26 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگرام ‘‘من کی بات ’’ میں وزیر اعظم کا خطاب

Urdu News

نئی دہلی۔ میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ! آج رام نومی کا مقدس تہوار ہے ۔ رام نومی کے اس مقدس تہوار پر ہم وطنوں کو میری جانب سے بہت بہت مبارکباد۔ قابل پرستش باپو کی زندگی میں ‘رام نومی’ کی طاقت کتنی تھی وہ ہم نے ان کی زندگی میں ہر پل دیکھا ہے ۔ پچھلے دنوں 26 جنوری کو جب آسیان ممالک کے سبھی قائدین یہاں تھے تو اپنے ساتھ کلچرل ٹروپ لے کر آئے تھے اور بڑے فخر کی بات ہے کہ اس میں زیادہ تر ملک رامائن کو ہی ہمارے سامنے پیش کر رہے تھے ۔ یعنی رام اور رامائن ، نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے اس جغرافیائی خطے میں آسیان ممالک میں آج بھی اتنی ہی ترغیب اور اثر پیدا کر رہے ہیں ۔ میں پھر ایک بار آپ  سبھی کو رام نومی کی مبارکباد  پیش کرتا ہوں ۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، ہر بار کی طرح اس بار بھی مجھے آپ سبھی کے ڈھیر سارے خطوط ، ای میل، فون کال اور تبصرے بہت بڑی تعداد میں موصول ہوئے ہیں ۔ کومل ٹھاکر جی نے مائی گو پر اپنی سنسکرت کے آن لائن کورس شروع کرنے کے بارے میں جو لکھا وہ میں نے پڑھا۔ آئی ٹی پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ  سنسکرت کے تئیں آپ کا پریم دیکھ کر بہت اچھا لگا ۔ میں نے متعلقہ شعبے اس سمت میں ہو رہی کوششوں کی جانکاری آپ تک پہنچانے کے لیے کہا ہے ۔ ‘من کی بات’ کے سامعین جو سنسکرت کو لے کر فعال ہیں ، میں ان سے بھی درخواست کروں گا کہ اس پر غور کریں کہ کومل جی کے مشورے کو کیسے آگے بڑھایا جائے ۔

شریمان گھنشیام کمار جی ، گاؤں براکر، ضلع نالندہ ، بہار  – آپ کے نریندر مودی ایپ پر لکھے تبصرے پڑھا ۔ آپ نے زمین میں گھٹتی آبی سطح پر تشویش کا اظہار کیا ہے ، وہ یقینی طور پر بہت ہی اہم ہے ۔

شریمان شکل شاستری جی ، کرناٹک – آپ نے الفاظ کے بہت ہی خوبصورت تال میل کے ساتھ لکھا کہ ‘آیوش مان بھارت ’تبھی ہوگا جب ‘آیوش مان بھومی ’ ہوگی اور ‘آیوش مان بھومی’ تبھی ہوگی جب ہم اس سرزمین پر رہنے والے ہر ذی روح کی فکر کریں گے ۔ آپ نے گرمیوں میں چرندوں پرندوں کے لیے پانی رکھنے کے لیے بھی سبھی سے استدعا کی ہے ۔ شکل جی ، آپ کے جذبات کو میں نے سبھی سامعین تک پہنچا دیا ہے ۔

شریمان یوگیش بھدریش جی ، ان  کا کہنا ہے کہ میں اس بار نوجوانوں سے ان کی صحت کے بارے میں بات کروں ۔ انہیں لگتا ہے کہ آسیان ممالک میں موازنہ کریں تو ہمارے نوجوان جسمانی لحاظ سے کمزور ہیں ۔ یوگیش جی، میں نے سوچا کہ اس بار صحت کو لے کر کے سبھی کے ساتھ تفصیل سے بات کروں ۔ صحت مند ہندوستان کی بات کروں  اور آپ سبھی نوجوان مل  کر صحت مندہندوستان کی تحریک بھی چلا سکتے ہیں ۔

