38 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

کرشچن میڈیکل کالج کے میڈیکل ایجوکیشن پروگرام کی صدی تقریبات کے موقع پر صدرجمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کا خطاب

Urdu News

نئی دہلی، صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند نے آج ویلور کے  کرشچئن میڈیکل کالج  (سی ایم سی)  کی صد سالہ تقریبات کا افتتاح کیا۔  اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے    صدر جمہوریہ نے کہا کہ   صحت عامہ    ایک آفاقی مفاد عامہ ہے   اور بنیادی انسانی حق ہے۔   ایک ملک کے طور پر   ہم نے  جو ترقی کی ہے   اس کے باوجود صحت کی فراہمی کے لحاظ سے  علاقائی  ،   دیہی-شہری  اور صنفی اور کمیونٹی عدم  توازن   پایا جاتا ہے۔  اس عدم توازن  کے خاتمہ کے بغیر   ہمیں راحت نہیں مل سکتی۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ     جس طرح سے  معاشرے    ترقی کر رہے ہیں   ،  معیشتیں  فروغ پارہی ہیں  اور آبادی کی نوعیت  بدل رہی ہے    ، ممالک  وبائی   تبدیلیوں سے گذر رہے ہیں۔  بھارت بھی  اس طرح کی تبدیلی کا تجربہ کررہا ہے۔ بیماری پر قابو پانے میں   اسے تین  چیلنجوں کا سامنا ہے اور ہمیں  ان تمام چیلنجوں  سے بیک وقت نمٹنا ہے۔

پہلا ،بھارت کو زچگی اور بچہ اموات    اور اسی کے ساتھ ساتھ   متعدی بیماریوں مثلاً ٹی بی  ، ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ملریا،  پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ہیضہ،قے دست کی بیماریوں وغیرہ میں   تخفیف لانی ہوگی۔    دوسرابھارت کو   غیر متعدی   یا طر ز  زندگی کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں مثلاً ذیابیطس،  امراض قلب اور کینسر   جیسی بڑھتی بیماریوں  کا جواب  تلاش کرنا ہوگا اور آخر میں   ہمیں  ایسا نظام تیار کرنا ہوگا    جس سے ہم   ایچ آئی وی  ، ایوین فلو ، ایچ آئی این آئی  انفلوئنزا جیسی   نئی اور ابھرتی ہوئی بیماریوں  کی وجہ دریافت کرسکیں اور ان بیماریوں سے نمٹ سکیں۔  اس   گلوبل  دنیا میں   جبکہ لوگ بڑی تعداد میں   اپنے ملک کے اندر اور باہر سفر کررہے ہیں ،   چند چھوٹے معاملات بڑی تیزی سے     سنگین شکل اختیار کرسکتے ہیں۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ ان تین پریشان کن  چیلنجوں   سے نمٹنے کے لئے   مداخلت کی ضرورت ہے۔   اس کے لئے   بیماری کی روک تھام،   اچھی صحت کے طریقوں  کے فروغ    اور بیماری کی صورت میں علاج درکار ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے    کثیر شراکت داری طریقہ کار  بھی اختیار کیا جانا چاہئے۔ حکومت اور سول سوسائیٹی   نجی اور حفظان صحت  فراہم کرنے والے  خیراتی اور معاشی اداروں  تمام کو    اپنا اپنا رول   ادا کرنا ہوگا اور اپنی حصہ داری نبھانی ہوگی۔

