31 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

من کی بات کی 80 ویں کڑی میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

ہم سب کو پتہ  ہے کہ آج میجر دھیان چند جی کی سالگرہ ہےاور ہمارا ملک  ، ان کی یاد میں اس دن کو کھیلوں  قومی  دن کے طور پر  بھی مناتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید اس وقت  ، میجر دھیان چند جی کی آتما ، جہاں بھی ہو گی ، بہت خوشی محسوس کرتی ہو گی ۔  پوری دنیا میں  بھارت کی ہاکی  کا ڈنکا  بجانے کا کام دھیان چند  جی کی ہاکی نے کیا تھا اور چار دہائیوں بعد  ، تقریباً  41 سال بعد  بھارت کے نو جوانوں نے ، بیٹے اور بیٹیوں نے ہاکی کے اندر  پھر ایک  بار جان ڈال دی ہے اور کتنے ہی تمغے کیوں نہ مل جائیں ، لیکن جب تک ہاکی میں تمغہ نہیں ملتا  ، بھارت کا کوئی بھی شہری   فتح کی خوشی  حاصل نہیں کر سکتا ہے   اور اس مرتبہ  اولمپک میں ہاکی کا تمغہ  ملا ، چار دہائیوں بعد ملا ۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ،میجر دھیان چند جی کے دل پر  ، اُن کی آتما پر  ، وہ جہاں ہوں گے ،وہاں  کتنی خوشی ہو گی اور دھیان چند جی   کی پوری زندگی  کھیل  کے لئے وقف تھی اور اس لئے آج  جب  ہمیں ملک کے  نو جوانوں میں  ، ہمارے بیٹے بیٹیوں میں کھیل کے تئیں  ، جو دلچسپی نظر آ رہی ہے ، ماں باپ کو بھی   ، بچے اگر کھیل میں آگے جا رہے ہیں تو خوشی ہو رہی ہے  ۔ یہ جو جذبہ نظر آ رہا ہے ، میں سمجھتا ہوں ، یہی میجر دھیان چند جی  کے لئے بہت بڑا اظہارِ عقیدت ہے ۔

ساتھیو ،

          جب کھیلوں کی بات آتی ہے تو یہ فطری بات ہے کہ پوری نوجوان نسل ہمارے سامنے نظر آتی ہے اور جب ہم نوجوان نسل کو قریب سے دیکھتے ہیں تو کتنی بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔ نوجوانوں کا ذہن بدل گیا ہےاور آج کا نوجوان ذہن  ،  پرانے طریقوں سے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے ، ہٹ کر کرنا چاہتا ہے۔ آج کا نوجوان  بنے بنائے راستوں پر نہیں چلنا چاہتا ، وہ نئے راستے بنانا چاہتا ہے۔ کسی نامعلوم مقام پر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ منزل بھی نئی ، ہدف بھی نئے ،  راستے بھی نئے  اور خواہش بھی نئی ۔  ارے ، ایک بار جب  دل میں ٹھان لیتا  ہے نا نو جوان ، جی جان سے لگ جاتا ہے ۔  دن رات محنت کر رہا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں ، ابھی کچھ عرصہ پہلے  ہی بھارت نے اپنے اسپیس کے شعبے کو کھولا اور دیکھتے ہی دیکھتے  نوجوان نسل نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے طلباء ، نجی شعبے میں کام کرنے والے نوجوان بڑھ چڑھ کو آگے آئے ہیں  اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں  بہت بڑی تعداد میں ایسے سیٹلائٹس  ہوں گے ، جن میں  ہمارے  نو جوانوں ، ہمارے طلباء نے ، ہمارے کالج نے ، ہماری یونیورسٹی نے ،  لیب میں کام کرنے والے طلباء  نے کام کیا ہوگا۔

