38 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نوبل اعزاز یافتہ شخصیات کے سمینار سے صدر جمہوریہ جناب رام ناتھ کووند کا خطاب

Urdu News

نئیدہلی،۔فروری۔صدرجمہوریہ جناب رام ناتھ کووند نے راشٹرپتی بھون میں منعقد ہ  نوبل اعزاز یافتہ شخصیات کے سمینار میں جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے ۔انہوں نے کہا :

1۔       ’’ میں آپ سب کا راشٹر پتی بھون میں خیر مقدم کرتا ہوں ۔مجھے خوشی ہے کہ میں یہاں موجود ہوں اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ ہم سب یہاں نوبل اعزاز شخصیات کے سمینار میں شرکت کے لئے آئے ہیں۔نوبل اعزازا ت کے سلسلے کا یہ حصہ  ہندوستان کی سائنسی  اور پالیسی ساز برادری اور نوبل فاؤنڈیشن کے درمیان ایک باقاعدہ اوریاد گار حیثیت رکھتاہے۔

2۔       ڈسکوری کی تحقیق وجستجو سائنس کی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہندوستان میں اس کی طویل روایات موجود ہیں ۔ جیسا کہ ہلکے پھلکے اندازمیں کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے دنیا کو کچھ نہ دینے کے باوجود سائنس اور حسابیات   کے شعبوں میں انقلاب برپا کردیا تھا ۔ یہاں میں  صفر کا حوالہ دینا چاہوں  گا ، جو  ہندوستان میں ہی شروع ہوا تھا ۔حسابیات  سے علم نجوم تک اور   معدنیات کے مطالعے سے  ادویہ کے مطالعے تک ہندوستا ن کے ذریعہ سائنس اور  سائنسی نظریات   کے فروغ کی  صدیوں قدیم تاریخ رہی ہے ۔

3۔       دور جدید کے آغاز کے  وقت سائنس اور ٹکنالوجی کے مغرب ی دنیا یعنی یورپ اور امریکہ میں ہوا کرتے تھے ۔ بین الاقوامی سیاست اور معیشت کی طرح  سائنسی طاقت کا ڈھانچہ بھی  نوآبادیاتی  مراسم سے  متاثر ہوا تھا ۔بیسویں صدی کی ابتدا میں  ہندوستانی سائنسدانوں نے  اس نظریہ کو چیلنج کرنا شروع کیا ۔ انہوں نے  محدود وسائل  اوراپنے ذاتی اقدامات کے ذریعہ  زبردست کام کیا تھا۔

4۔       اس بات کی صداقت کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔آنجہانی جگدیش چند بوس   عالمی درجے کی امتیازی  لیاقت رکھنے والے جدت طراز اور سائنسداں تھے ۔ انہوں نے 1895  کے اواخر تک  مائیکروویوز کے  وائر لیس ٹرانسمیشن   کوعملاََ ثابت کرکے دکھایا تھا ۔ یہ بات   اٹلی کے انجنئیر مارکونی کے ذریعہ   ریڈیوویوز کے ٹرانسمیشن  سے بہت پہلے کی ہے ۔  انہو  ں نے کولکاتہ میں بوس انسٹی ٹیوٹ  بھی قائم کیا ۔ یہ ملک کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے اورحال ہی میں  اس ادارے نے اپنے قیام کے 100 سال پورے کئے ہیں۔ ابھی کچھ ماہ قبل ہی مجھے  اس ادارے کی صدسالہ تقریبات میں شرکت کا پُر مسرت موقع حاصل ہوا تھا ،وہاں دیگر سرکردہ شخصیات بھی موجود تھیں ۔آنجہانی سی وی رمن پہلے ہندوستانی سائنسداں تھے ، جنہیں 1930  میں  فزکس  کے شعبے میں  منفرد  ایجادات کے لئے نوبل اعزز سے نوازار گیا تھا اور اگر ان کی زندگی میں ہی فیلڈ میڈل قائم کیا گیا ہوتا تو جناب سری نواسا راما نجم  یقیناََ  اس کے مضبوط حقدار ہوتے ۔

5۔       ہندوستان کی آزادی کے 70   برسوں کے دوران  سائنس پر اعتماد نے ہمارے سماج  اور ہمارے ترقیاتی عمل کی چہرہ کاری کی ہے ۔ زراعت سے لے کر ایٹم سے   حاصل کی گئی توانائی کوبروئے کارلائے جانے  ،  ٹیکہ کار ادویہ  کے شعبے میں جدت طرازی سے  خلائی ٹکنالوجی  کے شعبے میں  غیر معمولی پیش رفت تک  سائنس نے  تعمیر ملک وقو م میں ہماری  ہر قدم پر مدد کی ہے ۔ یا مجھے کہنے دیجئے  کہ ذرّہ  سے ذرّے تک  سائنس نے ہماری مدد کی ہے ۔

