23 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

عمان کی راجدھانی مسقط میں ہندوستانی برادری کے پروگرام میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

نئی دہلی، اتنی بڑی تعداد میں یہاں آئے ہوئے میرے پیارے ہم وطنو!آپ سب کو بہت بہت نمسکار۔

یہ ہمارے ملک کی کتنی بڑی طاقت ہے کہ اگر میں صرف نمسکار اپنے یہاں کی الگ الگ زبانوں اور بولیوں میں کرنے لگوں تو گھنٹے نکل جائیں گے۔ یہ تنوع پوری دنیا اور کسی دوسرے ملک میں نہیں ملے گا۔

آج میں اپنے سامنے  بھارت کے باہر عمان کی سرزمین پر ایک   چھوٹا بھارت دیکھ رہا ہوں۔ ملک کے الگ الگ  کونوں سے آئے ہوئے بھارتی، الگ الگ شعبوں میں کام کرنے والے بھارتی، ایک خوبصورت تصویر کی تعمیر آج میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔

میرے ساتھ پوری طاقت کے ساتھ بولئے … بھارت ماتا کی ….جے، بھارت ماتا کی ….جے، بھارت ماتا کی ….جے۔ وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم۔

بھائیو اور بہنو!

یہ عمان کے لئے میرا پہلا دورہ ہے۔ دو گھنٹے پہلے میں یہاں دبئی سے آپ کے  درمیان آیا ہوں ۔آپ نے شاید ٹی وی میں دیکھا ہوگا وہاں مجھے ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں متحدہ عرب امارات کے صدر کی دعوت پر مہمان خصوصی  کے طور پر ٹیکنالوجی یا ڈیولپمنٹ کے موضوع پر افتتاحی دینے کا موقع ملا۔یہ صرف کسی ایک  پروگرام میں تقریر کرنے تک کا محدود موضوع نہیں ہے۔ یہ واقعہ اپنے آپ میں  بھارت کی ترقی کی عزت ہے ۔جو آج دنیا عزت دے رہی ہے ۔سرکاری دورہ میرا آج ہو رہا ہے لیکن دس سال پہلے جب میں گجرات میں وزیر اعلی تھا تو وزیر اعلی کے طور پر میری افریقہ کا سفر تھا اور اسی دوران میں سلالہ سے ہوکر گزرا تھا۔کچھ وقت وہاں رکا تھا اور اس وقت جو لوگ مجھے وہاں ملے تھے  ان سب سے آج  پھرمجھے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ایک طویل عرصے سے عمان آنے کا، آپ کے درمیان آنے کا، آپ سے ملنے کا میرا من کرتا تھا لیکن وہ موقع آج آیا ہے۔

عمان حکومت کو، عمان انتظامیہ کو ان انتظامات کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو بھارت اور عمان کے درمیان تعلقات سینکڑوں ہزاروں سال  پرانے ہیں۔  پانچ ہزار سال پہلے بھی گجرات کے لوتھل پورٹ سے لکڑی کے جہاز عمان تک آتے تھے اورلوٹتے وقت یہ جہاز لوتھل سے بھی آگے جنوب کی طرف بھارت کے سمندری ساحلوں سے ہوتے ہوئے سری لنکا تک جاتے تھے۔ ان ہزاروں سالوں میں صورتحال تبدیل ہوگئی  ہے ۔ بھارت میں غلامی کی ایک طویل تاریک دور آیا لیکن ہمارے صدیوں پرانے تجارتی  اور دلی رشتے  ویسے ہی قائم رہے۔بھارت کی آزادی کے بعددونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی نیز  سماجی تعلقات کو مزید  مستحکم  کرنے کیلئے  ادارے  بنے۔بھارت کے، ہمارے ہندوستان میں جو وسطی حصہ ہے وہاں جو  بینا ریفائنری ہے  وہ  بینا ریفائنری عمان کے تعاون سے چل رہی ہے۔ وہیں بھارتی کمپنیوں کے ڈیڑھ  ہزار سے زائد مشترکہ کمپنیاں  یہاں عمان میں کام کر رہی ہیں۔ عمان کی ترقی اور وکاس میں بھارت اور بھارت کے  سبھی ہونہار ہمارے ایک طرح سے قومی سفیر۔ یہ آپ سب کی حصہ داری رہی ہے۔حکومت کی طرف سے تو ایک سفیر ہوتا ہے لیکن ملک کی طرف سے یہاں پر لاکھوں قومی سفیر عمان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ گزشتہ تین سال سے ہم کس طرح ایک پالیسی بنا کر خلیج کے ممالک کے ساتھ بھارت کے پرانے اور دوستانہ  رشتوں کو آج کے وقت کے مطابق ایک نیا جامہ پہنا رہے ہیں۔ ایک نئی بلندیوں پر لے جا رہے ہیں  مختلف طریقوں سے جوڑ رہے ہیں ۔ آپ نے یہ بھی غور کیا ہوگا کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی ترقی اور ساتھ ہی ساتھ خلیجی ممالک کی بھارت میں دلچسپی دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ آپ لوگ تجربہ کرتے ہیں کہ نہیں کرتے ہیں ۔آپ لوگ محسوس کرتے ہیں۔ چاروں طرف اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ توانائی ہو ،تجارت ہو سرمایہ کاری ہو،  ہر شعبے میں خلیجی ملکوں کے ساتھ تعلقات اپنے آپ میں اور بھی نہایت اہم ہوتے جا رہے ہیں ۔  ظاہر سی بات ہے کہ عمان  کے ساتھ بھارت کے تاریخی رشتوں میں بھی ایک نئی رفتار آ گئی ہے۔ ایک نئی توانائی آئی ہے۔عمان جغرافیائی  اعتبار سے بھارت کا خلیجی ملکوں میں سب سے قریبی ہمارا  پڑوسی ہےاور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ شاہی خاندان کے ساتھ بھارت کے ساتھ بہت بہتر  اور پرانے تعلقات ہیں۔ عالی جاہ سلطان کا بھی بھارت سے  اٹوٹ رشتہ  رہا ہے۔

