40 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

کیدار ناتھ میں کیدار پوری تعمیر نو پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

نئی دہلی؍ ،میرے ساتھ پوری طاقت سے بولئے،جےجےکیدار۔

‘دیو بھومی اترا کھنڈ کا سبھی بھائی بہنوں تے میرا سادر نمسکار۔بابا کیدار ناتھ کو آشرواد سبو پربنیو رہو، انہیں کامنا چھے۔’

کل ہی دیش اور دنیا میں دیپاولی کا پاون پرو منایاگیا۔ اسی دیپاوی کے پاون پرو نیمت دیش اور دنیا میں پھیلے ہوئے ہمارے سبھی بندھو-بھگینی کو کیدار ناتھ کی اس پوتر دھرتی سےانیک انیک مبارکباد دیتاہوں۔

گجرات جیسی کچھ ریاستیں ہیں، جہاں آج نیا سال شروع ہوتا ہے۔ نئے سال کی آمد سال مبارک۔ پوری دنیا میں پھیلے وہ سبھی خاندان جو آج نیا سال شروع کرتے ہیں ان کو بھی میری طرف سے نئے سال کی بہت بہت مبارکباد۔آ پ سب کو نیا سال مبارک ہو پھر ایک بار بابا نے مجھے بلایا ہے۔ پھر ایک کھنچتا چلاآیا بابا کے قدموں میں۔ آج پھر پرانے لوگ مل گئے مجھے۔ انہوں نے جو کچھ میرے بارے میں سنا ہوگا وہ آج مجھے پھر یاد دلارہے تھے۔

کبھی یہ گروڑ چٹی، جہاں پر اپنی زندگی کے اہم ترین سال گزارنے کا مجھے موقع ملا تھا وہ لمحہ تھے جب میں اس مٹی میں رنگ جمایاگیا تھا،لیکن شاید بابا کی مرضی نہیں تھی کہ میں ان کے قدموں میں اپنی زندگی گزاروں اور بابا نے مجھے یہاں سے واپس بھیج دیا۔بابا نے یہ شاید طے کیا ہوگا کہ ایک بابا کیا ، 125 کروڑ بابا ہیں دیش میں کبھی ان کی بھی تو سیوا کرو۔ہمارے یہاں تو کہا گیا ہے کہ خدمت خلق ہی پربھو کی خدمت ہے۔ اسی لیے آج میرے لئے 125 کروڑ اہل وطن کی خدمت ہی بابا کی خدمت ہے۔یہی بدری وشال کی خدمت ہے، یہی منداکنی کی خدمت ہے، یہی گنگا ماں کی سیوا ہے۔ اس لیے آج ایک بار پھر آج یہاں سے پابند عہد ہو کر نئی توانائی حاصل کرکے ، بھولے بابا کا آشیرواد لے کر پوتر من کے ساتھ اور عزم مصمم کے ساتھ 2022، ہندوستانی کی آزادی کے 75 سال ، ہر ہندوستانی کا عزم ، ہرہندوستانی کے د ل میں دنیا میں ہندوستان کو بلندیوں تک پہنچانے کا ارادہ ، بابا کے آشیرواد سے ہر ہندوستانی کی دل میں یہ جذبہ پیدا ہوگا ۔ ہر ہندوستانی اس عزم کے تکمیل کے لئے جی جان سےجٹے گا۔

اس عزم کے ساتھ میں سب سے پہلے اس پوتر دھرتی پر قدرتی آفات کے جو شکار ہوئے، دیش کے ہر ریاست میں سے کسی نہ کسی نے اپنا جسم یہاں چھوڑ دیا اور بابا کی دھرتی میں وہ مل گیا۔ ان سبھی آتماؤں کو آج میں بصد احترام عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کا تعلق ملک کی تمام ریاستوں کے ساتھ تھا اور اس وقت میری فطری بے حسی تھی۔ میں اس وقت یوں تو کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ تھا۔ کسی دوسری ریاست کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کا مجھے حق حاصل تھا اور نہ میں ایسا کبھی سوچ سکتا ہوں، لیکن اس وقت میں اپنے آپ کو نہیں روک پایا ۔ اچھا کیا یا برا کیا یہ تو تاریخ طے کرے گی، تاہم ان متاثرین کے لیے پہنچ جانا اس سے میں خود کو نہیں روک پایاتھا  اس لیے میں یہاں چلا آیا تھا۔