پچھلے دنوں فرانس کے صدر کاشی کے دورے پر گئے تھے ۔ بنارس کے آنجناب پرشانت کمار نے لکھا ہے کہ اس دورے کے سارے مناظر ، دل کو چھو لینے والے تھے ۔ اور انہوں نے درخواست کی تھی کہ وہ سبھی فوٹوگرافس، سارے ویڈیو، سوشل میڈیا پر نشر کیا جانا چاہیے ۔ پرشانت جی حکومت ہند نے وہ سارے فوٹو گرافس اسی دن سوشل میڈیا اور نریندر مودی  ایپ پر شیئر کر دیے تھے ۔ اب آپ ان کو لائک کریں اور ری ٹویٹ کریں ، اپنے دوستوں کو پہنچائیں ۔

چننئی  سے انگھا ،  جئیش  اور بہت سارے بچوں نے ایگزام واریر کتاب کے پیچھے جو مبارکباد کے کارڈ دیے ہیں ان پر انہوں نے اپنے دل میں جو بات آئی ، اسے لکھ کر مجھے ہی بھیج دیے ہیں ۔ انگھا ، جئیش ، میں آپ سبھی بچوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے  ان خطوط سے میرے دن بھر کی تھکان چھو منتر ہو جاتی ہے ۔ اتنے سارے خطوط، اتنے سارے فون کال ، تبصرے ، ان میں سے جو کچھ بھی میں پڑھ پایا ، جو بھی میں سن پایا اور اس میں بہت سی چیزیں ہیں جو میرے من کو چھو گئی – صرف ان کے بارے میں ہی بات کروں گا تو بھی شاید مہینوں تک مجھے لگاتار کچھ نہ کچھ کہتے ہی جانا پڑے گا۔