آج اتنی بڑی تعداد میں آپ سب سے  مخاطب ہونے کے لئے عالی جاہ  سلطان کے نام پر اسٹیڈیم میں میری موجودگی ایک خصوصی اہمیت کا حامل واقعہ ہے ۔یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ خود عالی جاہ سلطان اور عمان بھارت اور بھارتیوں کے ساتھ کتنا پیار رکھتے ہیں ۔ اس نہایت خصوصی اہمیت اور  پیار  کیلئے  ہم ان کا بہت بہت بہت شکریہ ادا کرتے ہیں۔

آپ سے بات چیت کے بعد میں عالی جاہ سلطان سے ملنے سے جا رہا ہوں اور میں انہیں ان کی صحت اور لمبی عمر کے لئے سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی طرف سے  اپنی طرف سے ، آپ سب کی طرف سے نیک خواہشات پیش کروں گا اور میں ان سے کہوں گا کہ میرے آنے کا مقصدہمارے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کو اور بھی مضبوط بنانا ہے۔ آپ سب کو عمان میں آج گھر جیسا ماحول ملتا ہے اور وہ ایسے ہی نہیں مل رہا ہے۔ آپ کو یہاں گھر جیسا جو ماحول ملتا ہے وہ یہاں کے لوگوں اور یہاں کی قیادت کے ان قدروں کے نشان ہیں جن کو ہم بھارت میں تنوع اور تکسیریت کے لئے بہت ہی اہم تصور کرتے ہیں ۔

عمان میں رہنے والے میرے قریب 8 لاکھ بھائی بہن  بھارت کے خیر سگالی کے سفیر ہیں۔ آپ نے عمان کی ترقی کے لئے اپنا اہم تعاون دیا ہے۔ اپنا پسینہ بہایا ہے، اپنی جوانی یہاں کھپا دی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ عمان کی سرکار بھی آپ کی بے پناہ محنت کا پورا احترام کرتی ہے۔

بھائیو اور بہنو!

ہم بھارتیوں کا سماجی سنسکار ایسا ہے کہ ہم ہر سماج میں آسانی سے جگہ بنا لیتے ہیں۔ یہی ہوتا ہے نا؟جیسے دودھ میں شکر ملے تو مل جاتے ہیں نا؟اور دودھ میٹھا کر دیتے ہیں، یہ ہمارے سنسکار ہیں ، یہ ہمارا مزاج  ہے اور یہ ہمیں  وراثت میں ملا ہے کیونکہ ہم واسودھیو کٹم بکم،  جو پوری دنیا کو ایک فیملی مان کر کے چلنے والے لوگ ہیں ۔وقت اور سماج کے مطابق ڈھل جانا ، اپنے مزاج ،،اپنی تہذیبوں ،اپنے رسوم رواج، ان سب کو سنبھالتے ہوئے ہر کسی کی عزت کرنا  ، ہر تہذیب کو عزت بخشنا یہی تو بھارت کی خصوصیت ہے۔ آپ یہاں بھارت سے دور  اِن سنسکاروں کے ساتھ جی کر کے یہاں کے عام  شہریوں کے دل کو جیتنے کا ایک بے مثال کام کر رہے ہیں اور اس لئے آپ مبارکباد کے قابل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کا نقشہ بھلے ہی بدل گیا ہو، بڑے بڑے ملک ختم ہو گئے ہوں لیکن بھارت آج بھی پوری بلندی کے ساتھ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔ راستہ کتنا ہی کٹھن ہو ،حالات کتنے ہی مشکل ہوں ہم وہ لوگ ہیں جنہیں پریشانیوں سے نکلنا آتا ہے۔ تبدیلی کے لئے ،بدلاؤ کے لئے ہمارے اندر کی جو بے چینی ہے ، نا امیدی سے ہمیں امید اور نئی امنگ کے ساتھ باہر نکلنا یہی ہمارا جذبہ ہے۔

بھائیو اور بہنو!

