35 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

کسانوں کی پریشانیاں دور کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں ضروری ہیں: نائب صدر جمہوریہ

Urdu News

نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند ونکیا نائیڈو نے کہا کہ ملک کا کوئی بھی کسان پریشان حال نہ ہو، اس بات کو یقینی بنانے کے لئے تمام شرکاء کی جانب سے ٹھوس کوششیں ضروری ہیں۔

جناب  ایم ونکیا نائیڈونے آج وجے واڑہ میں سورن بھارت ٹرسٹ ،اتکُر، کے تحت سورن بھارت ٹرسٹ نے اچاریہ این جی رنگا ایگریکلچرل یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کسانوں اور سائنسدانوں کی مذاکراتی کانفرنس میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا ہے کہ ملک میں سب سے اہم ضرورت زراعت کو لچکدار ، پائیدار اور  منفعت بخش بناکر کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘‘اس پہلو کو اعلیٰ ترجیح دینے کے لئے مرکز اور مختلف  ریاستوں دونوں میں ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں لانا ضروری ہے۔’’

کسانوں کو بااختیا ربنانے میں بنیادی ڈھانچہ کے ذریعے ادا کئے جانے والے اہم کردار پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ دیہی سڑکوں کے رابطہ کو بہتر بنانا ، زیادہ سے زیادہ گوداموں کا قیام، کولڈ اسٹوریج کی سہولیات پیدا کرنا اور اس بات کو یقینی بنا نا کہ پانی اور بجلی کی فراہمی جاری رہے، یہ ان اہم اقدامات میں سے کچھ ہیں، جن پر کچھ عمل درآمد کیا جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو بروقت قرض مہیا کرانا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ کسانوں کو فصلوں میں تنوع اور متعلقہ زرعی سرگرمیوں میں گونا گوں پیدا کرنے کی ضرورت کے تئیں بھی بیدار کرنا چاہئے۔ منیج(ایم اے این اے جی ای) کے ذریعے کئے گئے مطالعہ سے یہ  ظاہر ہوا ہے کہ ان کسان کنبوں میں خود کشی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے، جنہوں نے زراعت سے متعلق سرگرمیاں اپنائی تھیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ بھارت اور دنیا کے دوسرے حصوں میں زرعی شعبوں کو کافی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ ان موضوعات پر ٹھوس اور مربوط کارروائی کی ضرورت ہے، جو زرعی شعبے اور عوام کے معیار زندگی کو متاثر کرے جو اس شعبے پر انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کے اہم مسائل کو حل کرنے کے لئے حکومت ، پرائیویٹ سیکٹر،ایگریکلچر یونیوسٹیوں، کے وی کے، سائنسدانوں اور کسانوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ کسانوں کی مدد کے لئے آبپاشی، بنیادی ڈھانچہ، سرمایہ کاری اور بیمہ کے شعبوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ زرعی منظرنامے میں پیچیدہ متعلقہ مسائل کے حل کے لئے کثیر رخی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں نائب صدر جمہوریہ ہند نے زراعت سے متعلق نمائش کا افتتاح کیا، نمائش کا معائنہ کیا اور کسانوں کے ساتھ بات چیت کی۔

کسانوں اور سائنسدانوں کی مذاکراتی کانفرنس میں نائب صدر جمہوریہ کے ذریعے دی گئی تقریر کا متن حسب ذیل ہے:

‘‘مجھے آج اچاریہ این جی رنگا ایگریکلچرل یونیورسٹی کے اہتمام منعقدہ اس کسان اور سائنسدانوں  کی مذاکراتی کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے بے حد خوشی ہورہی ہے۔

زراعت میرے دل سے بہت قریب ہے، کسان اور دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد ہمیشہ ہی میرے ذہن میں رہتے ہیں ،جب میں کسی بھی ترقیاتی مسئلے پر تبادلہ خیال کرتاہوں۔ بھارت کا نائب صدر جمہوریہ بننے کے بعد میں زراعت کی شکل و صورت کو تبدیل کرنے اور کسانوں کی آمدنی  کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے قومی سطح پر بات چیت کرتا رہا ہوں۔

بھارت میں زراعت نے معاشی ترقی میں روایتی طورپر اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں سب سے زیادہ تعاون کرنے والوں میں سے ایک ماہی پروری اور جنگل بانی کے ساتھ زراعت بھی ہے۔

موجودہ چیلنجوں نے اسے زیادہ منفعت بخش اور ماحولیاتی طورپر قابل استحکام بنا دیا ہے۔ زرعی پیداوار کے اعتبار سے دنیا میں دوسرا سب سے بڑا ملک ہونے کی وجہ سے ہندوستان کو اس شعبے کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔

زراعت کو لچکدار، پائیدار اور منفعت بخش بنا کر کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کرنا ملک کی  سب سے اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اس پہلو کو اعلیٰ ترجیح دینے کے لئے مرکز اور مختلف ریاستوں، دونوں کے ذریعے ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں لانا ضروری ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ کسان برادری پریشان حال نہ ہو، ہر ایک شراکت دار کو ٹھوس کوششیں کرنی ہوں گی۔

