26 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نوجوانوں کو ہمارے عظیم ملک کی ثقافت، ورثے اور روایات سے آگاہ ہونا چاہئے: نائب صدر جمہوریہ ہند

Urdu News

نئیدہلی۔ ۔نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیانائیڈو نے کہا ہے کہ نوجوانوں کو ہمارے عظیم ملک کی ثقافت، ورثے اور روایات سے آگاہ ہونا چاہئے  اور ہمارے ملک کے ورثے اور گوناگونی  کا تحفظ ہونا چاہئے۔ موصوف چار روزہ لوک منتھن 2018 کے دوسرے ایڈیشن کا افتتاح کرنے کے بعد حاضرین سے خطاب کررہے تھے۔ اس کا اہتمام رانچی ، جھارکھنڈ میں ایک بھارت سریشٹھ بھارت کی تعمیر کے موضوع پر ’ملک پہلے ہے‘  کے مفکرین اور پیشہ وران کے مکالمے کے تحت کیا گیا تھا۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ ملک اس کے باشندگان ، جذبات اور جغرافیائی علاقے سے بنتا ہے تاہم ہمیں وقتاً فوقتاً تبادلہ خیالات اور تجزیہ کا عمل کرتے رہنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کا عمل  قومی زندگی کو متحرک رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ گفت وشنید مباحثہ اور فیصلہ لینے کا عمل ہمارا سہ سطری اصول ہونا چاہئے۔

ایسی سماجی برائیوں  کا مطالعہ جو ہمارے ملک کی نشو ونما پر اثرانداز ہورہی ہیں، کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ طویل نو آبادیاتی قبضے کی وجہ سے ہمارے معاشرے پر اقتصادی استحصال کے اثرات کا مطالعہ اور سماجی اور نسلی ڈھانچوں پر اس کے اثرات اور باہمی تعلقات کا تجزیہ ضروری ہے۔ نوآبادیاتی نظام سے متاثر انداز فکر کا قلع قمع ہونا ہی چاہئے۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ سماجی بیداری اور مختلف برادریوں کی مجموعی ذمہ داری نے بھارت کی جنگ آزادی میں مدد دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری جنگ آزادی ایک وسیع اور سب کو ساتھ لیکر آگے بڑھنے والی تحریک تھی اس نے معاشرے کے تمام طبقات کے وجود کو تسلیم کرایا اور جنگ آزادی صرف سیاسی آزادی نہیں تھی بلکہ یہ سماجی اصلاح کی بھی تحریک تھی۔

نائب صدر جمہوریہ ہند کی تقریر کا متن درج ذیل ہے:

دو سالہ لوک منتھن کے سلسلے کے تحت اس دوسرے لوک منتھن کے دانشورانہ اہتمام میں آپ کے ساتھ ہندوستان سے آگاہی – عوامی اذہان جیسے اہم موضوع پر غور وفکر کرنے کا مبارک موقع فراہم کرنے کیلئے میں اس تقریب کے اہتمام کرنے والوں کے تئیں اظہار تشکر کرتا ہوں۔

کوئی بھی  ملک ، اس کے عوام ، عوامی رسم ورواج اور عوامی توقعات سے تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا وقت وقت پر عوامی رسم ورواج اور توقعات پر غور وفکر اور تجزیہ قومی زندگی کو متحرک بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ اس سلسلے میں یہ لوک منتھن ایک اہم اور لازمی قدم ہے۔

