26 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

11اگست 2017ءکو بھارت کے نائب صدر جمہوریہ کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طورپر جناب ایم ونکیانائیڈو کے ذریعے ایوان میں کی گئی اولین تقریر کا متن

उपराष्‍ट्रपति पद की शपथ लेने के बाद 11 अगस्‍त, 2017 को राज्‍य सभा के सभापति के रूप में श्री एम. वेंकैया नायडू के पहले भाषण का मूल पाठ
Urdu News

نئی دہلی: عزت مآب وزیر اعظم جناب نریندر مودی ، ایوان کے محترم لیڈر جناب ارون جیٹلی، حزب اختلاف کے موقر لیڈر جناب غلام نبی آزاد، عزت مآب ڈپٹی چیئرمین جناب پی جے کورین، عزت مآب وزرا اور ایوان کے باوقار ارکان پارلیمنٹ ۔

جب 1998ءمیں ایک رکن کی حیثیت سے میں اس معزز ایوان میں داخل ہوا تو اس وقت میں نے یہ سوچا نہیں تھا کہ ایک دن اس ایوان کے چیئرپرسن کی حیثیت سے اس کی صدارت کرنے کا مجھے موقع ملے گا۔یہ ہماری پارلیمانی جمہوریت کی خوبصورتی اور اس کی شان و شوکت ہے اور اسی کے ساتھ اس کی طاقت بھی ہے۔ ہماری پارلیمانی جمہوریت کی یہ خوبی ہے کہ یہ مجھ جیسے ایک عام شخص کو ایک اعلیٰ عہدے پر فائز کرسکتی ہے اور اس عہدے سے متعلق متعدد ذمہ داریوں کی ادائیگی کے مواقع فراہم کرسکتی ہے۔ معزز ارکان پارلیمنٹ نے بھارت کے نائب صدر جمہوریہ کی حیثیت سے مجھے منتخب کرکے میری جو عزت افزائی کی ہے اس کے لئے میں انتہائی عاجزی کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ یہ میری عزت افزائی ہی ہے کہ مجھے راجیہ سبھا کے چیئرپرسن کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

میں ان تمام متعلقہ ارکان پارلیمنٹ کا ممنون ہوں ،جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور مجھے اس طرح کی ذمہ داری دی۔ سب سے پہلے میں آپ سب کو یہ یقین دہانی کرانا چاہوں گا کہ میں آپ کے توقعات پر پورا اترنے کی پوری کوشش کروں گا۔ اس باوقار ایوان کے چیئرپرسن کی حیثیت سے اپنے خیالات کے اظہار سے قبل میں ہندوستانی پارلیمنٹ کے اس وفاقی چیمبر کے مخزن اور اس کے رول پر مختصراً اظہار خیال کرنا چاہوں گا۔1918ء کی مونٹیگ چیملس فورڈرپورٹ کی بنیادوں کے ساتھ 1921ءمیں پہلی بار ریاستوں کی کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد حکومت ہند کے ایکٹ 1919ءکے تحت ووٹ دینے کے محدود اختیارات کے ساتھ آئین سازی کے ایک دوسرے چیمبر کی حیثیت سے اس کا قیام عمل میں آیا۔

اس کے بعد آئین ساز اسمبلی میں اس ایوان کی ضرورت پر بہت زیادہ مباحثے ہونے لگے تھے۔یہ سمجھا گیا کہ آزاد ہندوستان کو درپیش چیلنجوں سے نپٹنے کے لئےایک واحد براہ راست منتخب ایوان ناکافی ہوگا۔ اس کے مطابق ایک وفاقی چیمبر کی حیثیت سے ریاستوں کی کونسل کا قیام عمل میں آیا یعنی ایک ایسا ایوان جس کا انتخاب منتخب ارکان کرتے ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ ہند کو اس ایوان کے بلحاظ عہدہ چیئر مین بناکراس چیمبر کو وقار اور عزت بخشی گئی۔آئین ساز اسمبلی کے تعلیم یافتہ ارکان نے اس چیمبر کو ایک ایسے ایوان کا نام دیا جہاں غور و فکر ہوتا ہے اور جہاں منطقی تجزیہ ہوتا ہے۔آنجہانی جناب این گوپال سوامی ایانگر نے اس کوا یک ایسے ایوان سے تعبیر کیا جہاں کبھی کبھار جذبات کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ آنجہانی جناب لوک ناتھ مشرا نے اس کو ایک ہوش مند ایوان ،ایک نظر ثانی ایوان اور ایک ایسے ایوان کے طورپر تعبیر کیا جو معیار کے لئے جانا جائے اور ایوان کے ارکان کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ جو بات کہہ رہے ہیں اسے سنی جائے۔ اس ایوان میں بحث و مباحثہ کو مزید تقویت پہنچانے کے لئےیہ التزام بھی ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اصحاب علم کی ایک اچھی خاصی تعداد کو نامزد کیا جائے۔ اس ایوان سےیہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ وفاقی اسکیموں کے معاملے میں ریاستوں کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

معزز ارکان!

