32.1 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

تعلیم کو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ طلباء میں ایک مضبوط کردار اور اخلاقی قدروں کو جگائے:نائب صدر جمہوریہ

Urdu News

نئیدہلی۔ ۔نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیانائیڈو نے کہا ہےکہ تعلیم کو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ طلباء میں ایک مضبوط کردار پیدا کرے اور اخلاقی قدروں کو جگائے۔ وہ ممبئی میں آر اے پودار کالج آ ف کامرس اینڈ ایکونومکس کی پلاٹینم جوبلی  تقریبات کے افتتاح کے بعد اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ مہاراشٹر کے ہاؤسنگ کے محکمے کے وزیر جناب پرکاش مہتا اور دیگر شخصیتیں بھی اس موقع پر موجود تھیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے والدین ، اساتذہ ، اسکولوں اور کالجوں سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی  بنائے کہ گھروں اور اسکولوں میں ذہنی دباؤ کا ماحول نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ  کچھ والدین بچوں کی خطرناک ذہنی کیفیت کو سمجھ نہیں پاتے اور وہ اپنے بچوں کے ذہنی دباؤ کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اہم موضوع  وزیراعظم جناب نریندر مودی کے بھی دل کی بات ہے جنہوں نے ’’ایگزام وارئرس‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی ہے جو امتحانات کی وجہ سے اضطرابیت اور دباؤ پر غلبہ پانے کے مقصد سے لکھی گئی  ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ملک کے وسیع  انسانی وسائل   کو آبادی  کی شکل میں حاصل بالادستی کی طاقت میں بدلنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اسے آنے والے برسوں میں دنیا کی چوٹی کی تین بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کیلئے بھارت کی ترقی کی طرف لے جانا ہے۔  تعلیم ایسی ہونی چاہئے کہ اس سے کسی فرد کی مجموعی شخصیت کُلی اعتبار سے فروغ حاصل کرے۔  تعلیم  کی وجہ سے کوئی فرد اپنے کریئر سے متعلق متبادلوں سے باخبر ہونا چاہئے نیز وہ اپنی زندگی کے بقیہ ہر مرحلے پر بھی باخبر رہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ تعلیم ایسی ہونی چاہئے کہ وہ نوجوانوں کو بااختیار اور روشن خیال بنائے۔ ان کی تجزیاتی صلاحیتوں میں بہتری لائے اور ان میں نئے خیالات پیدا کرے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معیار اور سب کی شمولیت والی تعلیم فراہم کیے بغیر محض عمارتوں  پر عمارتیں بنانے سے نئے بھارت کی تعمیر نہیں ہوگی۔ تعلیم نہ صرف یہ کہ سب کو فراہم ہو بلکہ اس پر مناسب خرچ آنا چاہئے اور ایسی ہونی چاہئے کہ لوگوں کو یہ روزگار فراہم کرنے کے علاوہ بااختیار اور روشن خیال بنائے۔

نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن مندرجہ ذیل ہے:

’’مجھے اس باوقار کالج کی پلاٹینم جوبلی تقریبات کا افتتاح کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے جو اس متحرک شہر کے مختلف طبقوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرتی آئی ہے اور جس نے مختلف میدانوں میں معروف شخصیتیں پیدا کی ہیں۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ بھارت کے چیف جسٹس آر سی لاہوٹی ، کرکٹ کھلاڑی فاروق انجینئر اور روی شاستری ، فلم اداکارہ شلپا شیٹی ، کرناٹک گلوکار اور موسیقار بامبے جے شری  اور بھارت کے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کے ادارے کے صدر نیلیش وِکمسے، اس کالج کی کچھ اہم شخصیتوں میں شامل ہیں۔

پیارے طلباء، بھارت دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے، جہاں نوجوانوں کی آبادی کافی زیادہ ہے۔ ملک کے لئے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ  ان وسیع انسانی وسائل کو آبادی سے حاصل ہونے والی بالادستی کی طاقت میں کیسے بدلا جائے اور آنے والے برسوں میں بھارت کو چوٹی کی تین معیشتوں میں شامل کرنے کیلئے کس طرح آگے بڑھایا جائے۔

جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہر سال مختلف شعبوں سے لاکھوں گریجویٹ ہمارے اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے نکلتے ہیں لیکن ہم سب جو  سب سے بڑا سوال اپنے آپ سے پوچھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا ہم مجموعی اعتبار سے ایسے طلباء پیدا کررہے ہیں جنہیں اپنے موضوعات میں ٹھوس معلومات ہو اور ان میں  موجودہ دور کی مسابقتی دنیا کا سامنا کرنے کی صلاحیتیں ہوں  یا ہم محض ایسے طلباء پیدا کررہے ہیں جن کے پاس محض ڈگری ہے اور وہ روزگار کے لائق نہیں ہیں؟

تعلیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  محض ڈگری  اور روزگار حاصل کرلیا جائے ، تعلیم ایسی ہونی چاہئے کہ وہ کسی فرد کی مجموعی شخصیت کو کُلی اعتبار سے فروغ دے۔ تعلیم کو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ طلباء کو متبادلوں کے بارے میں باخبر رکھے اور ان کی زندگیوں کو بعد کے بھی ہر مرحلے میں باخبر رکھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تعلیم کو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ طلباء کا مضبوط کردار تخلیق کرے اور ان میں اخلاقی قدروں کو جگائے۔