بھارت میں مکالمہ اور تبادلہ خیالات کی قدیم روایت رہی ہے۔  ہمارے قدیم صحائف   میں منطق ، مکالمے ، تدبیر ، تصور، ثبوت ، فیصلے جیسے الفاظ کا حوالہ ہماری روایت میں تبادلہ خیالات کی صحتمند روایت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ علمی استناد اور تلاش حق کیلئے مکالمہ ایک مہذب  اور تسلیم شدہ  طریقہ کار ہے۔ بھارتی روایت میں ایسے کئی مباحثوں کا ذکر ملتا ہے جیسے کرشن  ارجن مکالمے سے گیتا وجود میں آئی۔ یاگیہ ولکیہ- گارگی مکالمے سے ورہردوارڑیک  اُپنیشد کی تشکیل عمل میں آئی، اسی طریقے سے یاگیہ ولکیہ- میتریہ مکالمے میں اخلاقی اور روحانی عناصر پر عمیق غوروفکر کا دخل ہے۔  یہ قابل توجہ بات ہے کہ دقیق سوالات پر غور وفکر میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں۔ کٹھوپنیشد  کے یم اور بالک نچی کیتا  مکالمے میں موت جیسی دقیق سچائی پر غور وفکر کیا گیا ہے۔ لوک منتھن کے توسط سے آپ  سماج میں دانشورانہ گفت وشنید کے طریقے کو از سر نو رواج دے رہے ہیں۔ اس کے لئے میری نیک خواہشات۔ اس منتھن سے نہ صرف نئے خیالات کی تخلیق ہوگی۔ کچھ پرانی فرسودہ باتیں بھی ختم ہو ں گی۔

یہ معاملہ اکثر اٹھا ہے کہ آخر بھارت ہے کیا؟  19ویں صدی کے اوائل میں 1857 کے اوّلین جنگ آزادی کے بعد جان اسٹریچی جیسے کچھ نوکرشاہوں نے بھارت میں انگریزی حکومت کی معنویت بڑھانے کی کوشش کی۔ ایسے مؤرخین کا نظریہ یہ تھا کہ بھارت کبھی بھی ایک ملک کی شکل میں وجود میں ہی نہیں تھا بلکہ ریاستوں کا مجموعہ تھا جو اس کرہ ارض پر  حکومت کرتی تھی ان میں اکثر لسانی یا ثقافتی اتحاد یا مکالمہ بھی نہیں تھا۔

لمبے عرصے تک نو آبادیاتی غلامی نہ صرف ہمارے سیاسی اصولوں اور اداروں کو ختم کرتی ہے بلکہ ان کی فطری ترقی کو بھی مسخ کردیتی ہے۔  طویل غلامی سماج کے اپنے احساس تاریخ کو ختم کردیتی ہے اور معاشرتی مثبت صلاحیت کو تباہ کردیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ معاشرہ خود اپنی تاریخ کا احساس جگائے جس میں زبانی تاریخ ، عوامی روایات اور رسم ورواج ، مقامی رسم ورواج ، زبان وادب ، عوامی فنون کو مستند تاریخی وسائل کی شکل میں اہمیت دی جائے۔

 آزاد بھارت آج بھی ہندوستانیت کو صحیح شکل میں تلاش کررہا ہے ، لوک منتھن جیسے اہتمام ہمارے احساس تاریخ  کا احیا ء کرنے اور بھارت کے احساس کو ہمارے ثقافتی پس منظر میں دیکھنے کی قابل تعریف کوشش ہے۔

مجھے حال ہی میں سوامی وویکانند کے ذریعے 1893 میں عالمی مذہبی اجتماع ، شکاگو میں کی گئی تقریر کے 150ویں یادگاری جشن کے موقع پر وہاں جانے کا موقع حاصل ہوا تھا ، یہ موقع میرے لیے ایک مذہبی سفر کے جیسا تھا۔ اپنی تقریر میں سوامی جی نے کہا تھا ’’جب بھی بھارت کی حقیقی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ ثابت ہوجائیگا کہ مذہب کے بارے میں یا فنون لطیفہ میں بھارت ہمیشہ سے استاد عالم رہا ہے۔ ‘‘ اس موقع پر مجھے جناب اروند کے الفاظ یاد آئے جو انہوں نے سوامی وویکانند کی تقریر پر کہے تھے ’’وویکانند کا مغرب میں جانا پہلی علامت تھی کہ بھارت ابھی بھی بیدار اور مستعد ہے۔ وہ صرف زندہ ہی نہیں بلکہ فتح عالم کے لئے بھی مستعد ہے۔‘‘

دراصل یہ الفاظ پیشین گوئی ہی تھے ۔ اگلی ایک صدی بھارت نے دنیا کو سب سے بڑی نو آبادیاتی طاقت کے خلاف ایک مثبت اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریک کھڑی کردی۔ اس تحریک میں ہندوستان کی قدیم ثقافت کی روایات کو بروئے کار لایا گیا ۔ سچائی ، عدم تشدد، خدمت، معاشرتی  خیرسگالی ، مساوات ، خود اعتمادی جیسی انسانی اقدار کو معاشرے میں از سر نو قائم کیا گیا۔ یہ ایک مثبت  خیرسگالی پر مبنی وسیع تحریک تھی۔