اسی طرح آج آپ جہاں کہیں بھی دیکھیں ، کسی بھی خاندان میں جائیں ، چاہے وہ خاندان کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو ، پڑھا لکھا خاندان لیکن اگر آپ خاندان کے نوجوان سے بات کریں تو وہ اپنے خاندان سے کیا کہتا ہے جو کہ روایات سے ہٹ کر کہتا ہے  ۔ میں اسٹارٹ اپ کروں گا ، میں سٹارٹ اپ میں  جاؤں گا یعنی اس کا دِل  خطرہ مول لینے کے لئے بے تاب  ہے۔ آج اسٹارٹ اپ کلچر چھوٹے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے اور میں اس میں روشن مستقبل کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے ملک میں کھلونوں پر بحث ہو رہی تھی۔  دیکھتے ہی دیکھتے  جب یہ موضوع ہمارے نوجوانوں کی توجہ میں آیا تو انہوں نے اپنے ذہن میں یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ ہندوستان کے کھلونوں کو دنیا میں  پہچان کیسے دلائی جائے اور وہ نئے تجربات کر رہے ہیں اور دنیا میں کھلونوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ، 6-7 لاکھ کروڑ کی مارکیٹ ہے۔ آج ہندوستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن کھلونے کیسے بنائے جائیں ، کھلونوں کی اقسام کیا ہیں ، کھلونوں میں ٹیکنالوجی کیا ہے ، بچوں کی نفسیات کے مطابق کھلونے کیسے ہیں، آج ہمارے ملک کا نوجوان اس پر توجہ دے رہا ہے ، کچھ  تعاون  کرنا  چاہتا ہے۔  ساتھیوں  ، ایک اور بات ، جو دل  کو بھی خوشی سے بھر دیتی ہے اور یقین  کو بھی مضبوط کرتی ہے اور وہ کیا ہے ؟  کیا آپ نے کبھی  توجہ دی  ہے؟ عام طور پر ہمارے یہاں ایک عادت بن چکی ہے – ہوتی ہے ،  چلو یار چلتا ہے ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں ، میرے ملک کا نوجوان ذہن اب خود کو بہترین کی طرف مرکوز کر رہا ہے۔ بہترین کرنا چاہتا ہے ، بہترین طریقے سے کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی قوم کی ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے گا۔

ساتھیو ،

 اس بار اولمپکس نے بہت بڑا اثر ڈالا ہے۔ اولمپک کھیل ختم ہوچکے ہیں ، اب پیرالمپکس جاری ہیں۔  ملک کے لئے ، کھیل کی اس دنیا میں ، جو کچھ ہوا  ، دنیا کے مقابلے بھلے ہی کم ہو لیکن یقین کرنے کے لئے بہت کچھ  ہوا  ہے  ۔  آج نوجوان صرف اسپورٹس کی طرف ہی دیکھ رہا ہے  ، ایسا نہیں ہے  لیکن ہم اس سے جڑے امتحانات کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔  نو جوان  پورے نظام کو  بہت  باریکی سے دیکھ رہا ہے ۔ اس کی افادیت کو سمجھ رہا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں خود کو جوڑنا بھی چاہتا ہے ۔ اب وہ روایتی چیزوں سے آگے بڑھ کر  نئے ڈسپلن اپنا رہا ہے ۔  میرے ہم وطنوں ، جب اتنی رفتار آئی ہے ، ہر خاندان میں کھیلوں پر گفتگو  شروع ہو گئی ہے۔ آپ مجھے بتائیں ، کیا اس رفتار کو اب رکنے دینا چاہیے ، کیا اسے رکنے دیا جائے؟  جی نہیں ۔  آپ بھی میری طرح سوچ رہے ہوں گے۔ اب  ملک میں کھیل ، کھیل  کود ،  اسپورٹس ، اسپورٹس مین  اسپرٹ اب رکنی نہیں ہے ۔ اس رفتار کو خاندانی زندگی میں  ، سماجی زندگی  میں ، قومی زندگی میں مستقل بنانا ہے ۔  توانائی سے بھر دینا  ہے ،  مسلسل نئی توانائی سے  بھر دینا ہے ۔ گھر ہو ، باہر ہو ، گاؤں ہو ، شہر ہو ، ہمارے کھیل کے میدان بھرے ہونے چاہئیں ، ہر ایک کو کھیلنا چاہیے – سب کھیلیں سب کھیلیں  اور  آپ کو  یاد ہے ناں ، کہ میں نے لال قلعہ سے کہا تھا – ‘‘ سب کا پریاس ’’ ۔   جی ہاں ،  سب کی کوشش۔  سب کی کوشش سے ہی بھارت کھیلوں میں وہ اونچائی حاصل کر سکے گا ، جس کا وہ حقدار ہے۔ میجر دھیان چند جی جیسے لوگوں  نے ، جو راہ بتائی ہے ، اُس پر آگے بڑھنا ہماری ذمہ  داری ہے  ۔ سالوں کے بعد ملک میں ایسا دور آیا ہے کہ چاہے وہ ایک خاندان ہو ، ایک معاشرہ ہو ، ایک ریاست ہو ، ایک قوم ہو – تمام لوگ ایک جذبے کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔

میرے پیارے نوجوانوں ،

 ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف قسم کے کھیلوں میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ گاؤں گاؤں کھیلوں کے مقابلوں کو مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ یہ مقابلہ کے ذریعے ہوتا ہے کہ کھیل  کا فروغ ہوتا ہے ، کھیلوں کی ترقی ہوتی  ہے ، کھلاڑی بھی اس سے نکلتے ہیں۔ آئیے ، ہم سب ہم وطن اس رفتار میں جتنا زیادہ  تعاون کر  سکتے ہیں ، ‘ سب کا پریاس ’ ، اس منتر کو پورا کر کے دکھائیں  ۔

