28 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

پٹرولیم کے وزیر نے ایک متبادل کے طور پر کمپریسڈ بایو گیس کو فروغ دینے کی غرض سے ستت پہل قدمی کا آغاز کیا

Urdu News

نئیدہلی یکماکتوبر۔پٹرولیم اورقدرتی گیس اور ہنر مندی ترقیات  نیز صنعت کاری کے وزیر جناب دھرمیندر پردھان نے آج یہاں  ایک اختراعاتی  پہل قدمی کا آغاز کیا ہے ۔ یہ آغاز سرکاری دائرہ کار کی صنعتی اکائیوں یعنی تیل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے جس کے تحت مستقبل کے  صنعت کاروں سے  دلچسپی کے مراسلات  اس غرض سے مدعو کئے گئے ہیں  تاکہ کمپریسڈ  بایو گیس   (سی بی جی ) پروڈکشن پلانٹوں کے قیام  اور  اسے  متبادل ایندھن کے طور پر منڈی میں دستیاب کرانے کے لئے  عملی  اقدام کئے جاسکیں ۔ مذکورہ  دلچسپی کے مراسلات یا  ای او  آئی   او ایم سی یعنی  تیل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ویب سائٹوں پر دستیاب ہیں  اور انہیں  یکم اکتوبر  2018  سے 31  مارچ  2019  کے درمیان باقاعدہ طور پر بھر کر ارسال کیا جاسکتا ہے ۔

          اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے  پٹرولیم کے وزیر نے کہا کہ سؤچھتا پکھواڑہ ملک بھر میں منا یا جارہا ہے اور اس سمت  میں یہ پہل قدمی خاطر خواہ اہمیت کی حامل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گیس  ایندھن کا صاف ستھرا اورنسبتاََ سستا ذریعہ ہے  اور حکومت نے اس کی پیدادار اور استعمال کو فروغ دینے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں ۔ جناب پردھان نے کہا کہ حکومت  پانچ برسوں میں  5000 سی بی جی پلانٹ لگانے کی  خواہش مند ہے  اور اس مقصد کے حصول کے لئے  یعنی متعلقہ پلانٹوں کے قیام کے لئے پروڈکشن آف ٹیک گارنٹی یعنی   پیدا کی جانے والی گیس کو خریدنے کی ضمانت  بھی دی جارہی ہے ۔  تکنالوجی  کو اختیار کرنے پر کوئی پابندی نہ ہوگی اور حکومت  سٹی گیس تقسیم نیٹ ورک  سے متعلق بنیادی ڈھانچے کے قیام کے لئے 75 ہزار کروڑ روپے کے سرمایہ اخراجات کے ساتھ کمر بستہ ہے ۔ اس کے علاوہ واجبی لاگت پر نقل وحمل ایندھن کی دستیابی کے فروغ  کے لئے مضمرات کو  بڑھاوا دینے  ، زرعی باقیات کے بہتر استعمال ، مویشیوں کے گوبر اور میونسپل ٹھوس فضلے  کو بھی بروئے کار لانا چاہتی ہے ۔ سی بی جی پلانٹ  کاشت کاروں کو اضافی آمدنی فراہم کریں گے اور 75  ہزار براہ راست روزگار مواقع اور لاکھوں بالواسطہ روز گار فراہم کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف تیل مارکیٹنگ کمپنیاں  بلکہ گیس کی تقسیم سے وابستہ دیگر کمپنیوں اور دیگر محکموں کو بھی ، جو ،اس کام  سے متعلق  ہیں ،  اس عمل میں حصہ لینا چاہئے ۔ وزیر موصوف نے کہا کہ فی الحال 42  لاکھ کنبے پی این جی سپلائی حاصل کررہے  ہیں اور سی جی ڈی   بولیوں کے  نویں راؤنڈ کے نفاذ کے بعد  300 شہروں میں  ، دو کروڑکنبوں کو  زیر احاطہ لانے کا عہد کیا گیا ہے ۔

          اس کا نام ایس اے ٹی اے ٹی یا ستت پہل قدمی ہے جس کا مقصد  ترقیاتی کوشش کے طور پر واجبی لاگت والی نقل وحمل سہولت کی فراہمی کے لئے ہمہ گیر متبادل فراہم کرانا ہے ،  جو موٹر گاڑی استعمال کرنے والوں ، کاشت کاروں  اور صنعت کاروں کو  یکساں طور پر فائدہ پہنچائے گی۔ یہ پہل قدمی  موثر میونسپل ٹھوس فضلہ انتظام کے سلسلے میں  زبردست امکانات کی حامل ہے ، جس کے ذریعہ  کاشت کاری کے باقیات   اور کوڑا کرکٹ جلانے نیز کاربن کے اخراج کی وجہ سے مصموم شہری مطلع  کے مسئلےسے نمٹنے میں  کامیابی حاصل کی جاسکے گی ۔سی بی جی کے استعمال سے خام تیل کی درآمدات پر کئے جانے والے انحصار میں بھی کمی آئے گی اور کاشت کاروں کی آمدنی میں اضافے  ، دیہی روزگار اور صنعت کاری کو فروغ دینے کے وزیر اعظم کے خواب کو بھی شرمندہ تعبیر کیا جاسکے گا۔

پس منظر :

بایو گیس قدرتی طور پر ایک خاص عمل کے ذریعہ تیار کی جاتی ہے ، جس کے تحت فضلے  / بایو ماس وسائل مثلاََ زرعی باقیات ،  مویشیوں کے گوبر ،  گنےّ کی پیرائی کے بعد باقی رہنے والی گاد  ، میونسپل ٹھوس فضلہ ،  سیویج سودھنے والے پلانٹوں سے  خارج  ہونے والے فضلے وغیرہ کو ایک خاص عمل  کے ذریعہ سڑایا اور گلایا جاتا ہے ۔حاصل شدہ گیس کو صفائی کے بعد کمپریس کیا جاتا ہے اور اسے سی بی جی کا نام دیا جاتا ہے جس میں  95 فیصد خالص میتھین گیس کا عنصر پایا جاتا ہے ۔کمپریس بایو گیس  اصل میں  اپنےاجزائے ترکیبی کے لحاظ سے  کاروباری طور پر دستیاب ،قدرتی گیس  سے مماثل  ہوتی ہے اور اتنی ہی توانائی کی حامل ہوتی ہے ۔اس کی کیلوری فک قدروقیمت  (-52 ہزار کے جی / کے جی ) ہوتی ہے  اور دیگر عناصر میں  سی این جی   سے مماثلت  پائی جاتی ہے ۔ واضح رہے کہ کمپریس بایو گیس  قابل احیا  آٹوموبائل فیول  یا ایندھن کے متبادل  کے طور پر بھی استعمال کی جاسکتی ہے ۔ چونکہ  ملک میں حیاتیاتی فضلے کی بہتات  ہے  لہذا کمپریس بایو گیس میں  وہ تمام تر مضمرات پوشیدہ ہیں جو موٹر گاڑی ، صنعت  اور کاروباری استعمال کے سلسلے میں آئندہ برسوں میں   اس گیس کو  ایک متبادل کے طور پر استعمال کے لائق بناتے ہیں ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More