اس بار زیادہ تر خطوط بچوں کے ہیں جنھوں نے ایگزام کے بارے میں لکھا ہے ۔ چھٹیوں کے اپنے پلان  شیئر کیے ہیں ۔ گرمیوں میں جانوروں –پرندوں  کے پانی کی فکر  کی ہے ۔ کسان میلوں اور کھیتی کو لے کر جو سرگرمیاں ملک بھر میں چل رہی ہیں اس کے بار میں کسان بھائی بہنوں کے خطوط آئے ہیں ۔ پانی کے تحفظ کو لے کر کچھ سرگرم شہریوں نے صلاح بھیجے ہیں ۔ جب سے ہم لوگ آپس میں ‘من کی بات’ ریڈیو کے ذریعہ کر رہے ہیں تب سے میں نے ایک پیٹرن دیکھا ہے کہ گرمیوں میں زیادہ تر خطوط ، گرمیوں کے موضوع کے بارے میں آتے ہیں ۔ امتحان سے پہلے طالب علم دوستوں کی تشویش کو لے کر خطوط آتے ہیں ۔ فیسٹول کے موسم میں ہمارے تہوار ، ہماری ثقافت، ہماری روایات سے متعلق باتیں آتی ہیں ۔ یعنی من کی باتیں ، موسم کے ساتھ بدلتی بھی ہیں اور شاید یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے من کی باتیں ، کہیں کسی کی زندگی میں موسم بھی بدل دیتی ہیں۔ اور کیوں نہ بدلے ! آپ کی ان باتوں میں ، آپ کے ان احساسات میں ، آپ کے ان مثالوں ، اتنی تحریک ، اتنی توانائی ، اتنا اپنا پن ، ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رہتا ہے ۔ یہ تو پورے ملک کا ہی موسم بدلنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ جب مجھے آپ کے خطوط میں پڑھنے کو ملتا ہے کہ کیسے آسام کے کریم گنج کے لیے رکشہ چلانے والے احمد علی نے اپنے عزم مصم سے غریب بچوں کے لیے 9 اسکول بنوائے ہیں – تب اس ملک کے انسانی عزم کا مظاہرہ ہوتا ہے  ۔ جب مجھے کانپور کے ڈاکٹر اجیت موہن چودھری کی کہانی سننے کو ملی کہ وہ فٹ پاتھ پر جا کر غریبوں کو دیکھتے ہیں  اور انہیں مفت دوا بھی دیتے ہیں  – تب اس ملک کے دوستی کے جذبے کو محسوس کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ 13 سال پہلے ، وقت پر علاج نہ ملنے کے سبب کولکاتہ کے کیب چلانے والے سیدل لسکر کی بہن کی موت ہو گئی  – انہوں نے اسپتال بنانے کی ٹھان لی تاکہ علاج کی کمی سے کسی غریب کی موت نہ ہو۔ سیدل نے اپنے اس مشن میں گھر کے زیور فروخت کئے ، عطیات کے ذریعہ روپے جمع کیے۔ ان کی کیب میں سفر کرنے والے کئی مسافروں نے دل کھول کر عطیہ دیے ۔ ایک انجینئر بیٹی نے تو اپنی پہلی تنخواہ ہی دے دی ۔ اس طرح سے روپیہ جمع کر کے 12 سالوں بعد آخرکار سیدل لسکر نے جو  انتھک کوشش کی ، وہ رنگ لائی اور آج انہی کی اس کڑی محنت کے باعث ، ان ہی کے عزم کے سبب کولکاتہ کے پاس پنری گاؤں میں لگ بھگ 30 بستر کی صلاحیت والا اسپتال بن کر تیار ہے ۔ یہ ہے نئے ہندوستان کی طاقت ۔ جب اتر پردیش کی ایک خاتون بے شمار جد و جہد کے باوجود 125 بیت الخلاء کی تعمیر کراتی ہے اور خواتین کو ان کے حق کے لیے ترغیب دیتی ہے ۔ تب مادرانہ طاقت کے درشن ہوتے ہیں ۔ ایسے ان گنت قابل ترغیب مثالیں میرے ملک کا تعارف کراتی ہیں ۔ آج پوری دنیا میں ہندوستان کی جانب دیکھنے کا نظریہ بدلا ہے ۔ آج جب ہندوستان کا نام بڑے عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے ماں بھارتی کے ان بیٹے بیٹیوں کا عزم چھپا ہے ۔ آج ملک بھر میں نوجوانوں میں ، خواتین میں ، پچھڑوں میں ، غریبوں میں، متوسط طبقوں میں ، ہر طبقے میں یہ اعتماد جاگا ہے کہ ہاں ، ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ، ہمارا ملک آگے بڑھ سکتا ہے ۔ آشا اور امیدوں سے بھری ایک خود اعتماد ی کا مثبت ماحول بنا ہے ۔ یہی خود اعتمادی ، یہی مثبت رویہ جدید ہندوستان کے ہمارے تصور کو پورا کرے گی ، خواب شرمندہ تعبیر کرے گی۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، آنے والے کچھ مہینے کسان بھائیوں اور بہنوں کے لیے بہت ہی اہم ہیں ۔ اسی وجہ سے ڈھیر سارے خطوط، زراعت سے متعلق آئے ہیں ۔ اس بار میں نے دور درشن کا ڈی ڈی کسان چینل پر جو کسانوں کے ساتھ بحثیں ہوتی ہیں ، ان کے ویڈیو بھی منگوا کر دیکھے اور مجھے لگتا ہے کہ ہر کسان کو دور درشن کے یہ ڈی ڈی چینل سے جڑنا چاہیے ، اسے دیکھنا چاہیے اور ان تجربات کو اپنے کھیتوں میں لاگو کرنا چاہیے ۔ مہاتما گاندھی سے لے کر شاستری جی ہوں ، لوہیا جی ہوں ، چودھری چرن سنگھ جی ہوں ، چودھری دیوی لال جی ہوں  – سبھی نے زراعت اور کسانوں کو ملک کی معیشت اور عام عوامی زندگی کا ایک اہم جزو مانا ہے ۔ مٹی ، کھیت کھلیان اور کسان سے مہاتما گاندھی کو کتنا لگاؤ تھا ، یہ احساس ان کی اس سطر میں جھلکتا ہے ، جب انہوں نے کہا تھا  –

