37 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ڈگری سے معیارحیات میں کوئی تعاون نہیں ملتا اگرعوام خصوصاًخواتین اپنے حقوق کے لئے آواز نہ اٹھائیں:

Urdu News

نئی دہلی: نائب صدرجمہوریہ ہند ، جناب ایم وینکیانائیڈونے کہاہے کہ ڈگری معیارات حیات کو بہتربنانے میں اپنی جانب سے کوئی تعاون نہیں دیتی ، اگرتعلیم یافتہ افراد خصوصاًخواتین اپنے حقوق کے لئے آواز نہ اٹھائیں ۔ موصوف کل چنڈی گڑھ میں پنجاب یونیورسٹی میں 67ویں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کررہے تھے ۔ پنجاب کے گورنراورچنڈی گڑھ کے ایڈمنسٹریٹر،جناب وی پی سنگھ بڈنور، ہریانہ گورنر،جناب کپتان سنگھ سولنکی اور دیگرمعززین بھی اس موقع پرموجود تھے۔

 نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہا کہ ایک سچی یونیورسٹی کو تنگ نظری ٔ خیال اورمخصوص نظریات کے تھوپے جانے سے آزاد ہوناچاہیئے۔ انھوں نے مزید کہاکہ مخصوص عقائد کے لئے سخت گیریکسانیت اورفکرپر غیرضروری پابندیاں تعلیمی آزادی کی روح کو پائمال کردیتی ہیں ۔ اگرکوئی شخص کسی شعبے میں غوروفکراورعمل کے لئے کسی بندش کا پابند نہ ہو تو وہ اس شعبے میں براہ راست اورزبردست ترقی کرسکتاہے اوریہی وجہ ہے  کہ ایک جمہوری ملک میں ایک آزاد یونیورسٹی ایسا ایک ماحول فراہم کراتی ہے ۔

          نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہا کہ وقت آگیاہے کہ تعلیم کے شعبے میں درپیش چنوتیوں کا حل نکالاجائے اورپورے نظام کو یکسربدل دیاجائے ۔ اس میں نصاب اورتجزیہ کا پہلوبھی شامل ہے ۔ خیالات کو محض اختیارنہ کیاجائے بلکہ ان کا تجزیہ کرکے ان کی اساس پرتوجہ کی جائے ۔ انھوں نے مزید کہاکہ تعلیم جو عوام کو اپنی زندگیاں بنانے کا بہترموقع فراہم نہیں کرتی جو کردارکومضبوط نہیں بناتی ، انسان دوستی کے جذبے کو فروغ نہیں دیتی ، شیرجیسی جرأت نہیں پیداکردیتی تووہ محض نام کی تعلیم ہے  اورایسی تعلیم کی قدروقیمت کیاہے ۔

          نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہاکہ اصلی تعلیم مشینوں کی طرح کام کرنے میں مضمرنہیں ہے بلکہ اس میں احساس کا پہلواور ہمہ گیرانداز فکرشامل ہونا ضروری ہے ۔ انھوں نے کہاکہ ہماری تعلیم کے فوائد معدوم ہوچکے ہیں ۔ اگرہمارے پاس ڈگریاں ہوں اوراس کے باوجود ہم ایسا انداز حیات اپنائیں جو محض اندھی صارفیت پرمبنی ہویا فرسودہ سماجی رسومات کی پابند ہوتواس کا کیافائدہ ۔ ہمیں نصاب پرغورکرناچاہیئے یا ایک ایسے تدریسی مواد پرغورکرناچاہیئے جو بیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ہو، جس میں معیشت حیوانات کی تشویش ، انسانی فلاح وبہبود کی گنجائش اور کرۂ ارض کی فلاح وبہبود کویکساں طورپرشامل کیاگیاہو ۔

نائب صدرجمہوریہ ہند کے خطاب کے متن  کی خاص خاص  جھلکیاں درج ذیل ہیں :