گاندھی جی کا ماننا تھا کہ میں تمام ثقافتوں کی نمائندگی کرتا ہوں کیوں کہ میرا مذہب ہر ثقافت کی ترقی اور عروج کو تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا   کہ ’’میں نہیں چاہتا  کہ میرا گھر دیواروں سے گھیر دیا جائے اور کھڑکیاں بند کردی جائیں ، میں ہر ثقافت سے واقف ہونا چاہتا ہوں ، تاہم وہ  مجھے میرے مقام سے  متزلزل کرسکے، یہ میں تسلیم نہیں کروں  گا۔ ‘‘

صدیوں کی سیاسی اتھل پتھل اور اقتصادی استحصال  کی وجہ سے سماجی ناداری اور سقیم حالت کے باوجود ثقافتی، روحانی اور نظریاتی اصلاح اور خیرسگالی کا عمل چلتا رہا۔ شنکر آچاریہ سے وویکانند تک  دانشور سماجی اصلاح کی طویل کڑی رہی ہے جنہوں نے سیاسی اور اقتصادی چنوتیوں میں ہندوستانی سماج کو روحانی احیاء اور سماجی خیرسگالی کیلئے ہمت بندھائی ۔ سوامی وویکانند نے کہا ’’تمام تر بنی نوع انسانیت کے تئیں محبت اور بھائی چارہ ہی سچا مذہب ہے ، عرفان ذات ہی  مذہب ہے۔۔۔ مذہب وہ ہے جو آپ ہیں یا ہوسکتے ہیں نہ کہ وہ جو آپ سنتے یا تسلیم کرتے ہیں۔‘‘

سماجی بیداری کے یہ شگوفے ہر شعبے میں پھوٹے ، چاہے آسام کے شنکر دیو یا اڈیشہ کے چیتنیہ مہاپربھو ، کرناٹک کے وسواچاریہ  ، کاشی کبیر یا ریداس  یا سوراشٹر کے نرسی مہتا  یا پنجاب کے نانک دیو یا آریہ سماجی سنت ، مہاراشٹر کے جیوتی باپھولے ، پنڈتا رامابائی یا بذات خود ڈاکٹر امبیڈکر ، تمام لوگوں نے بھارتی سماج میں ایک نئی بیداری پھیلائی۔

یہ ضروری ہے کہ طویل المدت سیاسی بالادستی کی وجہ سے درآئی سماجی برائیوں کا مطالعہ کیا جائے اور ان کا ازالہ کیا جائے۔ طویل نو آبادیاتی  حکومت کی وجہ سے سماج کے اقتصادی استحصال اور معاشرتی اور نسلی تشکیل اور تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کا سنجیدہ مطالعہ کیا جانا چاہئے۔  ہمہ گیر معاشرتی بیداری اور اصلاح کی  وجہ سے ہی ہماری جنگ آزادی اتنی وسیع اور ہمہ گیر بن سکی جس میں سماج کے سبھی طبقات، علاقوں کی مرضی شامل تھی۔ ہماری جنگ آزادی سیاسی آزادی ہی نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ کی تحریک بھی تھی۔

اس میں چھوا چھوت کی مخالفت ، ذات پات کی برائیوں  کی مخالفت، عوامی صفائی ستھرائی، اقتصادی خود کفالت ،زمینداری کی مخالفت، تعلیمی اصلاح، خواتین کی اختیارکاری ، عدم تشدد وغیرہ ترقی پسند موضوعات پر عوامی حمایت اور عوامی بیداری کی بات کی گئی تھی جس نے دین دیال اپادھیائے جی کے احساسا ت کو بھی مہمیز کیا۔