اس قت میں نے یہاں کی حکومت سے اپیل کی تھی کہ آپ گجرات سرکاراور حکومت کو کیدار ناتھ کی تعمیر نو کی ذمہ داری سونپ دیجئے۔یہاں کے تعلق سے دیش واسیوں کا جو بھی خواب ہوگا میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچاؤں گا۔جب ہم اس وقت ایک کمرے بیٹھے تھے، تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ ہماری اس درخواست سے متفق تھے، تمام افسران بھی مجھ سے متفق تھے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اچھا ہے مودی جی اگر گجرات ذمہ داری لیتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور میں خوشی میں باہر نکل کر سامنے بھی اس عزم کا اظہار کیا تھا۔ اچانک ٹی وی پر یہ خبر آئی کہ مودی اب کیدار ناتھ کی تعمیر نو کی ذمہ داری لے رہا ہے۔پتہ نہیں دہلی میں کیوں طوفان آگیا۔انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ گجرات کا وزیر اعلیٰ کیدارناتھ بھی پہنچ جائے گا۔ایک گھنٹے کے اندر ایسا طوفان آگیا کہ ریاستی حکومت پر دباؤ پڑنے لگا اور ریاستی حکومت کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہمیں گجرات کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، ہم یہ کام خود کردیں گے۔ جب دہلی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے تو میں کسی کیوں پریشان کروں۔ میں راستے سے ہٹ گیا، لیکن شاید بابا نے طے کیا تھا کہ یہ کام بابا کے اس بیٹے کے ہاتھ سے ہیں انجام پائے۔

جب یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی اور اترا کھنڈ کے عوام نے پوری حمایت کی تو مجھے یقین ہوگیا کہ بابا نے طے کر لیا ہے یہ کام مجھے ہی کرنا پڑے گا۔اسی لیے جب مندر کا کپاٹ کھلنے کا وقت آیا تو میں یہاں آیا تھا اور دل میں کچھ عزم لے کر گیا تھا ۔ کپاٹ بند ہونے سے پہلے ہی یہاں پہنچ گیا ہوں اور بابا کے قدموں میں ایک بار پھر عرضی گزار ہوں۔ کیدارناتھ کی مٹی کے مد مقابل ایسی شاندار تعمیر نو کے لئے سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے۔آنے والے دنوں میں یہ تیرتھ چھیتر کیسا ہونا چاہئے، یہاں کے پروہتوں کے لئے کیسا نظم ہونا چاہئے، پنڈتوں کے تمام ضرورتوں کو پیش نظر رکھا جائے گا۔انہوں نے جو مصیبت جھیلی ہے اس سے کہیں بہترزندگی انہیں ملے اس کے لئے کیسا انتظام کیا جائے اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس خطے کی ترقی اور تعمیر نو کا منصوبہ اور خاکہ تیار کیا گیا ہے۔ میں خود مسلسل میٹنگیں کرتا رہا ہوں اور ہر چیز کو دیکھتا رہا ، ڈیزائن کیسا ہوگا، فن تعمیر کیا ہوگا، ہماری جو مذہبی عمارتیں ہوتی ہیں، یعنی مندروں کا جو آرکیٹکچر ہوتا ہے ان سبھی ضابطوں اور اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اس جگہ کی تعمیر نو کیسی ہوگی ان سب کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا خاکہ تیا رکیا گیا ہے۔

اب پروہتوں کو رہائش کے لئےجو مکان ملیں گے ایک طرح سے تھری ان ون ہوں گے۔نیچے جو یاتری آئیں گے ان کی سیوا کے لئے جیسا انتظام کرنا چاہئے اس کا پورا نظم ہوگا۔عمارت کی بالائی منزل وہ خود قیام کریں گےا ور اس کے اوپر جو پروہت ہے اور ان کے جو ججمان آتے ہیں، ان کے وہاں جو مہمان آتے ہیں ان کے قیام کا بھی نظم ہوگا۔بجلی 24 گھنٹے دستیاب ہوگی۔پانی دستیاب ہوگا، صفائی ستھرائی کا پورا نظم ہوگا اور سڑکیں کافی چوڑی کردی جائیں گی۔اس کے علاوہ پروہتوں کے علیحدہ سے نظم کیاجائے گا۔

کثیر تعداد میں یاتریوں کے آنے بعد کچھ ان کو پوجا پرساد لینے ، کچھ یہاں تیرتھ کی چیزیں لینے جیسی تمام چیزوں کا نظم ہوگا۔پوسٹ آفس ہوں گے، بینک ہوں گے، ٹیلی فون کا نظم ہوگا، کمپیوٹر کے استعمال کی سہولت ہوگی۔ یہ سب انتظام ہوگا۔

