33 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ممبئی میں ریپبلک ٹی وی سمٹ سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

نئی دہلی، سب سے پہلے میں یہاں ممبئی کے اسپتال میں ہوئے حادثے پر اپنے دکھ کا اظہار کرتا ہوں ۔ میری وزیراعلیٰ صاحب سے اس بارے میں بات ہوئی ہے۔ ریاستی حکومت متاثرہ کنبوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ اس حادثے میں جن خاندانوں نے اپنوں کو کھویا ہے ان کے تئیں میری  تہہ دل سے تعزیت ۔

صحافی کے ذریعےترغیب یافتہ ، صحافی کے ذریعے چلایا جا رہا  ، خالص صحافت کے تئیں پابند عہد ، ریپبلک ٹی وی ایک مضبوط تجربہ ہے۔ بہت کم وقت میں آپ کے چینل نے اپنی پہچان بنائی ہے۔ آپ سبھی ملک کے عوام تک صحیح اطلاعات پہنچانے میں اہم رول ادا کرر ہے ہیں۔ میں ریپبلک ٹی وی کی پوری انتظامیہ کو ، یہاں کام کرنے والے ہر ایک صحافی کو ، ملک کے الگ الگ حصوں میں کام کرر ہے رپوٹروں اور اسٹنگروں کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ ملک کی دَشا اور دِشا پر غور کرنے کے لئے اس طرح کے پروگرام کر کے آپ نئے افکار ، نئے حل  کیلئے بھی لوگوں کو رغبت دلا رہے ہیں۔اس کے لئے بھی آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔

آزادی  سے قبل آزادی کے دیوانے ہی صحافت کرتے تھے ۔ رسائل و جرائد آزادی کا بگل بجاتے تھے ۔ آزاد بھارت میں سکھی اور خوشحال ملک کے لئے مثبت خبروں کی بھی بہت ضرورت ہے۔ اہل وطن میں کچھ کرنے کی خواہش بیدار ہو ، ملک کو آگے بڑھنے کی خواہش پیدا ہو ، یہ بہت ضروری ہے۔ جیسی سوراج آندولن کی روح تھی ویسی ہی سوراج  کی تحریک کی توانائی ہونی چاہئے۔ بھارت ، دنیا میں ایک طاقت کے طور پر ابھرے ، اس کے لئے کئی شعبوں میں ہمیں عالمی بلندی کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔

چاہے سائنس ہو ، ٹیکنالوجی ہو ، اینوویشن ہو ، اسپورٹس ہو ،اسی طرح دنیا میں بھارت کی آواز بلند کرنے کے لئے ہمارا میڈیا بھی عالمی پہنچ بنائے ، عالمی پہچان بنائے ، یہ وقت کی مانگ ہے۔ آج بھارت کے میڈیا ورلڈ کو اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے۔

سرجنگ انڈیا ،یہ دو الفاظ 130 کروڑ بھارتیوں کے جذبات کا اظہار ہیں۔ وہ احساسات ہیں ، وہ وائبریشن ہیں ، جسے آج پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ سماجی زندگی کے ہر پہلو میں وہ عالمی پلیٹ فارم پر اپنی صحیح جگہ کی طرف تیزی سے آگے  بڑھ رہا ہے۔ بھارت کی معیشت کو ، بھارت کا ٹیلنٹ ہو ، بھارت کا سماجی نظام ہو ، بھارت کی ثقافتی قدریں ہوں یا پھر بھارت کی فوجی طاقت ، ہر سطح پر بھارت کی پہچان اور مضبوط ہو رہی ہے۔

آج میں میڈیا کے پلیٹ فارم پر ہوں ، سوال آپ کو بہت محبوب ہوتے ہیں ۔اس لئے میں بھی کچھ سوالوں کے ساتھ اپنی بات کی شروعات کروں گا۔ کہتے ہیں جیسا سنگ ویسا رنگ، کچھ پل آپ  کے ساتھ کا سنگ ہے تو مجھے بھی عادت لگتی ہے۔ جیسے آپ کے سوالوں میں بہت کچھ چھپا ہوتا ہے ، ویسے ہی میرے سوالوں میں بھی آپ کو سرجنگ انڈیا کے بہت سے جواب اپنے آپ مل جائیں گے۔

کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت اتنی جلد 5ٹریلین ڈالر کی معیشتوں کے کلب میں شامل ہونے کی طرف اپنا قدم بڑھا دے گا؟کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ ایز آف ڈوئنگ بزنس یعنی کاروبار کرنے کی سہولت سے متعلق درجہ بنادی میں 142 سے 77 ویں مقام پر آ جائے گا۔ بھارت ٹاپ 50 میں آنے کی طرف تیز رفتاری سے قدم بڑھا رہا ہے۔ کیا چار سال قبل کسی نے سوچاتھا کہ بھارت میں اے سی ٹرین میں چلنے والے لوگوں سے زیادہ لوگ ہوائی سفر کرنے لگیں گے؟ہوائی جہاز میں پیٹھے ہوں گے ؟ کیا چا سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ رکشہ چلانے والا بھی ، سبزی والا بھی اور چائے والا بھی بھیم ایپ کا استعمال کرنے لگے گا۔ اپنی جیب میں روپئے ڈیبٹ کارڈ رکھ کر اپنی خود اعتمادی میں اضافہ کرے گا؟

کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت کا شہری ہوا بازی کا شعبہ اتنی تیزی سے آگے بڑھے گا کہ کمپنیوں کو ایک ہزار نئے ہوائی جہاز کا آرڈر دینا پڑے گا؟اور آپ کو جانکر حیرانی ہوگی کہ آزادی سے اب تک کچھ 450ہوائی جہازآپریشنل ہیں ۔ پرائیویٹ ہو ، پبلک ہو ، سرکاری ہو ،کچھ بھی ہو ۔ایک سال میں ایک ہزار نئے  ہوائی جہاز کا آرڈر یہ بتاتا ہے کہ کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت میں نیشنل واٹر ویز ایک سچائی بن جائے گی،کولکاتہ سے ایک جہاز گنگا ندی پر چلے گا اور بنارس تک سامان لے کر آئے گا۔ کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ ہم بھارت میں ہی بنی ،بغیر انجن والی ایسی ٹرین کا تجربہ کر رہے ہوں گے جو 180کلو میٹر فی گھنٹ کی رفتار سے دوڑے گی۔

کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت ایک بار میں 100 سٹیلائٹ داغنے کا ریکارڈ بنائے گا۔اور  اتنا ہی نہیں گگن یان کے ہدف پر بھی وہ  آگے بڑھ رہا  ہے۔ کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ اسٹارٹ اپ کی دنیا سے لے کر اسپورٹس کی دنیا میں بھارت کا وقار اتنا زیادہ بڑھ جائے گا؟

چار سال پہلے یہ بھی کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ہیلی کاپٹر گھپلے کا اتنا بڑا رازا دار کرشچین مشل  بھارت میں ہوگا، ساری کڑیاں جوڑ رہا ہوگا۔ چار سال پہلے یہ بھی کسی نے نہیں سوچا ہوگا کہ 1984 کے سکھ قتل عام کے قصوروار کانگریسی لیڈر کو سزا ملنے لگے گی، لوگوں کو انصاف ملنے لگے گا۔ آخر یہ تبدیلی کیوں آئی؟ ملک وہی ہے ، لوگ وہی ہیں ، بیورو کریسی وہی ہے ، ہمارے وسائل وہی ہیں ، پھر بھی اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟

ہمارے یہاں ایک سائیکالوجی رہی ہے کہ جب حکومت کے خلاف الزام لگاتے ہوئے کوئی عدالت میں جاتا ہے تو مانا جاتا ہے کہ سرکار غلط ہوگی اور الزام لگانے والا صحیح ہوگا۔ یہ عام طور پر ہمارا خیال ہے، گھپلے ہوں ، بدعنوانی کے الزامات ہوں ، یہی ایک ذہنیت ہمارے من میں گھر کر گئی ہے، کیونکہ ہم نے وہی دیکھا ہے  پہلے ۔ لیکن یہ بھی پہلی بار ہوا ہے جب کچھ لوگ حکومت پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت گئے  اور عدالت سے انہیں دو ٹوک جواب ملا کہ جو کام ہوا ہے ، وہ پوری شفافیت سے ہوا ہے، ایمانداری سے ہوا ہے ۔ ہمارے ملک میں ایسا بھی ہوگا ، چار سال پہلی یہ بھی کسی نے نہیں سوچا تھا۔

