22 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ترو پتی میں انڈین سائنس کانگریس کے 104 ویں اجلاس سے وزیر اعظم کا افتتاحی خطاب

PM's Address at the Inauguration of the 104th Session of the Indian Science Congress, Tirupati
Urdu News

 نئی دلّی ، 03 جنوری /

آندھرا پردیش کے گورنر جناب ای ایس ایل نرسمہن

 آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ جناب این چندر بابو نائیڈو

 سائنس و ٹیکنا لوجی اورارضی سائنس کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن

سائنس و ٹیکنا لوجی اورارضی سائنس کے   مرکزی وزیر مملکت  جناب وائی ایس چودھری

انڈین سائنس کانگریس ایسوسی ایشن کے  عمومی صدر پرفیسر ڈی نارائن راؤ

 سری وینکٹیشور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اے دامودرم

ممتاز مندوبین

خواتین و حضرات ،

میں اندرون ملک اوربیرون ملک کے ممتاز سائنس دانوں کے ساتھ ترو پتی کے مبارک شہر میں نئے سال کا آغاز کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں ۔

           میں سری وینکٹیشور کے یونیورسٹی کے شاندار کیمپس میں انڈین سائنس کانگریس کے 104 ویں اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے مسرت کا احساس کر رہا ہوں ۔

           میں اس سال کے اجلاس کے لئے ’’ قومی ترقی کے لئے سائنس و ٹیکنا لوجی ‘‘ کے معقول موضوع کا انتخاب کرنے کے لئے انڈین سائنس کانگریس  ایسوسی ایشن کی ستائش کرتا ہوں ۔

 ممتاز مندوبین ،

          قوم ہمیشہ اُن سائنس دانوں کی مشکور رہے گی ، جنہوں نے ہمارے سماج کو اپنے ویژن ، محنت اور قیادت سے با اختیاربنانے کی انتھک کوشش کی ہے ۔

           نومبر ، 2016 ء میں ملک نے ایسے ہی ایک معروف سائنس داں اور معمارِ ادارہ ڈاکٹر ایم جی کے مینن کو کھو دیا ۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے میں ، میں آپ کے ساتھ ہوں ۔

 ممتاز مندوبین ،

           آج ، جس رفتار اور جس پیمانے کی تبدیلیوں کا ہمیں سامنا ہے ،وہ   غیر معمولی ہیں ۔

           آخر ہم ، اُن چیلنجوں کا جواب کیسے دے سکتے ہیں ، جن کے بارے میں ہمیں یہاں تک  پتہ نہ ہو کہ  یہ پیش آ سکتے ہیں ۔  گہری جڑوں میں پیوست ہمار ا  تجسس اورسائنسی روایات   ہی ایسی چیزیں ہیں ، جس کی بدولت ہم نئے حقائق کے ساتھ تیزی سے امتزاج  پیدا کر  پاتے ہیں ۔

          کل کے ماہرین اُس سرمایہ کاری کی بدولت نمودار ہوں گے ، جو ہم آج اپنے عوام اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں کریں گے ۔  میری حکومت سائنسی علوم کے مختلف دھاروں کو تعاون دینے کے تئیں پابندِ عہد ہے ۔ اِس میں بنیادی سائنس سے لے کر اپلائیڈ سائنس تک شامل ہیں اور جس میں خصوصی زور اختراعات  پر ہے ۔

 ممتاز مندوبین ،

           سائنس کانگریس کے گذشتہ دو اجلاس کے دوران میں نے آپ کے سامنے متعدد اہم چیلنجوں اور ملک کے لئے موجود مواقع کو پیش کیا تھا ۔

           اِن میں سے کچھ اہم چیلنج  صاف پانی اور توانائی ، خوراک ، ماحولیات ، آب و ہوا ، سکیورٹی اور صحت نگہداشت جیسے اہم شعبوں سے متعلق ہیں ۔

           ہمیں ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم تخریبی ٹیکنالوجی کے ابھار  پر، جہاں نظر رکھیں ، وہیں ترقی کے لئے اُن کے استعمال کے لئے بھی تیار رہیں ۔  ہمیں ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم اپنی ٹیکنالوجی سے متعلق تیاریوں اور مسابقت کے مواقع اور خطرات کا پوری صفائی کے ساتھ جائزہ لیں ۔