آج یہاں ایک طرح سے پانچ پروجیکٹ شروع ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہاپورے شہر کی توسیع ہوگی، انہیں آر سی سی سے بنایا جائے گا اور تمام جدید سہولیات سے منسلک کیا جائے گا۔یاتری جیسے ہی چلنے کی شروعات کرے گا، جس وقت وہ یہاں پہنچے گا اسی وقت کے مناسبت سے منداکنی کے ایک کنارے سے وہ موسیقی سنتا ہوا، بھکتی سے لبریز ہوتا ہوا اس طرف رواں دواں رہے گا۔

منداکنی کے گھاٹ پر بھی ریٹیننگ وال کی تعمیر کا کام ہوگا۔ جو لوگ یہاں آئیں گے انہیں یہاں سستانے کے لئے بیٹھنے کی سہولت حاصل ہوگی۔ اٹکھیلیاں کرتی ہوئی ندی کی لہروں کی صدائیں سن پائیں ایسا انتظام ہوگا۔جیسا کہ میں نے ابھی کہا ایپروچ روڈ بنے گا۔ اس میں روشنی کا انتظام بھی ویسا ہی رہے گا جیسا منداکنی کے پاس ریٹیننگ وال اور ایک گھاٹ کی تعمیر ہوگی، کیونکہ دونوں طرف پانی کی طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ پانی کے آبشار کا احساس ہوتا ہے۔ ایک طرف ہے ماں سرسوتی اور اس کے بھی ریٹیننگ وال اور گھاٹ کی تعمیر کی جائے گی۔ اس پر بھی کافی رقم خرچ کی جائے گی۔

عقیدت کا موضوع رہا ہے ۔ ڈھائی ہزار سال قبل کیرالہ کی کاگری میں آنکھیں کھونے والا بچہ سات سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑ کر نکل پڑتا ہے۔ ہماچل، کشمیر سے کنیا کماری تک ماں بھارتی کی سیر کرتا ہے۔ ہر خطے کی مٹی کو اپنی جبیں پر لگاتا ہے و تلک کرتا ہوا اس کیدار تک پہنچتا ہے اور اپنی زندگی کی شام میں خود کو یہیں کی مٹی میں ملا دیتا ہے۔ جس آدی شنکرآچاریہ کے لئے ایک پوری چنتن دھارا بھارت میں سینکڑوں سال تک باعث ترغیب رہی ہے، عوام کو متاثر کرتی رہی ہے ، ان کی جائے سمادھی ، وہ بھی اس حادثے میں تباہ ہوگئی۔ اس کے ڈیزائن پر بھی کام چل رہا ہے۔ میں عقیدت اور فن تعمیرات سے متعلق افراد کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ایسے عظیم آدی شنکر کی جگہ  کو  ایسا بنائیں، ان کی سمادھی ایسی بنائیں کہ آدی شنکر کی جگہ کیدار ناتھ سے علیحدہ قطعی محسوس نہ ہو۔یاتریوں کو آدی شنکر کے پاس جاتے ہی ان کے عظیم تپسیا کے ساتھ مذہبی ماحول کا احساس ہو ۔ یہاں ایسی تعمیر ہو اس سلسلے میں کام چل رہاہے۔ آج اس کا بھی سنگ بنیا درکھا جارہا ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ اس پروجیکٹ پر کافی خرچ ہوگا ،لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک بار ہندوستان کے یاتری عقیدت کے ساتھ طے کرے تو جس طرح کی تعمیر نو کرنی ہے، ویسی تعمیر نو میں رقم کی کمی کبھی  بھی نہیں رہے گی ایسا مجھے یقین ہے۔میں ملک کی دوسری ریاستوں کو بھی اس میں تعاون کی دعوت دیتا ہوں۔ میں کارپوریٹ سوشل ریسپونسبلیٹی کے لیے بھی صنعتی دنیا اور تجارتی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہاتھ بٹانے کی اپیل کروں گا۔

میں جے ایس ڈبلیو کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ابتدائی کام سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن جو بات میرے ذہن اور خواب میں آتی ہے ان میں نئی نئی باتیں جڑ جاتی ہیں اس کے لیے اور بھی سی ایس آر سے متعلق لوگوں سے اپیل کروں گا۔

جب اتنی زیادہ رقم یہاں صرف ہوگی ، اتنا سارا بنیادی ڈھانچے پر کام ہوگا تو اس میں ماحولیات کے ضابطوں پر بھی عمل کیا جائے گا۔یہاں کی پسندیدگی ، فطرت اور رجحان کے مطابق ہی اس کا تعمیر نو کیا جائے گا۔اس میں جدیدیت ہوگی لیکن اس کی روح وہی رہے گی جو صدیوں سے کیدار کی سرزمین نے اپنے اندر سمیٹ رکھی ہے۔ ایسی تعمیر نو کے لئے کام ہوگا۔