میرے پیارے ہم وطنو ،

کل جنم اشٹمی کا عظیم تہوار بھی ہے۔ جنم اشٹمی کے اس تہوار کو ،  بھگوان شری کرشن کی پیدائش کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہم بھگوان کے  ہر روپ  سے واقف ہیں ، نٹ کھٹ  کنہیا  سے لےکر ، عظیم  روپ حاصل کرنےوالے کرشن تک ،  شاستروں کی اہلیت  سے لے کر  شاستر کی حمایت والے کرشن تک ۔  فن ہو ،  خوبصورتی ہو ،  کہاں کہاں کرشن ہیں لیکن یہ باتیں  میں اِس لئے کر رہا ہوں کہ جنم اشٹمی سے کچھ دن پہلے میں   ایک ایسے دلچسپ تجربے سے گزرا ہوں  ،  میرا دل چاہتا ہے کہ یہ باتیں میں آپ کو بتاؤں ۔  آپ کو یاد ہوگا ، اس مہینے کی 20 تاریخ کو بھگوان سومناتھ مندر سے  جڑے تعمیراتی کاموں کی نقاب کشائی کی گئی ہے ۔  سومناتھ مندر سے 3 – 4  کلومیٹر فاصلے پر بھالکا تیرتھ ہے ۔ یہ بھالکا تیرتھ  وہیں ہے  ، جہاں بھگوان شری کرشن نے زمین پر اپنے آخری لمحات گزارے تھے۔ ایک طرح سے، اس  دنیا  کی اُن  کی لیلاؤں  کا وہاں اختتام ہوا تھا ۔ سومناتھ ٹرسٹ کے ذریعہ اس پورے علاقے میں بہت سارے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ میں بھالکا تیرتھ اور وہاں ہونے والے کام کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں نے ایک خوبصورت آرٹ بک دیکھی۔ کسی نے یہ کتاب میرے لیے میری رہائش  کے باہر  کوئی میرے لئے چھوڑ  گیاتھا ۔ اس میں بھگوان شری کرشن کے  مختلف روپوں کو دکھایا گیا تھا ،بہت خوبصورت تصویریں تھی اور بڑی میننگ فُل  تصویریں تھیں ۔ جب میں نے کتاب کے صفحات  کو پلٹنا شروع کیا تو میرا تجسس کچھ اور بڑھ گیا۔ جب میں نے یہ کتاب اور ان تمام تصاویر کو دیکھا اور اس پر میرے لیے ایک پیغام لکھا اور پھر جو میں نے پڑھا ،  تو  میرا دل چاہا کہ ان سے ملوں ، جو یہ کتاب میرے گھر کے پاس چھوڑ گئے ہیں  ، مجھے اُن سے ملنا چاہیئے  تو میرے دفتر نے اُن کے ساتھ رابطہ قائم کیا ۔  دوسرے ہی دن اُن  کو ملنے کے لئے بلایا اور میرا تجسس اتنا تھا  ، آرٹ بُک کو دیکھ کر کے ، شری کرشن کی الگ الگ تصویروں کو دیکھ کر کے ۔ اسی   تجسس میں میری ملاقات جدو رانی  داسی جی سے ہوئی ۔ وہ امریکی ہیں ، پیدائش امریکہ میں ہوئی ،  پرورش امریکہ میں ہوئی ، جدو رانی داسی جی  اسکون  سے جڑی ہیں   ۔ ہرے کرشنا موومنٹ سے جڑی ہوئی ہیں اور ان الگ الگ  موومنٹس  سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کی بہت بڑی خصوصیت ہے  ، ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عقیدت کے فن میں ماہر ہیں۔ آپ جانتے ہیں  ، ابھی دو دن بعد ہی ، یکم ستمبر کو ، اسکون کے بانی  شری پربھو پاد سوامی  جی  کی 125 ویں سالگرہ ہے  ۔ جدو رانی داسی جی  ،  اسی سلسلے میں  بھارت  آئی تھیں ۔ میرے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ  جن کی پیدائش امریکہ میں ہوئی ہے ، وہ ہندوستانی  جذبات سے  اتنی  رہیں ، وہ آخر کیسے بھگوان کرشن کی اتنی خوبصورت   تصاویر بنا لیتی ہیں ۔  میری اُن سے  کافی طویل بات ہوئی تھی  لیکن میں آپ  کو کچھ حصہ سنانا چاہتا ہوں ۔

پی ایم سر: جدو رانی جی ، ہرے کرشنا!