           مجھے بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس کی سائنس کانگریس میں ٹیکنا لوجی ویژن  ، 2035 ء سے متعلق ، جو دستاویزات جاری کئے گئے تھے ، انہیں اب  12 کلیدی ٹیکنا لوجی سے متعلق شعبوں کے لئے ایک تفصیلی لائحہ عمل کی شکل دی جا رہی ہے ۔  مزید براں ، نیتی آیوگ ملک کے لئے ایک جامع سائنس و ٹیکنا لوجی ویژن  تیار کر رہا ہے ۔

           ایک اہم شعبہ ، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، وہ ہے ، سائبر ۔ فزیکل سسٹمس کا عالمی سطح پر ابھار  ۔  ممکن ہے کہ اِس سے ہمارے سامنے کئی طرح کے چیلنج ابھرکرسامنے آئیں اور آبادی سے متعلق ہماری بہتر پوزیشن پر اِس کا دباؤ پڑے  لیکن ہم اِسےریسرچ ، ٹریننگ اور روبوٹک ، آرٹیفیشیل انٹلی جنس، ڈجیٹل مینوفیکچرنگ ، بِگ ڈاٹا اینالیسس ، گہری تعلیم ، مواصلات  کی رفتار میں اضافہ اور انٹر نیٹ وغیرہ جیسی ہنرمندانہ صلاحیتوں میں اضافہ کرکے  ایک بڑے موقع میں تبدیل کر سکتے ہیں ۔

           ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِن ٹیکنالوجیوں  کو خدمات اور مینو فیکچرنگ  ، زراعت ، پانی ، توانائی وٹریفک مینجمنٹ ، صحت ، ماحولیات ، بنیادی ڈھانچہ ، ارضی اطلاعات کے نظام ، سلامتی مالی نظامات اور انسدادِ جرائم جیسے شعبوں میں ترقی دی جائے اور اِن سے فائدہ اٹھایا جائے ۔

           ہمیں سائبر ۔ فزیکل سسٹمس کے شعبے میں ایک بین وزارتی قومی مشن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم   بنیادی آر اینڈ ڈی انفرا انسٹرکچر  ، افرادی قوت اور ہنرمندی کی تخلیق کی بنیاد پر اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکیں ۔

معززمندوبین ،

            جزیرہ نما ہند سے ، جو سمندرگھرے ہوئے ہیں ، اُن میں  ہمارے  1300 سے زیادہ جزائر ہیں  ۔ اِن سے ہمیں ساڑھے سات ہزار کلومیٹر طویل سمندری ساحل اور 2.4 مربع ملین کلومیٹر خصوصی اقتصادی زون بھی ملتا ہے ۔

           اِن میں توانائی ، خوراک ، دوا اور بہت سارے دوسرے قدرتی وسائل کے وسیع امکانات موجود ہیں ۔  ہمارے پائیدارمستقبل کی سمت میں سمندری معیشت کو ایک اہم جہت ہونا چاہیئے ۔

          مجھے بتایا گیاہے کہ   ارضی سائنس کی وزارت ایک ڈیپ اوشن مشن  لانچ کرنے کی سمت میں کام کر رہی ہے تاکہ  ذمہ دارانہ  طریقے سے اِن وسائل کا پتہ لگایا جا سکے ،انہیں سمجھا جاسکے اور  ان سے استفادہ کیا  جا سکے ۔   یہ ملک کی خوش حالی اور تحفظ کی سمت میں ایک  انقلابی قدم ثابت ہو گا ۔

ممتا ز مندوبین ،

           ہمارے عمدہ سائنس و ٹیکنا لوجی کے اداروں کو چاہیئے کہ وہ بنیادی تحقیق کے شعبے میں  اپنی صلاحیتو ں کو مزید فروغ دیں ، جو کہ عالمی معیارات کے مطابق ہوں ۔  اِن علوم کو اختراعاتی ، اسٹارٹ اَپس اور صنعت کے شعبے میں منتقل کرنے سے ہمیں شمولیت پر مبنی اور پائیدار ترقی کے حصول میں مدد ملے گی ۔

