27 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

‘‘بین الاقوامی سلامتی سے متعلق ساتویں ماسکو کانفرنس’’سے وزیر دفاع محترمہ نرملا سیتا رمن کا خطاب

Urdu News

نئی دہلی: الاقوامی سلامتی سے متعلق ساتویں ماسکو کانفرنس‘‘ میں شرکت کرنے کےلئے 3 اپریل تا 5 اپریل  2018 تک ’’بین  روس کے تین روزہ دورے پر گئیں، وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے 4 اپریل کو روس کی راجدھانی ماسکو میں ‘‘پولی سنٹرک ورلڈ میں عالمی سکیورٹی’’ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس کے دوران دوسرےمکمل اجلاس سے خطاب کیا۔ اس موضوع میں موجودہ عالمی دفاع، بین الاقوامی سلامتی اور اسٹرٹیجک منظرنامے کا احاطہ کیا گیا تھا۔وزیر دفاع محترمہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ ہندوستان کے لئے روس کے ساتھ اشتراک و تعاون ہمارے مشترکہ یوروپی ایشیائی پڑوسی ملکوں میں  توازن، استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ بالخصوص دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ کرنے کے لئے یہ بیحد اہم ہے۔ محترمہ سیتا رمن نے خطے میں دہشت گردی، افغانستان میں مستقل عدم استحکام کی صورتحال، ایشا بحرالکاہل خطے میں سلامتی کے بڑھتے خطرات کے علاوہ سلامتی کے غیر روایتی چیلنجوں مثلاً موسم اور آب و ہوا کی تبدیلی، خوراک اور توانائی کا عدم تحفظ، مالی عدم استحکام اور ممالک کے درمیان اشتراک و تعاون کی ضرورت سے متعلق بھی گفتگو کی تاکہ ان مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔

بین الاقوامی سلامتی سے متعلق ساتویں ماسکو کانفرنس کے دوران ‘‘پولی سنٹرک ورلڈ میں عالمی سلامتی’’ کے موضوع پر منعقدہ دوسرے مکمل اجلاس سے وزیر دفاع محترمہ نرملا  سیتا رمن کے خطاب کا مکمل متن درج ذیل ہے:

عالی جناب وزرائے دفاع اور دیگر معززین!

سرکردہ مندوبین!

بین الاقوامی سلامتی سے متعلق ساتویں ماسکو کانفرنس میں خطاب کرنا میرے لئے یقیناً باعث مسرت ہے۔ میں روس کے وزیر دفاع جنرل سرجی شوئیگو کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے مجھے مدعو کیا۔ اسی کے ساتھ میں اس زبردست انتظام و انصرام کے لئے کانفرنس کے منتظمین کی تعریف کرتی ہوں۔ کانفرنس کے پروگراموں میں معاصر عہد کے بیشتر موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اس اجلاس کا موضوع موجودہ عالمی دفاعی، سلامتی اور اسٹرٹیجک منظرناموں کے کلیدی پہلوؤں کا حل پیش کرنا ہے۔ یہ بات نہایت موزوں ہے کہ ہم ماسکو میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔ روس نے عالمی اسٹرٹیجک  اور دفاعی معاملات میں اپنے کردار اور اثرات کو دوبارہ  قائم کردیا ہے۔

روس نے نئے ملکوں کے ساتھ شراکت داری بھی قائم کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے پرانے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ بھی تعلقات کو برقرار رکھا ہے۔ اسی کےساتھ روس اور بعض ممالک کے درمیان تعلقات شدید اختلافات کے ساتھ ہیں۔ اس سے ایک پیچیدہ صورتحال سامنے آئی ہے۔ بہر صورت آج درپیش کلیدی چیلنجوں کو حل کرنے کے لئے روس کی سرگرم شراکت داری کی ضرورت ہے۔

اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں روس کے وزیر دفاع شوئیگو اور  روس کے  دیگر رہنماؤں کے ذریعہ دیئے گئے اس بیان کا  میں خیر مقدم کرتی ہوں جس میں انہوں نے اختلافات کو دور کرنے کے لئے تعمیری سوچ اور طریقہ کار کے علاوہ گفت و شنید کے لئے تمام ممکنہ مقامات ڈھونڈنے کی روس کی خواہش اور ارادے کا ذکر کیا۔