زرعی شعبے کو بہتر بنانے اور کسانوں کو بااختیار بنانے کے لئے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اہم اسباب میں سے ایک ہے۔دیہی سڑکوں کے رابطہ کو بہتر بنا کر، زیادہ سے زیادہ گودام قائم کرکے، کولڈ اسٹوریج کی سہولیات پیدا کرکے اور پانی اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا اہم اقدامات میں سے چند ہیں ، جن پر عمل درآمدکرنا ہوگا۔ کسانوں کو بروقت قرض مہیا کرانا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ بلاشبہ جب معیشت بہتر ہوتی ہے تو شرح سود کو مزید کرنا ہوتا ہے۔ فصل بیمہ اسکیم کو زیادہ پرکشش اور مؤثر انداز میں قابل عمل درآمدبنانا چاہئے۔

میں نے یہ بات ہمیشہ کہی ہے کہ قرض کی معافی اور بجلی کی مفت  فراہمی سے کسانوں کی زیادہ مدد نہیں  ہوتی ہے، انہیں ان سے صرف قلیل مدتی راحت ملتی ہے۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ کسانوں کو مفت چیزوں کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ان کی پیداوار کو فروخت کرنے کے لئے مارکیٹنگ کا معقول ماحول ضروری ہے۔ زرعی پیداوار کے نقل و حرکت کے پابندیوں کو ہٹانے کی ضرورت ہے اور انہیں ان کی برآمدات کی آزادی کی اجازت ملنی چاہئے۔

کسانوں کو فصلوں میں تنوع پیدا کرنے اورمتعلقہ زرعی سرگرمیاں انجام دینے کی ضرورت ہے۔ مینج(ایم اے این اے جی ای) کے ذریعے کرائے گئے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ان کسان کنبوں میں خود کشی کے واقعات نہیں ہوئے ، جنہوں نے متعلقہ سرگرمیاں اپنائی تھیں۔

میں محسوس کرتا ہوں کہ کسانوں کی باغبانی فصلیں پیدا کرنے کے علاوہ دالوں اور تلہنوں کی کاشت کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہئے۔

توسیعی حکام کو کسانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہئے۔ اسی طرح زراعت کا مطالعہ کرنے والے طلباء کے لئے کھیتوں میں  جانے اور کسانوں کے درپیش مسائل کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے زرعی سرگرمیوں میں شامل کنبوں کے ساتھ قیام کو لازمی بنانا چاہئے۔

ہمارے کسان ، زراعت پر مکمل انحصار کرنے کے قابل نہیں ہیں، کیونکہ یہ پیشہ ناقابل منافع اور نامناسب بن گیا ہے۔ زراعت کے عدم منفعت ہونے کے نتیجے میں اکثر و بیشتر مالی دباؤ بڑھتا ہے، کیونکہ کسانوں پر قرض کے دباؤ کا اضافہ ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں کام کے لئے اکثر وبیشتر شہری علاقوں کی جانب ان کی نقل مکانی ہوتی ہے اور اس طرح شہر اور دیہات کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوتاہے۔

کل مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) میں تقریباً 16 فیصد کاشت کاری یا زراعت کا  تعاون ہوتا ہے اور یہ بھارت میں کل ورک فورس میں اس کا تقریباً 50فیصدحصہ ہے۔

بھارت اور دنیا کے دوسرے حصوں میں زرعی شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ متعدد موضوعات پر جو زرعی شعبے کی نمو کو متاثر کرتے ہیں اور اس شعبے پر پورے طورپر انحصار کرنے والے افراد کے معیار زندگی کو بھی متاثرکرتے ہیں، ان پرٹھوس اور مربوط کارروائی کی ضرورت  ہے۔

یہ بات باعث تشویش ہے کہ زراعت میں  مصروف کار افراد کی تعداد میں پوری دنیا میں کل روزگار کے فیصد کے حساب سے تیزی سے کمی آئی ہے۔ 1991ء میں یہ تعداد 43 فیصد سے گھٹ کر 2017ء میں محض 26 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بھارت میں بھی جہاں 1991ء میں کل تقریباً 64 فیصد ورک فورس زراعت میں مصروف کار تھی، وہ تعداد 2017ء میں گھٹ کر 44 فیصد ہوگئی ہے۔

کسانوں کو درپیش اہم مسائل  کو حل کرنے کے لئے حکومت پرائیویٹ سیکٹر، ایگریکلچرل یونیورسٹیوں، کے وی کے، سائنسدانوں اور کسانوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

ہمیں دیہی علاقوں کے لئے وسائل کی تخصیص میں مثبت طریقہ کار اپنانے اوران لوگوں کے لئے جو پورے طور پر صرف زرعی آمدنی پر ہی انحصار کرتے ہیں ، ان کے لئے آمدنی کے دوسرے وسائل تیار کرنے میں مدد  کی ضرورت ہے۔

پیارے دوستوں! ہمیں لچکدار فصلوں کا ماحول تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے، کیونکہ آب وہوا کی تبدیلی ہماری زندگی کے ہر ایک پہلو کو متاثر کرتی ہے۔

کسانوں کی مدد کے لئے آبپاشی، بنیادی ڈھانچہ، سرمایہ کاری اور بیمہ کے شعبوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ زرعی منظر نامے میں باہم مربوط پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیں کثیر رخی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More