35 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

وزیراعظم نے 100ویں کسان ریل کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا

Urdu News

نئی دہلی، وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے مہاراشٹر کے سنگولا سے مغربی بنگال میں شالیمار تک 100ویں کسان ریل کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔ مرکزی وزراء جناب نریندر سنگھ تومر اور جناب پیوش گوئل بھی اس موقعے پر موجود تھے۔

اس موقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کسان ریل خدمات کو ملک کے کسانوں کی آمدنی میں اضافے کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ کورونا عالمی وبا کے دوران بھی پچھلے چار مہینے میں 100 کسان ریل  گاڑیاں شروع کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سروس سے کسانوں سے متعلق معیشت میں ایک بڑی تبدیلی آئے گی اور ملک کی کولڈ سپلائی چین کی طاقت میں اضافہ بھی ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسان ریل کے ذریعے ابھی تک کوئی سب سے کم مقدار ٹرانسپورٹ کے لیے طے نہیں کی گئی ہے تاکہ سب سے چھوٹی مقدار کی پیداوار بھی کم سے کم قیمت پر بڑی منڈی میں صحیح طرح پہنچ سکے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کسان ریل پروجیکٹ سے نہ صرف حکومت کے کسانوں کی خدمت کے عہد کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہمارے کسان نئے امکانات کے لیے کتنی تیزی سے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسان اب اپنی فصلیں دیگر ریاستوں میں بھی فروخت کر سکتے ہیں، جس میں کسانوں کی ریل (کسان ریل) اور زرعی پروازیں (کرشی اڑان) کا بڑا رول ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسان ریل ایک موبائل کولڈ اسٹوریج ہے جس کا مقصد پھلوں ، سبزیوں ، دودھ ، مچھلی وغیرہ جیسی ، جلد خراب ہونے والی چیزوں کو پوری حفاظت کے ساتھ لایا لے جایا جائے گا۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ’’بھارت میں   ہمیشہ ریلوے کا بڑا نیٹ ورک رہا ہے ۔ یہاں تک کہ آزادی سے پہلے بھی۔ کولڈ اسٹوریج  ٹکنالوجی بھی دستیاب رہی ہے۔ البتہ صرف اب اس طاقت کو کسان ریل کے ذریعے  صحیح معنوں میں فروغ دیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کسان ریل جیسی ایک سہولت نے مغربی بنگال کے لاکھوں چھوٹے کسانوں  کو ایک بڑی سہولت دی ہے۔ یہ سہولت کسانوں  اور مقامی چھوٹی کاروباریوں کو دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے میدان میں ماہرین اور دیگر ملکوں کے تجربات نیز نئی ٹکنالوجی کو بھارتی زراعت میں شامل کیا جا رہا ہے۔  ریلوے اسٹیشنوں کے علاقوں میں جلد خراب ہونے والی چیزوں کو ریل کے ذریعے پہنچائے جانے والے مرکزوں کی تعمیر کی جارہی ہے جہاں کسان اپنی پیداوار رکھ سکتے ہیں۔  کوشش یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں گھروں تک پہنچائی جائے۔ اضافی پیداوار ان چھوٹے صنعت کاروں تک پہنچنی چاہیے جو رس، اچار، چٹنی، چپس، وغیرہ کا کروبار کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے رائے دی کہ حکومت کی ترجیح کا مرکز ذخیرے سے متعلق بنیادی ڈھانچے اور  زرعی پیداوار میں ویلیو ایڈیشن سے وابستہ ڈبہ بندی کی صنعت  ہے۔  انہوں نے اس طرح کے تقریباً 6500 پروجیکٹوں کو میگافوڈ پارک کوتحت اور کو لڈ چین بنیادی ڈھانچے اور زرعی ڈبہ بندی کے کلسٹر کو پی ایم کرشی سمپدا یوجنا کے تحت منظوری دی ہے۔ مائیکرو ، خوراک ڈبہ بندی کی صنعتوں کے لیے آتم نربھر ابھیان پیکیج کے تحت 10 ہزار کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے۔