بھائیو اور بہنومیں اکثر دیکھتا ہوں کہ آپ لوگ براڈ کاسٹ کے دوران پہلے اور اب بھی ٹو ونڈو یعنی دو طرح کی صورتحال کا فرق بہت دلچسپی سے دکھاتے ہیں ۔ میرے پاس بھی پہلے اور اب کی بہت دلچسپ تصویریں ہیں جو سرجنگ انڈیا کو مزید موثر بناتی ہیں۔

آج ملک کے سامنے 2014 سے پہلے کی ایک تصویر ہے جب سووچھتا یعنی صفائی ستھرائی کا دائرہ 40 فیصد سے بھی کم تھا ۔ اب 2018 کے آخر میں وہیں دائرہ بڑھ کر 97 فیصد پہنچ چکا ہے۔  آج ملک کے سامنے 2014 سے پہلے کی تصویر ہے جب ملک میں 50 فیصدلوگوں کے پاس بینک کھاتے نہیں تھے ۔اب 2018 کے آخر میں ملک کا ہر خاندان بینکنگ نظام سے جڑ چکا ہے۔ آج ملک کے سامنے 2014 سے پہلے کی ایک اور تصویر ہے ٹیکس دینے والوں کی تعداد تین کروڑ 80 لاکھ تھی ۔ اب اس سال یہ تعداد بڑھ کر تقریباً  7 کروڑ ہو چکی ہے۔

آج ملک کے سامنے 2014 کے پہلے کی ایک تصویر ہے جہاں صرف 65 لاکھ کاروباری ٹیکس دینے کے لئے رجسٹرڈ تھے۔ اب آج صورتحال یہ ہے کہ صرف ڈیڑھ سال میں 55 لاکھ نئے کاروباری رجسٹریشن کے لئے آگے آئے ہیں ۔ آج ملک کے سامنے 2014 کے پہلے کی ایک تصویر ہے جہاں موبائل بنانے والی صرف دو کمپنیاں تھیں۔آج  ایسی ہی موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں  کی تعداد  بڑھ کر 120 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ 2 سے 120 ۔

پہلے اور اب میں  یہ تبدیلی، سرجنگ انڈیا کی بہت مضبوط تصویر سامنے رکھتی ہے ۔ یہ سب اسلئے ہو رہا ہے کہ آج ملک میں پالیسی سے چلنے والی حکمرانی اور پری ڈیکٹیبل  ٹرانسپیرنٹ پالیسیز  یعنی طے شدہ شفاف پالیسیوں کو بنیاد بنا کر ہماری حکومت  آگے بڑھ رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت میں دوگنی رفتار سے ہائیوے بن رہے ہیں ، دو گنی رفتار سے ریل لائنوں کی دوہری کاری ہو رہی ہے، برق کاری ہو رہی ہے ، 100 سے زیادہ نئے ہوائی اڈوں اور ہیلی پورٹ پر کام ہو رہا ہے۔ 30-30، 40-40 سال سے اٹکے ہوئے پروجیکٹوں کو پورا کیا جا رہا ہے۔

آج آپ بھارت میں کہیں بھی جائیں ، ایک سائن بورڈ ضرور دیکھنے کو ملے گا ، ورک اِن پروگریس۔

یہ سائن بورڈ صحیح معنیٰ میں یہ دکھاتا ہے کہ ’انڈیا اِن پروگریس‘۔صرف سڑکیں ، فلائی اوور ، میٹرو نہیں یہاں نیا بھارت بنانے کا کام ہو رہا ہے۔  میں آج اُس شہر میں ہوں جس کے لئے کہتے ہیں کہ ’دی سٹی دیٹ نیور اسٹاپس‘یعنی وہ شہر جو کبھی رکتا نہیں ہے۔ میں یہاں کھڑا ہو کر آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ  آج ’انڈیا اِز اے کنٹری دیٹ نیور اسٹاپس‘ یعنی ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو کبھی ٹھہرتا نہیں ہے۔ نہ رکیں گے ، نہ دھیما پڑیں گے ، نہ تھکیں گے، یہ انڈیا نے ٹھان لیا ہے۔