           ایس سی او پی یو ایس ( اسکوپس ) ڈاٹا بیس سے اشارہ ملتا ہے کہ  سائنسی مطبوعات کے نقطۂ نظر   سے ہندوستان کا اب دنیا میں چھٹامقام ہے ، جو کہ تقریباً 14 فی صد کی شرح سے بڑھ رہی ہے ، جب کہ  عالمی شرح نمو اوسطاً تقریباً چار فی صدہے ۔  مجھے یقین ہے کہ ہمارے سائنس داں بنیادی ریسرچ کے معیارکو بہتر بنانے  ،  اس سے متعلق ٹیکنا لوجی کو منتقل کرنے اور اس کو سماج سے جوڑنے کے چیلنج  پر آگے بھی کھرے اتریں گے ۔

          2030 ء تک ہندوستان سائنس و ٹیکنا لوجی کے اعتبار سے دنیا کے چوٹی کے تین ملکوں میں سے ایک ہو گا اور یہ دنیا میں بہترین صلاحیتوں کی توجہ والے  سب سے زیادہ پر کشش ملکوں میں سےا یک ہو گا ۔  آج ہم نے ، جن پہیوں کو رفتار دی ہے ، وہی ہمیں  اس  ہدف  کے حصول کے لائق بنائیں گے ۔

 ممتاز  مندوبین ،

           یہ بات ضروری ہے کہ سائنس ہمارے عوام کی ابھرتی ہوئی توقعات پر کھری اترے ۔ سماجی ضرورتوں کی تکمیل میں سائنس اور ٹیکنالوجی ، جو مضبوط کردار اداکرتاہے ، ہندوستان اُس کی مکمل طور پر ستائش کرتا ہے ۔  ہمارے لئے شہری ، دیہی  تقسیم کے مسئلے کو  حل کرنا اور شمولیت پر مبنی ترقی  ، اقتصادی ترقی اور روز گار پیدا کرنے  کی سمت میں کام کرنا ضروری ہے ۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے ایک ایسے نئے ڈھانچے کی ضرورت ہے ، جو سبھی متعلقین کے درمیان تال میل قائم کر سکے ۔

           ہما رے  بڑ ے  انقلابی قومی مشنوں کو عملی شکل دینے کی صلاحیتوں میں موثر شراکت داری کی ضرورت ہے ۔  یہ شراکت داری ایسی ہونی چاہیئے ، جو بڑے پیمانے پر شراکت داروں کو ایک دوسرے سے جوڑ سکے ۔   اِن مشنوں کی اثر پذیری تبھی ممکن ہو گی،جب ہم اپنے اذہان میں پہلے سے جڑ جمائے ہوئے خیالات سے چھٹکارا پا سکیں اور  اجتماعیت پر مبنی نقطۂ نظر  اپنا سکیں ، جو کہ ہمارے کثیر جہتی ترقیاتی  چیلنجوں کے تیز تر اور موثر ازالے کے لئے ضروری ہے ۔  ہماری وزارتوں ، ہمارے سائنس دانوں ، تحقیق و ترقی کے اداروں ، صنعتوں ، اسٹارٹ اَپس ، یونیورسٹیوں اور آئی آئی ٹی سبھی کو چاہیئے کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے مل جل کر کام کریں ۔  خاص طورپر بنیادی خرچے اور سماجی ۔ اقتصادی ترقی سے متعلق ہماری وزارتوں کو سائنس و ٹیکنا لوجی کا مناسب استعمال یقینی بنانا ہو گا ۔

           ہمارے تعلیمی ادارے  طویل مدتی تحقیقی کاموں کے لئے غیر مقیم ہندوستانیوں سمیت ملک سے باہر مقیم ممتاز سائنس دانوں کو مدعو کرنے پر غور  کر سکتے ہیں ۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم  غیر ملکی اور این آر آئی ، پی ایچ ڈی کے طلباء کو اپنے پروجیکٹوں میں پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچ میں شامل کریں ۔

          سائنس کے شعبے کو مضبوط کرنے والا ایک دوسرا عامل یہ ہے کہ ہم سائنسی سرگرمیوں کو آسان بنائیں   ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ سائنس سے  بہتر نتائج بر آمد ہوں ، توہمیں اسے محدود کرنے سے بچناہو گا ۔

