27 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نائب صدر جمہوریہ ہند نے سائنس دانوں سے کہا ہے کہ وہ کاشتکاری کو ہمہ گیر اور تغذیہ کے لحاظ سے مالامال بنانے کیلئے وہ اپنے علم اور مہارت کو ساجھا کریں

Urdu News

نئیدہلی۔ ۔نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ا یم وینکیانائیڈو نے کہا ہے کہ حکومت ،مہذب معاشرے ،  سائنسدانوں اور محققین کو اپنے علم اور اپنے مہارت کو کاشتکاروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہئے تاکہ زراعت کو ہمہ گیر اور تغذیہ بخش بنایا جاسکے۔ ایم ایس سوامی ناتھن تحقیقی ادارے کے زیر اہتمام  چنئی میں منقعدہ  قومی مشاورت نے زراعت کو تغذیہ کیلئے بروئے کار لانے کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زرعی تحقیق کی بھارتی کونسل اور کرشی وگیان کیندروں جیسے اداروں کو آگے بڑھ کر ہمارے کاشتکاروں کو علم وہنر سے آراستہ کرنے کیلئے کم کرنا چاہئے۔ حکومت تملناڈو کے مرغی پالن اور عملہ و انتظامی اُمور کے وزیر جناب ڈی  جئے کمار ، زرعی سائنسداں پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن اور دیگر معززین بھی اس موقع پر موجود تھے۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ ہمارے ملک میں آبادی کی ایک بڑی تعداد تغذیہ کے لحاظ سے ناکافی تغذیہ کا شکار ہے، اس کی روز مرہ کی خوراک کی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتی  کیونکہ اس کی خوراک میں درکار تغذیہ بخش عناصر نہیں ہوتے اور بہت سے لوگ موٹاپے کے شکار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ  یہ بات اشد پریشان کن ہے کہ مرکز میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی جانب سے کی گئی لگاتار کوششوں کے باوجود ، ساتھ ہی ساتھ ریاستی سطح پر کی گئی کوششوں کے پس منظر میں بھارت میں ناقص تغذیہ کا مسئلہ ناقابل قبول حد تک زیادہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کو ملک کی آبادی کو صحتمند بنانے کیلئے جنگی پیمانے پر حل کیا جائے تاکہ یہ آبادی مستقبل میں کارآمد آبادی میں بدل سکے۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ حکومت ہند نے ستمبر 2017 میں قومی تغذیہ حکمت عملی اس مقصد سے اپنائی تھی کہ ناقص تغذیے کے مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پالیسی کے تحت اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ہماری زرعی پالیسی پر از سر نو غور وفکر کیا جانا چاہئے ۔ ہمیں اپنی زراعت کو تغذیہ کے تئیں حساس بنانا ہوگا اور اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم زراعت اور تغذیہ کے مابین ایک اہم اور واضح رابطہ بنا سکیں۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ بھارتی زراعت کو ہمارے خوراک پیداوار کے عمل کو گوناگونی سے ہمکنار کرنا چاہئے اور اہم اناجوں میں سے محض ایک دو اناجوں کی کاشت کے بجائے کاشتکاری کا ایسا طریقہ اپنانا چاہئے جس میں چھوٹے دانے والے اناج باجرا، دالیں، پھلوں اور سبزیوں  سمیت مختلف النوع خوردنی اشیاء کو شامل کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دالوں کی کاشت سے نہ صرف یہ کہ تغذیہ سے بھرپور خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ مٹی کی قدرتی زرخیزی میں بھی اضافہ ہوگا۔ جہاں تک اقتصادی پہلو کی بات ہے ، اس سے آئندہ وقت میں  ہماری درآمد کا وزن بھی کم ہوجائیگا۔ کیوں کہ فی الحال تقریباً 6 ملین  ٹن دالیں درآمد کی جارہی ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ چھوٹے اناج مثلاً جوار، باجرا اور راگی اور کٹکی  ، کودوں، سانواں، کنگی اور چینا ایسے اناج ہیں جو تغذیہ سے مالامال ہوتے ہیں۔ چوں کہ باجرا جیسی فصلوں کیلئے پانی کم درکار ہوتا ہے لہٰذا فصلوں کے ایک حصے کے طور پر اس طرح کی فصلوں یا اناجوں کی کاشت کو بھی بڑھاوا دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تغذیہ کے لحاظ سے مالامال فصلوں کی ایک منڈی فراہم کرنے کی غرض سے جن میں باجرا بھی شامل ہے، نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ سرکاری نظام تقسیم کے توسط سے ان کی سپلائی اور انہیں فروغ دینے کا عمل ایک اچھا متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔  انہوں نے سائنسدانوں اور زرعی تحقیق سے وابستہ افراد سے کہا کہ وہ عوام میں مختلف اناجوں اور خوراک میں مضمر تغذیہ جاتی پہلو کے تئیں بیداری پیدا کریں تاکہ  تمام متعلقہ افراد ان اطلاعات پر مبنی فیصلے لے سکیں ۔ ہماری آبادی میں خوراک کے طور پر جن اشیاء کااستعمال ہوتا ہے ان کے اعداد وشمار کے حصول کے ذریعے بھی حکومت آنے والے وقتوں میں پالیسیوں میں درکار معقول تبدیلی کرسکتی ہے۔ نائب صدر جمہوریہ ہند نے تغذیہ کے لئے کاشتکاری کے نظام کا ایک باقاعدہ تصور اور اس کے فروغ دینے کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کیلئے پروفیسر ایس ایم سوامی ناتھن کی کوششوں کی تعریف کی ۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں گھریلو پیمانے پر خوراک اور تغذیے کے عدم تحفظ کو  جو مسائل درپیش ہیں انہیں اسی طریقے سے دور کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاشتکاری سے وابستہ تغذیے کا نظام یا ایف ایس این  کاشتکاری کیلئے ایک ہمہ گیر فریم ورک ہے  جس میں فصلوں ، کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ پالے جانے  والے جانوروں اور مچھلی بھی شامل ہے۔ اس کے لئے غیر زرعی شعبوں مثلاً حفظان صحت اور صفائی ستھرائی میں بھی ایک ارتباط پیدا کرنا ہوگا اور ان اُمور میں دخل اندازی کرنی ہوگی تاکہ تغذیے میں اضافہ ہوسکے اور اصناف اور ایج گروپوں کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جس کا تعلق پورے عرصہ حیات سے ہوتا ہے ، ضروریات کی تکمیل کی جاسکے۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ زراعت ، تغذیہ اور صحت کو باہم مربوط کرنے کے طریقہ کار کے سلسلے میں پروفیسر ایس ایم سوامی ناتھن نے جو تجاویز پیش کی ہیں ، قومی تغذیہ مشن حکمت عملی 2017   جو حکومت ہند کی ایک اسکیم ہے ، اسکے تحت ناقص تغذیہ کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ایک کثیر پہلوئی طریقہ کار کی وکالت کی گئی ہے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند کی تقریر کا متن درج ذیل ہے:

یہ بات ازحد تشویش کن ہے کہ ایک دہائی سے زائد کے عرصے میں، دنیا بھر میں پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں بھوک سے پریشان لوگوں کی تعداد  میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 20 جون 2018 کو جاری کی گئی ہمہ گیر ترقیات اہداف رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں ا س بات کا ذکر ہے کہ دنیا بھر میں ناکافی تغذیے کا شکار افراد کی تعداد 2015 میں 10.6فیصد تھی  جو 2016 تک بڑھ کر 11.0 فیصد ہوگئی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 2016 میں عالمی پیمانے پر 815 ملین افراد اس مسئلے سے دوچار تھے ، 2015 میں اس سے کم یعنی 777 ملین افراد ناکافی تغذیہ کا شکار تھے اور اب 2015 کے مقابلے میں مجموعی طور پر 38 ملین سے زائد افراد ناکافی تغذیے کاشکار ہیں۔

دنیا بھر میں بھکمری کے شکارافراد کی تعداد میں اضافہ سماج کی پیشمانی پر ایک داغ ہے۔ بھارت میں ناقص تغذیے کے معاملات ازحد زائد ہیں تاہم پالیسی مباحثوں میں اسے پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات افسوسناک ہے کہ بھارتی سبز انقلاب کے رہنما ڈاکٹر سوامی ناتھن جی نے زراعت کو تغذیہ سے مربوط کرنے کیلئے  یہ مشاورتی میٹنگ طلب کی ہے۔
2017 میں 5 برس تک کی عمر کے 151 ملین بچے اپنی عمر کے لحاظ سے کم قد کی لمبائی ، 51 ملین بچے ناقص تغذیہ کے شکار  اور 38 ملین ضرورت سے زیادہ وزن کے شکار تھے۔ یہ تمام تر تفصیلات  ایس ڈی جی رپورٹ میں دی گئی ہے۔