آج ہر بھارتی نیو انڈیا ،نیو انڈیا کے عہد کو پورا کرنے کےلئے جی جان سے لگا ہوا ہے۔ دن رات کام کر رہا ہے۔ عمان میں بیٹھے ہوئے آپ لوگ ہندوستان میں کوئی اچھا واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہاں آپ کی خوشیوں کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔آپ خوشی سے سمائے نہیں رہتے ہیں ۔  لیکن ایک آدھ بری خبر کا پتہ چلے تو آپ لوگ کتنے بے چین ہو جاتے ہیں ۔یہی ہم لوگوں کی خاصیت ہے ۔اپنا پن۔

ہم ایک ایسے بھارت کی تعمیر کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں غریب سے غریب شخص کو آگے بڑھنے کا برابر موقع ملے، جہاں غریب سے غریب شخص بھی خواب دیکھ سکے ۔ ان  خوابوں کو پورا کرنے کی امید پیدا ہو۔ان خوابوں کو پورا کرنے کےلئے  مناسب راستے ملے۔ ضرورت پڑے تو وہاں کوئی انگلی پکڑ کر چلانے والاملے اور اسی طرح کے سوا سو کروڑ ہم وطنوں کو ساتھ لے کر  آج ملک  ترقی کے راستے پر پہلے سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ، رفتار کے ساتھ نیو انڈیا کے خواب کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے۔

کم از کم حکمرانی اور زیادہ سے زیادہ نظم و نسق اس منتر کے ساتھ ہم ملک کے عام شہری کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے  متعدد  کام کر رہے ہیں۔ قواعد و ضوابط کو آسان بنانا،  غیر ضروری قوانین کو ختم کرنا ،سرکاری دفتر میں 50-40 صفحے کے فارم کو 5-4 صفحے کے فارم پر لے آنا ، انہیں آن لائن بھرنے کے لئے مناسب انتظام کرنا ،لوگوں کی شکایات کو سنجیدگی کے ساتھ سنا جانا ، ان پر ایکشن لینا، ان سارے کاموں کو ہم نے سرکار کے کلچر میں شامل کرنے کےلئے بھر پور کوشش کی ہے۔

سرکار تو وہی ہے ،لوگ وہی ہیں، وہی افسر شاہی ہے ، وہی وسائل ہیں ، وہی فائل ہے ، وہی بابو ہے، سب کچھ وہی ہے لیکن نیتجے کچھ اور آ رہے ہیں ۔ بدلاؤ محسوس ہونے لگا ہے۔ بدلے ہوئے بھارت میں آج غریب سے غریب بھی ،اس کو بینکوں سے دھتکار کر بگایا نہیں جا سکتا ہے۔ بدلے ہوئے بھارت میں اب سرکار گھر پر جا کر کے ، سامنے سے جا کر کے ، غریب بیوہ کے گھر پر جا کر کے،گیس کا کنکشن دے رہی ہے۔ جس کے گھر میں آج بھی اندھیرا ہے ان کو گھروں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر مفت میں بجلی کنکشن دینے کی مہم آج سرکار چلا رہی ہے۔

آج ملک میں ، اور آپ عمان والوں کو تھوڑا ، مودی جی ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔آپ یقین نہیں کریں گے،انشورنس کا لفظ سنتے ہی ایسا لگتا تھا کہ یہ تو امیروں کا کام ہے ، یہ تو بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا معاملہ ہے۔آج دلی میں ایسی سرکار کو آپ نے کام کرنے کو موقع دیا ہے جو غریبوں کو صرف 90 پیسے فی دن اور دیگر یوجنا ہے کہ ایک روپیہ مہینے کے پریمیم پر زندگی اور تحفظ کا بیمہ دیا جا رہا ہے،90 پیسے ، میں چائے والا ہوں  اس لئے مجھے معلوم ہے کہ چائے بھی نہیں آتی ہے 90 پیسے میں ۔ ان بیمہ  یوجناؤں کے تحت جن خاندانوں کا بیمہ تھا  اور ان کے خاندان میں کوئی  پریشانی آئی تو آپ کو جان کر اطمینان محسوس ہوگا کہ غریبوں کے تئیں حساس سرکار جب ہوتی ہے  اور یوجنا ایسی بناتی ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ غریب کے خاندان میں کوئی پریشانی آئی ،کوئی مصیبت آئی تو انشورنس والے تھے۔ ایسے خاندانوں کو زیادہ وقت نہیں ہوا ہے مشکل سے ایک سال ہوا ہے۔ قریب قریب دو ہزار کروڑ روپے اس کے دعوے کی رقم ایسے غریب خاندانوں کو دی جا چکی ہے  آپ میں سے  بہت سے لوگوں کو تجربہ ہوا ہوگا۔ آپ کے خاندان، رشتے داروں پر کوئی مصیبت آئی ہوگی تو پتہ چلا ہوگا۔

ساتھیوں، آپ لوگوں کو نیا پاسپورٹ بنوانے کے لئے، پاسپورٹ کی تجدید کروانے کیلئے بھٹکنا نہیں پڑتا ہے ،ہم نے پوسٹ آفس میں بھی پاسورٹ سے متعلق انتظامات کی توسیع کر دی ہے ۔  تاکہ عام شہری کو ، جو پاسپورٹ پہلے ہفتہ ، 15 دن کے بعد بھی ملےگا یا نہیں ملے گاتشویش رہتی تھی۔ آج صلاحیت کے سبب ،لامرکزیت پر مبنی نظام کے سبب، پوسٹ میں اس کام کو جوڑنے کے سبب ایک یا دو دن میں پاسپورٹ آ جاتا ہے ۔