ہندوستان میں ہمارے لئے روس نہایت پرانا اور قابل اعتماد دوست ہے جس کے ساتھ ہمارے خصوصی تعلقات اور اسٹرٹیجک  پارٹنر شپ  قائم ہے۔ ہندوستان اور روس نے حال ہی میں اپنے سفارتی تعلقات کے 70 برس مکمل ہونے کی سالگرہ کا جشن منانے کے لئے متعدد یادگاری تقاریب کا انعقاد کیا۔ ان سات دہائیوں کے دوران  ہندوستان اور روس نے متعدد شعبوں بالخصوص دفاع میں آپسی اعتماد اور بھروسے پر مبنی دوستانہ روابط قائم  کئے ہیں۔ اس لئے ہم روس کی بڑھتی ہوئی عالمی شراکت داری کا خیرمقدم کرتے ہیں اور روس کے ساتھ بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر صلاح و مشورہ اور اشتراک و تعاون کو جاری رکھنے کے شدید خواہشمند ہیں۔ ہندوستان کے لئے روس کے ساتھ اشتراک و تعاون ہمارے مشترکہ یوروپی ایشائی پڑوسی ممالک میں استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ بالخصوص دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے یہ نہایت ہی اہم ہے۔ علاوہ ازیں ہم خطے میں وسیع پیمانے پر آپسی مفادات کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے لئے روس کے ساتھ اشتراک و تعاون پر مبنی تعلقات کے متمنی ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو آج پیچیدہ اور سخت حالات درپیش ہیں۔ ان کو حل کرنا کسی ایک ملک یا ملکوں کے گروپ کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ آج ہم کو جو حالات درپیش ہیں، ان کو حل کرنے کے لئے وسیع  پیمانے مشاورتی  فریم ورک کے اندر ایک جامع طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میں آج میں اس اجلاس کے موضوع ‘‘پالی سینٹرک ورلڈ  میں عالمی سکیورٹی’’ سے متعلق  اظہار خیال کرتی ہوں۔

معزز مندوبین

موجودہ بین الاقوامی تعلقات کا ایک کلیدی پہلو دنیا کے بڑے طاقتور ملکوں کے درمیان رشتوں کی غیر یقینی اور ناقابل قیاس صورتحال ہے۔ ایسے حالات کی توقع نہیں تھی اور یہ بیحد تشویش کا بھی معاملہ ہے۔روس اور مغربی ملکوں کے درمیان تعلقات کی موجودہ تلخی اسی رجحان کو منعکس کرتی ہے۔ ہم  روس اور مغربی ملکوں کے  درمیان تعلقات کے اس عدم استحکام اور غیر متوازن حالات  کو اس صورت میں بدلنے کے خواہاں ہیں  کہ جس میں تمام بڑے طاقتور ممالک کے علاوہ دیگر وسیع اثر رکھنے والے ممالک  متعدد علاقائی مسائل اور تنازعات کو حل کریں۔

بنیادی سطح پر اس طور سے بین الاقوامی نظام بالخصوص ایشیا کو اوپر اٹھانے میں، اس  نظام میں  پھیلاؤ کی ضرورت کا احساس  ہوتا ہے۔ یہ مثبت قدم ہے جس میں ہندوستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ آپسی مفادات کو بڑھانے کے تئیں خصوصی اور ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے طریقہ کار سے بچنا چاہیے جس میں وقتی فائدے کا لحاظ رہتا ہے جبکہ دائمی فائدے کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اقتصادی سطح پر ہمیں ملکی مصنوعات کے تحفظ کے اصولوں کے خلاف کام کرنا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اقتصادی ترقی کے تمام فوائد دنیا میں اقتصادی طور پرمحروم  تمام علاقوں تک پہنچیں۔ ہم بعض خطوں کو خوشحال بناکر اور بعض خطوں کو محروم رکھ کر توازن اور استحکام کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس سلسلے میں ایشیا کا مرکزی رول رہے گا۔ مستقبل قریب میں ایشیائی معیشتیں عالمی ترقی کا انجن رہیں گی لیکن مغربی ایشیا میں پرتشدد  جھڑپ، افغانستان میں مستقل عدم استحکام  کی صورتحال اور ایشیا بحرالکاہل خطے میں سلامتی کو درپیش خطرات پچھلی دہائیوں میں ایشیا کی جو اقتصادی ترقی ہوئی ہے اس کی رفتار کو کم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ تشدد پسند، بنیاد پرست اور دہشت گرد گروپوں پر فوری طور پر لگام لگانے کی ضرورت ہے، تشدد پر مبنی سرگرمیوں کے سبب نئے  نئے  علیحدگی پسند گروپ پیدا ہورہے ہیں۔  اس کے سبب سرحدوں کے اندر اور سرحدوں کے پار توازن برقرار رکھنے کا طویل مدتی چیلنج ہے۔ افغانستان کی صورتحال  تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، دہشت گردی کو بالکل برداشت نہ کرنے کی پالیسی اختیار کرنا  بیحد ضروری ہے۔

ہندوستان ایک محفوظ، مستحکم اور پرامن افغانستان بنانے کے تئیں پوری امداد فراہم کرنے کے تئیں پوری طرح عہد بند  ہے۔ ہندوستان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بین الاقوامی برادری مسلسل کوششوں کے سبب  افغانستان میں امن کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان، افغان حکومت اور عوام کو امداد فراہم کرنا جاری رکھے گا۔