جناب مودی نے کہا کہ یہ دیہی عوامی ، کسانوں اور نوجوانوں کی حصہ داری اور حمایت ہے کہ حکومت کی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں۔ زرعی پیداوار کی تنظیمیں اور خواتین کے اپنی مدد آپ گروپوں جیسے معاون گروپوں کو  زرعی  تجارت میں  اور زرعی بنیادی ڈھانچے میں ترجیح دی جاتی ہے۔ حالیہ اصلاحات سے زرعی تجارت میں اضافہ ہوگا اور یہ گروپ سب سے زیادہ مستفید ہونے والے گروپ ہوں گے۔ زراعت میں پرائیویٹ سرمایہ کاری سے ان گروپوں کی مدد کرنے والی سرکاری کوششوں کو مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ’’ہم بھارتی زراعت اور کسانوں کو مستحکم کرنے کے راستے پر گامزن رہیں گے۔ ‘‘

مرکزی وزیر زراعت جناب نریندرسنگھ تومر جی، وزیر ریلوے جناب پیوش گوئل جی ، دیگر ممبران پارلیمنٹ ، ممبران اسمبلی ، اور میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں ، میں سب سے پہلے ملک کے کروڑوں کسانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اگست مہینےمیں ملک کی پہلی کی کسان اور زراعت کے لیے پوری طرح سے وقف ریل شروع کی گئی تھی۔شمالی، جنوبی، مشرق-مغربی، ملک کے ہر علاقے کے زراعت کو، کسانوں کوکسان ریل سے کنیکٹ کیا جارہا ہے۔کورونا کے چیلنج کے درمیان بھی گزشتہ چار مہینوں میں کسان ریل کا یہ نیٹ ورک 100کے اعدادوشمار سے اوپر پہنچ چکاہے۔آج 100 ویں کسان ریل تھوڑی دیر پہلے مہاراشٹر کے سانگولہ سے مغربی بنگال کے شالیمار کے لیے روانہ ہوئی ہے۔ یعنی ایک طرح سےمغربی بنگال کے کسانوں ، مویشی پروری میں لگے لوگوں، ماہی گیروں کی رسائی ممبئی، پنے، ناگپو ر جیسے مہاراشٹر کے بڑے بازاروں تک ہوگئی ہے۔ وہیں مہاراشٹر کےساتھیوں کو اب مغربی بنگال کے بازار سے جڑنے کے لیے سستی اور آسان سہولیات مل گئی ہیں۔ جو ریل ابھی تک ملک بھر کو آپس میں جوڑتی تھی، وہ اب پورے ملک کے زرعی بازار کو بھی جوڑ رہی ہے، ایک کررہی ہے۔

ساتھیو!

کسان ریل خدمت، ملک کے کسانوں کی آمدنی کے اضافے کی سمت میں بھی ایک بہت بڑا قدم ہے۔ اس سے زراعت وابستہ معیشت میں بڑی تبدیلی آئے گی۔اس سے ملک کی کولڈ سپلائی چین کی طاقت بھی بڑھےگی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسان ریل سے ملک کے 80فیصد سے زیادہ، چھوٹے اور حاشیے پر کسانوں کو بہت بڑی طاقت حاصل ہوئی ہے۔یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس میں کسانوں کے لیے کوئی کم از کم مقدار طے نہیں کی گئی ہے۔اگر کوئی کسان 50 سے 100 کلو کا پارسل بھی بھیجنا چاہتا ہے تو وہ بھی بھیج سکتا ہے۔یعنی چھوٹے کسان کا چھوٹی سے چھوٹی پیداوار بھی کم قیمت میں ہی سہی صحیح سلامت بڑے بازار تک پہنچ پائےگی۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اب تک کا ریلوے کا جو سب سے چھوٹا کنسائنمنٹ ہے، وہ انارکا تین کلو کا پیکٹ کسان ریل سے ہی بھیجا گیا ۔یہی نہیں ایک مرغی پالنے والے نے 17 درجن انڈے بھی کسان ریل سے بھیجے ہیں۔

ساتھیو!