میں جب یہاں آیا تھا اس وقت کپاٹ کھلنے کا وقت  تھا، اس وقت میرے ذہن میں یہ تھا میں ملک کو ایک پیغام دینا چاہتا تھا کہ حادثے کے اثر سے باہر نکلیں۔ گھر سے نکلنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں وہاں انتظام ہوا ہے کہ نہیں، وہاں جا پائیں گے کہ نہیں، اس لیے یاتریوں کی تعداد میں کمی آئی تھی، لیکن مجھے خوشی ہے کہ اس بات تقریباً 4 لاکھ سے زائد یاتری بابا کی چرنوں میں آئے۔پھر سے ایک بار یہاں یاترا باضابطہ انجام پارہی ہے اس لیے آئندہ سال 10 لاکھ سے کم نہیں ہوگی۔ آپ یہ لکھ کر رکھ لیں، کیونکہ لوگوں کو یقین ہے اور ان تک یہ پیغام پہنچ چکا ہے۔ ٹی پر پورے ملک نے دیکھا ہےاور آج اس پروگرام سے پھر یہ پیغام پہنچ جائے گا کہ جب مندر کے کپاٹ کھلیں گے تو اور جب یاترا شروع ہوگی تو پھر دوبارہ سے پورے ہجوم کے ساتھ یاتری کیدار ناتھ کے لئے چل پڑیں گے۔ایک بار پھر اتراکھنڈ جو دیو بھومی ہے ،جو ہماری ویر بھومی ہے، جو ویر ماتاؤں کی سرزمین ہے اس بڑھ کر کوئی دوسری جگہ نہیں ہوسکتی۔

اپنے ملک کے ہمالیہ کی بڑی خصوصیات تھیں، یہاں ترقی کے وسیع امکانات ہیں اور اس کے قطع اراضی کی اپنی علیحدہ علیحدہ خصوصیت ہے۔اگر شری نگر جائیں تو ہمالیہ اس خطے میں الگ ہی احساس ہوتا ہے۔ ماتا ویشنو دیوی ، امر ناتھ جائیں تو دوسرا احساس ہوتاہے۔ ہماچل پردیش وہی برف کا پہاڑ ، شملہ، کلو منالی چلے جائیں تو وہاں الگ ہی احساس ہوتاہے، لیکن اسی ہمالیہ کی گود میں اتراکھنڈ کی سرزمین پر آتے ہیں تو ایک روحانیت کا احساس ہوتا ہے۔وہی ہمالیہ دارجلنگ جائیں تو الگ احساس ہوتاہے، سکم چلے جائیں تو وہاں کچھ احساس ہوتاہے۔ آپ سوچیں ایک ہی ہمالیہ ، وہی ہوا، وہی پہاڑ، وہی برف،لیکن الگ الگ خطے میں الگ الگ احساس ہوتاہے۔

میں ہمالیہ کی گود میں بہت بھٹکا ہوا انسان ہوں ۔ میں نے ہر علاقے کے شعور کو الگ سے محسوس کیا ہوا ہے اور اس لئے میں اس کو اپنی زبان سے اس لئے بتا پارہا ہوں۔ میں نہیں جاتا ہوں سائنسی لیباریٹری میں کسے کس ترازو سے تولا جاتا سکتا ہے لیکن میں نے جس طرح سے ہمالیہ کو محسوس کیا ہے، وہ ہمالیہ دنیا کے لئے، اگر کسی کو یہاں کے جنگلاتی  اثاثے میں  دلچسپی ہو تو زندگی بھر کھوج کرنے کے لئے وسیع میدان کھلا پڑا ہے۔ کسی کو ایڈونچر میں دلچسپی ہے، تو پورا ہمالیہ  دنیا کے ہر ایڈونچرسٹ کو مدعو کرتا ہے، جس کو یہاں کی جڑی بوٹی میں دلچسپی ہے، ہربل میڈیسن میں دلچسپی ہے، ہماچل کی ، ہمالیہ کی ہر گود میں ایسی قدرت پلی ہوئی ہے کہ وہ ایک نیا شعور کا احساس کراسکتی ہے اور ہربل میڈیسن کے استعمال ہیں جو یہاں کے گاؤں کے لوگ جاتے ہیں، میں نے دیکھا ہے اگر بچھو بوٹی  ڈنک مار دے ، غلطی سے کاٹ جائے تو گاؤں کا آدمی آکر فوراً بتاتا ہے کہ ارے رو مت ، یہ دوسری والی جڑی بوٹی ہے، ادھر لگادے  ٹھیک ہوجائے گا۔ پتی لگادیتا ہے، ٹھیک ہوجاتا ہے اور دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ کیا پرماتما نے انتظام رکھا ہے اور اس لئے اس کے اندر جتنا جائیں گے، اور اس لئے دہرہ دون میں یہ ہمارا جو قدرتی اثاثہ ہے، بھارت سرکار نے اس کے ہمالیہ اثاثے کے لئے، ریسرچ کے لئے ایک بہت بڑا کام شروع کیا ہے،جو آگے جاکر بہت بڑا ہونے والا ہے۔