میں نے بھکتی آرٹ کے بارے میں تھوڑا  بہت پڑا ہے لیکن ہمارے سامعین کواِس کے بارے میں  کچھ اور بتائیں ۔ اس کے لئے آپ کا جذبہ اور دلچسپی  بہت زیادہ ہے  ۔

جدو رانی جی: تو  ، بھکتی آرٹ  میں ہمارا ایک مضمون ہے ، جس میں بھکتی آرٹ پر مثالیں دی گئی ہیں کہ کس طرح یہ آرٹ  ذہن  یا تصور سے ابھرتا ہے لیکن قدیم ویدک  صحیفوں میں ، جیسے  بھرم سنہیتا   ۔

  Ven Omkaraya Patitam skilatam Sikand (वें ओंकाराय पतितं स्क्लितं सिकंद), from The Goswami’s of Vrindavan, from the Lord Brahma himself. Eeshwarah paramah krishnah sachchidanand vigrahah ( ईश्वरपरमकृष्णसच्चिदानन्द विग्रह: ) how He carries the flute, how all of his senses can act for any other sense and Srimad bhagwatam (TCR 9.09) (Barhapeend natwarvapuh karnayoh karnakaram ) बर्हापींड नटवरवपुः कर्णयोकर्णिकारं everything,

          وہ  اپنے کانوں میں کرنیکا کے پھول  لگاتے ہیں ۔ انہوں نے   اپنے  کمل  جیسے  پیروں کی  پورے ورندا وَن میں چھاپ  چھوڑی ہے ۔  گائیں  کے ریوڑ ، اُن کی   تعریف کرتے ہیں ۔ اُن کی بانسری  تمام  خوش قسمت لوگوں کے دلوں اور ذہنوں  کو راغب کرتی ہے ۔ اس لئے قدیم ویدک   صحیفوں میں ، جن شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے اور جو   حقیقی طور پر عقیدت مند ہیں  ، اسے ایک آرٹ کے طورپر اپناتے ہیں اور اس قوت کی وجہ سے  یہ  زندگی تبدیل کرنے والی ہے اور اس میں میری کسی  قوت کا  دخل نہیں ہے ۔

پی ایم سر :

          جدو رانی جی ، میرے آپ سے کچھ الگ طرح کے سوال ہیں ۔ 1966 ء سے ، اور خاص طور سے 1976 ء سے آپ  طویل عرصے سے بھارت سے منسلک ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ بھارت  ،آپ کے لئے کیا حیثیت رکھتا ہے ؟

جدو رانی جی:

وزیر اعظم جی ، بھارت  میرے لئے سب کچھ ہے۔ میں  بتاتی ہوں کہ میں نے  کچھ دن پہلے صدر  جمہوریہ سے  بات کی تھی کہ بھارت تکنیکی طورپر بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے اور ٹوئیٹر  انسٹاگرام اور آئی فون اور بڑی بڑی عمارتوں  میں مغرب کی راہ پر آگے بڑھا ہے ۔ یہاں تک کے ہر سہولت میں آگے بڑھ رہا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ بھارت کی حقیقی عظمت نہیں ہے ۔ بھارت کو ، جو چیز عظیم بناتی ہیں ، وہ  حقیقت  یہ ہے کہ کرشنا  خود اوتار لے کر یہاں آئے اور سبھی اوتار یہاں پہنچے ۔ بھگوان شیو نے یہاں اوتار لیا ، بھگوان رام یہاں آئے ۔ تمام مقدس دریا یہاں ہیں ۔ ویشنو کلچر  کے تمام  مقدس مقامات یہاں  ہیں ۔ اس لئے بھارت ، خاص طور پر ورندا  وَن پوری کائنات میں سب سے اہم مقام ہے ۔ ورندا وَن تمام ویکنٹھ  سیاروں کا وسیلہ ہے ، دواریکا کا وسیلہ ہے ۔ تمام ماد ی تخلیق کا وسیلہ ہے ۔ اس لئے میں بھارت سے محبت کرتی ہوں ۔

پی ایم سر : شکریہ یدو رانی راجی   ۔ ہرے کرشنا !