یہاں ممبئی میں بھی 22 کلو میٹر لمبے ممبئی ٹرانس ہاربر لنک کی تعمیر، ممبئی –احمدآباد بلیٹ ٹرین کا کام ، ڈبل لائن  سب –اربن کاریڈور  کا کام ، سینکڑوں کلو میٹر کے میٹرو کاریڈور کا کام ، سب 2014 میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد ہی شروع ہوا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اندھیری –ورار کے مصروف سیکشن میں نئی ٹرینیں بھی دی جا رہی ہیں ، جس سے اس ریل لائن کی صلاحیت 33 فیصد تک بڑھ جائے گی۔

ملک کی یہ ضرورتیں پہلے بھی تھیں ، ممبئی کی یہ ضرورتیں ، پہلے بھی تو تھیں ، کئی دہائیوں سے تھیں،لیکن کام اب ہو رہا ہے ۔ سوچیئے کیوں ؟ اس کا بھی جواب میں آپ کو دینا چاہتا ہوں اور کوشش کروں گا کہ آپ ٹی وی والوں کے طور طریقوں سے ہی جواب دوں ۔

میں ،جب کبھی وقت ملتا ہے تو ارنب کو دیکھتا ہوں ۔ دیکھنے سے زیادہ سنتا ہوں کہ کیسے وہ بہت سارے گیسٹ کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور سوال جواب کرتے ہیں ۔ 2ونڈو اور ملٹیپل ونڈو کا پورا تام جھام ہوتا ہے۔

ایسا ہی ایک ملٹیپل ونڈو ہر مہینے دلی میں وزیراعظم کے دفتر میں بھی بنتا ہے۔ یہ میٹنگ ہوتی ہے ترقی کی اور اس میں حساب کتاب لیا جاتا ہے۔ دہائیوں سے اٹکے ہوئے پروجیکٹوں کا ۔ گذشتہ چار سال میں کھوج کھوج کر میں نے وہ پروجیکٹ نکالے ہیں جو جانے کب سے فائلوں میں دبے ہوئے تھے ۔ میں آپ کو جانکاری دینا چاہتا ہوں کہ اب تک 12 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کے  پرانے پروجیکٹوں کا جائزہ اس میٹنگ میں لیا جا چکا ہے۔ ایک ایک پروجیکٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے ، کیسے محنت ہوتی ہے ، یہ بھی میں آپ کو ممبئی کی مثال دے کر ہی بتاتا ہوں۔

مجھے یاد ہے تقریباً تین سال قبل ’پرگتی ‘کی میٹنگ میں نوی ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا موضوع سامنے آیا تھا تو میں حیران رہ گیا تھا ۔ ممبئی میں دوسرے ہوائی اڈے کے تعلق سے نومبر 1997 میں پہلی بار کمیٹی بنی تھی ۔ تب سے لے کر قریب قریب 20 سال تک صرف فائلیں ہی ادھر سے ادھر دوڑتی رہیں ، میں کہوں کا اڑتی رہیں۔ اس بیچ کتنی سرکاریں آئیں ، کتنی چلی گئیں ، فائلیں اڑتی رہیں، جہاز کبھی نہیں اڑا۔ لیکن  نوی ممبئی ایئرپورٹ کی فائل آگے نہیں بڑھ پائی۔ پرگتی کی میٹنگ میں ملٹیپل ونڈو بنا کر ،سارے افسروں ، سارے محکموں کو ایک ساتھ ، آمنے سامنے لاکر ہماری سرکار نے اس پروجیکٹ کے سامنے آ رہے سارے روڑے دور کئے  اور اب نوی ممبئی ایئرپورٹ پر تیزی سے کام چل رہا ہے ۔

سوچیئے ، یہ صرف ایک پروجیکٹ کی کہانی ہے۔ اور میں پھر بتا دوں ، ایسے ہی 12 لاکھ کروڑ روپئے کے پروجیکٹ کو ہم تیز رفتاری سے آگے بڑھا چکے ہیں ۔ سرجنگ انڈیا کے پیچھے جو ورک کلچر میں تبدیلی آئی ہے یہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔

  کچھ سال پہلے ایک پلیٹ فارم پر میں نے دوستوں کی ایک کہانی سنائی تھی ۔ ایک بار یہ دونوں دوست جنگل میں ٹہلنے کے لئے چلے گئے لیکن بڑا گھنا جنگل تھا، خوفناک جانور تھے تو اپنے ساتھ حفاظت کا بھی سامان رکھے ہوئے تھے ، بہترین کوالٹی کا پستول، بندوق اپنے ساتھ تھی۔اور پھر ان کو نظر نہیں آ رہا ہوگا تو رک کر کے گاڑی سے اترکے سوچا کہ ذرا ٹہل لیں تو ٹہلنے کے لئے نکل پڑے اور جب ٹہلنے کے لئے نکل پڑے تو اچانک ایک شیر آ گیا اور سامان تو گاڑی میں پڑا تھا، بندوق تو گاڑی میں پڑی تھی ، وہیں چھوڑ آئے اور یہ ٹہل رہے تھے کہ شیر آگیا۔ لیکن اب اس صورتحال کا مقابلہ کیسے کریں؟ بھاگے تو بھاگ کے جائیں کہاں ؟ لیکن اس میں سے ایک جو تھا اس نے اپنی جیب سے ریوالور کا لائسنس نکال کر شیر کو دکھایا کہ دیکھ میرے پاس ہے۔

ہمارے ملک میں یہی ہوتا رہا ہے۔ ساتھیوں، یہی ہماری پہلے کی سرکار وں  کا ایپروچ تھا۔ کچھ بھی ہو ایکٹ دے دو ایکشن کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا تھا۔ جب میں نے یہ کہانی سنائی تھی تب تو میں وزیراعظم  بھی  نہیں تھا۔ تب میں نے کہا تھا کہ ہمیں ایکٹ سے بھی آگے بڑھ کر مضبوطی کے ساتھ ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد ہم نے اسے کیسے حقیقت کا  روپ دیا، میں آپ کو بتاتا ہوں ۔

سابقہ حکومت غذائی تحفظ قانون لے کر آئی، بہت گانے بجائے، ان کے جو گیت گانے والے لوگ ہیں، بہت چلا چلا کے گاتے رہتے تھے۔ بہت ہلا کیا گیا، بہت تالیاں بٹوری گئیں، لیکن ہم جب 2014 میں اقتدار میں آئے تب تک صرف 11 ریاستوں نے ہی اس کا فائدہ اٹھایا تھا۔ سوچئے اتنی تالیاں بٹورنے کے بعد بھی بھارت کی بڑی آبادی اس کا فائدہ نہیں لے پارہی تھی۔

ہم نے آنے کے بعد اس بات کو یقینی بنایا کہ سبھی 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام لوگوں کو اس کا فائدہ پہنچے۔ اسی طرح 2013-14 میں بڑا ذکر چل رہا تھا کہ گیس کے 10 سلنڈر دیں گے یا 12 سلنڈر دیں گے اور اس کے نام پر الیکشن لڑے جارہے تھے، لیکن 2014 تک بھارت کے صرف 55 فیصد گھروں میں ہی گیس کا کنکشن تھا۔

آپ سوچئے، 10 سلنڈر،12 سلنڈر کے نام پر انتخابات لڑے گئے اور ملک کی آدھی آبادی کے پاس تو گیس کا کنکشن ہی نہیں تھا۔

ہماری حکومت ،مسائل کے مستقل حل کے لیے کام کررہی ہے۔ ملک کے سامنے جو چیلنج ہیں، ان کے مستقل حل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہم ایسے سسٹم کو توڑ رہے ہیں، ختم کررہے ہیں، جنہوں نے دہائیوں سے ملک کی ترقی کو روک رکھا تھا۔ میں آپ کو

انسولوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ یعنی آئی بی سی کی مثال دینا چاہتا ہوں۔