حفظان صحت کے نظام میں افرادی قوت  کی کمی کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر جمہوریہ  نے کہا کہ    ہمارے ملک میں حفظان صحت   کے پیشہ وروں میں موجود  خلا کو  پر کرنے کی ضرورت ہے  اور  طبی تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ مزید کالجز اور مزید   میڈیکل  گریجویٹ کی گنجائش پیدا کی جاسکے۔سائنس اور ٹکنالوجی    کا عام طور پر    انجینئرس اور ڈاکٹر ہمارے فائدہ کے لئے   استعمال کرتے ہیں۔  بھارت میں    1.47 ملین   انڈر گریجویٹ  انجینئرنگ سیٹیں ہیں لیکن   صرف 66352 انڈر گریجویٹ میڈیکل سیٹیں ہیں اور  ان سیٹوں میں سے تقریباً 20 فی صد   سیٹوں کا اضافہ   پچھلے چار سالوںمیں کیا گیا ہے ۔ایک ملک اور  ایک نظام کی حیثیت سے   ہمیں اس خلا کو تیزی سے پر کرنا ہوگا۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ    ڈاکٹروں  کا دماغ  تیز ہونے کی ضرورت ہے  لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ    انہیں  گرمجوشی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔    انہوں نے  سی ایم سی ویلیور سے اپیل کی کہ  وہ ڈاکٹروں اور نرسوں  کی مسلسل تربیت   انتہائی گرمجوشی سے  کرتا  رہے۔

 بعدازاں دن میں   صدر جمہوریہ  ہند ویلیو ر کے  سری نارائنی   ہاسپلٹ   اینڈ ریسرچ سینٹر س کی   کڈنی ٹرانسپلانٹ یونٹ اور کارڈیائک  یونٹ کا   بھی افتتاح کریں گے۔

1-کرشچن میڈیکل کالج کے میڈیکل ایجوکیشن کی صدی منانے  کے لئے اس پروگرام میں شریک ہوکر اور ویلور میں آکر میں بے حد خوش ہوں۔ میں ا س ادارے کو مبارک باد دیتا ہوں جوکہ فروغ انسانی وسائل کی وزارت، حکومت ہند کے مطابق ہندوستان کے میڈیکل کالجوں کی درجہ بندی میں تیسرے مقام کا حامل ہے، میں سی ایم سی ویلور کے موجودہ اور سابق اساتذہ اور طلباء کے ساتھ ساتھ ڈکٹروں، محققوں اور انتظامیہ کو میں اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ کا ادارہ اور آپ کے ادارے کی حصولیابیاں پورے ملک کے لئے موجب فخر ہیں۔

2-سوسال مکمل کرنا ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب پیچھے مڑ کر دیکھا جاتا  ہے اور مستقبل کے لئے  نیا عزم کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں کرشچن میڈیکل کالج  کو اپنے بانی کے افکار و فلسفے اور اقدار سے ضرور تحریک لینی چاہئے۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں واقع کورنیل یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے فورا بعد آئیڈا سوفیا اسکوڈر ہندوستان واپس آئیں۔ یہ وہ ملک تھا جہاں ان کے خاندان کی کئی نسلوں نے اپنی زندگی گزاری تھی اور ملک کی خدمت کی تھی۔ یہ وہ ملک تھا جہاں میڈیسین ان کے لئے  مشن بن گیا۔

3-ہندوستان اس وقت نوآبادیاتی استعماریت کے زیر نگیں تھا اور ملک کی بیشتر آبادی نہایت مشکل حالات زندگی بسر کررہی تھی۔ حفظان صحت کی سہولتیں نہایت ناقص تھیں۔ ملک میں لوگوں کی اوسط عمر صرف تقریبا 24 برس تھی۔ ہر ایک منٹ میں تپ دق سے ایک شخص کی موت ہوتی تھی۔ چار بچوں میں سے ایک بچہ اپنی پیدائش کے پہلے سال میں ہی فوت ہوجاتا تھا۔ ہیضہ ، چیچک اور پولیو کے علاوہ متعدد مہلک امراض اور وبائیں عام تھیں۔ آزادی اس وقت ایک خواب تھا۔ ایسے وقت کے ہندوستان میں آئیڈا سوفیا اسکوڈر نے حفظان صحت سے متعلق خدمات کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا۔ 1918 میں انہوں نے  ایک میڈیکل اسکول قائم کیا جو شروعات میں صرف خواتین کے لئے تھا۔ 1947 سے طلباء اور طالبات دونوں نے یہاں تعلیم حاصل کرنا شروع کیا۔