ساتھیو ،

 جب دنیا کے لوگ آج ہندوستانی روحانیت اور فلسفے کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں ، تب ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ان عظیم روایات کو آگے بڑھائیں۔ جو لازوال ہے  ، اسے چھوڑنا  ہی ہے  لیکن جو  گزرا ہوا زمانہ ہے ، اُسے آگے بھی لے جانا ہے ۔  آئیے  ، ہم اپنے تہوار منائیں ، اس کی سائنسی اہمیت  کو سمجھیں ، اس کے  پس پشت  معنی کو سمجھیں۔ یہی نہیں ، ہر تہوار میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے ، کوئی نہ کوئی رسم ہوتی ہے۔ ہمیں اسے جاننا بھی ہے ، اسے زندہ رکھنا ہے اور اسے آنے والی نسلوں کے لئے میراث کے طور پر منتقل کرنا ہے۔ میں ایک بار پھر تمام اہل وطن کو جنم اشٹمی  کی  بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو ، مجھے اس کورونا دور میں صفائی کے بارے میں جتنی بات کرنی چاہیئے تھی ،  لگتا ہے ، شاید اس  میں  کمی آئی  ہے۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں صفائی کی مہم کو ذرا بھی  کم  نہیں ہونے دینا چاہیئے ۔ قوم کی تعمیر کے لیے ہر ایک کی کوششیں کس طرح ترقی کرتی ہیں ، اس کی مثالیں بھی ہمیں متاثر کرتی ہیں اور کچھ کرنے کے لیے نئی توانائی دیتی ہیں ، نیا اعتماد دیتی ہیں ، ہمارے عزم کو زندگی دیتی ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب بھی سووچھ بھارت ابھیان کی بات آتی ہے  تو  اندور کا نام سامنے آتا ہے کیونکہ اندور نے صفائی کے حوالے سے ایک خاص پہچان بنائی ہے اور اندور کے شہری اس کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہمارا اندور کئی سالوں سے ‘ سوچھ بھارت رینکنگ ’ میں پہلے نمبر پر رہا ہے۔ اب اندور کے لوگ سووچھ بھارت کی اس درجہ بندی سے مطمئن نہیں بیٹھنا چاہتے ، وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں اور انہوں  نے اپنے ذہن میں جو فیصلہ کیا ہے ، وہ  ‘ واٹر پلس سٹی ’  کو برقرار رکھنے کے لئے  سخت محنت کر رہےہیں ۔  ‘ واٹر پلس سٹی ’ یعنی  ایسا  شہر  ، جہاں  صفائی کے بغیر کسی بھی  سیوریج  کا پانی عام پانی کے وسائل میں نہیں چھوڑا جاتا ۔  یہاں کے شہریوں نے خود آگے آکر  اپنی  نالیوں کو سیور لائن سے جوڑا ہے۔ سووچھتا ابھیان بھی چلایا ہے اور اس وجہ سرسوتی اور کانہا دریاؤں میں گرنے والا گندا پانی بھی کافی حد تک کم ہوگیا ہے اور بہتری نظر آرہی ہے۔ آج ، جب ہمارا ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے ، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہمیں سووچھ بھارت ابھیان کی قرارداد کو کبھی سست نہیں پڑنے دینا ہے۔ ہمارے ملک میں جتنے زیادہ شہر ‘پلس سٹی ’ ہوں گے ، اتنا ہی صفائی میں اضافہ ہوگا ، ہمارے دریا بھی صاف ہوں گے اور پانی بچانے کی انسانی ذمہ داری کو پورا کرنے کی بھی تہذہب ہو گی ۔

دوستو ،

 بہار کے مدھوبنی سے میرے سامنے ایک مثال آئی ہے۔ مدھوبنی میں ڈاکٹر راجندر پرساد زرعی یونیورسٹی اور مقامی کرشی وگیان مرکز نے مل کر اچھی کوشش کی ہے۔ کسانوں کو اس کا فائدہ مل رہا ہے ، یہ سووچھ بھارت ابھیان کو نئی طاقت بھی دے رہا ہے۔ یونیورسٹی کے اس اقدام کا نام ہے – ‘‘ سکھیت  ماڈل ’’ ۔ سکھیت  ماڈل کا مقصد دیہات میں آلودگی کو کم کرنا ہے۔ اس ماڈل کے تحت گاؤں کے کسانوں سے گائے کا گوبر اور دیگر گھریلو کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے اور بدلے میں گاؤں والوں کو کھانا پکانے کے گیس سلنڈر کے لیے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ گاؤں سے جمع ہونے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے ورمی کمپوسٹ بنانے کا کام بھی کیا جا رہا ہے یعنی سکھیت  ماڈل کے چار فوائد براہ راست نظر آتے ہیں۔ ایک ، گاؤں آلودگی سے آزاد ، دوسرا گاؤں گندگی سے آزاد ، تیسرا گاؤں والوں کو ایل پی جی سلنڈر کے پیسے اور چوتھا گاؤں کے کسانوں کو نامیاتی کھاد  کی فراہمی۔ آپ سوچیئے  ،  اس طرح کی کوششیں ہمارے دیہات کی طاقت کو کتنا بڑھا سکتی ہیں۔ یہ خود انحصاری کا موضوع ہے۔ میں ملک کی ہر پنچایت سے کہوں گا کہ انہیں بھی یہاں کچھ ایسا کرنے کا سوچنا چاہیئے  اور دوستو ، جب ہم ایک مقصد کے ساتھ نکلتے ہیں تو  نتیجے کا ملنایقینی ہوتا ہے ۔ اب  دیکھئے نا ، ہمارے تمل ناڈو  میں شیو گنگا ضلع کی کانجی رنگال پنچایت  ۔ دیکھیئے ،   اس چھوٹی  سی پنچایت نے کیا کیا ۔  یہاں  پر آپ کو ویسٹ سے ویلتھ  کا ایک ماڈل  دیکھنے کو ملےگا ۔  یہاں گرام پنچایت نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے گاؤں میں کچرے سے بجلی پیدا کرنے کا  پروجیکٹ  گاؤں میں لگایا ہے ۔ پورے گاؤں سے کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے ، اس سے بجلی پیدا ہوتی ہے اور باقی بچے  ہوئے  فضلہ کو  کیڑے مار  دوا کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے ۔ گاؤں کے اس پاور پلانٹ کی صلاحیت یومیہ دو ٹن کچرے کا استعمال کرنا ہے ۔ اس سے بننے والی بجلی گاؤں کی سڑکوں پر لگی لائٹوں اور دوسری ضرورتوں میں استعمال ہو رہی ہے ۔   اس  سے پنچایت کا پیسہ تو بچ  ہی رہا  ہے اور پیسہ  دوسرے کاموں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔  اب مجھے بتائیے  ، تمل ناڈو کے شیو گنگا ضلع کی  ایک چھوٹی سی  پنچایت ہم سبھی  ہم وطنوں کو کچھ کرنے  کی تحریک دیتی  ہے یا نہیں ،کمال ہی کیا ہے نا انہوں  ۔