بھارت میں آبادی کا ایک بڑا طبقہ ناقص تغذیے کا شکار ہے، جن میں طرح طرح کی کیفیات شامل ہیں یعنی ناقص تغذیہ، مائیکرو تغذیاتی عناصر کے فقدان کی وجہ سے بھکمری اور موٹاپا، یہ تمام چیزیں شامل ہیں۔ 16-2015 میں قومی کنبہ صحت سروے -4 کے مطابق  38.4 فیصد بھارتی بچے جن کی عمر پانچ برس سے کم تھی ، وہ جامد وساکت  حالت میں ہیں جبکہ 35.7 فیصد بچے معیاری وزن سے کم کے ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ بچے سُن پر جانے اور ناکافی وزن کے شکار ہیں۔ ہمیں جنگی پیمانے پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا ، ا س سے ملک کی آبادی کی صحت کو برقرار رکھا جاسکے گا اور ہم اسی کے سہارے ایک بار آور مستقبل کی امید کرسکتے ہیں۔

این ایف ایچ ایس-4  نے یہ بات بھی ظاہر کی ہے کہ بارآور عمر کی 5/1 خواتین دائمی توانائی فقدان کا شکار ہیں اور دوسرا 5/1 حصہ موٹاپے کا شکار ہیں۔ 50 فیصد سے زائد بچے اور خواتین کو خون کی کمی کی شکایت ہے۔

یہ بات ازحد تشویش کن ہے کہ مرکز اور مختلف ریاستوں میں حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی لگاتار کوششوں کے باوجود ناقص تغذیے کی صورتحال اور مسئلہ اب بھی بھارت میں ناقابل قبول حد تک سنگین ہوتا جارہا ہے۔

ناقض تغذیہ میں چند اہم عناصر  میں خوراک میں مقدار اور کوالٹی کے لحاظ سے کم تغذیہ کا ہونا ، ماحولیاتی حالات اور صحتی خدمات تک رسائی  شامل ہیں۔
یہاں میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گاکہ ہمارے بانیان نے آئین  کو قلم بند کرتے وقت ان تمام اُمور کو ذہن میں رکھا تھا اور ریاستوں سے متعلق  پالیسیوں کے رہنما خطوط کے آرٹیکل 47  میں اس سے مناسبت رکھنے والی تجویز شامل کی تھی۔

آئین ہند کے آرٹیکل 47   کے تحت  ریاستیں اپنے یہاں تغذیہ بڑھانے کی سطحوں پر توجہ مرکوز کریں گی اور اپنے یہاں سکونت پذیر شہریوں کے لئے معیاری تغذیے کا انتظام کریں گی اور اپنی بنیادی   پالیسیوں میں جن کا تعلق صحت عامہ سے ہو، ان کی بھی اصلاح کریں گی۔ یہ تمام باتیں  بنیادی فرائض میں شامل ہوں گی۔

ناقص تغذیہ سے متعلق مسئلے کو حل کرنے کیلئے  کوئی بھی طریقہ کار  ہو، اسے اس کے ساتھ ساتھ خوراک اور غیرخوردنی عناصر پر  بھی توجہ مرکوز  کرنی ہوگی جو کسی نہ کسی طریقے سے تغذیے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

بھارت میں ناقص تغذیہ کے لحاظ سے تین طرح کی کمیاں دیکھی جاتی ہیں۔
•     خوراک میں کیلورک کی کمی  ،کیوں کہ کھایا جانے والا کھانا توانائی کی مقدار کے لحاظ سے کم ہوتا ہے۔
•    پروٹین کا فقدان، کیوں کہ دالیں ، دودھ ، انڈے وغیرہ وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوپاتے۔
•    مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی (خفیہ بھوک)  ، یہ ناکافی آئرن ، آیوڈین ، جست ، وٹامن اے اور وٹامن بی12  نہ ملنے سے لاحق ہوتی ہے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ بھارت کی حکومت ملک میں ناکافی تغذیے کے مسئلے  کو لے کر بہت پریشان ہے اور اس نے ستمبر 2017 میں قومی تغذیہ حکمت عملی بھی تشکیل دی تھی تاکہ اس مسئلے سے بھی نمٹا جاسکے ۔ یہ پالیسی ایسی ہے جس کے تحت  ہم نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ ہماری زرعی پالیسی پر لازمی نظرثانی درکار ہے۔ ہمیں زراعت کو تغذیہ کے تئیں حساس بنانا چاہئے۔ یہ بات ازحد اہم ہے کہ ہم  زراعت اور تغذیہ کے مابین ایک گونہ رابطہ پیدا کریں۔