ہمارے ملک میں کوئی صنعت کاری کرنا چاہتا ہے ،نئی کمپنی بنانا چاہتا ہے ،پونجی لگانا چاہتا ہے تو ایک زمانہ تھا کہ نئی کمپنی رجسٹرڈ کرانے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔ میں کافی اطمینان اور کافی تسلی کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج وہ کام صرف اور صرف 24 گھنٹے میں ہو جا تا ہے ۔ آپ نے پہلے سنا ہوگا کہ سرکاریں اعلانات کرتی رہتی تھیں۔ کہ ہم نے یہ قانون بنایا، ہم نے وہ قانون بنایا، ہم نے فلاں قانون بنایا ،ہم نے فلانا بنایا یہی سنا تھا نا آپ لوگوں نے، یہی سنتے تھے ، میں اس سے الٹی خبر دینا چاہتا ہوں جہاں ضرورت ہو وہاں قانون بنانا پڑتا ہے ، بناتے بھی ہیں لیکن ہماری سرکار بننے کے بعد ہم نے اب تک قریب قریب1500-1400جتنے قانون، جن کی اب ضرورت نہیں ہے وہ سارے قانون ختم کر دینے کا ہم نے کارنامہ کر دیا۔ 1450-1400 قانون ختم کر دینا یعنی ایک طرح سے میرےدور حکومت میں ہر دن ایک قانون ختم ہوتا ہے۔ عام شہریوں پر ان قوانین کا  جمع ہونا ایک بوجھ بن جاتا ہے ،اس سے نجات کی سانس ملے، اس لئے بدلاؤ لانے کے لئے ، پرانے بوجھ سے نجات دلانے کے لئے ان قوانین کو کو ہم  نےبدل دیا۔

آپ نے اس بار کا بجٹ بھی اگر  غور سے دیکھا ہوگا تو ،اس بجٹ میں ایسی یوجنا کا اعلان کیا گیا ہے جس یوجنا نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف  کھینچی ہے۔آپ کے ذہن میں بھی آیا ہوگا ،ہو سکتا ہے جو نام میں کہوں وہ شاید آپ نے نہ سنا ہو، لیکن کچھ اور نام سنا ہو، ابھی جو ہم بجٹ کے اندر لائے ہیں ،آیوشمان بھارت یوجنا ۔اس آیوشمان بھارت یوجنا کے ذریعے ہم ملک کے دس  کروڑ غریب کنبوں ،یعنی قریب قریب 40 سے 50 کروڑ شہریوں ، ہندوستان کے 40 سے 50 کروڑ عام شہریوں ، ان لوگوں کے لئے صحت بیمہ ،اس کے لئے  آیوشمان بھارت یوجنا کا اعلان کیا ہے اور یہ یوجنا ایسی ہے جس سے 40 سے 50 کروڑ لوگوں کو اس کا فائدہ حاصل ہوگا۔ایک کنبے کا ایک سال میں 5 لاکھ روپے تک مفت میں علاج ہوگا۔  اس کی بیماری کا پانچ لاکھ تک کا خرچ اس بیمہ نظام کے ذریعے سرکاری دےگی۔

اب آیوشمان بھارت کہا تو شاید آپ لوگوں کو بھی لگا ہوگا کہ یہ تو یا سنا نہیں ہے لیکن گذشتہ دنوں آپ نے دیکھا ہوگا ۔ ہندوستان کے اخباروں نے اس کو نیا نام دیا ہے ۔ واہ کسی نے سنا ہے ۔ ہندوستان کے اخباروں نے اس کو مودی کیئر کی شکل میں اور ہماری مخالفت کرنے والے بھی اس یوجنا کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ بھائی یوجنا تو اچھی ہے پر کروگے کیسے ؟