‘‘To forget how to dig the earth and to tend the soil, is to forget ourselves’’

یعنی دھرتی کو کھودنا اور مٹی کا خیال رکھنا اگر ہم بھول جاتے ہیں تو یہ خود کو بھول جانے جیسا ہے ۔ اسی طرح لال بہادر شاستری جی پیڑ پودے کے تحفظ اور بہتر زرعی ڈھانچے کی ضرورت پر اکثر زور دیا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے  تو ہمارے کسانوں کے بہتر آمدنی ، بہترآبپاشی کی سہولتوں اور ان سب کو یقینی بنانے کے لیے اور کھاد نیز دودھ کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر عوامی بیداری کی بات کی تھی ۔ 1979 میں اپنی تقریر میں چودھری چرن سنگھ جی نے کسانوں سے نئی ٹکنالوجی کا استعمال کرنے ، نئے اختراعات کرنے کی اپیل کی ، اس کی ضرورت پر زور دیا ۔ میں پچھلے دنوں دلی میں منعقدہ زرعی ترقی میلے میں گیا تھا ۔ وہاں کسان بھائی بہنوں اور سائنسدانوں کے ساتھ میری بات چیت ، زراعت سے جڑے مختلف تجربات کو جاننا ، سمجھنا ، زراعت سے جڑے اختراعات کے بارے میں جاننا – یہ سب میرے لیے ایک فرحت بخش تجربہ تھا ہی لیکن جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھا میگھالیہ اور وہاں کے کسانوں کی محنت ۔ کم رقبے والی اس ریاست نے بڑا کام کر کے دکھایا ہے ۔ میگھالیہ کے ہمارے کسانوں نے سال 2015-16  کے دوران ، پچھلے پانچ سال کے مقابلے ریکارڈ پیداوار کی ہے ۔ انہوں نے دکھایا ہے کہ جب مقصد متعین ہو ، حوصلے بلند ہوں اور دل میں عزم ہو تو اسے ثابت کر سکتے ہیں ، کر کے دکھایا جا سکتا ہے ۔ آج کسانوں کی محنت کو ٹکنالوجی کا ساتھ مل رہا ہے ، جس سے زرعی پیداوار کرنے والوں کو کافی حوصلہ ملا ہے ۔ میرے پاس جو خط آئے ہیں ، اس میں میں دیکھ رہا تھا کہ بہت سارے کسانوں نے ایم ایس پی کے بارے میں لکھا ہوا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں اس پر ان کے ساتھ تفصیل سے بات کروں ۔