دنیا کی سب سے بڑی جمہوری اور تیز ی سے ابھرتی ہوئی معیشت کی حیثیت سے ہمارے ملک کو ایک موثر قانون سازیہ کی ضرورت ہے تاکہ و ہ اپنے کاموں کی دیکھ ریکھ کر سکے، ذرائع کا استعمال کرسکے،سماجی اور معاشی معیار کو یقینی بنائے۔معزز ارکان وقت ہمارے حق میں نہیں ہے۔ آزادی کے 70 سالوں بعد بھی غربت، جہالت، عدم مساوات، زرعی اور دیہی ترقی کے چیلنجوں اور طاقت کے غلط استعمال جیسے بنیادی مسئلوں سے ہم جوجھ رہے ہیں۔یہاں تک کہ ہماری آزادی کے حصول کے وقت وہ چند ممالک جو ان مسائل سے نبردآزما تھے وہ بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ بہتر انداز میں اپنی توانائی کا استعمال کر رہے ہیں۔

کسی انسان، ادارے یا قوم کی کامیابی کے لئے وقت کا بندوبست ضروری ہے۔ ہمارے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں میں جو مواقع ہم نے کھوئے ہیں اس کی تلافی کی ہمیں ضرورت ہے۔ اس معزز ایوان میں سال بھر میں 100 دن سے بھی کم کام کاج ہوتے ہیں۔کیا معزز ارکان کو اپنے ملک اور اپنے عوام کے کاز کے لئے اس دستیاب وقت کا بہتر استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ہمیں اپنی ملک کی تنوع اور یکجہتی پر فخر ہوتا ہے ۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو کیا ہم عمومی قومی اہداف کے حصول اور نوجوان بھارت کو اس کے عزائم کے احساس کرنے کے قابل بنانے کے لئے متحد نہیں ہو سکتے۔ہماری جمہوری سیاست متعدد سماجی اور معاشی امورپر مختلف خیالات و نظریات کے فروغ کی اجازت دیتی ہے، لیکن مخالفانہ سیاست کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جس سے پارلیمنٹ کے کام کاج پر اثر پڑے اور جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کی ترقی متاثر ہو۔

سیاسی جمہوریت قومی مفادات کی برآوری کے لئے ایک مقدس ذریعہ ہے، لیکن اختلافی سیاست جس کی گونج قانون سازیہ میں سنائی دیتی ہے وہ ملک اور عوام کی پیش قدمی کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ہماری پارلیمانی جمہوریت کے کسی چیمبر کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اس طرح کی اختلافی سیاست کی توسیع ثابت ہو ۔

ہر الیکشن جیتنے والے اور حزب اختلاف کو ایک ذمہ داری دیتا ہے یعنی مجلس عاملہ کی جواب دہی کویقینی بنانے کی ذمہ داری۔ پارلیمانی جمہوریت میں تعداد کی اہمیت ہو تی ہے، لیکن اس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی قانون سازیہ کے کام کاج کو محض اعداد و شمار کے کھیل میں تبدیل کردیں۔حکومتوں کی تشکیل کے ساتھ ہی اعداد و شمار کا کھیل ختم ہو جانا چاہئے اور اس کے بعد انتہائی نادر معاملوں میں ہی اس کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ہندوستان جیسی ایک ابھرتی ہوئی معیشت کی رہنمائی میں سبھی کی حصہ داری ہونی چاہئے۔

معزز ارکان!

ہمارے ملک کے لوگوں کی جو خواہش ہوتی ہے وہ یہ کہ پارلیمنٹ میں عقلمندی کی باتیں اٹھائی جائیں ، ان کی فکر مندیوں کی گونج سنائی دے اوراس پارلیمنٹ کے ذریعے ان کے مسائل حل ہوں۔گزشتہ سالوں میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اچھا کام کیا ہے،لیکن پارلیمنٹ کے کام کاج کو لے کر لوگوں میں تشویش اور ناراضگی بھی ہے۔ہمیں لوگوں کی اس ناراضگی کے تئیں سنجیدگی سے اپنا احتساب کرنا چاہئے۔ہمیں یہاں اپنے قول و عمل کے ذریعے مناسب ترامیم کرکے ریاستی قانون سازیہ کے لئے ایک نظیر قائم کرنی چاہئے۔ایوان کے موثر کام کاج کے لئے وقت اور جگہ کا بندوبست ضروری ہے۔خزانہ اور اپوزیشن کے بینچوں کے لئے جگہ اور وقت کا تعین کیا گیا ہے۔ بہتر نتائج کے مفادمیں ہمیں ان وقتوں اور جگہ کے اندر اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔پارلیمنٹ میں جس رویے کی ضرورت ہے وہ دونوں طرف سے دو اورلوکا رویہ ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ پارلیمنٹ کے کام کاج میں رخنہ اندازی کے بجائے اسے موثر ڈھنگ سے چلانے کے لئے اسٹریٹجی اختیار کی جائے۔اس کے لئے تمام متعلقہ فریقوں کی طرف سے ایک روشن خیال اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے ملک بھر کی قانون سازیہ کے کاموں میں رخنہ اندازی کرنے کو پہلا پارلیمانی آپشن سمجھا جانے لگا ہے۔اس نے ہماری پارلیمانی جمہوریت کے لئے سنگین اثرات مرتب کئے ہیں۔اس آپشن کو فوری طورپر ترک کرنے کی ضرورت ہے او ر اس کی جگہ موثر بحث و مباحثہ کیا جانا چاہئے، تاکہ عوام کو درپیش مسائل کا حل نکالا جاسکے۔اس وقت ہمارے لئے جو ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں خلل ڈالنے کے بجائے ایشوز پر سنجیدہ بحث و مباحثہ کریں۔میرا یہ پختہ ماننا ہے کہ حزب اختلاف کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے اور حکومت کو اپنے راستے پر چلنے کا حق حاصل ہے۔ اس کا لازمی مطلب ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں ایک دوسرے کو موقع دے رہے ہیں۔