میرے پیارے ہم وطنو ،

‘ من کی بات ’  اب ہندوستان کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف کونوں میں بھی ‘ من کی بات ’ پر گفتگو ہوتی ہے اور بیرونی ملکوں میں رہنے والے ہمارے  ہندوستانی سماج  کے لوگ  ، وہ بھی مجھے  بہت سی نئی نئی معلومات دیتے رہتے ہیں اور  مجھے بھی کبھی کبھی ‘ من کی بات ’ میں بیرونی ملکوں میں ، جو انوکھے پروگرام چلتے ہیں ، اُن  کی باتیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا اچھا لگتا ہے ۔ آج بھی میں آپ کو کچھ ایسے لوگوں سے متعارف کراؤں گا لیکن اس سے پہلے میں آپ کو ایک آڈیو  سنانا چاہتا ہوں۔  تھوڑا غور سے سنیئے ۔

##

[रेडियो युनिटी नाईन्टी एफ्.एम्.-2]

नमोनमः सर्वेभ्यः मम नाम गङ्गा भवन्तः शृण्वन्तु रेडियो-युनिटी-नवति-

एफ्.एम् –‘एकभारतं श्रेष्ठ-भारतम्’ | अहम् एकतामूर्तेः मार्गदर्शिका एवं रेडियो-

युनिटी-माध्यमे आर्.जे. अस्मि अद्य संस्कृतदिनम् अस्ति सर्वेभ्यः बहव्यः

शुभकामनाः सन्तिसरदार-वल्लभभाई-पटेलमहोदयः लौहपुरुषः’ इत्युच्यते २०१३-

तमे वर्षे लौहसंग्रहस्य अभियानम् प्रारब्धम् १३४-टन-परिमितस्य लौहस्य गलनं

कृतम् झारखण्डस्य एकः कृषकः मुद्गरस्य दानं कृतवान् भवन्तः

शृण्वन्तु रेडियो-युनिटी-नवति-एफ्.एम् –‘एकभारतं श्रेष्ठ-भारतम्’ |

[रेडियो युनिटी नाईन्टी एफ्.एम्.-2]

##

ساتھیو ،

زبان تو آپ نے  سمجھ گئے ہوں گے ۔  یہ ریڈیو پر  سنسکرت میں بات کی جا رہی ہے اور جو بات کر رہی ہیں ،  وہ آر جے گنگا ہیں ۔ آر جے گنگا گجرات کے ریڈیو جوکی گروپ کی رکن ہیں۔ ان کے  اور بھی  ساتھی ہیں ، جیسے آر جے نیلم ، آر جے گرو اور آر جے ہیتل۔ یہ تمام لوگ گجرات میں ، کیوڑیا میں اِس وقت سنسکرت زبان کی قدر بڑھانے میں مصروف ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کیوڑیا وہی ہے  ، جہاں دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ، ہمارے ملک کا فخر ، مجسمۂ اتحاد  ہے  ،  میں اس کیوڑیا کے بارے میں بات کر رہا ہوں اور یہ سب ایسے ریڈیو جوکی ہیں ، جو بیک وقت کئی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ گائیڈ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں  نیز کمیونٹی ریڈیو انیشئیٹو ، ریڈیو یونٹی 90 ایف ایم چلاتے ہیں۔ یہ آر جے اپنے سننے والوں سے سنسکرت زبان میں بات کرتے ہیں ، انہیں سنسکرت میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔

 ساتھیو ،

ہمارے یہاں  سنسکرت کے بارے میں  کہا گیا  ہے –

अमृतम् संस्कृतम् मित्रसरसम् सरलम् वचः |

एकता मूलकम् राष्ट्रेज्ञान विज्ञान पोषकम् |

یعنی ہماری سنسکرت زبان  میٹھی بھی ہے اور آسان بھی ۔

          سنسکرت  اپنے خیالات ، اپنے  ادب کے ذریعے ، اس علم ، سائنس اور قوم کی وحدت کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔  اس کو مضبوط کرتی ہے ۔ یہ سنسکرت ادب میں انسانیت اور علم کا الہی فلسفہ ہے ، جو کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کرسکتا ہے۔ حال ہی میں ، مجھے ایسے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا ، جو بیرون ملک سنسکرت پڑھانے کا  تحریکی  کام کر رہے ہیں۔ ایسے  ہی ایک شخص  ہیں ،جناب رٹگر کورٹن ہارسٹ  ، جو آئر لینڈ میں  سنسکرت کے معروف دانشور ہیں اور استاد ہیں اور وہاں بچوں کو سنسکرت پڑھاتے ہیں ۔ اِدھر ہمارے یہاں مشرق  میں بھارت اور تھائی لینڈ کے درمیان  ثقافتی تعلقات کی مضبوطی میں سنسکرت کا بھی اہم کردار ہے ۔  ڈاکٹر چراپت پرپنڈ وِدیا اور ڈاکٹر کسوما  رکشا منی ، یہ دونوں تھائی لینڈ میں سنسکرت زبان کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے تھائی اور سنسکرت زبانوں میں تقابلی ادب بھی تحریر کیا ہے۔ ایسے ہی ایک پروفیسر مسٹر بورس زاخرِن ہیں ، جو روس کی ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں سنسکرت پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے کئی تحقیقی مقالے اور کتابیں شائع کی ہیں۔ انہوں نے سنسکرت سے روسی میں کئی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح سڈنی سنسکرت اسکول  ، آسٹریلیا کے معروف اداروں میں سے ایک ہے ، جہاں طلباء کو سنسکرت زبان سکھائی جاتی ہے۔ یہ اسکول بچوں کے لئے سنسکرت گرامر کیمپ ، سنسکرت ناٹک اور سنسکرت ڈے جیسے پروگراموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔

ساتھیو ،

حالیہ دنوں میں کی جانے والی کوششوں نے سنسکرت کے بارے میں ایک نئی آگاہی پیدا کی ہے۔ اب اس سمت میں اپنی کوششوں کو بڑھانے کا وقت آگیا ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے ورثے کا خیال رکھیں ، اسے سنبھالیں ، نئی نسل کو دیں اور آنے والی نسلوں کا بھی اس پر حق ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کاموں کے لیے بھی سب کی کوششیں بڑھائی جائیں۔  ساتھیو ، اگر آپ اس طرح کی کوششوں میں مصروف کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں ، اگر آپ کے پاس ایسی کوئی معلومات ہے ، تو براہ کرم سوشل میڈیا پر ان سے متعلقہ معلومات CelebratingSanskrit# کے ساتھ شیئر کریں۔

میرے پیارے ہم وطنو ،

اگلے کچھ دنوں میں ہی ‘ وشوکرما جینتی ’ بھی آنے والی ہے ۔ بھگوان وشوکرما کو  ہمارے یہاں دنیا کی تخلیقی طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جو بھی تخلیق کرتا ہے ، اپنی مہارت سے کوئی چیز تخلیق کرتا ہے ، چاہے وہ سلائی کڑھائی ہو ، سافٹ وئیر ہو یا سیٹلائٹ ، یہ سب بھگوان وشوکرما کا مظہر ہے۔ اگرچہ آج دنیا میں ہنر کو ایک نئے طریقے سے تسلیم کیا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے  رشیوں نے ہزاروں سالوں سے مہارت اور پیمانے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مہارت کو ، ہنر کو  ، اہلیت کو  عقیدت سے جوڑ کر ہماری زندگی کا حصہ بنا دیا ہے ۔ ہمارے ویدوں نے بھی کئی  سُکت بھگوان وشو کرما کو وقف کی ہیں ۔ کائنات کی تمام عظیم تخلیقات ، جو بھی نئی اور بڑی چیزیں کی گئی ہیں ، ان کا کریڈٹ ہماری کتابوں میں بھگوان وشوکرما کو دیا گیا ہے۔ ایک طرح سے ، یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ دنیا میں جو بھی ترقی اور جدت واقع ہوتی ہے ، وہ صرف مہارت سے ہوتی ہے۔ بھگوان وشوکرما کی سالگرہ اور ان کی پوجا کے پیچھے یہی روح ہے اور ہمارے  شاستروں  میں بھی یہی کہا گیا ہے –