4-اس وقت سے لے کر اب تک ہندوستان نے طویل سفر طے کیا ہے۔ ہماری معیشت، زراعت اور ٹیکنالوجی میں آئے انقلاب نے ہماری سوچ، عمل اور زندگی بسر کرنے کے معیار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ ہمارے صحت نظام میں بھی کافی بہتری آئی ہے۔ لوگوں کی اوسط عمر اب 68 برس سے زائد ہوگئی ہے۔ ہیضہ ، چیچک جیسے مہلک امراض کو جو کبھی بڑی تعداد میں ہلاکت کا سبب بنتی تھیں، شکست دی جاچکی ہے، ٹیکہ کاری کا ہمارا پروگرام مضبوطی حاصل کررہا ہے، حکومت نے اندر دھنش مشن کا آغاز کیا ہے جس کا بنیادی مقصد ناقابل رسائی علاقوں تک پہنچنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ملک کے ہر ایک بچے کو ٹیکہ کاری کے فوائد حاصل ہوں۔

5-ملک میں بنیادی اور ثانوی حفظان صحت کی سہولتیں کافی بہتر ہوگئی ہیں۔ اس تناظر میں یہاں یہ بات ضرور کہنی چاہئے کہ ریاست تمل ناڈو میں حفظان صحت کی نہایت معیاری سہولتیں دستیاب ہیں اور تمل ناڈو ہمارے ملک کی بقیہ ریاستوں کے لئے ایک مثالی ریاست ہے۔ سی ایم سی ویلور جیسے اداروں نے تمل ناڈو کو اس امتیازی مقام تک پہنچانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔

6-عوامی صحت ایک آفاقی مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حق ہے، کافی کوششوں کے باوجود ہمارے ملک میں حفظان صحت کے شعبے میں علاقائی اور دیہی وشہری تفاوت ہے۔ اسی طرح صنفی اور معاشرتی عدم توازن بھی پایا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کو مناسب انداز میں حل کئے بغیر ہمارا کام پورا نہیں ہوگا۔ ہمیں مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کو حل کئے بغیر سی ایم سی کا مشن مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔

7- جیسے جیسے معاشرہ ترقی کرتا ہے معیشت ترقی ہے اور آبادی کے معیارات تبدیل ہوتے ہیں۔ ملک مہلک اور وبائی امراض سے پاک ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہندوستان بھی اسی تبدیلی کے دور سے گزررہا ہے۔ امراض کی روک تھام میں تین چیلنجز ہیں اور ہمیں ان تینوں چیلنجوں سے بیک وقت نمٹنے کی ضرورت ہے۔

8-پہلا چیلنج تویہ ہے کہ ہندوستان کو ماؤں اور نومولود بچوں کی شرح اموات کو کم کرنا ہے، اسی طرح متعدی امراض مثلا تپ دق، وائرس سے پھیلنے والے امراض جیسے ملیریا، خراب پانی سے پیدا ہونے امراض جیسے ہیضہ، قے اور دست، ٹیکہ کاری کے ذریعے روکے جانے والے امراض جیسے خسرہ اور ٹیٹنس پر قابو پانا ہے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ ہندوستان کو ملک میں تیزی سے پھیل رہے غیر متعدی امراض  یا لائف اسٹائل کے سبب پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے شوگر، دل سے متعلق بیماریاں اور متعدد اقسام کے کینسر پر قابو پانے کے لئے مناسب طریقہ کار تلاش کرنا ہے۔ تیسرا اور آخری چیلنج نئے اور ابھرتے ہوئے متعدی امراض مچلا ایچ آئی وی، برڈ فلو اور  ایچ ون این ون انفلوئنزا کی روک تھام اور مقابلے کے لئے مؤثر نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی گلوبل دنیا میں ہمارے ملک سے بڑی تعداد میں لوگ بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح بیرون ممالک سے بھی بڑی تعداد میں لوگ ہندوستان آتے ہیں۔ اس طرح سے تھوڑے لوگوں کو بھی اگر کوئی مرض ہوتا ہے تو وہ بڑی تیزی کے ساتھ پھیل جاتا ہے۔