بھائیوں اور بہنوں ! اس سال کے بجٹ میں کسانوں کو فصلوں کی مناسب قیمت دلانے کے لیے ایک بڑا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یہ طے کیا گیا ہے کہ درج فہرست فصلوں کے لیے ایم ایس پی ، ان کی لاگت کا کم سے کم ڈیڑھ گنا اعلان کیا جائے گا ۔ اگر میں تفصیل سے بتاؤں تو ایم ایس پی کے لیے جو لاگت جوڑی جائے گی اس میں دوسرے محنت کش جو محنت اور مزدوری کرتے ہیں ، ان کا محنتانہ اپنے مویشی ، مشین یا کرایے پر لیے گئے مویشی یا مشن کا خرچ ، بیج کی قیمت ، استعمال کی گئی ہر طرح کے کھاد کی قیمت ، آبپاشی کا خرچ ، ریاستی سرکار کو دیا گیا لینڈ ریونیو، ورکنگ سرمایہ کے اوپر دیا گیا سود ، اگر زمین پٹے پر لی گئی ہے تو اس کا کرایہ اور اتنا ہی نہیں کسان جو خود محنت کرتا ہے یا اس کے کنبے میں سے کوئی زرعی کام میں محنت کرتا ہے ، اس کی قیمت بھی پیداوار لاگت میں جوڑا جائے گا۔ اس کے علاوہ کسانوں کو فصل کی مناسب قیمت ملے اس کے لیے ملک میں ایگریکلچر مارکٹنگ ریفارم پر بھی بہت وسیع پیمانے پر کام ہو رہا ہے ۔ گاؤں کی علاقائی منڈیاں ، تھوک مارکیٹ اور عالمی مارکیٹ سے جڑے – اس کی کوشش ہو رہی ہے ۔ کسانوں کو اپنی پیداوار فروخت کرنے کے لیے بہت دور نہیں جانا پڑے  – اس کے لیے ملک کے 22 ہزار دیہی ہاٹوں کو ضروری ڈھانچوں کے ساتھ اپ گریڈ کرتے ہوئے اے پی ایم سی اور ای- نام پلیٹ فارم کے ساتھ مربوط کیا جائے گا۔ یعنی ایک طرح سے کھیت سے ملک کے کسی بھی مارکیٹ کے ساتھ  جوڑنا  – ایسے انتظامات کیے جارہے ہیں ۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، اس سال مہاتما گاندھی کی 150 ویں سالگرہ کے جشن کی شروعات ہوگی ۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے ۔ ملک کیسے یہ جشن منائے ؟ سوچھ بھارت تو ہمارے عزم ہے ہی ، اس کے علاوہ سوا سو کروڑ ہم وطن کندھے سے کندھے ملا کر کیسے گاندھی جی کو بہتر سے بہتر خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں ؟ کیا نئے نئے پروگرام کئے جا سکتے ہیں ۔ کیا نئے نئے طور طریقے اپنائے جا سکتے ہیں؟ نعرہ یا منتر یا اعلانیہ جملہ کیا ہو؟ اس سلسلے میں آپ اپنی رائے دیں ۔ ہم سب کو مل کر باپو کو ایک یادگار خراج عقیدت دینی ہے اور باپو کو یاد کر کے ان سے تحریک لے کر اپنے ملک کو نئی بلندیوں پر پہنچانا ہے ۔

#### (فون) ‘‘نمستے معزز وزیر اعظم صاحب ۔۔۔ میں پریتی چترویدی گڑگاؤں سے بول رہی ہوں ۔۔۔۔ پردھان منتری جی ، جس طرح سے آپ نے ‘سوچھ بھارت ابھیان’ کو ایک کامیاب مہم بنائی ہے ، اب وقت آگیا ہے کہ ہم صحت مند ہندوستان  مہم کو بھی اسی طرح سے کامیاب بنائیں ۔۔۔۔ اس مہم کے لیے آپ لوگوں کو ، سرکاروں کو ، اداروں کو کس طرح سے متحرک کر رہے ہیں ، اس پر ہمیں کچھ بتائیں ، شکریہ ۔۔۔’’