          ایک ایسا مضبوط سائنس و ٹیکنا لوجی انفرا انسٹرکچر بنانا ، جہاں تک اکیڈمیاں ، اسٹارٹ اَپس ، صنعتی اور آر اینڈ ڈی لیباریٹریز کی رسائی ہو ، حکومت کی ترجیح ہے ۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم رسائی کو آسان بنانے ، رکھ رکھاؤ    ، از کار رفتہ   اور  اپنے سائنسی اداروں کے قیمتی ساز و سامان کے ڈپلیکیشن کے مسئلے کو حل کریں ۔   ہمیں اس بات کاجائزہ لینا چاہیئے کہ سرکاری عوامی شراکت داری پر مبنی   ایسے پیشہ ورانہ طور پر منظم بڑے علاقائی مراکز  قائم کئے جا سکیں ، جو انتہائی قیمتی سائنسی ساز و سامان سے لیس ہوں ۔

          کارپوریٹ   سماجی ذمہ داری کے طرز پر  سائنسی سماجی ذمہ داری کے تصور کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے   کلیدی ادارے سبھی متعلقین بشمول اسکولوں اور کالجوں سے جڑ سکیں ۔  ہمیں تصورات اور وسائل کو مشترک کرنے کا ایک ماحول بنانا چاہیئے ۔  ملک کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے ذہین اور بہترین طلباءکو سائنس کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو جلاء دینے کا موقع ہونا چاہیئے ۔ اس سے ہمارے نوجوانوں کی اعلیٰ معیار کی تربیت یقینی بنے گی اور ان کارابطہ بہترین قسم کے سائنس اور ٹیکنا لوجی سے ہو سکے گا اور وہ مسابقت سے پُر اِس دنیا میں  روز گار کے حصول کے لئے تیار ہوں گے ۔

           اس موقع پر میں قومی لیباریٹریز سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ معقول تربیتی پروگراموں کے فروغ کے لئے اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ جڑیں ۔  اس سے ہمیں اپنے وسیع سائنس اور ٹیکنا لوجی سے متعلق  بنیادی ڈھانچوں کے رکھ رکھاؤ اور اُن کے موثر استعمال میں بھی مددملے گی ۔

           ہر بڑے شہری خطے کی تجربہ گاہوں ، تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کو  ایک مرکز اور اسکوپ ماڈل کے طور پر کام کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہونا چاہیئے ۔  یہ مراکز  اہم بنیادی ڈھانچوں کو مشترک کریں گے ۔ ہمارے قومی سائنس مشنوں کو رفتار دیں گے اور ایسے انجنوں کے طور پر کام کریں گے ، جو کہ  اپلی کیشن کی ایجادات سے متعلق ہوں گے ۔

تحقیقی پس منظر  رکھنے والے کالج اساتذہ کو پڑوس کی یونیورسٹیوں اور آراینڈ ڈی اداروں سے جوڑا جا سکتا ہے ۔  مشہور تعلیمی اداروں کی اسکولوں ، کالجوں اور پالیٹیکنکس تک رسائی سے سائنس اور ٹیکنا لوجی  سے متعلق تعلیمی اداروں اور آپ کے پڑوس کی افرادی قوت کی صلاحیت کو فعال بنایا جا سکتا ہے ۔

 ممتاز مندوبین ،

           تصورات اور اختراعات کی قوت کو اسکولی بچوں تک پہنچانے سے اختراعاتی پیرامڈ کی ہماری بنیادیں وسیع ہوں گی اور ملک کا مستقبل محفوظ ہو گا ۔ اس سمت میں ایک اقدام کے طور پر  سائنس و ٹیکنا لوجی کی وزارت ایک پروگرام کا آغاز کر رہی ہے  ، جس میں   6 سے 10 کلاس تک کے طلباء کو مرکزِ توجہ بنایا گیا ہے ۔

           یہ پروگرام اسکاؤٹ   اور  سرپرستی  کا کام کرے گا  اور پانچ لاکھ اسکولوں کی مقامی ضرورتوں پر مرکوز چوٹی کے دس لاکھ اختراعاتی تصورات  کو پیش کرے گا ۔