ہمارے ملک میں قرض کے تعلق سے ایک عجیب سی روایت تھی کہ کوئی غریب یا نچلے متوسط طبقے کا فرد ایک لاکھ کا قرض بینک سے لے اور اسے لوٹانہ پائے، تو اس کا بچنا مشکل ہوجاتا تھا، لیکن اس کے علاوہ ایک اور تصویر سے آپ اچھی طرح واقف ہیں۔ ملک میں ہزاروں ایسی بڑی بڑی کمپنیاں تھیں، جو بینک سے پانچ دس لاکھ نہیں، پانچ دس کروڑ نہیں، بلکہ پانچ سو ہزار کروڑ روپے کا قرض لیتی تھیں۔ لیکن الگ الگ اسباب سے جب یہ کمپنیاں بیمار ہوجاتی تھیں، خسارے میں چلی جاتی تھیں، بینکوں کا پیسہ نہیں لوٹا پاتی تھیں، تو ان کمپنیوں اور ان کمپنیوں کے مالکوں کا کچھ نہیں ہوتا تھا۔

آزادی کے بعد سے 70 سال سے ملک میں یہی نظام چلا آرہا تھا۔ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں تھا؟ایسا اس لیے تھا کیوں کہ ان کمپنیوں کو ایک خاص طرح کا سیکورٹی کورملا ہوا تھا۔ یہ ایک ایسا سیکورٹی کور تھا جس میں کچھ خاص لوگوں، کچھ خاص خاندانوں کی ہدایت چلتی تھی۔یہ ایسا سیکورٹی کور تھا جو بینکوں کو کارروائی سے روکتا تھا، جو کمپنیوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتاتھا کہ کیوں لوٹاؤ بینکوں کا پیسہ، کون آپ سے پیسے مانگنے آرہا ہے؟

 مجھے معلوم ہے کہ کتنی دقتیں آئیں، کس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن 2016 میں انسولوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ بنا کر میں نے اس سیکورٹی کور کو توڑ دیا۔ آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ بینکوں سے قرض لے کر بیٹھ جانے والے، بیمار کمپنی کے بہانے ملک کا ہزاروں کروڑ روپیہ لے کر بیٹھے ایسے لوگ، ایسی کمپنیاں خود اپنا پیسہ لوٹانے لگی ہیں۔

صرف دو سال میں اب تک سوا لاکھ کروڑ روپے خود چل کر ایسی کمپنیوں نے بینکوں کو اور اپنے دین داروں کو لوٹائے ہیں، اس میں سے بہت سی رقم چھوٹے سپلائرس کی تھی، چھوٹے کاروباریوں کی تھی، ایم ایس ایم ای سیکٹر کی تھی۔ جن کمپنیوں پر اس قانون کا ڈنڈا چلا ہے، ایسی کمپنیوں سے اب تک پونے دو لاکھ کروڑ روپے کا قرض واپس لیا جاچکا ہے۔ یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو 2016 میں جو نیا قانون بنایا، اس کے بعد تقریباً تین لاکھ کروڑ روپے کا قرض ان کروڑپتیوں کو، ان کی کمپنیوں کو اپنے بینکوں کو، اپنے دین داروں کو چکانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔

اسی طرح بینکوں کو لوٹ کر جو بھگوڑے ہوجاتے ہیں، ان کے لیے بھی سخت قانون اپنا کام کررہا ہے۔ اب ملک ہی میں نہیں بیرون ملک بھی ایسے مجرموں کے اثاثے قرق ہورہے ہیں۔ ایسے تمام مجرموں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے، اس کے لیے حکومت پابند عہد ہے۔

بدعنوانی کو بھارت میں نارمل مان لیا گیا تھا۔بھارت میں یہ تو چلتا ہی ہے، اتنا تو چلتا ہی ہے۔ اگر کوئی سامنے سے آواز اٹھاتا تھا، قاعدہ قانون بھی یاد دلاتاتھا، تو سامنے سے فوراً جواب ملتا تھا کہ یہ بھارت ہے، یہاں ایسا ہی چلتا ہے۔ ایسا ہی کیوں چلنا چاہیے؟ کب تک چلنا چاہیے؟ صورت حال کو ویسی  ہی کیوں رہنا چاہیے؟ ایسی صورت حال کو بدلنا کیوں نہیں چاہیے؟