شکریہ، آپ نے صحیح کہا ہے اور میں مانتا ہوں کہ صاف ہندوستان اور صحت مند ہندوستان دونوں ایک دوسرے کے متبادل ہیں۔ صحت کے شعبے میں آج ملک روایتی نقطہ نظر سے آگے بڑھ چکا ہے۔  ملک میں صحت سے جڑا ہر کام جہاں پہلے صرف محکمہ صحت کی ذمہ داری ہوتی تھی، وہیں اب سارے محکمے اور وزارت خواہ وہ وزارت صفائی ہو، آیوش کا محکمہ ہو، وزارت صارفین ہو یا خواتین و اطفال کے فروغ کا محکمہ ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں۔ ساتھ مل کر صحت مند ہندوستان کے لیے کام کر رہے ہیں اور حفاظتی صحت کے ساتھ ساتھ سستی صحت کے اوپر زور دیا جا رہا ہے۔ احتیاطی تدابیر سب سے سستا بھی ہے اور سب سے آسان بھی ہے۔ اور ہم لوگ، سب سے سستا اور سب سے آسان صحت کے لیے جتنی بیدار ہوں گے اتنا افراد کو بھی، کنبے کو بھی اور سماج کو بھی فائدہ ہوگا۔ زندگی صحت مند ہو اس کے لیے پہلی ضرورت ہے ،   صفائی۔ ہم سب نے ایک ملک کی شکل میں یہ قدم اٹھایا ہے اور اس کا نتیجہ یہ آیا کہ گزشتہ تقریباً 4 سالوں میں حفظان صحت کوریج دو گنا ہوکر تقریباً 80 فیصد ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ، ملک بھر میں صحت مراکز بنانے کی سمت میں وسیع سطح پر کام ہو رہا ہےاحتیاطی حفظان صحت  کے طور پر یوگ نے، نئے سرے  سے دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی ہے۔ یوگ ، فٹنس اور ویل نیس دونوں کی گارنٹی دیتا ہے۔ یہ ہم سب کے عزم کا نتیجہ ہے کہ یوگ آج ایک عوامی تحریک  بن چکا ہے، گھر گھر پہنچ چکا ہے۔ اس بار یوگ کا بین الاقوامی دن 21 جون – اس کے درمیان 100 دن سے بھی کم دن بچے ہیں۔ گزشتہ تین بین الاقوامی یوگ دنوں پر ملک اور دنیا کی  ہر جگہ سے  لوگوں نے کافی جوش و خروش کے ساتھ  اس میں حصہ لیا۔ اس مرتبہ بھی ہمیں یقینی بنانا ہے کہ ہم خود یوگ کریں اور پورے کنبے، دوستوں، سبھی کو یوگ کے لیے ابھی سے ترغیب دیں۔ نئے دلچسپ طریقوں سے یوگ کو بچوں میں، نوجوانوں میں، عمر رسیدہ شہریوں میں – سبھی عمر کے زمرے میں، مرد ہو یا خواتین، ہر کسی میں مقبول  بنانا ہے۔ ویسے تو ملک کا ٹی وی اور الیکٹرانک میڈیا پورے سال یوگ کے مختلف پروگرام کرتا ہی ہے، پر کیا ابھی سے لے کر یوم یوگ تک – ایک مہم کے طور پر یوگ کے تئیں بیداری پیدا کر سکتے ہیں؟

میرے پیارے ہم وطنوں، میں یوگ کا استاد تو نہیں ہوں۔ ہاں میں یوگ پریکٹسنر ضرور ہوں، لیکن کچھ لوگوں نے اپنی تخلیق کے ذریعہ  مجھے یوگ کا استاد بھی بنا دیا ہے۔ اور مجھے یوگ کرتے ہوئے 3ڈی انیمیٹڈ ویڈیوز بنائے ہیں۔ میں آپ سب کے ساتھ یہ ویڈیو، شیئر کروں گا تاکہ ہم ساتھ ساتھ آسن پرانایام کا مشق کر سکیں۔ ہیلتھ کیئر قابل رسائی ہو اور سستی بھی ہو، عام لوگوں کے لیے سستی اور آسان بھی ہو – اس کے لیے بھی وسیع سطح پر کوششیں  ہو رہی ہیں۔ آج ملک بھر میں 3 ہزار سے زیادہ جن اوشدھی مرکز کھولے گئے ہیں جہاں 800 سے زیادہ دوائیاں کم قیمت پر دستیاب کرائی جا رہی ہیں۔ اور بھی نئے مرکز کھولے جا رہے ہیں۔ من کی بات سننے والوں سے میری اپیل ہے کہ ضرورتمندوں کو ان جن اوشدھی مراکز کی اطلاع پہنچائیں – ان کا بہت دوائیوں کا خرچ کم ہو جائے گا۔ ان کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ دل کے مریضوں کے لیے ہارٹ اسٹنٹ کی قیمت 85 فیصد تک کم کر دی گئی ہے۔ گھٹنے کے امپلانٹس کی قیمتوں کو بھی کنٹرول کر 50 سے 70 فیصد تک کم کر دیا گیا ہے۔ آیوشمان بھارت منصوبہ کے تحت تقریباً 10 کروڑ کنبہ یعنی تقریباً 50 کروڑ شہریوں کو علاج کے لیے 1 سال میں 5 لاکھ روپے کا خرچ، ہندوستانی حکومت اور انشورنس کمپنی مل کر کے دیں گی۔ ملک کے موجودہ 479 میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی تعداد بڑھا کر تقریباً 68 ہزار کر دی گئی ہیں۔ ملک کے تمام لوگوں کو بہتر علاج اور صحت کی سہولت ملے اس کے لیے مختلف ریاستوں میں نئے ایمس کھولے جا رہے ہیں۔ ہر 3 ضلعوں کے درمیان ایک نیا میڈیکل کالج کھولا جائے گا۔ ملک کو 2025 تک ٹی بی سے آزاد بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ لوگوں تک بیداری پہنچانے میں آپ کی مدد چاہیے۔ ٹی وی سے آزادی پانے کے لیے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔

میرے پیارے ہم وطنوں، 14 اپریل ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی یوم پیدائش ہے۔ سالوں پہلے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے ہندوستان کے صنعتیت کی بات کہی تھی۔ ان کے لیے صنعت ایک ایسا اثردار ذریعہ تھا جس میں غریب سے غریب افراد کو روزگار دستیاب کرایا جا سکتا تھا۔ آج جب ملک میں میک ان انڈیا کی مہم کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے تو ڈاکٹر امبیڈکر جی نے صنعتی سپر پاور کے طور پرہندوستان  کا جو ایک خواب دیکھا تھا ان کا ہی ویژن آج ہمارے لیے ترغیب کا باعث ہے۔ آج ہندوستان عالمی صنعت میں ایک برائٹ اسپوٹ کے طور پر ابھرا ہے اور آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری، ایف ڈی آئی ہندوستان میں آ رہا ہے۔ پوری دنیا ہندوستان کو سرمایہ کاری کی جدت اور ترقی کے لیے ہب کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ صنعتوں کی ترقی شہروں میں ہی ممکن ہوگا یہی سوچ تھی جس کی وجہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے ہندوستان کے شہریت، پر بھروسہ کیا۔ ان کے اس ویژن کو آگے بڑھاتے ہوئے آج ملک میں اسمارٹ سیٹیز مشن اور اربن مشن کی شروعات کی گئی تاکہ ملک کے بڑے نگروں اور چھوٹے شہروں میں ہر طرح کی سہولت – چاہے وہ اچھی سڑکیں ہوں، پانی کی سہولت ہو، صحت کی سہولت ہو، تعلیم ہو یا ڈیجیٹل رابطہ دستیاب کرائی جا سکے۔ بابا صاحب کا سیلف ریلائنس، خود مختاری میں یقین تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی فرد ہمیشہ غریبی میں اپنی زندگی گزارے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی مانتے تھے کہ غریبوں میں صرف کچھ بانٹ دینے سے ان کی غریبی دور نہیں کی جا سکتی۔ آج مدرا منصوبہ، اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا انیشیئیٹیو ہمارے نوجوان اننوویٹرس، نوجوان انٹرپرینیورس کو جنم دے رہی ہے۔ 1930 اور 1940 کی دہائی میں جب ہندوستان میں صرف سڑکوں اور ریلوے کی بات ہوتی تھی اس وقت، بابا صاحب امبیڈکر نے بندرگاہوں اور آبی راستوں کے بارے میں بات کی تھی۔ یہ ڈاکٹر بابا صاحب ہی تھے جنہوں نے آبی قوت کو قومی قوت کے طور پر دیکھا۔ ملک کی ترقی کے لیے پانی کی دستیابی پر زور دیا۔ مختلف ندیوں گھاٹیوں کی اتھارٹیز ، پانی سے متعلق مختلف کمیشن یہ سب بابا صاحب امبیڈکر کا ہی تو ویژن تھا۔ آج ملک میں آبی راہوں اور بندرگاہوں کے لیے تاریخی کوششیں  ہو رہی ہیں۔ ہندوستان کے مختلف سمندری ساحلوں پر نئے بندرگاہ بن رہے ہیں اور پرانے بندرگاہوں پر انفرااسٹرکچر کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ 40 کی دہائی کی مدت میں زیادہ تر چرچا دوسری جنگ عظیم ، ابھرتی ہوئی سرد جنگ اور تقسیم کو لے کر کے ہوا کرتی تھی – اس وقت ڈاکٹر امبیڈکر نے ایک طرح سے ٹیم انڈیا کی اسپریٹ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ انہوں نے فیڈرالزم ، وفاقی نظام کی اہمیت پر بات کی اور ملک کے فروغ کے لیے مرکز اور ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا۔ آج ہم نے حکومت کے ہر پہلو میں سہکاری کو آپریٹیو وفاقی، کو آپریٹیو فیڈرالزم اور اس سے آگے بڑھ کر کے کمپٹیٹیو کو آپریٹیو فیڈرالزم کے منتر کو اپنا ہے اور سب سے اہم بات  کی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر پسماندہ طبقوں سے جڑے مجھ جیسے کروڑوں لوگوں کے ایک ترغیب کا باعث ہیں ۔ انہوں نے ہمیں دکھایا کہ آگے بڑھنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ بڑے یا کسی امیر خاندان میں ہی جنم ہو بلکہ ہندوستان میں غریب خاندانوں میں جنم لینے والے لوگ اپنے خواب دیکھ سکتے ہیں ، ان خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ ہاں ، ایسا بھی ہوا جب بہت سے لوگوں نے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا مذاق اڑایا۔ انہیں پیچھے کرنے کی کوشش کی۔ ہر ممکن کوشش کی کہ غریب اور پسماندہ طبقات کا بیٹا آگے نہ بڑھ پائے، کچھ بن نہ پائے، زندگی میں کچھ حاصل نہ کر پائے۔ لیکن جدید ہندوستان کی تصویر بالکل مختلف ہے۔ ایک ایسا انڈیا جو امبیڈکر کا ہے، غریبوں کا ہے، پسماندہ طبقوں کا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے یوم پیدائش کے موقع پر 14 اپریل سے 5 مئی تک گرام سوراج ابھیان منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت پورے ہندوستان میں دیہی – ترقی، غریب کلیان اور سماجی انصاف پر الگ الگ پروگرام ہوں گے۔ میرا، آپ سبھی سے گزارش ہے کہ اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، اگلے کچھ دنوں میں کئی تہوار آنے والے ہیں۔ بھگوان مہاویر کی یوم پیدائش، ہنومان جینتی، اسٹر، بیساکھی۔ بھگوان مہاویر کی یوم پیدائش ،ان کی قربانی اور تپسیہ کو یاد کرنے کا دن ہے۔ عدم تشدد کا پیغام دینے والے بھگوان مہاویر جی کی زندگی، فلسفہ ہم سبھی کے لیے ترغیب دے گی۔ سبھی ہم وطنوں کو مہاویر جینتی کی مبارکباد۔ ایسٹر کا ذکر آتے ہی بھگوان عیسیٰ مسیح کے ترغیب  دلانے والے  خطبہ یاد آتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہی انسانوں کو امن، ہم آہنگی، انصاف، رحم اور شفقت کا پیغام دیا ہے۔ اپریل میں پنجاب اور مغربی ہندوستان میں  بیساکھی کا تہوار منایا جائے گا، تو انہیں دنوں، بہار میں جڑشیتل و ستووائن، آسام  میں بیہو تو مغربی بنگال میں پوئلا ویساکھ کی خوشیاں چھائی رہے گی۔ یہ سارے تہوار کسی نہ کسی طور پر ہمارے کھیت کھلیانوں اور اناج دینے والوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان تہواروں کے ذریعہ ہم اپج کی شکل میں ملنے والے انمول تحائف کے لیے ماحولیات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر آپ سب کو آنے والے سبھی تہواروں کی ڈھیروں  مبارکباد۔ بہت بہت شکریہ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More