ذخیرہ اندوزی اور کولڈ اسٹوریج کی کمی میں ملک کے کسانوں کا نقصان ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ہماری حکومت ذخیرہ کرنے کی جدیدانتظام پر، سپلائی چین کی جدیدکاری پر کروڑوں روپے کے سرمایہ تو صرف کرہی رہی ہے، کسان ریل جیسی نئی پہل بھی کی جارہی ہے۔آزادی کے پہلے سے بھی ہندوستان کے پاس بہت بڑا ریل نیٹ ورک رہا ہے۔ کولڈ اسٹوریج سے وابستہ ٹیکنالوجی بھی پہلے سے موجود رہی ہے۔اب کسان ریل کے ذریعہ اس طاقت کا بہتراستعمال ہونا شروع ہوا ہے۔

ساتھیو!

چھوٹےکسانوں کو کم خرچ میں بڑے اور نئے بازار دینے کے لیے، ہماری نیت بھی صاف ہے اور ہماری پالیسی بھی واضح ہے۔ ہم نے بجٹ میں ہی اس سے جڑے اہم اعلانات کردیے تھے۔پہلے کسان ریل اور دوسری زرعی پرواز۔ یعنی جب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری حکومت اپنے کسانوں کی پہنچ کو ملک کے دور دراز علاقوں اور بین الاقوامی بازار تک بڑھا رہی ہے، ہم ہوا میں باتیں نہیں کررہے ہیں۔ یہ میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہم صحیح راستے پر ہیں۔

ساتھیو!

شروعات میں کسان ریل ہفتہ وار چلتی تھی کچھ ہی دنوں میں ایسی ریل کی مانگ اتنی بڑھ گئی کہ اب ہفتہ میں 3دن یہ ریل چلانی پڑرہی ہے۔سوچیئے، اتنے کم وقت میں 100 ویں کسان ریل !یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔یہ واضح پیغام ہے کہ ملک کا کسان کیا چاہتا ہے۔

ساتھیو!

یہ کام کسانوں کی خدمت کے لیے ہماری عہدبستگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔لیکن یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے کسان امکانات کے لیے کتنی تیزی سےتیار ہیں۔ کسان ، دوسری ریاستوں میں بھی اپنی فصلیں بیچ سکیں، اس میں کسان ریل اور زرعی پرواز کا بڑا اہم رول ہے۔ مجھے بہت اطمینان ہے کہ ملک کے شمال مشرقی کسانوں کو زرعی پروازسے فائدہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ایسی ہی پختہ تیاریوں کےبعد تاریخی زرعی سدھاروں کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔

ساتھیو!

کسان ریل سے کسان کو کیسے نئے بازار مل رہے ہیں، کیسے اس کی آمدنی بہتر ہورہی ہےاور خرچ بھی کم ہورہے ہیں، میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔کئی مرتبہ ہم خبریں دیکھتے ہیں کہ کچھ وجوہات سے جب ٹماٹر کی قیمت کسی جگہ پر کم ہوجاتی ہے، تو کسانوں کا کیا حال ہوتا ہے۔ یہ صورت حال بہت افسوس ناک ہوتی ہے۔ کسان اپنی محنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتے ہوئے دیکھتا ہے، مجبور ہوتاہے لیکن اب نئے زرعی سدھاروں کے بعد، کسان ریل کی سہولت کے بعد، اسے ایک اور متبادل ملا ہے۔ہم ہمارا کسان اپنی پیداوار ملک کے ان حصوں تک پہنچا سکتاہے جہاں پر ٹماٹر کی مانگ زیادہ ہے، جہاں اسے بہتر قیمت مل سکتی ہے۔ وہ پھلوں اور سبزیوں کے ٹرانسپورٹ پر سبسڈی کا بھی فائدہ لے سکتا ہے۔

بھائیوں اوربہنوں!