9-مذکورہ تینوں چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ امراض کی روک تھام، حفظان صحت کے بہترین طریقہ کار کو فروغ دینے اور مرض کا علاج فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ حفظان صحت کے اثرات کافی وسیع ہیں۔ اس سے متعدد شعبے متاثر ہوتے ہیں۔ کثیر شراکت داری طریقہ کار کے ذریعہ مذکورہ چیلنج سے نمٹنا چاہئے۔ حکومت، سول سوسائٹی، نجی اور سرکاری صحت خدمات فراہم کرانے والے افراد کے علاوہ خیراتی اور اقتصادی اداروں، سبھی کا رول ہونا چاہئے۔

10- قومی صحت مشن، قومی صحت پالیسی اور  آیوشمان بھارت بیمہ اسکیم جیسی اسکیموں کا وسیع تناظر ہے۔ ان اسکیموں کا مقصد ہے کہ ملک میں کوئی بھی فرد مالی مشکلات یا اسی طرح کی دیگر وجوہات کے سبب حفظان صحت کی سہولتوں سے محروم نہ رہے۔ حفظان صحت ایک سماجی خدمت ہے۔ کسی حد تک یہ ایک تجارت بھی ہے لیکن کسی فرد کی زندگی بچانے سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں ہوسکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سی ایم سی برادری اس بات سے اتفاق کرے گی۔

11-ہمارے ملک میں حفظا صحت سے متعلق پیشہ ور افراد کی کافی قلت ہے۔ اس قلت کو ختم کرنے کی فوری ضرورت ہے اور اس کے لئے میڈیکل ایجوکیشن میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید میڈیکل کالجز کھولئ جاسکیں اور مزید میڈیکل گریجویٹس پیدا ہوں۔ سائنسی اور ٹیکنالوجی دونوں ہی مشترکہ طور پر ہمارے لئے فائدہ مند ہیں۔ انجینئروں اور ڈاکٹروں کے ذریعہ ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ہندوستان میں 1.47 ملین انڈر گریجویٹ انجینئرنگ کی سیٹیں ہیں جبکہ صرف 67352 انڈر گریجویٹ میڈیکل سیٹیں ہیں، اس میں بھی تقریبا 20 فیصد سیٹوں کا اضافہ گزشتہ چار برس کے دوران کیا گیا ہے۔ ایک ملک اور نظام ہونے کے ناطے ہمیں اس خلیج کو پر کرنے کی ضرورت ہے۔

12- سی ایم سی ویلور بہترین مہارت اور اچھی کارکردگی کیلئے ایک معتبر ادارہ ہے۔ کوڑھ کے مریضوں کی پہلی سرجری یہیں کی گئی تھی۔ اسی طرح اوپن ہارٹ کی پہلی کامیاب سرجری بھی یہیں کی گئی۔ علاوہ ازیں گردے کا پہلا ٹرانسپلانٹ بھی یہیں عمل میں آیا۔ سی ایم سی میں ریسرچ کے متعدد کام کئے گئے۔ روٹو وائرس ویکسن، ہیپا ٹائٹس، ناقص تغذیہ، بایو انجینئرنگ اور اسٹیم سیل سے متعلق تحقیق کے تئیں آپ کی عہد بندی ہندوستان صحت کی ضروریات کے موافق ہے۔

13-مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں میڈیکل  ایجوکیشن کا پروگرام سماجی مطابقت اور اخلاقی اقدار کے ساتھ پیشہ ور مہارت منسلک ہے۔ یہ نہایت قابل تعریف ہے امر ہے۔ اس کو آگے بھی جاری رکھئے۔ ڈاکٹروں کو ایک تیز دماغ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ایک وسیع قلب کی ضرورت ہے اور سی ایم سی کو ڈاکٹروں اور نرسوں کو وسیع قلب کے ساتھ ترتیب فراہم کرانا جاری رکھنا چاہئے۔

خدا کرے آپ کا یہ مشن اگلے سو برس بلکہ اس سے بھی زیادہ مدت تک کے لئے ہو۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More