عوام الناس کو خود مختار ہندوستان سے بہت سی ا میدیں وابستہ تھیں۔

ہمارے آئین نے اس امید کو واضح شکل دی اور اسے قومی عہد بندگی کی شکل میں پیش کیا۔

13 ستمبر 1946 کو پنڈت نہرو کے ذریعے آئین ساز اسمبلی میں لائی گئی تجویز میں کہا گیا کہ ’’یہ آئین ساز اسمبلی ایسا آئین وضع کرے گی جس میں بھارت کے تمام شہریوں کیلئے معاشرتی ، اقتصادی اور سیاسی انصاف یقینی بنایا جائے گا اور مواقع اور درجات کی یکسانیت ہوگی ، خیالات ونظریات ، اظہار ، عقیدت اورعقیدہ ، پیشہ کرنے کی آزادی ہوگی جس میں اقلیتوں ، پسماندہ اور قبائلی علاقوں ، پسماندہ اور محروم طبقات کیلئے خصوصی تجاویز ہوں گی۔ ‘‘

ہمارا آئین بنیادی طور پر معاشرتی خیرسگالی اور ترقی کی دستاویز ہے جو سیاست کو معاشرتی توقعات کی تکمیل کا ذریعہ بناتا ہے۔ معاشرے کی ہمہ گیر ترقی اور اتحاد ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔

18 دسمبر 1946 کو آئین کے مقاصد اور مقاصد پر مبنی تجاویز پر منعقدہ مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر نے اسی ہمہ گیر ترقی اور معاشرتی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ’’میں جانتا ہوں آج ہم سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے منقسم ہیں اور ایک دوسرے کے کٹّر مخالف ہیں۔ شاید میں خود ان میں سے ایک پارٹی کی قیادت کررہا ہوں لیکن اگر وقت اور حالات ساتھ دے تو دنیا کی کوئی طاقت اس ملک کو ایک ہونے سے نہیں روک سکتی۔ ‘‘

انہوں نے آگے کہا ’’میں ہمارے مستقبل کے تئیں پُرامید ہوں لیکن ہمارا مسئلہ موجودہ تنوع ہے اور معاشرتی نابرابری ہے۔ ہمیں انجام کی نہیں بلکہ آغاز کی فکر ہے۔ ‘‘

اسی طریقے سے نئے بھارت کے خالق سردار پٹیل کو بھی بھارت کے اتحاد اور ترقی کیلئے فکر تھی۔

دیسی ریاستوں کو انڈین یونین میں شامل کرنے کے باوجود وہ اس  تجربے کی کامیابی  کے تئیں پوری طرح مطمئن نہیں تھے۔ ’’ہم نے راتوں رات ان ریاستوں میں جدید طریقہ انتظام نافذ تو کردیا ہے لیکن یہ نظام اوپر سے تھوپا گیا ہے نہ کہ اس کے لئے عوام کا مطالبہ تھا۔ جب تک یہ تھوپی گئی انتظامیہ عوام الناس میں جڑیں نہ جمالے تب تک اتھل پتھل اور نقص امن کا خطرہ بنارہے گا۔

ہمارے آئین سازوں  کی ملک کے تئیں دیانت داری اور اس کے مستقبل کے تئیں پوری عقیدت قابل تعریف ہے، قابل پرستش ہے۔ وہ ملک کے مسائل سے واقف تھے ۔ کیا نئی ریاست قدیم ملک کی صدیوں سے محفوظ رکھی توقعات کو پورا کرسکے گا۔

ہمارے ہمہ گیر آئین نے ہمیں سمت دی ہے ۔ ایک ملک کی شکل میں ہماری کوششوں کو عہد بند کیا ہے۔ گزرنے والے وقت کے ساتھ چنوتیاں بھی آئی ہیں، ہم اپنی آئینی بیداری سے ان چنوتیوں کو مواقع میں بدل سکیں گے۔

مجھے امید ہے کہ لوک منتھن کا یہ ایڈیشن ہمارے آئین سازوں کے سوالات اور خدشات پر سنجیدگی سے تبادلہ خیالات کریگا اور قابل قبول حل اور نتائج تک پہنچ سکے گا۔ بامعنی مکالمہ اور تبادلہ خیالات کی یہ صحتمند روایت آپ سماج کی ہر سطح تک لے جانے میں کامیاب ہوں گے یہ میری نیک تمنا ہے۔ اس لوک منتھن سے آب حیات نکلے اور پوری دنیا کو بھارت بھارتی کے نظریے سے خوشگوار بنائے یہی میری تمنا ہے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More