کسان ریل کی ایک اورخاص بات ہے۔ یہ کسان ریل ایک طرح سےچلتا پھرتا کولڈ اسٹوریج بھی ہے۔ یعنی اس میں پھل ہوں، سبزی ہو، دودھ ہو، مچھلی ہو یعنی جو بھی جلدی خراب ہونے والی چیزیں ہیں، وہ پوری حفاظت کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ رہی ہیں۔ پہلے یہی سامان کسان کو سڑک کے ذریعہ ٹرکوں میں بھیجنا پڑتا تھا۔سڑک کے راستےٹرانسپورٹیشن کے متعدد مسائل ہیں۔ایک تو اس میں وقت بہت لگتا ہے۔ سڑک کے راستے کرایہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔یعنی گاؤں میں اگانے والی ہویا پھر شہر میں کھانا والا، دونوں کو یہ مہنگا پڑتا ہے۔اب جیسے ،آج ہی جو ٹرین مغربی بنگال کے لیے روانہ ہوئی ہے، اس میں مہاراشٹر سے انار،انگور،سنترے اور شریفے جس کو کئی جگہ سیتاپھل بھی کہتے ہیں، ایسی پیداوار بھیجی جارہی ہیں۔

یہ ٹرین تقریبا 40 گھنٹے میں وہاں پہنچےگی۔وہیں روڈ سے 2 ہزار کلومیٹرسے زیادہ کا فاصلہ طے کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔اس دوران یہ ٹرین درمیان میں کئی ریاستوں کے بڑے بڑے اسٹیشنوں پر بھی رکے گی۔ وہاں سے بھی اگر کسانوں نے کوئی پیداوار بھیجنی ہے یہاں بھی کوئی آرڈر اتارنا ہے، اس کو بھی کسان ریل پورا کرے گی۔یعنی درمیان میں بھی متعدد بازاروں تک کسان ریل کسانوں کا مال پہنچاتی بھی ہیں اور اٹھاتی بھی ہیں۔ جہاں تک کرایہ کی بات ہے تو اس روٹ پر ریل کا مال برداری کرایہ ٹرک کے مقابلے میں ویسے بھی 1700 روپے کم ہے۔ کسان ریل میں تو سرکار 50 فیصد چھوٹ بھی دے رہی ہے اس کا بھی کسانوں کو فائدہ ہورہا ہے۔

ساتھیو!

کسان ریل جیسی سہولیات ملنے سے نقد فصلیں یا زیادہ دام والی، زیادہ غذائی فصلوں کی پیداوار کے لیے حوصلہ افزائی بڑھے گی۔چھوٹاکسان پہلے ان سب سے اس لیے نہیں جڑ پاتا تھا کہ اس کو کولڈ اسٹوریج اور بڑے مارکیٹ ملنے میں دقت ہوتی تھی۔ دور دراز کے بازار تک پہنچنے میں اس کے کرایہ بھاڑا میں کافی خرچہ ہوتا تھا اسی مسئلہ کو دیکھتے ہوئے تین سال پہلے ہماری حکومت نے ٹماٹر، پیاز، آلو کے ٹرانسپورٹیشن کے لیے 50 فیصد سبسڈی دی تھی۔اب آتم نربھر ابھیان کے تحت درجنوں دوسرے پھل اور سبزیوں کے لیے بڑھایا گیا ہے۔اس کا بھی سیدھا فائدہ ملک کےکسانوں کو مل رہا ہے۔

بھائیوں اوربہنوں!

آج مغربی بنگال کا کسان بھی اس سہولت سے جڑا ہے۔مغربی بنگال میں آلو، کٹھل، گوبھی، بیگن جیسی متعدد سبزیاں خوب ہوتی ہیں۔اسی طرح انناس، لیچی، آم ،کیلا ایسے متعددپھل بھی وہاں کے کسان اگاتے ہیں۔مچھلی چاہے میٹھے پانی کی ہویا کھارے پانی کی مغربی بنگال میں کوئی کمی نہیں ہے مسئلہ ان کو ملک بھر کی بازار تک پہنچانے کا رہا ہے۔اب کسان ریل جیسی سہولت سے مغربی بنگال کے لاکھوں چھوٹے کسانوں کو ایک بہت بڑا متبادل ملا ہے  اور یہ متبادل کسان کے ساتھ ہی مقامی بازار کے جوچھوٹےچھوٹے کاروباری ہیں ان کو بھی ملاہے۔وہ کسان سےزیادہ دام میں زیادہ مال خرید کرکسان ریل کےذریعہ دوسری ریاستوں  میں بھی بیچ سکتے ہیں۔

بھائیوں اور بہنوں!