विश्वम कृत्-सन्म कर्म व्यापारो यस्य सः विश्वकर्मा

 یعنی جو کائانت اور تعمیر سےجڑے کام کرتاہے ، وہ وشو کرما ہے ۔ ہمارے شاستروں کی نظر میں ، ہمارے ارد گرد تخلیق اور تخلیق میں مصروف تمام ہنر مند لوگ بھگوان وشوکرما کی میراث ہیں۔ ہم ان کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آپ سوچیئے  اور دیکھیئے  ، اگر آپ کے گھر میں بجلی کا کوئی مسئلہ ہے اور آپ کو کوئی الیکٹریشن نہیں ملتا تو کیا ہوگا؟ آپ کو کتنا بڑا مسئلہ درپیش ہوگا۔ ایسے کئی ہنر مند لوگوں کی وجہ سے ہماری زندگی چلتی ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھئے ، چاہے لوہے کا کام کرنے والے ہوں ، مٹی کے برتن بنانے والے ہوں ، لکڑی کے کام کرنے والے ہوں ، الیکٹریشن ہوں ، گھر کا پینٹر ہو ، جھاڑو لگانے والا ہو ، یا موبائل لیپ ٹاپ  کا ریپیئر کرنے والا ہو ، یہ سب ساتھی مرمت کرنے والے صرف اپنی مہارت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔  نئی  شکل میں ، وہ وشوکرما بھی ہیں۔ لیکن دوستو ، اس کا ایک اور پہلو ہے اور یہ بعض اوقات تشویش کا باعث بھی بنتا ہے ۔  ایک ایسے ملک میں  ، جہاں کی تہذیب میں ، روایت میں ، سوچ میں ، ہنر کو ، اسکل مین پاور کو بھگوان وشوکرما کے ساتھ جوڑ دیا  گیا ہو ، وہاں صورت حال کیسے بدل گئی ہے ،ایک وقت تھا ، ہماری  خاندانی زندگی ، سماجی زندگی ، قومی زندگی  پر اہلیت کا بہت بڑا اثر رہتاتھا  لیکن غلامی کے  لمبے دور  میں ہنرکو اس طرح کا احترام دینے والا جذبہ رفتہ رفتہ ختم ہو گیا ہے۔ اب کچھ ایسی سوچ بن گئی ہے  کہ ہنر پر مبنی کام کو چھوٹا سمجھا جانے لگا ہے اور آج دیکھیئے  ، پوری دنیا  ، سب سے زیادہ ہنر یعنی اسکل پر ہی زور دے رہی ہے۔ بھگوان وشوکرما کی پوجا بھی صرف رسموں سے ہی پوری نہیں ہوئی ۔  ہمیں ہنر کا احترام کرنا ہوگا ، ہمیں ہنر مند بننے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔  ہنر مند ہونے پر فخر کرنا چاہیئے ۔  جب ہم کچھ نیا  کام کریں تو کچھ اختراعی کریں ، کچھ ایسا کام کریں ، جس سے سماج کا بھلاہو ، لوگوں کی زندگی آسان بنے ۔ تب ہماری وشوکرما پوجا درست ثابت ہو گی ۔ آج دنیا میں ہنر مند افراد کے لیے مواقع کی کمی نہیں ہے۔  ترقی کے کتنے راستے آج ہنر سے تیار ہو رہے ہیں ۔ تو آئیے ، اس بار ہم ،  بھگوان وشوکرما کی پوجا پر  ، آستھا کے ساتھ ساتھ ، اُن کے پیغامات کو بھی اپنانے کا  عہد کریں  ۔ ہماری پوجا کا جذبہ یہی ہونا چاہیئے  کہ ہم ہنر مندی کی اہمیت کو سمجھیں ، ہنر مند لوگوں کو ، چاہے وہ کوئی بھی کام کرتا ہو ، ان کا  پورا احترام  کیا جائے گا ۔

میرے پیارے ہم وطنو ،

یہ وقت آزادی کے  75 ویں سال  کا ہے۔ اس سال تو ہمیں ہر دن نیا عہد کرنا ہے ۔ نیا سوچنا ہے اور کچھ نیا کرنے کا اپنا جذبہ بڑھانا ہے ۔ ہمارا بھار ت ، جب آزادی کے 100 سال پورے کرے گا ، تب ہمارے  یہ  عہد ہی  ، اس کی کامیابی کی بنیاد بنیں گے ۔ ہمیں اس میں اپنا زیادہ سے زیادہ  تعاون دینا ہے  اور ان کوششوں کے بیچ ہمیں ایک بات اور یاد رکھنی ہے ۔ دوائی بھی ، کڑھائی بھی ۔ ملک میں 62 کروڑ سے زیادہ ویکسین کی ڈوز دی جا چکی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں  احتیاط رکھنی ہے احتیاط برتنی ہے ۔ اور ہاں ، ہمیشہ کی طرح ، جب بھی آپ کچھ نیا کریں ،  نیا سوچیں ، تو اس میں ، مجھے بھی شامل کریئے گا ۔ مجھے آپ کے خط اور  میسیج کا انتظار  رہے گا ۔   اسی خواہش کے ساتھ ، آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی ایک بار پھر بہت بہت مبارکباد ، بہت بہت شکریہ ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More