بھائیو اور بہنو ہندوستان ایک ایسا ملک ہے کہ اگر ایک بار جو وہ ٹھان لے پھر وہ کر کے ہی رہتا ہے۔ زندگی کو آسان بنانے کے  لئے ایسی کوئی یوجنائیں  بھارت کے سوا سو کروڑ لوگوں کی زندگی کو آسان بنا رہی ہیں ۔ بھائیو اور بہنو سرکاریں آتی ہیں ،جاتی ہں ، لوگ آتے ہیں ، جاتے ہیں ۔ اہم یہ ہے کہ سرکار کس معیار کی حکمرانی دے رہی ہے۔ حکمرانی کا طریقہ پہلے بھی تھا جس میں یوجنائیں 30-30، 40-40 سال تک پوری نہیں ہوتی تھیں۔میں گجرات کا وزیراعلیٰ تھا ۔ وہاں ایک سردار سروور باندھ ، نرمدا یوجنا کا پنڈت نہرو جی نے سنگ بنیاد رکھا تھا۔  اور ابھی ابھی پچھلے سال وہ کام پورا ہوا ہے ۔ کبھی کبھی تو ایسا نظر ؎آتا تھا ۔ باندھ بنا جاتا تھا لیکن نہروں کا اتا پتا نہیں ہوتا تھا۔ پل بن جاتے تھے لیکن رابطے کی سڑکیں نہیں بن پاتی تھیں، کھمبھے گڑ جاتے تھے لیکن ان پر کبھی تار نہیں لگتے تھے اور اگر تار لگ بھی گیا تو لوگ کپڑے سکھاتے تھے۔ بجلی نہیں آتی تھی،نئی نئی ٹرینوں کا اعلان ہو جاتا تھا لیکن نہ تو کوئی پٹریوں کے بارے میں سوچتا تھا نہ ٹرینوں کے بارے میں سوچتا تھا۔کاغذ پر بھی کبھی پٹریوں کو پینٹ نہیں کیا جاتا تھا۔ خراب حکمرانی کے ساتھ ملک 21 ویں صدی میں آگے نہیں بڑھ سکتا اس کو بدلنا پڑتا ہے۔ اور بدلنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گھوٹالوں کی لمبی لسٹ سے ملک کے اور دنیا بھر میں ملک کی ساکھ کو  نقصان بھی پہونچاتھا۔ ایسے حالات سے ہم ملک کو اب باہر نکال کر کے لائے ہیں ۔

آج چار سال ہوئے ہیں ،کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ مودی کتنا لے گیا،اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو،  آج میں سر جھکا کر کے اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک نے جن امیدوں اور توقعات کے ساتھ  مجھےبٹھایا ہے اس پر میں کبھی  کھروچ نہیں آنے دوں گا۔ آج لیکن الٹا ہے جہاں بھی جاؤں ،جس کو بھی ملوں، یہاں تک کہ ہمارے مخالفین بھی مجھ پر الزام نہیں لگاتے ہیں، لیکن کیا کرتے ہیں۔ ذرا مودی جی ،بتاؤ کتنا آیا ۔ پہلے لوگ پوچھتے تھے کتنا گیااب مودی کو پوچھتے ہیں کہ کتنا آیا۔ میں سمجھتا ہوں ملک کے اندر جو یہ اعتماد پیدا ہوا ہے اسی اعتماد نے ملک میں نئی امید کو جنم دیا ہے اور یہ  نئی امید ہی نئے بھارت کی تعمیر کے عہد کو ایک نئی توانائی دے رہی ہے۔

آج شہریوں کے موافق ، ترقی دوست ، جوابدہ انتظامیہ پر فوکس کرتے ہوئے ہم ملک کو آگے بڑھانے کے لئے کام کر  رہے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ آج میں نے جیسے پہلے کہا محسوس ہو رہا ہے۔

آج ملک میں سڑک بنانے کی رفتار، ریل کی پٹریاں بچھانے کی رفتار، ریل لائن کے بجلی کاری کی رفتاری ، نئے ایئر پورٹ بنانے کی رفتار ،سرکار کے ذریعے غریبوں کیلئے گھر بنائے جانے کی رفتار، بینک کھاتے کھولنے کی رفتار ، گیس کنکشن دینے کی رفتار ، سبھی کچھ پہلے کے مقابلے کوئی کام دو گنا زیادہ ، تین  گنا زیادہ کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔

آپ حیران ہوں گے ، ہمارے ملک میں ہم 21 ویں صدی کے پہلے دو دہائی  اب پائے تکمیل تک پہنچے ہیں ۔ کتنی سرکاریں آئی ،گئی دنیا بدل چکی ہےلیکن بھارت کی اپنی ہوا بازی کی پالیسی نہیں تھی ۔ ہم نے آکر کے ہوابازی کی پالیسی بنائی اور ملک کے جو چھوٹے چھوٹے شہر ہیں ، ضلع ہیڈ کوارٹر جیسے  زمرۂ دوم ،زمرۂ سوم کے شہر وہاں پرانی ہوائی پٹریاں پڑی ہوئی تھیں ان کو زندہ کیا۔ ان کو فعال بنایا ،نئے نئے ایئر پورٹ بنانے کے لئے ابھیان چلایا اور پیارے میرے ساتھیوں آپ کو جان کر خوشی ہوگی آج ہمارے ملک میں قریب قریب ساڑھے چار سو ہوائی جہاز نجی ہو ، کارپوریٹ ہو، سرکاری ہو،ساڑھے چار سو ہوائی جہاز ابھی کام کر رہے ہیں ۔  اس ایک سال میں یعنی 70 سال کے دورے حکومت میں ہم پہنچے ہیں قریب قریب ساڑھے چار سو ہوائی جہاز، پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ اس ایک برس ہمارے ملک کی الگ الگ کمپنیوں  نے ، پرائیویٹ کمپنیوں نے ،پرائیویٹ لوگوں نے قریب قریب 900 نئے ہوائی جہاز خریدنے کا آرڈر دیا ہے۔ 70 سال کے سفر میں ساڑھے چار سو اور اس ایک سال میں قریب قریب 900 ہوائی جہاز کے آرڈر بک ہو چکے ہیں۔کیوں؟ کیونکہ اپنی  پالیسی میں ہم نے کہا ہے کہ ہوائی چپل پہننے والا بھی ہوائی جہاز میں سفر کرے۔ یہ ہم چاہتے ہیں۔ ساتھیوں اگر بالکل زمینی سطح پر جا کر چیزوں کو ٹھیک نہیں کیا ہوتا تو یہ جو آپ ترقی دیکھ رہے ہیں ، یہ رفتار ریکھ رہے ہیں یہ کبھی ممکن نہیں تھا۔ بڑے پیمانے پر اور مستقل تبدیلی ایسے نہیں آتی ۔ اس کے لئے پورے نظام میں بدلاؤ کرنا پڑتا ہے اور جب یہ بدلاؤ ہوتے ہیں تبھی ملک صرف تین سال کے اندر اندر تجارتی عمل کو آسان بنانے کی ، عالمی بینک کی درجہ بندی میں ایک ساتھ 42 مقام اوپر اٹھ کر 142 سے آج 100 پر آ کر پہنچ گیا ہے اور پوری دنیا کو تعجب ہو گیا ہے۔