گزشتہ چار ساڑھے چار سال میں ، میں اسی صورت حال کو بدلنے کی کوشش کررہا ہوں، ملک کو پیچھے لے جانے والی بندشوں کو توڑنے کا کام کررہا ہوں۔ کچھ لوگ ملک کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن مجھے سچائی کی طاقت پر بھروسہ ہے اور حق پرست اہل وطن پر میرا بھرپور اعتماد ہے۔

آج بھارت کی خارجہ پالیسی ، گھریلو معاملات، نازبرداری کے دباؤ کے تحت نہیں چل رہے ہیں، بلکہ ہماری سبھی پالیسیاں، سارے پروجیکٹ ، سروجن ہتائے سروجن سکھائے اور ملکی مفاد سے طے ہوتی ہیں۔ ہمیں کہاں جانا ہے، کس ملک کے ساتھ رشتے رکھنے ہیں، وہ دونوں ملکوں کے باہمی مفادات سے طے ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت کے پاسپورٹ کی طاقت آج بڑھی ہے۔ آج پوری دنیا میں بھارت کی آواز سنجیدگی سے سنی جارہی ہے۔ دنیا کے طاقتور اداروں میں بھارت کو نمائندگی مل رہی ہے۔ بھارت کی فکرمندیوں کے تئیں حساسیت کے ساتھ غور ہوتا ہے اور بھارت کے لیے خصوصی التزامات کیے جاتے ہیں۔ اوپیک جیسے اداروں میں نمائندگی نہ ہونے کے باوجود بھارت کی بات سنی جاتی ہے۔

یہ دنیا میں بھارت کے تئیں بڑھے اعتماد اور ہمارے مضبوط رشتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ بھارت کو دھوکہ دینے والے، ہمارے نظامات سے کھیلنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑ ا کیا جارہا ہے۔ ان کو بھارت کو سونپا جارہا ہے۔

جب عوامی زندگی میں شرافت، شفافیت ہو اور لوگوں کے لیے کام کرنے کے تئیں کنوکشن ہو، کمٹمنٹ ہو، تو بڑے اور کڑے فیصلے لینے کا حوصلہ اپنے آپ آجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں دہائیوں سے جی ایس ٹی کی مانگ تھی۔ آج ہم اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد بازار کی خامیاں دور ہورہی ہیں اور سسٹم کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔ معیشت میں شفافیت کی جانب ہم بڑھ رہے ہیں۔

سماج کے محنتی اور جفاکوش لوگ، جو بازار سے وابستہ ہیں، انہیں ایک صاف ستھری، آسان، انسپکٹر راج سے آزاد نظام مل رہا ہے۔ پورے بھارت نے ایک من ہو کر، اتنے بڑے ٹیکس ریفارم کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ ہر کسی نے اپنا تعاون دیا ہے۔ ہمارے کاروباریوں اور لوگوں کے اسی جذبے کا نتیجہ ہے کہ بھارت اتنی بڑی تبدیلی کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی چھوٹے چھوٹے ٹیکس ریفارم کا نفاذ آسان نہیں ہوتا ہے۔

جیسا میں نے پہلے کہاکہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل رجسٹرڈ انٹرپرائززکی تعداد محض 66 لاکھ تھی، جو اب بڑھ کر ایک کروڑ 20 لاکھ ہوگئی ہے۔ شروعاتی دنوں میں جی ایس ٹی الگ الگ ریاستوں میں ویٹ اور ایکسائز کا جو نظام تھا، اسی کے سائے میں آگے بڑھ رہا تھا۔ جیسے جیسے صلاح ومشورہ ہوا، متعلقین سے بات ہوئی، ریاستی حکومتوں سے بات ہوئی، ماہرین معاشیات سے بات ہوئی، ٹیکس پریکٹشنروں سے بات ہوئی، دھیرے دھیرے اس میں تبدیلی آتی گئی۔