          ‘‘پنجاب یونیورسٹی، آج  اپنے 67ویں جلسۂ تقسیم اسناد کی تقریب کااہتمام کررہی ہے ۔اس جلسے  میں سائنس اور دیگر بہت سے انسانی علوم  کے شعبوں میں  فارغ التحصیل  افراد کی یاد گارمنائی جارہی ہے ، جنھوں نے عظیم  روایات قائم کی تھیں ۔ ان عظیم شخصیات  میں روچی رام ساہنی ، شانتی سوروپ بھٹناگر اور بہت سے دیگرافراد کے نام شامل ہیں، جنھوں نے اس یونیورسٹی کی تعلیمی عمدگی کی بنیاد ڈالنے میں  اپناتعاون دیاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ روچی رام ساہنی کایوم پیدائش بھی اسی سال  ہے ، جس میں ہندوستان کے دوسرے عظیم دانشور، سوامی وویکانند کا ہے ۔ بنگالی مفکروں اور پنجابی دانشوروں  مثلاوویکانند اور ٹیگور اوردیگرشخصیات کے مابین جو ربط وضبط قائم ہوا ،اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ پنجاب میں درس وتدریس اورعلمیت کی مشترکہ صدیاں گذری ہیں اور ہم بقیہ ملک سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔اگرچہ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایک مفکرکچھ مخصوص طبقات یادرجے سے متعلق ہے تاہم درحقیقت مفکر سب سے وابستہ ہوتاہے اورسب کے لئے افادیت کا حامل ہوتاہے ۔

          یہ قابل تعریف ہے کہ یونیورسٹی کچھ غیرمعمولی بھارتی سائنسدانوں ، ڈاکٹروں ، قلمکاروں ، ماہرتعلیم اور صنعتی قائدین کو اعزاز دینے کی قابل تعریف روایت کی حامل رہی ہے ۔ میں چند دانشوروں ، سائنسدانوں اور مفکرین کی حصولیابیوں کا ذکرکرناچاہوں گا، جنھوں نے اس یونیورسٹی کے تابناک ماضی میں اپنا کرداراداکیاہے ۔ اپنے موجودہ دورمیں بھی ہم ایسے افراد کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، جنھوں نے انسانی فلاح وبہبود کے لئے کام کیاہے اورمزید صحت مند منصفانہ اورمساوایانہ معاشرے کی تشکیل کی کوشش کی ہے ۔ متعدد شعبوں میں ملک کے متعدد معروف رہنمایان پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ رہے ہیں، جس میں قومی اوربین الاقوامی سطح کے لوگ شامل رہے ہیں ۔ایسے عظیم دانشوران اس وقت دانشوری کی حدوں کو چھوتے ہیں جب انھیں ایسا ماحول ملتاہے جہاں اذہان  ہرطرح کے خوف وخطرسے پاک ہوں اورپورے وقار کے ساتھ زندگی بسرکرسکیں ۔ جب ملک نوآبادیاتی نظام کی غلامی میں جکڑا ہوانہ ہو اورفکروعمل کا اپنا دائرہ رکھتاہو، جدوجہد آزادی کے دوران مفکرین نے بھارت کو جس سمت کی جانب لے جانے کی کوشش کی اورآزادی دلائی، اس میں آزادی ٔ فکر بنیادی حیثیت رکھتی تھی ۔ عظیم ترین اداروں کی تشکیل کے لئے بھی یہ چیزبنیادی حیثیت رکھتی تھی ۔

          یہی عمدگی ایک حقیقی یونیورسٹی کے لئے درکارہوتی ہے ۔ اسے تنگ نظری اور پابندی ٔ خیال سے آزادہوناچاہیئے ۔

          میں اپناخطاب اس امید کے ساتھ ختم کرتاہوں کہ خدا کے فضل سے ایسا ہی عرفان ذات  آپ کو حاصل ہوگااور آپ کے اپنے مقاصد اورنصب العینو ں کے حصول  کاموقع آپ کو بھی حاصل ہوگااور آپ اپنے علم کو اسی طرح سے وسیع کرتے جائیں گے اور اس کوپوری دنیا کے فائدے کے لئے استعمال کریں گے اورآپ اس یونیورسٹی اوراس ملک کانام مزید روشن کریں گے ۔ میں آپ کے لئے  مستقبل کی تعلیمی اورپیشہ ورانہ کوششوں میں کامیاب ہونے کی تمناکرتاہوں ۔ میں ان تمام معزز حضرات کو مبارکباد پیش کرتاہوں، جنھیں آج ایوارڈ حاصل ہوئے ہیں ۔ میں تمناکرتاہوں کہ یونیورسٹی کو ایک عظیم مستقبل حاصل ہواور یہ ملک کی ایسی ہی خدمت کرتی رہے ۔‘جئے ہند’۔’’

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More