بھائیو اور بہنو، ملک میں اب 21 ویں صدی کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے  نیکسٹ جنریشن انفراسٹریکچر  کی تعمیر کی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے سیکٹر کو ہم ایسے تیار کر رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو تعاون فراہم کرنے والے بنیں ۔ ہائی وے ، ایئر وے ، ریلوے  اور واٹر وے  سبھی کو ایک دوسرے کی ضرورت کے حساب سے مربوط کیا جا رہا ہے۔ سرکار نے بھارت مالا پروجیکٹ کے تحت 53 ہزار کلو میٹر قومی شاہراہ بنانے کا کام شروع کیا ہے۔ 53 ہزارکلو میٹر ملک کے الگ الگ حصوں میں ریلوے  کوریڈور پر کام چل رہا ہے۔ 11 بڑے شہروں میں میٹرو کی توسیع بھی  کی جا رہی  ہے ۔ پچھلے سال ہی مجھے کوچی میٹرو کو عوام کی نذر کرنے  کا موقع ملا تھا۔ چنئی میٹرو کی توسیع کا کام چل رہا ہے۔

اس بجٹ میں بنگلورو میں بھی ہم نے اس کے لئے ایک بہت بڑا بجٹ  مختص کیا  ہے۔ اس طرح ملک کی ساحلی معیشت اور اس سے جڑے ، ہمارے سمندری ساحل سے جڑے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے ہم ساگر مالا اس نام سے بھی ایک پروگرام چلایا۔

ہم نے مچھوارے بھائیوں،بہنوں کے لئےسمندری انقلاب کی اسکیم شروع کی ہے ۔  ہم انہیں  جدید تر  ٹرالر خریدنے کے لئے بھارت سرکار  کی طرف سے مالی مدد دے رہے ہیں ۔ سرکار ملک میں 110 سے زیادہ واٹر وے بھی تیار کر رہی ہے۔ ہمارے ملک میں  اسکو نظر انداز کیا گیا کہ ندیوں کا استعمال نقل و حمل کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ اس 110 راستے ہم نے تلاش کئے ہیں جو ماحولیات کی بھی حفاظت کریں گے۔ ساتھ ہی  نقل و حمل کا خرچ کم کریں گے۔ ملک میں  صارفین کو اس کے سبب چیزیں سستے میں ملیں گی۔

بھائیو اور بہنو، آپ میں سے جو لوگ 23-2022 میں بھارت آئیں گے انہیں ملک میں ایک اور شاندار ترقی دیکھنے کو ملے گی اور وہ ہو گی بلیٹ ٹرین۔ممبئی اور احمدآباد کے درمیان بلٹ ٹرین کا کام پچھلے سال شروع کردیا گیا ہے۔ دو سوا دو گھنٹے میں آپ کو یہ بلٹ ٹرین ممبئی سے احمدآباد پہنچادے گی۔ بلٹ ٹرین سے ہندوستان کے موجودہ نظام میں صرف ایک انکریمینٹل امپرومینٹ ہی نہیں، بلکہ ملک کو ایک جدید ٹیکنالوجی اور نیا سروس ڈیلیوری سسٹم بھی حاصل ہونے والا ہے۔

ساتھیو، اب بھارت میں فیصلوں کو ٹالا نہیں جاتا، اب بھارت نے ایک نیا مزاج اپنالیا ہے۔ فیصلوں کو ٹالنے کا وقت چلا گیا۔ اب ہم فیصلوں اور چیلنجوں، ہر چیلنج سے ہم ٹکرانے کی تیاری کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہدف طے کرکے منصوبوں کو وقت سے پہلے پورا کیا جاتا ہے۔ یہ بھارت میں بدلتے ہوئے ورک کلچر کی مثال ہے۔ یہ نیو انڈیا ہے، یہ نیو انڈیا کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، یہی وجہ ہے کہ پہلے جہاں ملک میں ہر دن یہ ہلّا مچتا تھا کہ اتنے کروڑ اس گھوٹالے میں گئے، اُتنے کروڑ اُس گھوٹالے میں گئے۔ بھائیو اور بہنو، جب صاف نیت، واضح پالیسی کے ساتھ فیصلے لئے جاتے ہیں تو ملک کا پیسہ بچتا ہے۔ جب باصلاحیت  طریقے سے کام کیا جاتا ہے، جب موجودہ وسائل کا بہتر استعمال کیا جاتا ہے تب دیش کا پیسہ بچتا ہے۔