ہمارے ہمالیہ کی گود میں آرگینک فارمنگ پوری دنیا کے لئے ایک بہت بڑے امکانات والی جگہ  میں دیکھتا ہوں۔ سکم چھوٹا سی ریاست ہے۔ 6، 7 لاکھ کی آبادی ہے لیکن 12، 15 لاکھ ٹورسٹ آتے ہیں، اور وہاں جانے  آنے کے راستوں کی بھی  دشواری ہے، ہوائی اڈہ بھی نہیں ہیں۔ اب میں بنارہا ہوں۔ بن جائے گا کچھ وقت میں۔ اس کے باوجود بھی اتنی تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں۔ سکم میں پوری ریاست آرگینک بن رہی ہے۔

دس بارہ سال تک لگاتار بین الاقوامی معیار ات کے وسائل نے کام کیا ہے۔سارے ہمالیہ کی کود میں کیمیکل فرٹی لائزر سے پاک ، ساری ہمالیائی ریاست میں دوائیوں سے چھٹی،  پیڑ پودوں کی دوائیاں، کھیت کے دواؤں کا چھڑاؤ بند۔اگر دس بارہ سال صبر سے کام کریں تو  ہماری جس پیداوار سے ایک روپیہ ملتا ہے، دنیا آپ کو ایک ڈالر دینے کےلئے تیار ہوجائے گی۔ یہ آرگینک فارمنگ کی طاقت ہوتی ہے۔

میں اتراکھنڈ کو اختیار دیتا ہوں۔ اتراکھنڈ کی سرکاری سے درخواست کرتا ہوں کہ، میں اتراکھنڈ کے افسران سے درخواست کرتا ہوں کہ بیڑا اٹھائیں۔ اتراکھنڈ کو آرگینک ریاست بنانے کا خواب لیکر چلیں، 2022 کا ہدف ہو اور ابھی سے کام پر لگیں۔ سرٹی فائی کرنے میں شاہد دس سال لگ جائیں ، اس کے اصول ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایک بار طے کرلیں، جیسے عوامی بیداری لائیں گے، چیزیں بدلیں گی۔ آپ تصور کرسکتے ہیں آج پوری دنیا ہالسٹک ہیلتھ کیئر کی جانب گامزن ہے اور تب جاکر کیمیکل کی دنیا سے دور ہمارے کھیل پیداوار کو لے جائیں گے تو ہم انسانیت کی بڑی خدمت کریں گے۔ ہمالیہ کی یہ طاقت،  اس کو بھی آگے بڑھائے گی۔

سیاحت یا ٹورزم کے لئے بہت ممکنات ہیں۔ اس کی روحانی صلاحیت کو ذرا بھی کھروچ نہیں آنی چاہیے۔ اور اس کے ساتھ ٹورزم کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ نئے نئے علاقے فروغ دیئے جاسکتے ہیں۔ قدرت کی بھی حفاظت ہو، ماحولیات کی بھی حفاظت ہو اور پرماتمہ کے تئیں عقیدت کا جذبہ بھی بنا رہے۔

ہمارے یہاں پہاڑوں میں کہاوت بڑی پرانی ہے۔ پہاڑ کی ایک فطرت ہوتی ہے۔ پہاڑی کی جوانی اور پہاڑی کا پانی کبھی پہاڑ کے کام نہیں آتا ہے۔ ہم نے بیڑا اٹھایا ہے یہ کہاوت بدلنے کا۔ پہاڑ کی جوانی پہاڑ کے کام آنی چاہیے اور پہاڑ کا پانی بھی پہاڑ کے کام آنا چاہیئے اور اسی پانی سے بجلی پیدا ہونی چاہیے۔ اسی پانی پر ایڈونچر ٹورزم چلنا چاہیے۔ اسی پانی پر واٹر اسپورٹس چلنا چاہیے۔ اسی پانی پر ٹورزم کے نئے نئے شعبوں کی ترقی ہونی چاہیے اور دنیا بھر کی جوانی کو دعوت دینے کی صلاحت اس پانی میں اور پانی جو پہاڑ کے کام نہیں آتا تھا وہ پانی پہاڑ کےلئے کام آجاہے۔ جو جوانی پہاڑ سے اترکرکے نیچے میدانی تعلقہ میں چلی جاتی ہے، روزی روٹی کی تلاش میں ہم پہاڑوں میں وہ طاقت پیدا کریں تاکہ جوانی کو کبھی پہاڑ چھوڑنے کی نوبت نہ آئے۔ پہاڑ کی جوانی پہاڑ کے کام آجائے۔ یہ کام کرنے کی سمت میں ایک کے بعد ایک قدم بھارت سرکار اٹھارہی ہے۔