گاؤں میں زیادہ روزگار پیدا کرنے کے لیے، کسانوں کو بہتر زندگی دینے کے لیے نئی سہولیات، نئے حل ضروری ہیں۔اسی مقصد کے ساتھ ایک کے بعد ایک زرعی سدھا ر کیے جارہےہیں۔ زراعت سے جڑے ماہرین اور دنیا بھر کے تجربات اور نئی ٹیکنالوجی کی ہندوستانی زراعت میں شمولیت کی  جارہی ہے۔اسٹوریج سے وابستہ انفرااسٹریکچر ہویا پھرکھیتی پیداوار میں ویلو ایڈیشن سے جڑے اور متعلقہ صنعت، یہ ہماری حکومت کی ترجیح رہی ہے۔ریلوے اسٹیشنوں کے آس پاس ملک بھر میں پیریشیبل کارگو سینٹرس قائم کیے جارہے ہیں، جہاں کسان اپنے اپج کو اسٹور کرسکتا ہے۔کوشش یہ ہے کہ جتنی پھل سبزیاں سیدھے گھروں تک پہنچ سکتی ہیں وہ پہنچائی جائیں۔اس کےعلاوہ جو پروڈکٹ ہوتا ہے، اس کو جوس، اچار،ساس، چٹنی،چپس یہ سب بننے والے صنعت سازوں تک پہنچایا جائے۔

پی ایم کرشی سمپدا یوجناکے تحت میگافوڈپارکس، کولڈ چین انفرااسٹریکچر، ایگروپروسسنگ کلسٹر،پروسسنگ یونٹ، ایسے تقریبا ساڑھے چھ ہزار پروجیکٹ کو منظوری دی گئی ہے۔جس میں سے متعدد پروجیکٹ پورے ہوچکے ہیں اور لاکھوں کسان کنبوں کو اس کافائدہ مل رہا ہے۔آتم نربھر ابھیان پیکیج بھی مائیکروفوڈ پروسسنگ صنعتوں کے لیے 10ہزار کروڑ روپے منظور کیے گئے ہیں۔

ساتھیو!

آج اگر حکومت ملک کے عوام کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو بھی پورا کرپارہی ہے تو، اس کا سبب ہے شراکت داری۔ زراعت سےوابستہ جتنے بھی سدھار ہورہے ہیں، ان کی سب سے بڑی طاقت ہی گاؤں کے لوگوں کی، کسانوں کی،نوجوانوں کی حصہ داری ہے۔ایف پی اویعنی کسان پیداواری یونین ہوں، دوسرے کوآپریٹو یونین ہوں، خواتین کے خود امدادی گروپ،زرعی کاروبار میں زرعی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں ان کوترجیح دی جارہی ہے۔نئی زرعی سدھاروں سے زراعت سے جڑا جو تجارت-کاروبار بڑھنے والا ہے، اس کے بڑے مستفیدین بھی کسانوں کے، دیہی نوجوانوں کے، خواتین کی یہی تنظیمیں  ہیں۔

زراعت کے کاروبار میں نجی سرمایہ کاری حکومت کی ان کوششوں کو ہی تقویت بخشے گی۔ ہم پوری لگن کے ساتھ ہندوستانی زراعت اور کاشتکاروں کو بااختیار بنانے کے راستے پر گامزن رہیں گے۔ میں ایک بار پھر ملک کے کسانوں کو 100 ویں کسان ریل اور نئے امکانات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وزارت ریلوے کو مبارکباد ، وزارت زراعت کو مبارکباد اور بہت سارے ملک کے بہترین کاشتکاروں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More