ٹیکنالوجی کی مدد سے ہماری حکومت نے فوائد کو براہ راست منتقل کرنے کی اسکیم (ڈی بی ٹی ایس )کے ذریعے ملک کے 57 ہزار کروڑ سے زیادہ کی لاگت غلط ہاتھوں میں جارہی تھی، اسے بچالیا ہے۔ غریب کی پائی پائی بچانے کا کام کیا ہے۔ فوائد کو براہ راست  اسکیم یعنی سبسڈی کا، پنسن کا اسکالرشپ کا، مزدوری جو پیسہ لوگوں کے بینک اکاؤنٹ میں سیدھے ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ رقم فرضی ناموں کے سہارے بچوليوں کے پاس چلی جاتی تھی۔ اب یہ سارا کھیل ہماری سرکار نے بند کردیا ہے۔ اس طرح ملک کے لوگوں کا اور خاص طور پر متوسط طبقے کا پیسہ بچ رہا ہے۔ یوجنا، بھائیو اور بہنو ہماری اُجالا یوجنا، سال 2014 میں پہلے جو ایل ای ڈی بلب ہندوستان میں ساڑھے تین سو روپے سے زیادہ کا تھا، وہ اب50-40 روپے میں ملنے لگا ہے۔ کہاں تین سو، ساڑھے تین سو روپئے اور کہاں50-40 روپئے، سستے ایل ای ڈی کے علاوہ جو لوگ اپنے گھروں میں ان کا استعمال کررہے ہیں انھیں اندازاً ہر سال پندرہ ہزار کروڑ روپئے کی بچٹ بجلی کے بل میں ہورہی ہے۔ یہ متوسط طبقے کے لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔

ساتھیو، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جتنی بجلی ایل آئی ڈی بلبوں سے بچ رہی ہے، اتنی بجلی کی پیداوار میں ملک کو 45 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ ہوجاتے، اگر لوگوں کی بچت اور ملک کی بچت ان دونوں کو جوڑا جائے تو بچت کا یہ اعداد و شمار بنتا ہے، یعنی قریب قریب 60 ہزار روپئے۔ ایک اور مثال ہے فرٹیلائزر سیکٹر کی، بھائیو اور بہنو، ہماری پالیسیوں کی وجہ سے ایک بھی نیا فرٹیلائزر پلانٹ لگے بغیر قریب قریب پرانے کی میں بات کرتا ہوں، صلاحیت  بڑھائی ہے اور اس کی وجہ سے لیکیجز کو روکا ہے۔ اس کے باعث تقریباً 18 سے 20 لاکھ ٹن یوریا زیادہ پیدا ہونے لگا ہے۔ یہ 20 لاکھ ٹن یوریا الگ پروڈیوز کرنے کے لئے قریب قریب 7 سے 8 ہزار کرور روپئے کا سرکاری خرچ کرنا پڑتا، جو بچ گیا اور یوریا ملنے لگا۔ اتنا ہی نہیں ساڑھے تین سے چار ہزار کروڑ کی بیرونی زر مبادلہ کی بچت ہوئی ہے، جو باہر سے یوریا خریدنے میں خرچ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ سرکار کو 800 سے 900 کروڑ روپئے کی سبسڈی کی بھی اس میں بچت ہوئی ہے۔ یعنی اکیلے فرٹیلائزر سیکٹر میں پالیسی انٹروینشن سے، صلاحیت  بڑھنے سے، مانیٹرنگ کرنے سے ہم نے ملک کے قریب قریب 12 ہزار کروڑ روپئے بچائے ہیں، جو آپ کا حق ہے، ہندوستانی باشندوں کے حق کا پیسہ ہے۔

بھائیو اور بہنو، ہم پہلے کی حکومتوں کے وقت ہوئے پٹرولیم معاہدے، گیس معاہدوں، اس کو ذرا دوبارہ دیکھنے لگے، ہم باریکی سے دیکھنے لگے کہ بھئی اتنا سارا کیسے ہوا۔ اب 20-20، 25-25 سال کے معاہدے ہوئے ہیں۔ 30 سال کے معاہدے ہوئے ہیں۔ ہم نے ذرا دھیان دیا، اب بھارت کی ساکھ بھی بنی ہے۔ ہم نے ان ملکوں کے ساتھ گفتگو کی اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی، قطر اور آسٹریلیا سے ہم نے جو سمجھوتے ہوئے تھے، ان سمجھوتوں پر دوبارہ بات چیت کی  اور ان میں تبدیلی آچکی ہے اور اس تبدیلی کی وجہ سے پہلے جو روپئے دیے جاتے تھے ان کے مقابلے میں بارہ ہزار کروڑ روپئے کم دینے پڑیں گے۔ یہ 12 ہزار کروڑ روپئے ملک کا بچایا ہے۔