اتراکھنڈ کی حکومت نے بھی اتنے کم وقت میں، اتنے اہم فیصلے لئے ۔ اتنی اہم پہلیں کیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ترقی ایک نئی بلندیوں کی جانب گازم ہے، ایک نیا اعتماد پیدا ہوگیا۔ اتراکھنڈ کے پاس کافی صلاحیت ہے۔یہاں ڈسپلن ، یہاں کی رگوں میں ہے، کوئی خاندان ایسا نہیں ہے کہ جس خاندان میں کوئی فوجی نہ ہوا ہو۔ کوئی گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں ڈھائی سو۔ تین سو سبکدوش فوجی نہ ہوں اور جہاں فوجی اتنی تعداد میں ہوں، وہاں تو ڈسپلن قابل داد ہوتا ہے۔ مسافروں کے لئے ڈسپلن بہت بڑی علامت ہوتی ہے۔ ٹورسٹوں کے لئے یہ ڈسپلن ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اس کو ہمیں متعارف کرانا چاہیے۔ اس کے لئے ہمیں منصوبہ بنانا چاہیے۔ سبکدوش ہمارے فوجیوں کو اس کے اس تجربے کو استعمال کرتے ہوئے ٹورسٹوں میں ایک نیا یقین پیدا کرنے کے لئے ہمیں  ایک ایسے نظام  کی تشکیل کرنی چاہیےجو ہمارے دوسروں کے لئے ایک بہت بڑی علامت بن سکتی ہے۔ بہت بڑے ممکنات ہیں اور ان ممکنات کو لیکر اتراکھنڈ کی ترقی، اتراکھنڈ ملک کے لئے سب سے بڑی توجہ کا مرکز بنے، سب سے چہیتا ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن بنے، ٹورسٹ کے لئے تو اتراکھنڈ، یاتری کے لئے تو اتراکھنڈ، ایڈونچر کے لئے تو اتراکھنڈ،  اعلی قدرت کے لئے قدرت کی گود میں رہنے والوں کی خواہش کے لئے اتراکھنڈ، اصلاح ،  کھوج کرنے والوں کے لئے اتراکھنڈ۔

 یہ طاقت جس زمین میں ہے، میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیے آج دیوالی کے ان دنوں میں اور ایک طرح سے  نئے سال کی شروعات میں، ہمارے یہاں پورا ہندوستان  دیوالی کے دن پرانے بہی کھاتے پورے کرتا ہے اور نیا بہی کھاتہ شروع ہوتا ہے۔ آج ایک  ترقی کا بہی کھاتہ شروع ہورہا ہے۔ اس نئے بہی کھاتے سے ہم  فروغ کی کہانی شروع کررہے ہیں۔  نئی اونچائیوں پر لے جانے کے لئے آگے بڑھیں گے۔ میں آج بھی کئی اور مشورے دئے ہیں۔ ریاستی سرکار اس کو دوبارہ دیکھے گی۔ پھر ایک بار ایک آدھ مہینے میں میں دوبارہ ملوں گا۔  جن چیزوں کو میرے من میں اور  بھی اس علاقے کرنے کے ارادے ہیں اس کو بھی تقویت دوں گا۔ اگر ہم ماحول کی حفاظت کریں گے، ماحولیات ہماری حفاظت کرے گا یہ میں گارنٹی دیتا ہوں۔ اگر ہم قدرت کی حفاظت کریں گے، قدرت ہماری حفاظت کرے گی، یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔

تاریخ گواہ ہے کہ صدیوں سے جب جب قدرت کی حفاظت ہوئی ہے، جہاں جہاں حفاظت ہوئی ہے وہاں قدرت کی طرف سے کوئی دشواری نہیں آئی ہے۔ جہاں جہاں ماحولیات کی حفاظت ہوئی ہے، ماحولیات کو کبھی دشواری نہیں آئی ہے۔ اور یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے ہم  لوگوں کو وہ طاقت دے سکتے ہیں۔