آج جی ایس ٹی کا نظام کافی حد تک قائم ہوگیا ہے اور ہم اب بھی ضرورت کے مطابق عوام کی سہولت کے حساب سے اس کو ڈھالنے کے تئیں پابند عہد ہیں۔یہ بہت اہم بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج ہم اس صورت حال کی طرف پہنچ رہے ہیں، جہاں 99 فیصد اشیا، 18 فیصد یا اس سے کم ٹیکس کے دائرے میں لائی جاسکتی ہیں اور ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد جو ایک آدھ فیصد لگژری آئٹمس ہوں گے، وہی شاید 18 فیصد کے باہر رہ جائیں گے۔ جیسے کوئی ہوائی جہاز خرید کر کے لاتا ہے، کوئی بہت بڑی مہنگی گاڑی خرید کر لاتاہے، شراب ہے، سگریٹ ہے، ایسی کچھ چیزیں مشکل سے ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ ہماری یہ رائے ہے کہ جی ایس ٹی کو جتنا سہل اور آسان بنایا جاسکتا ہے، اسے بنایا جانا چاہیے اور یہ واضح ہے، اور میں تو ابھی جو، جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ ہوگی،اس کے لیے بھی میں نے اپنے مشورے دے دیے ہیں، کیونکہ اسے سبھی ریاستیں مل کر طے کرتی ہیں۔ 99 فیصد، چیزیں 18 فیصد سے نیچے کے دائرے میں آجائیں گی۔ آدھا پونا یا ایک فیصد ، ہوائی جہاز، بڑی گاڑی ہو، شراب ہو، سگریٹ ہو، ایسی چیزوں کو چھوڑ کر عام انسان سے متعلق ساری چیزیں 99 فیصد، 18 فیصد سے نیچے ہوجائیں گی اور یہ کام ہم لگاتار کرتے کرتے ہدف کو پار کرنے کی سمت میں پہنچ رہے ہیں۔

میری اور میری حکومت کی یہ واضح سوچ اور ویژن ہے۔ دنیا کا سب سے بڑی نوجوانوں کی آبادی والا ملک چھوٹے سپنے نہیں دیکھ سکتا۔ سپنے ، امنگیں اور اہداف تو بلند ہی ہونے چاہییں۔ ہم بڑے ہدف کی سمت میں ایمانداری سے کوشش کریں گے، تو اسے حاصل بھی کرسکیں گے۔ لیکن ہدف ہی چھوٹا رکھو گے، تو کامیابی بھی چھوٹی نظر آئے گی۔

حکومت کا پورا نظام، پوری مشینری، 70 سال سے پائیدار اور ترقی سے بنی ہے۔ چار ساڑھے چار سال پہلے بھی یہی نظام تھا، یہی مشینری تھی، لیکن آج کام کرنے کی اسپیڈ اور اسکیل دونوں کئی گنا بڑھ گیے ہیں۔ آج متعدد اہداف ایسے ہیں، جن کی طرف ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سب کے پاس اپنا گھر ہو، ہر گھر میں 24 گھنٹے روشنی ہو، صاف پانی اور صاف ایندھن سب کو دستیاب ہو، ان اہداف کے بہت قریب آج بھارت پہنچ رہا ہے۔ بچوں کو پڑھائی، نوجوانوں کو کمائی، بزرگوں کو دوائی، کسانوں کو سینچائی اور جن جن کی سنوائی، ان اہداف کے حصول کے لیے ہمارا ایک ایک لمحہ وقف ہے۔

ایک نیا اعتماد لیے، نیو انڈیا، عالمی فلک پر اپنا رول طے کررہا ہے۔نئے گلوبل آرڈر میں اپنے رول کو ری ڈیفائنڈ کررہا ہے۔ آنے والے دو دنوں میں اس رول پر ملک و بیرون ملک سے تشریف لائے مہمان یہاں سنجیدہ غوروفکر کریں گے۔ اس کے لیے میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارک باد۔ نئی توانائی پر سوار نیو انڈیا کے بارے میں بتانے کا آپ نے موقع دیا، اس کے لیے آ پ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتاہوں اور مجھے یقین ہے کہ جس سپنے کو لے کر صحافت سے وابستہ کچھ نوجوانوں نے ری پبلک ٹی وی کا تجربہ کیا ہے اور اب تو ہندی میں بھی جارہے ہیں، ملک کی دیگر زبانوں میں بھی جانے کا سوچیں گے۔ لیکن دنیا میں بھی اپنی جگہ بنانے کا سپنا لے کر چلیں گے، انہیں نیک خواہشات کے ساتھ بہت بہت شکریہ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More