          ہمیں لڑکیوں کو مساوی مواقع دینے ہوں گے تاکہ سائنس اور انجینئرنگ کے ایسے شعبوں میں اندراج کراسکیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں ، جن میں اُن کی نمائندگی کم ہے ۔  ہمیں  قوم کی تعمیر میں تربیت یافتہ خواتین سائنس دانوں کی مسلسل حصے داری کو بھی یقینی بنانا ہو گا ۔

ممتاز مندوبین ،

           ہندوستان جیسے وسیع و عریض اور رنگا رنگی کے حامل ملک کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں ٹیکنا لوجی  کا  دائرہ بھی  وسیع ہو  ، جس میں خلاء ، نیو کلیائی اور دفاعی ٹیکنا لوجی سے لے کر دیہی  ترقی  سے متعلق ٹیکنا لوجی  بھی شامل ہے  ، جو صاف ستھرا پانی ، صفائی ستھرائی ، قابل تجدید توانائی ، کمیونٹی ہیلتھ وغیرہ کی سہولتیں     دستیاب کرانے میں مدد گارہوں ۔

          جہاں ہمیں عالمی معیار کی ٹیکنالوجی میں اپنی صلاحیتوں کوبہتربنانے کی ضرورت ہے ، وہیں ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم  مسائل کے ایسے مقامی حل  بھی دریافت کریں ، جو ہمارے منفرد تناظر  کے مطابق ہو ۔

           دیہی علاقوں کے لئے  مناسب مائکرو ۔ انڈسٹری ماڈلس  بھی ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے ، جس میں مقامی  وسائل اور ہنر  مندیوں کا استعمال کیا  گیا ہو  تاکہ مقامی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے اور مقامی سطح پر صنعتیں اور روز گار پیدا ہو سکے ۔

           مثال کے طور پر  ہمیں ایسی ٹیکنا لوجی ڈیولپ کرنی چاہیئے ، جو کہ گاؤوں اور  جزوی شہری علاقوں کے کلسٹروں کے لئے سستی بجلی کی تیاری پر مبنی ہو ۔ ان ٹیکنا لوجیوں کا مقصد  زرعی اور حیاتیاتی فضلات کو تبدیل کرنا ہونا چاہیئے تاکہ اس سے بجلی ، صاف پانی ،  فصل پروسیسنگ اور کولڈ اسٹوریج جیسی مختلف قسم کی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے ۔

معزز مندوبین ،

           منصوبہ بندی ، فیصلہ سازی اور حکمرانی میں سائنس کا کردار کبھی بھی اتنا اہم نہیں رہاہے ، جتنا آج ہے ۔

          ہمیں جیو انفارمیشن سسٹم کو فروغ دینے اور انہیں تعینات کرنے کی ضرورت ہے  تاکہ اپنے شہریوں ، گرام پنچایتوں ، اضلاع اور ریاستوں کے ترقی سے متعلق اہداف کو حاصل کیا جا سکے ۔  سروے آف انڈیا ، اسرو اور الیکٹرانکس  اینڈ انفارمیشن ٹیکنا لوجی کی وزارتوں کی مشترکہ کوشش  بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے ۔

          پائیدار ترقی کے لئے ہمیں مضبوط قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ، جو کہ  الیکٹرانک فضلات ، بایومیڈیکل اورپلاسٹک فضلات اور ٹھوس فضلات نیز آلودہ پانی  کی صفائی سے متعلق   اہم  شعبوں میں ویسٹ ٹو ویلتھ مینجمنٹ پر مرکوز  ہو  ۔

           ہم کلین کاربن ٹیکنا لوجی  ،سستی بجلی  کے فروغ سے متعلق ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کے زیادہ اور بہتر استعمال سے متعلق آر اینڈ ڈی کو فروغ دے رہے ہیں ۔