ہم نے ایک بیڑا اٹھایا تھا،  لکڑی کے چولہوں سے لوگوں ک آزادی دلاکر جنگلوں کو کاٹنے سے بند کرنے کے لئے  پردھان منتری اجوولا یوجنا سے غریب سے غریب کنبے میں گیس کو چولہا پہنچانا، گیس کا سیلنڈر پہنچانا۔ ماحولیات کی حفاظت کی بڑی مہم تھی۔  اتراکھنڈ اور بھارت سرکار نے مل کرکے اتراکھنڈ میں اس کام کو بہت بڑی تعداد میں آگے پہنچایاہے۔

اب دوسرا   بیڑا اٹھایا ہے۔ ہندوستان میں آج چار کروڑ کنبے ایسے ہیں جن کے گھر میں بجلی کا لٹو نہیں ہے۔ آج بھی اٹھارہویں، انیسویں صدی میں جانے کے لئے مجبور ہیں۔ یہ اکیسویں  صدی ہے، غریب سے غریب کنبے میں بھی بجلی کا لٹو روشن ہونا  چاہیے۔ روشن ہونا چاہیے کہ نہیں چاہیے؟ غریب کنبے کے بچے بھی رات میں   میں پڑھ سکیں، تو بجلی ملنی چاہیے کہ نہیں ملنی چاہیے ۔غریب کو بھی آٹا چکّی پر پسوانا ہے، گیہوں اپنا پسوانا ہے، اناج اپنا پسوانا ہے، اس کو 10 کلومیٹر جانا  پڑے، اس کے بجائے اپنے ہی گاؤں میں چکّی ہو، بجلی سے چلنے والی چکی ہو، اس کا گیہوں پیسنے کا کام، باجرہ پیسنے کا کام ہوگا کہ نہیں ہوگا؟ غریب کی زندگی کو بدلنے کے لئے پردھان منتری سوبھاگیہ یوجنا سے چار کروڑ کنبوں میں گھر کے اندر کنکشن دینے کا میں نے بیڑا اٹھایا ہے۔ اتراکھنڈ میں بھی ابھی بھی ہزاروں کنبے ہیں جن کے یہاں مجھے بجلی پہنچانی  ہے۔

میں اتراکھنڈ حکومت کو دعوت دیتا ہوں کہ بھارت سرکار کی اس مہم کو آپ اٹھالیجئے اور ریاستوں کے درمیان مقابلہ ہو، کونسی ریاست سب سے پہلے سوبھاگیہ یوجنا پوری کرتی ہے؟  کونسی ریاست سب سے پہلے پردھان منتری اجوولا یوجنا تک پہنچتی ہے؟ کونسی ریاست سب سے زیادہ ٹورزم کو آگے بڑھاتی ہے؟ آنے والے وقت کے لئے جو ترقی کے میدان ہیں، اس کے لئے  ریاستوں کے مابین ایک صحت مند مقابلہ ہو، میں سبھی ہمالیائی ریاستوں کو مقابلے کے لئے مدعو کرتا ہوں۔ میں ملک کی سبھی ریاستوں کو مدعو کرتا ہوں۔ آیئے ایک ریاست، دوسری ریاست کے ساتھ صحت مند مقابلہ کرے۔ ہیلدی کمپیٹیشن کرے اور ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچے۔

مجھے اتراکھنڈ کو اس بات کےلئے مبارکباد دینی ہے۔ بیت الخلا، کھلے میں رفع حاجت سے پاک؛ گزشتہ دنوں مجھے بتایا گیا کہ اتراکھنڈ نے دیہی علاقے میں بیت الخلا کے کام کو پورا کرلیا ہے۔ اب گاؤں میں کسی بھی کھلے میں رفع حاجت کے لئے جانا نہیں پڑ رہا ہے۔ شہروں میں کام چل رہا ہے۔ کچھ ہی وقت میں شہر سمیت پورا اتراکھنڈ کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہونے کی تیاری کررہا ہے۔

اب تک  کام میں آپ نے جو رفتار دی ہے، اس کے لئے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ لیکن میری درخواست رہے گی کہ اس کو ایک مشن موڈ میں چلایا جائے۔  شہروں میں بھی کسی کو کھلے میں رفع حاجت کےلئے مجبور نہ ہونا پڑے۔

کچھ  دن پہلے میں اترپردیش گیا تھا۔ اترپردیش میں بڑا بیڑا اٹھایا، یوگی جی کی سرکار نے۔  اور انہوں نے بیت الخلا کا نام ہی بدل دیا ہے۔ اب وہ بیت الخلا کو بیت الخلا نہیں کہتے۔ بیت الخلا کو سنڈاس نہیں کرتے ۔ انہوں نے بیت الخلا کا نیا نام رکھ دیا ہے عزت گھر۔