جہاں ایک طرف  ہمیں کم وبیش خوراک سلامتی کے حصول میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، وہیں افزوں ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اناجوں کی پیداوار کی صورتحال میں بدلاؤ لاسکیں تاکہ ملک کیلئے تغذیہ سلامتی کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔

خوراک پیداوار اور سرکاری نظام تقسیم کے ذریعے فراہم کرائے جانے والے اناج کے شعبوں میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی اور ہمارے ملک میں حاشیے پر زندگی بسر کرنے والوں کے لئے بھکمری کا مسئلہ حل ہوگیا۔ تاہم اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ناقص تغذیہ کی صورتحال بڑھی ہے اور سنگین صورتحال اختیار کرگئی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب  نیوٹریشن  سلامتی  سب کے لئے یقینی بنائیں۔

پیارے بھائیو اور بہنو،
اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک فصل کے طریقہ کار کی بجائے اپنے یہاں فصلوں کی پیداوار میں گوناگونی پیدا کریں اور ایک ایسا نظام اپنائیں جس کے تحت  چھوٹا باجرا، دالوں، پھل اور سبزیوں کی پیداوار سمیت مختلف النوع خوردنی اشیاء  کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ دالوں کی پیداوار سے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کیلئے  تغذیے سےبھرپور خوراک فراہم ہوگی بلکہ اس سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ  ہوگا۔ اس کی مدد سے دالوں پر آنے والی 6 ملین ٹن کی درآمد کی لاگت کم ہوجائے گی ۔

چھوٹے اناج مثلاً جوار ، باجرا ، راگی  اور جئی، اس کے علاوہ کٹکی ، کودوں ، سانواں ، کنگی  اور چینا  میں  تغذیہ بخش  عناصر پائے جاتے ہیں۔ چونکہ باجرے کی پیداوار کیلئے کم پانی درکار ہوتا ہے اس لئے ہمیں فصلوں کو بدل بدل کر بونے کے طریقے کے تحت باجرے کی کاشت کو بھی فروغ دینا چاہئے۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ حکومت ہند نے 2018 کو ’باجرے کا قومی سال‘ قرار دیا   ہے۔ مقصد یہ  ہے کہ تغذیہ جاتی سلامتی فراہم کی جاسکے اور ناقص تغذیہ کی روک تھام ممکن ہوسکے۔

پیاری بہنو اور بھائیو،
تغذیے کے لحاظ سے مالامال فصلوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ایسی اشیاء کی فروخت کیلئے منڈی بھی فراہم کی جائے۔ ایسے اناجوں کو سرکاری نظام تقسیم کے ذریعے فروغ دینے یا سپلائی کرنے کا عمل بھی ایک اچھا متبادل ہوسکتا ہے۔ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مختلف خوردنی مصنوعات میں مضمر  تغذیہ جاتی  خصوصیات سے عوام کو باخبر کرائیں۔ میں زرعی تحقیق کی بھارتی کونسل اور کرشی وگیان کیندروں جیسے اداروں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ ہمارے کاشتکاروں کو اس کے تئیں خبردار بنانے کیلئے آگے آئیں، ساتھ ہی ساتھ ہمیں صارفین کو بھی مختلف خوردنی اشیاء کی تغذیہ جاتی قدر وقیمت  سے زیادہ سے زیادہ واقف کرانا ہوگا تاکہ وہ اپنی اسی جانکاری کی بنیاد پر فیصلے لے سکیں۔