           ماحولیات اور آب وہوا  ہماری ترجیحات میں شامل ہیں تاکہ پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جا سکے ۔  ہماری مضبوط سائنسی برادری ، ہمارے منفرد قسم کے چیلنجوں کا موثر طریقے پر ازالہ بھی کر سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر ، کیا ہم فصلوں کے جل جانے کے مسئلے کا  کسانوں پر مرکوز کوئی حل نکال سکتےہیں ؟  کیا ہم اخراج میں کمی لانے کے لئے اینٹ بھٹے کی چمنیوں کی ری ڈیزائننگ کر سکتے ہیں ؟  جنوری 2016 ء میں شروع کئے گئے اسٹارٹ اَپ انڈیا پروگرام میں سائنس و ٹیکنا لوجی ایک کلیدی عنصر ہے ۔ دو دیگر مضبوط اقدامات  اٹل انوویشن مشن اور این آئی ڈی ایچ آئی ( ندھی  ) یعنی نیشنل انیشئیٹیو فار ڈیولپمنٹ اینڈ ہارنیسنگ انوویشنس ہیں ۔  ان پروگراموں میں خاص طور پر اختراعات پر مبنی کمپنی ماحولیاتی نظام کی تعمیر پر زور دیا گیاہے ۔ مزید براں ، اختراعاتی ماحولیاتی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے سی آئی آئی ، ایف آئی سی سی آئی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی نجی کمپنیوں کے ساتھ سرکاری عوامی شراکت داری کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ۔

معزز مندوبین ،

            ہمارے سائنس دانوں نے ملک کے اسٹریٹیجک ویژن میں بہت مضبوط کردار ادا کیا ہے ۔

          ہندوستان کے خلائی پروگرام  نے  ہندوستان کو دنیا کے چوٹی کے خلائی پروگرام والے ملکوں کی صف میں شامل کر  دیا ہے ۔ ہم نے خلائی ٹیکنا لوجی کے شعبے میں اعلیٰ سطح کی خود کفالتی حاصل کرلی ہے ، جس میں لانچنگ وہیکل کا فروغ ، پے لوڈ اور سیٹلائٹ  کی تیاری،  کور کمپٹینس اور کیپسٹی کے فروغ اور تعمیر سے متعلق ا یپلی کیشن شامل ہیں ۔

           ہم ہندوستان کو عالمی سطح پر مسابقت کے لائق بنانے کے لئے  اسٹریٹیجک بین الاقوامی شراکت داریوں   اور تعاون  کی سمت میں قدم بڑھارہے ہیں ، جو کہ باہمی مفاد ، برابری اور باہمی لین دین کے اصولوں پر مبنی ہے ۔

           ہم اپنے پڑوسی ملکوں اوربرکس جیسے کثیر فریقی پلیٹ فارموں کے ساتھ مضبوط رشتے قائم کرنے پر بھی خصوصی زور دے رہےہیں ۔گذشتہ برس ہم نے اتراکھنڈ  کے دیو اَستھل میں 3.6 میٹر آپٹیکل دوربین کو  ایکٹیویٹ کیا ، جو کہ ہندوستان اور بیلجیم کے اشتراک سے تیارکیا گیا ہے ۔ حال ہی میں   ہم نے امریکہ کے ساتھ ایل آئی جی او پروجیکٹ کو منظوری دی ہے  تاکہ ہندوستان میں جدید قسم کا  ڈٹیکٹر سسٹم تعمیر کیا جا سکے ۔

  ممتاز مندوبین ،

           آخر میں ، میں اِس بات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت  ہمارے سائنس دانوں اور سائنسی اداروں کو بہترین قسم کا تعاون دستیاب کرانے کے تئیں پابندِ عہد ہے ۔

          مجھے یقین ہے کہ ہمارے سائنس داں  بنیادی سائنس   و ٹیکنا لوجی فروغ سے لے کر ایجادات  تک کے معیارکو بہتر بنانے کے لئے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں گے ۔

           آئیے ہم عہدکریں کہ ہم  سائنس و ٹیکنا لوجی کو اپنے سماج کے سب سے کمزور اور سب سے غریب افراد کی شمولیت پر مبنی ترقی اور بہتری کا ایک مضبوط اوزار  بنائیں گے ۔

          آئیے ہم عہدکریں کہ ہم مل جل کر ہندوستان کو ایک مبنی بر انصاف  و  مساوات اور  ایک خوشحال ملک بنائیں گے ۔

          جے ہند ۔

Related posts

8 comments

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More