  طریقے سے ٹکنالوجی  فراہم کرکے تبدیلی لاسکتے ہیں  اور کس طریقے  سے اطلاعاتی  تکنالوجی  کی طاقت کا استعمال کرکے ہم انہیں  معلومات، اطلاعات  اور ہنر مندی  فراہم  کراسکتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہمیں  ہندستانی زراعت میں ایک بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے  اور اسے کم پیداواری  کی سطح  سے اعلی  پیداواری  سطح تک لے جانا  ہے اور ساتھ ساتھ  یہ بھی یقینی بنانا   ہے کہ یہ مساوی  اور پائیدار  رہے۔ انہوں نے  کہا کہ آپ کو ملٹی –ڈسپلنری  (کثیر  موضوعی)  طریقہ کار  کا استعمال کرکے مسئلہ پر مبنی  (پروبلم اور ٹینٹڈ)  تحقیق  کرنی چاہئے۔  نائب صدر  نے مشورہ دیا کہ آپ کو اپنی  لیب اور کسانوں  کی زمین  کےدرمیان  اہم اور گہرا رشتہ  بنانے کی ضرورت ہے۔  نائب صدر جمہوریہ نےمزید کہا کہ   آپ کو  حکومت  کی پیشگی  مشینری  نیز مٹی اور پانی کی جانچ  اور دستیابی   کے مدنظر   کسانوں کو فصلوں کے پیٹرن، فصل کٹائی کے عمل اور فوڈ پروسیسنگ  سےمتعلق   معلومات فراہم کرانی چاہئیں  ۔ا ٓپ کسانوں پیداوار  کو بڑھانے  اور مویشی  پروری کے مختلف  طریقوں کے سلسلہ میں تین ماہرین   کےمشوروں کو بھی کسانوں تک پہنچاسکتے ہیں۔    آپ کو  ملکی اور عالمی   ٹکنالوجیوں کو بھی سیکھنا  چاہئے۔آپ کھیتوں  میں جدید ترین   طریقوں اور  تکنیکوں کا  استعمال  کرکے زرعی  پروسیس   میں جو زیادہ  باصلاحیت   ہوں، لاسکتے ہیں ۔ لیکن  اس کے لئے آپ کو کسانوں کےمفاد کو  مرکز میں رکھنے  کی ضرورت ہے۔  نائب صدر نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اس یونیورسٹی  کے طلبا 6 ماہ  طویل  (دیہی   زراعتی پروگرام کے کام  کے تجربے کے ذریعہ کسان سے ضروری رابطہ قائم کرتے ہیں اور ان کی زندگی  کی زمینی  حقیقت   سے واقف  ہوتے ہیں۔  مجھے یقین ہے کہ طلبا کو اس کے ذریعہ  کسانوں کے ساتھ اپنی  معلومات  مشترک کرنے کا موقع  ملتا ہے  اور اسی کے ساتھ  کسانوں کے تجربات سے وہ بھی مستفید ہوتے ہیں۔ میرے نظریے  میں یہ ایک  بہترین   دو طرفہ سیکھنے کا طریقہ ہے۔

 نائب صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر کے اختتام میں کہا  :  پیارے دوستو!  آپ  ایک ہی وجہ کے لئے وقف ہیں اور ایک بڑے نالج  نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔  ہمار ا ایک بہت بڑا نظام ہے جس میں 63 ریاستی  زرعی  یونیورسٹیاں، 4 ڈیمڈ زرعی یونیورسٹیاں،  ایک مرکزی  زرعی یونیورسٹی، 106 آئی سی اے آر تحقیقی  ادارے اور 680 کرشی وگیان  کیندرشامل  ہیں۔  مجھے   امید ہے کہ  اس یونیورسٹی  کے آپ سب لوگ  سائنسی معلومات  کے ادارے  میں مسلسل کچھ نہ  کچھ  تعاون دیتے رہیں  گے اور اس کا استعمال  ہمارے  ان داتا  کے فائدہ کے لئے تخلیقی طور پر کرتے  رہیں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ  آپ کسانوں کے کھیتوں  تک معلومات  کا فوارہ لے کر جائیں اور نئے  ہندستان کی تعیر  میں ا ن داتا کا کردار ادا کرتے ہوئے  ایک خوشحال تبدیلی لانے میں تعاون دیں۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More