حکومت مہذب شہری معاشرہ، سائنسداں اور محققین کو اپنے علم اور اپنی مہارت کو کاشتکاروں کے ساتھ شیئر کرناچاہئے تاکہ زراعت کے پیشے کو ہمہ گیر اورتغذیے سے مالامال بنایا جاسکے۔ اگر ہم اپنے عوام کے بارے میں  ان کے ذریعے استعمال کی جانے والی خوراک کی لگاتار نگرانی رکھیں  اور باقاعدہ اعداد وشمار حاصل کریں تو ہم حکومت کو وقتاً فوقتاً پالیسیوں میں معقول تبدیلی  کے کام میں مدد دے سکتے ہیں۔

پروفیسر سوامی ناتھن نے زراعت کو تغذیہ سلامتی کے لئے بروئے کار لانے کی تجاویز پیش کی ہیں ۔ یہ ازحد اہم بات ہے۔ خصوصاً بھارت جیسے ملک میں جہاں بڑی تعداد میں طبقات اب بھی زراعت اور ذیلی شعبے سے وابستہ ہیں۔

پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن نے  اپنے تحقیقی ادارے کو اس انداز سے رہنمائی فراہم کی ہے کہ وہ تغذیہ کے فارمنگ سسٹم (ایف ایس این)  کو فروغ دے سکے کیوں کہ یہ گھریلو پیمانے پر خوراک کے معاملے میں اور دیہی علاقوں میں تغذیہ کے فقدان کے سدباب کیلئے کام کرسکیں۔

ایف ایس این کا نظریہ ایک ہمہ گیر فارمنگ کا ہے۔ اس کے تحت  فصلیں ، مویشی پالن اور مچھلی پالن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس طریقہ کار کے تحت غیرزرعی شعبے مثلاً حفظان صحت اور صفائی ستھرائی کو بھی تغذیہ میں اضافے کیلئے شامل کیا گیا ہے۔ ا سکے  ذریعے بلاتفریق اصناف و ایج گروپ ،لائف سائیکل کے ذریعے مختلف انسانی تغذیہ ضروریا ت کی تکمیل ممکن بنائی جاتی ہے۔

ایف ایس این ماڈل ایک مخصوص مقام سے متعلق ماڈل ہے جس میں وسائل کے لئے دیے جانے والے عطیات کی مدد سے نمونے کی تیاری اور ایک مخصوص ماحول فراہم کرایا جاتا ہے اور کسی بھی کنبے کے ناقص تغذیے کو دور کیا جاسکتا  ہے۔ ایف ایس این نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ یہ ایک اصول ہے جس کے تحت  دیہی علاقوں میں بسنے والی آبادی کیلئے خوراک کی پیداوار خصوصاً چھوٹے کاشتکاروں کیلئے گھر میں ہی تغذیہ والی خوراک کی پیداوار پر زور دیا جاتا ہے۔
مجموعی سطح پر اس نظریے کے تحت  خوراک کی پیداوار میں گوناگونی پیدا کرنا ایک فصلی طریقے  کو چھوڑ کر ایک ایسا نظام اپنانا جس میں چھوٹے اناجوں، دالوں ، پھلوں اور سبزیوں سمیت مختلف النوع خوردنی اشیاء کی پیداوار شامل ہو۔

پروفیسر سوامی ناتھن کے ذریعے زراعت کو مربوط کرنے کے سلسلے میں ، تغذیے اور صحت کے سلسلے میں جو تجاویز حاصل ہوئی ہیں انہیں حکومت ہند کی قومی تغذیہ حکمت عملی 2017    میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے تحت ناقص تغذیہ کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کثیرپہلوئی طریقہ کار کی  اہمیت تسلیم کی گئی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت وزارت زراعت کو ایک کردار ادا کرنا ہے۔ قومی پالیسی میں تغذیے کے تئیں حساس زراعت کو تسلیم کیے جانے کا پہلو، یقینی طور پر بچوں کے تغذیے کی حالت میں اہم طو رسے تبدیلی لانے کاباعث بنے گا۔ نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ مجھے تغذیے کیلئے کاشتکاری کو بروئے کار لانے کے موضوع پر منعقدہ قومی مشاورت کا افتتاح کرتے ہوئے بڑی مسرت ہورہی ہے اور میں  تمنا کرتا ہوں کہ تمام مندوبین  اس گفت وشنید میں شریک ہوں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ گفت وشنید ایسی بامعنی سفارشات پر اختتام پذیر ہوگی جو ملک میں ناقص تغذیے کی سطح کو کم کرنے میں مددگار ہوں گی۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More