6۔       سائنس میں  سرمایہ کاری سے  مطابقت رکھتے ہوئے ہم نے اپنے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ذریعہ افراد کی بھی سرمایہ کاری کی ہے ۔ ہم نے حال ہی میں  متعدد یونیورسٹیاں قائم کی ہیں ، جن میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی   ،آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز اورآل انڈیا                                                                                         انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ریسرچ جیسے  عظیم ادارے شامل ہیں ۔ان اداروں کے ذریعہ  افراد میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے     بدلتے ہندوستان میں  سائنسدانوں  ،طبی تحقیق کاروں  اور ٹکنالوجی کے ماہرین کا ایک بڑا گروپ  وجود میں آئے گا۔

7۔       ان سرمایہ کاریوں کی بارآوری کے لئے ہمارے اداروں   اور اسکولوں کو  دنیا کے بہترین ادارے اور اسکول ہونے چاہئیں  ۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں کہ اسے پورا نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم سب ملک کر   اپنی اعلیٰ   سائنسی   اہلیت  بلکہ اپنے اسکولی نظام میں بھی جدت طرازیاں کرسکتے ہیں ۔

8۔       کامیابی کے لئے تین چیزیں مطلوب ہوتی ہیں  ۔ ان میں سے پہلے نمبر پر ہمارے سائنسداں ہیں  ۔پی ایچ ڈی کے طلباسے لے کر ٹکنالوجی کے سینئر ماہرین تک نے  اس مقصد کو  مشترکہ طور سے محسوس کیا ہے اور اس میں شراکتداری کی ہے ۔  انہیں  معیاری اہلیت سازی   کے مسئلے کا تدارک کرنا چاہئے  ۔ قومی مشن اجتماعات میں شرکت کرنی چاہئے اور    پیشرو تحقیق   کے شعبے میں   پیش رفت کرنی چاہئے ۔  انفرادی نظریات کو  اعلیٰ معیاراتی   ٹیموں میں  تبدیل کیا جانا چاہئے ۔

9۔       دوسرے نمبر پر  ہماری تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کو  تحقیقی مراکز کے قیام کے لئے    ذہانت اور لگن کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے ۔  یہ مراکز نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں  ماہرانہ معیارات قائم کرسکتے ہیں  ۔ اس سلسلے میں بنگلورو جیسا تکنیکی مرکز کی حیثیت رکھنے والا شہر  ایک روشن مثال ہے  ۔ ہمیں ایسے متعدد تکنیکی اور تحقیقی مراکز درکار ہیں  ۔

10۔     تیسرے نمبر  پر  چونکہ  آج دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور ہر سمت سے نئے نئے نظریات کا بہاؤ ہے ،اس میں ہمارے سائنسدانوں کو  تحقیق اور ٹکنالوجی کے میدان میں  ہونے والی جدید ترین پیش رفت سے رابطے قائم کرنے چاہئیں  ۔سائنس اگر ایک عالمی کاروبار نہ ہوتو اس کی کوئی حیثیت  نہیں ۔  یہی تیسرا نقطہ  ہے   ،جس پر آج ہمیں توجہ مرکوز کرنی ہے کہ ہم کس طرح  عالمی معیا ر کے ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کرتے ہیں اور کس طرح انہیں اپنے   ہندوستانی  اور غیر ملکی سماج سے جوڑتے ہیں  ۔

11۔     یہاں  نوبل اعزاز یافتہ  اور فیلڈز میڈل سے سرفراز کی جانے والی شخصیات تشریف فرما   ہیں  ۔ یہ غیر معمولی شخصیات ہندوستان کے سائنسدانوں ، محققین طلبا اور یونیورسٹی کے قائدین سے   اس امر پر گفتگو کریں گے  کہ   ہم کس طرح اپنے اداروں کو  بہترین اداروں میں شامل کرسکتے ہیں اورکیسے ان اداروں کے ذریعہ سماج میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔

12۔     اپنی متعدد یونیورسٹیوں    اور اعلیٰ درسی اداروں   کے وزیٹر کی حیثیت سے  مجھے  آج یہاں  ہونے والی تقریروں اور گفتگوسے ذاتی طور پر دلچسپی ہے ۔  میری خواہش ہے کہ  آج دن میں  یہاں  اعلیٰ  دانشورانہ  سطح کے بیش قیمت  مباحثے ہوں گے  اور سہ پہر میں  ، میں  امید کرتا ہوں کہ  وہ قابل عمل سفارشات   پیش کی جائیں گی جن پر ہندوستان اور ہماری دنیا   عمل کرسکے گی ۔شکریہ  !جے ہند !

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More