میں سمجھتا ہوں جن ماں بہنوں کو کھلے میں رفع حاجت کے لئے جانا پڑتا ہے، وہ اس بات کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ عزت گھر کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ ہم بھی اس عزت گھر کی مہم چلائیں۔ ماں بہنوں کو عزت دینے کے لئے بیت الخلا اپنے آپ میں ایک بہت بڑی سہولت ہے۔ ان کی صحت کے لئے بھی بہت سہولت ہوتی ہے۔ ابھی یونیسیف نے سروے کیا ہے ۔ ہندوستان کے دس ہزار گاؤوں کا سروے کیا ہے اور جن گھروں میں بیت الخلا بنایا تھا، اور جن گھروں میں بیت الخلا نہیں تھا وہ، جو گاؤں بیت الخلا کے بارے میں بیدار تھے اور وہ جو گاؤں  بیت الخلا کے بارے میں  بیدار نہیں تھے، ان سب کا انہوں نے مطالعہ کیا ہے، یونیسیف نے۔ یونائیٹڈ نیشن کی یہ تنظیم ہے اور انہوں نے پایا ہے کہ بیت الخلا نہ ہونے کے سبب مختلف قسم کی بیماریاں جو گھر میں آتی ہیں، ان بیماریوں کی وجہ بچے بیمار ہوتےہیں تو ماں اس میں مصروف ہوجاتی ہے، باپ مصروف ہوجاتا ہے، بچہ اسکول نہیں  جاتا ہے، روزی روٹی کمانے کے لئے باپ نہیں جاپاتا۔ ماں بیمار ہوگئی تو پورا گھر بیمار ہوجاتا ہے۔ گھر میں کمانے والا اگر بیمار ہوگیا تو آمدنی بند ہوجاتی ہے، پورا کنبہ بھوکا مر جاتا ہے اور یہ سب دیکھ کر ناہوں نے سروے کیا کہ بیت الخلا اگر نہیں ہے تو  بیماری کو جو خرچ ہوتا ہے اور بیت الخلا بن جاتا ہے تو یونیسیف والوں نے سروے کرکے نکالا ہے کہ غریب کنبے کا بیماری کے پیچھے 50 ہزار روپے کا خرچہ بچ جاتا ہے، آپ سوچیئے اگر ایک کنبے کا سال کا پچاس ہزار روپے بچ جائے، اس کنبے کی زندگی میں کتنی بڑی طاقت آجائے گی۔

 ایک بیت الخلا زندگی بدل سکتا ہے اور اس لئے پورے ملک میں جتنی عقیدت کے ساتھ بابا کیدار ناتھ دھام کی تعمیر ہوتی ہے اسی جذبے کے ساتھ مجھے ہندوستان کے غریب ملکوں بیت الخلا بنانے کی مہم بھی چلانی ہے۔ میرا ملک تبھی آگے بڑھے گا، اس جذبے کو لیکر ہم آگے چلیں۔

میں  پھر ایک بار اتراکھنڈ کی حکومت کا خیرمقدم کرتا ہوں،  ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ملک بھر کی چار دھام یاترا پر  آنے والے لوگ، جنہیں پتہ ہے کہ ہم نے 12 ہزار کروڑ روپے کے چار دھام کو جوڑنے ولاے نئے روڈ بنانے کا کام شروع کردیا ہے۔ جدید کنکٹ وٹی کا انتظام شروع کردیا ہے۔

اب یہ کیدار دھام اس طرح سے بنے گا۔ میرا کیدار ناتھ شاندار ہوگا۔ الوحی ہوگا۔ ترغیب کے لئےاعلی مقام بنے گا۔   یہ سواسو کروڑ ہم وطنو کی عقیدت کا مرکز بن رہی ہے۔  ہر بچے کا ارادہ ہوتا ہے، بوڑھے ماں باپ کو کبھی نہ کبھی چار دھام کی یاترا کراؤں گا۔

 آئی یہ حکومت وہ کام کررہی ہے جو سواسو کروڑ ہم وطنو کا خواب ہے۔  ان کو پورا کرنے کے لئے کام کررہی ہے۔ کام اتراکھنڈ کی سرزمین پر ہورہا ہے، لیکن کام ہندوستان کے جن جن کے لئے ہورہا ہے۔ اس کام کو آپ کے سامنے شروع کرتے ہوئے زندگی میں ایک انتہائی الوحی سکون محسوس کررہا ہوں۔

میری آپ سب کو نیک خواہشات، پھر ایک بار بھولے بابا کو وندن کرتا ہوں۔ پھر ایک بار میں آپ سے درخواست کرتا ہوں، میرے ساتھ دونوں مٹھی بند کرکے پوری طاقت سے بولئے…….

جے بابا بھولے، جے بابا بھولے

جے بابا بھولے، جے بابا بھولے

بہت  بہت شکریہ!

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More