بھائیو اور بہنو، یہ صرف چار منصوبے میں نے آپ کو گنائے ہیں اور ان سے ملک کو ہونے والی بچت قریب قریب ایک لاکھ 40 ہزار کروڑ روپئے سے بھی زیادہ ہے۔ اب بتائیے، میرے بھائیو اور بہنو، کیا ایک لاکھ 40 ہزار کروڑ روپئے جو پہلے جاتے تھے، وہ غریب کے حق کے تھے یا نہیں تھے؟ وہ پیسہ بچنا چاہئے تھا کہ نہیں بچنا چاہئے تھا؟ وہ پیسہ غریب کے کام آنا چاہئے تھا کہ نہیں آنا چاہئے تھا؟ اس سرکار نے ایک ایمانداری کو لے کر اسی اپروچ، اسی کمٹمنٹ کی وجہ سے دیش میں رشوت اور کالے دھن کے خلاف ایک بڑی لڑائی بھی ہم نے ساتھ ساتھ چلاکر رکھی ہے۔ کروڑوں کماکر بھی سرکار کو ٹیکس نہ دینے والے لوگ بے نامی جائیداد کھڑی کرنے والے لوگ، فرضی کمپنیاں بنانے والے لوگ، کالے کا لین دین کرنے والے لوگ، بڑی بڑی مچھلیاں اس وقت سرکار کی جانچ کے دائرے میں ہیں۔

پچھلے ایک سال میں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ قریب قریب ساڑھے تین لاکھ، آپ چونک جائیں گے، قریب قریب ساڑھے تین لاکھ فرضی کمپنیوں کا رجسٹریشن سرکار رد کرچکی ہے، تالے لگادیے ہیں۔ ساتھیو، میرے ہم وطنو، اتنا پیسہ جو محنت کرکے بھارت بھیجتے ہیں وہ ملک کی اقتصادی ترقی میں مدد کرتے ہیں۔ اب محنت کرکے کچھ نہ کچھ گھر بھیجتے ہیں وہ پیسہ جب ملک کی ترقی کو بنانے میں خرچ ہوتا ہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور یہاں رہنے والے آپ لوگوں کو بھی ایک قسم کا اطمینان ہوتا ہے۔

ایمانداری سے کی گئی کمائی، ایمانداری سے اگر استعمال ہوتی ہے تو اس کا کتنا بڑا نتیجہ نکلتا ہے اور ہم نے اس ایمانداری کو آگے بڑھانے کا عہد کررکھا ہے۔

ساتھیو، آپ کو یہاں کبھی کبھی کسی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے بارے میں بھی ہم حساس ہیں۔ آپ کو ہونے والی پریشانیوں کو لے کر ہم عمان سرکار کے ساتھ لگاتار رابطے میں رہتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی پریشانی جلد سے جلد ختم ہو۔ ای-مائیگریٹ سسٹم اور ’مدد پورٹل‘ کے ذریعے سے بھی آپ کی دقتوں کو کم کرنے کا کام کیا گیا ہے۔

سرکار کی بہت سی ایسی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دوسرے ملکوں میں رہنے والے ہر بھارتی میں ایک اعتماد پیدا ہوا ہے۔ اس میں یہ بھروسہ پیدا ہوا ہے کہ اگر وہ دشواری میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے ملک کی سرکار اسے واپس ملک لے جانے کے لئے حاضر ہوجائے گی۔ بیرونی ملکوں میں اس کے کنبے کا ایک آنریری ممبر یہ بھارت سرکار بن گئی ہے۔

ساتھیو، ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ ہماری یہ اَپروچ پوری دنیا کی سوچ میں بدلاؤ لارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذریعے بین الاقوامی یوگ دِوس کا اعلان بھارت کی پہل پر انٹرنیشنل سولر الائنس کی تشکیل یہ ایسی مثالیں ہیں، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی ساکھ اور افادیت کا اظہار کرتے ہیں۔

آپ کی حمایت، آپ کے تجربے سے ملک کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پورا ملک اس کے لئے آپ سبھی کا قرض دار ہے۔ میں آپ کو دیش کی ترقی کا، قوم کی تعمیر میں ایک اہم حصے دار مانتا ہوں۔ میں آپ کو پاٹنر مانتا ہوں۔ نیو انڈیا کے خواب کو پورا کرنے میں آپ کی حمایت کا اثر ہندوستان میں بھی دکھائی دے گا۔ یہ مجھے یقین ہے۔ آپ سب میرے بھائی بہن، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج مجھے آپ کے سامنے اظہار خیال کرنے موقع ملا۔ آپ صحت مند رہیں، محفوظ رہیں، اسی امید کے ساتھ میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ میری آپ کے لئے بہترین نیک خواہشات۔

میرے ساتھ پوری طاقت سے بولئے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی وجے۔

وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More