ایوان کے موثر کام کاج کے لئے جو میں کرسکتاہوں اور جو میں کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ آپ سب کو بولنے اور کام کرنے کا موقع دیا جائے۔میں یقینی طورپر ایک ہیڈماسٹر جیسا نہیں ہو سکتا جو ڈسپلن کے راستے پر طلباکو چلائے۔یقینی طورپر مجھے معلوم ہے کہ اس طرح کام نہیں کیا جاسکتاہے۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ ایک دوستانہ اور باہمی اعتماد پر مبنی ماحول کو فروغ دوں۔ہماری قانون سازیہ کے کام کاج میں معمول کے کام ہوں ، ملک کو اس کی ضرورت ہے۔میری پوری کوشش ہوگی کہ آپ سب کے تعاون سے ایوان کے کا م کاج کو بہتر اور معمول طورپرچلاؤں۔

گزشتہ 19 برسوں سے اس باوقار ایوان کے ایک رکن اور زیادہ تر حزب اختلاف کے ایک رکن کی حیثیت سے میں ایوان کے دونوں فریقوں کی حساسیت ، کاروباری ضوابط، معزز ارکان کے حقوق و واجبات، کبھی کبھار ارکان کے احساسات اور ان کی مایوسیوں سے بھی میں اچھی طرح واقف ہوں۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن ، ڈاکٹر ذاکر حسین، جسٹس ہدایت اللہ، شری آر وینکٹ رمن، ڈاکٹر شنکر دیال شرما،جناب کے آر نارائنن، جناب بھیروں سنگھ شیخاوت جیسی ممتاز شخیصتوں نے اس معزز ایوان کی کارروائیوں کی صدارت منفرد انداز میں کی ہے۔میرے فوری پیش رو جناب حامد انصاری نے گزشتہ دس سالوں میں یہ کام بخوبی انجام دیا ہے۔میری پوری کوشش ہوگی کہ ان شخصیات کی قائم کردہ روایتوں اور معیارات کو برقرار رکھوں۔

اس موقع پر میں اپنے تمام معزز ارکان سے یہ اپیل کرنا چاہوں گا کہ ایوان میں کچھ کہنے یا کرنے سے پہلے ملک کے غریب ترین لوگوں کو ذہن میں رکھیں۔ ہمیں اپنی آئین کے روشن اصولوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ہمیں ایک بہتر مستقبل کے لئے لوگوں کے حقوق سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔میں آپ سب کو یہ یقین دہانی کرانا چاہوں گا کہ میری پوری کوشش ہوگی کہ میں بھارت کے نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کے عہدے کا وقار برقرار رکھوں اورآپ لوگوں نے مجھ پر جو اعتماد کیا ہے اس پر میں پورا اتروں۔میں آپ کی خدمت کے لئے حاضرہوں اور آپ کے اجتماعی شعور کے مطابق اس باوقار ایوان کے کام کاج میں بہتری کے لئے آپ کی تجاویز کا ہمیشہ خیر مقدم کروں گا۔

اخیر میں، میں معزز ارکان کو 1997ءمیں اپنی آزادی کی گولڈن جبلی کے موقع پر منعقدہ خصوصی اجلاس میں اس ایوان کے اختیار کردہ قرار داد کی یاد دہانی کرانا چاہوں گا۔ ارکان نےعہد کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے وقار کا تحفظ کریں گےاور اس میں اضافہ کریں گے۔ اس کے لئے وہ قواعد وضوابط کے پورے سلسلے کا احترام کریں گے اور ایوان کی کارروائی کو ہم آہنگ رہ کر چلانے کے لئے ایوان کے پریزائڈنگ افسر کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ آئیے، ہم سنجیدگی سے اس واحد قرارداد پر عمل کریں۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More