تعلیم کو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ افراد میں متانت  پیدا کرے ، ان  کی ذہن سازی ہمدردی اور انسانیت کے نکتہ نظر سے عالمی منظرنامے میں کرے نہ کہ محض جدید دور کمپیوٹر پر کام کرنے والے لوگ۔ تعلیم کو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ نوجوانوں کو بااختیار روشن خیال بنائے۔ ان کی تجزیاتی صلاحیتوں کو بہتر بنائے اور اس طرح وہ نئے خیالات ، نئی کھوج اور اختراع کی گنجائشیں تلاش کریں۔

در حقیقت اس بات کی ضرورت ہے کہ تعلیمی نظام کو ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلیٰ سطح تک مجموعی اعتبار سے بدل دیا جائے تاکہ علم کا حصول ایک خوشگوار عمل بن جائے اور طلباء کو امتحان کے دوران ذہنی دباؤ اور غیرضروری کشیدگی کی کیفیت سے نہ گزرنا پڑے۔ برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے طلباء میں ذہنی دباؤ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ امتحان کے اس دباؤ سے نمٹنے کے اہل نہ ہونے کی وجہ سے خودکشی کرلیتے ہیں۔ والدین ، اساتذہ ، اسکولوں اور کالجوں کی بڑے پیمانے پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گھروں اور اسکولوں میں ایسے ماحول کو یقینی بنائے جو ذہنی دباؤ سے پاک ہو۔

 یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت مرتبہ والدین اپنے بچوں کی خطرناک ذہنی کیفیت کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں یا وہ ان کے ذہنی دباؤ کو سمجھ نہیں پاتے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ اہم موضوع وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے دل کی بات ہے ، جنہوں نے ایک کتاب ’ایگزام واریرس‘ کے عنوان سے تحریر کی ہے۔ یہ کتاب امتحانات کی وجہ سے پیدا ہونےو الی اضطرابیت اور ذہنی دباؤ پر غلبہ پانے کیلئے لکھی گئی ہے۔

ایک اور پہلو جسے میں اجاگر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تعداد پر توجہ دینے کے بجائےمعیاری تعلیم فراہم کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تعلیمی بنیادی ڈھانچے کی توسیع اہمیت رکھتی ہے لیکن معیاری اور سب کی شمولیت والی تعلیم فراہم کیے بغیر عمارتوں پر عمارتیں تعمیر کرنے سے نئے بھارت کی تخلیق نہیں ہوگی۔ تعلیم نہ صرف سب کو فراہم ہو بلکہ یہ  کم خرچ بھی ہو۔

ہمیں ملکر اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ غریبی ، زرعی مسائل ، ناخواندگی، ذات پات کی بنیاد پر تقسیم ، مذہبی بنیاد پرستی اور صنفی تفریق کو جڑ سے ختم کیاجائے۔ جس سے ہم ایک نئے بھارت کی تشکیل کرسکیں۔ جیسا کہ ہمارے مجاہدین آزادی نے سوچا تھا۔ نیز دیہی علاقوں کو ، شہری علاقوں سے پیچھے نہیں چھوڑا جاسکتا اور وہ سبھی سہولیات جو شہری علاقوں میں دستیاب ہیں چھوٹے قصبوں اور گاؤں میں بھی فراہم کی جانی چاہئے۔

اس سے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو مساویانہ موقع یقیناً فراہم ہوں گے اور اس سے ترک وطن کا سلسلہ بھی ختم ہوگا تاکہ شہر پختہ عمارتوں کے جنگ نہ بن کر رہ جائیں۔

پیارے طلباء،  ہماری ثقافت ، مالا مال ثقافت ہے جس میں علم اور معلومات کی اقدار کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہماری ثقافت میں گورو کو ، علم دینے والی شخصیت کے طور پر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا  ہے۔ بھارت کو کسی عہد میں ’وشو گورو‘ کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور تکش شلا اور نالندہ جیسی قدیم یونیورسٹیاں علم کا مشہور مرکز ہوا کرتی تھیں جہاں لوگ علم حاصل کرنے کیلئے دنیا بھر سے آتے تھے۔

آج بھارت کو ایک مرتبہ پھر یہ موقع ملا ہے کہ وہ دنیا میں علم کے ایک مرکز کی حیثیت سے اُبھرے ہیں لیکن یہ موقع حاصل کرنے کیلئے ہمیں بہت سے چیلنجوں پر غلبہ پانا ہوگا۔ یہ غلبہ ہم کمزور طبقوں ، نوجوانوں اور خواتین کو تعلیم ، علم اور ہنر سے آراستہ کرکے پا سکتے ہیں۔ خواندگی ، لوگوں کوبا اختیار بناکر اور سماج کی کایا پلٹ کرکے مختلف چیلنجوں پر غلبہ پانے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔

میں اپنے کالج کے مستقبل کے خاکے  اور مقاصد سے واقعتاً متاثر ہوں۔ مستقبل کا خاکہ ’’سمانی  وا آکوتی سمانا ریدایانی واہم ‘‘( کوئی ذہن میں کوئی دل میں ) اس اشلوک کے معنی اجاگر کرتا ہے۔ خدا نے سب کو مساوی بنایا ہے جبکہ مقاصد’’ناہی  نیانن  سدرشم پوتر میہا ودیاتے ‘‘ (کائنات میں اتنا خالص کچھ نہیں جتنا علم ہے)  اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے اور بلاہچکچائے آزادانہ تبادلہ خیال کیا جائے۔

ان خیالات سے ہمارا ہر قدم سب کے لئے مساوی موقعوں کے نئے بھارت کی تخلیق کیلئے ہونا چاہئے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More