دہشت گردی بدستور بین الاقوامی سلامتی کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔ دہشت گرد گروپ اور افراد نئے نئے خطرناک طریقوں سے اپنے کو مستحکم کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر  دہشت گردی پر جامع طریقے سے قابو پانے کی ضرورت ہے۔مغربی ایشیا میں دہشت گرد گروپوں  کو شکست اور ہزیمت کا سامنا  کرنا پڑا ہے۔ عالمی سطح پر وسیع اتحاد کے ذریعہ اس عمل کو ممکن بنایا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دیگر جگہوں کے لئے یہ مشعل راہ بن سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وسیع پیمانے پر اتحاد کی ضرورت ہے۔

بحری حدود کا تعین بھی ایک دیگر بین الاقوامی  جھگڑے کا سبب ہے۔ بحری حدود کا معاملہ کافی پیچیدہ بھی ہے۔ ہمیں بحری حدود اور سمندری تنازع کو موثر انداز میں اور  پرامن طریقے سے حل کرنے کی  ضرورت ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ایشیا بحرالکاہل خطہ عالمی معیشت کا سب سے متحرک انجن بن گیا ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ایشیا بحرالکاہل خطہ کو کسی بھی طرح سے کوئی زک نہ پہنچے۔ سمندر میں  جہاز رانی اور اسی طرح اپنی  اپنی فضائی حدود سے  پرواز کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ کوریائی جزائر میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کو بھی  آگے لیجانے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح عالمی سطح پر بڑھتے سکیورٹی کے غیر روایتی چیلنجز مثلاً آب و ہوا کی تبدیلی، غذا اور توانائی کا عدم تحفظ ، مالیاتی عدم استحکام اور ٹیکنالوجی کے مضر اثرات کو حل کرنے کے لئے بھی امدادی طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ کثیر جہتی دنیا میں ہمیں اشتراک و تعاون کو وسیع تر کرنے اور اختلافات کو کم سے کمتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں گفت و شنید اور اشتراک و تعاون کے لئے جامع فریم ورک برابر تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس میں تمام شراکت داروں کی شمولیت ہو، خواہ وہ دوطرفہ، علاقائی یا کثیر جہتی ہوں۔

خواتین و حضرات!

ہندوستان علاقائی اور بین الاقوامی امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں اپنا رول حتی المقدور ادا کررہا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے سبب ہندوستان کے کروڑوں باشندے غریبی کی سطح سے اوپر اٹھے ہیں۔ حکومت اس سمت میں شفافیت، شمولیت اور ترقی کو فروغ دینے  کے علاوہ جدت طرازی  پیدا کرنے اور ڈیجیٹل اقتصادیات کے لئے امکامات ڈھونڈنے کی خواہشمند ہے۔علاقائی رابطے پر ہماری تجدید شدہ کوشش کے ساتھ ساتھ ایکٹ ایسٹ پالیسی پر ہمارا خصوصی زور ہے۔ علاوہ ازیں پڑوسی ملکوں اور ایشیا، خلیجی اور افریقی ملکوں کے علاوہ بحرہند کے خطے کے ممالک تک شراکت داری کو توسیع دینے کے ہم خواہاں ہیں۔

یوروپی ایشیائی خطے کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات ہندوستان کی کلیدی ترجیح ہے۔ روس کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کے بعد ہم وسطی ایشیا کے ملکوں کےساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کررہے ہیں۔ اسی طرح ہم ہندو چین تعلقات میں پیچیدگی کی بخوبی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ہندوستان آسیان ملکوں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ  بھی مل کر کام کررہا ہے تاکہ علاقائی آرکیٹیکچر کی تعمیر ہوسکے جو کھلا ہوا  اور متوازن ہو اور تمام ملکوں کی خود مختاری  اور سلامتی یقینی بنائے۔

دفاعی  اور سلامتی اشتراک و تعاون ہندوستان کی علاقائی اور عالمی شراکت داری کے لئے اہم پہلو ہے۔ ہم آپسی فائدے کے لئے عسکری تعلقات، بہترین تجربات کے تبادلہ کے علاوہ تربیت کے ذریعہ صلاحیت سازی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اسی طرح دفاعی صنعت اور تحقیق و ترقی میں ایک دوسرے کے ساتھ  اشتراک و تعاون کررہے ہیں۔

ہماری کوششیں جاری ہیں۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ ہندوستان کی شراکت داری سے  دنیا میں زیادہ مستحکم اور پرامن ماحول قائم ہوگا، وسیع پیمانے پر اقتصادی  ترقی ہوگی اور ہندوستانی کے کردار میں بھی یقیناً اضافہ ہوگا۔ہندوستان، روس اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ  آپسی مفادات کے تمام پہلوؤں پر ملکر کام کرے گا۔ مستقبل  میں علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو مستحکم کرنے میں ہندوستان اور روس کے درمیان موثر اشتراک  و تعاون ایک اہم  اور کلیدی عنصر ہوگا۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More