23 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگرام ’من کی بات‘ میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

نئیدہلی۔اپریل، 2018؛  میرے پیارے ہم وطنوں! نمسکار حال ہی میں 4 اپریل سے 15 اپریل تک آسٹریلیا میں 21ویں دولت مشترکہ کھیل منعقد ہوا۔ ہندوستان سمیت دنیا کے 71 ممالک نے اس میں حصہ لیا۔ جب اتنا بڑا انعقاد ہو، دنیا بھر سے آئے ہزاروں کھلاڑی اس میں حصہ لے رہے ہوں، تصور کر سکتے  ہیں کیسا ماحول ہوگا؟ جوش، جذبہ، امنگ ، امیدیں، خواہشات، کچھ کر دکھانے کا جذبہ – جب اس طرح کا ماحول ہو تو کون اس سے اپنے آپ کو الگ رکھ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب  دنیا بھر میں لوگ روز سوچتے تھے کہ آج کون سے کھلاڑی مظاہرہ کریں گے۔ ہندوستان کا مظاہرہ کیسا رہے گا، ہم کتنے تمغے حاصل کریں گے اور بہت فطری بھی تھا۔ ہمارے کھلاڑی نے بھی ہم وطنوں کی امیدوں پر کھرا اترتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ایک کے بعد ایک تمغہ جیتتے ہی چلے گئے۔ چاہے نشانہ بازی ہو، کشتی ، وزن اٹھانا ہو، ٹیبل ٹینس ہو یا بیڈمنٹن،  ہندوستان نے ریکارڈ مظاہرہ کیا۔ 26 سونے کے، 20 چاندی کے، 20 کانسے  کے – ہندوستان نے تقریباً کل 66 تمغے جیتے۔ ہر ہندوستانی کو یہ کامیابی فخر کا احساس دلاتا ہے۔ تمغہ جیتنا کھلاڑی کے لیے فخر اور خوشی کی بات ہوتی ہی ہے۔ یہ پورے ملک کے لیے ، سبھی ہم وطنوں کے لیے بھی بہت ہی قابل فخر  تہوار ہوتا ہے۔ میچ ختم ہونے کے بعد جب تمغہ کے ساتھ ہندوستان کی رہنمائی کرتے ہوئے اتھلیٹ وہاں تمغہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ترنگا جھنڈا لپیٹے ہوتے ہیں، قومی ترانہ کا نغمہ بجتا ہے اور وہ جو احساس ہوتا ہے، سکون اور خوشی کا، فخر کا، عزت کا اپنے آپ میں کچھ خاص ہوتا ہے، خاص ہوتا ہے۔ تن من کو جھنجھوڑنے والا ہوتا ہے۔ جوش اور امنگ سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہم سب ایک جذبے سے بھر جاتے ہیں۔ شاید اس احساسات کو ظاہر کرنے کے لیے میرے پاس جملہ بھی کم پڑ جائیں گے۔ لیکن میں نے ان کھلاڑیوں سے جو سنا، میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ مجھے تو فخر ہوتا ہے، آپ کو بھی فخر ہوگا۔

میں مانک منیکا بترا جو دولت مشترکہ میں چار تمغہ لائی ہوں۔ دو سونے، ایک چاندی ، ایک کانسے کا۔ ’من کی بات‘ پروگرام سننے والوں کو میں بتانا چاہتی ہوں کہ میں بہت خوش ہوں کیونکہ پہلی بار ہندوستان میں ٹیبل ٹینس اتنا مقبول ہو رہا ہے۔ ہاں میں نے اپنا بہترین ٹیبل ٹینس کھیلا ہوگا۔ پوری زندگی کا بہترین ٹیبل ٹینس کھیلا ہوگا۔ جو اس سے پہلے میں نے پریکٹس کیا ہے اس کے بارے میں میں بتاؤنگی کہ میں نے بہت، اپنے کوچ سندیپ سر کے ساتھ پریکٹس کی ہے۔ دولت مشترکہ سے پہلے جو ہمارے کیمپس  تھے پرتگال میں، ہمیں ٹورنامنٹس میں بھیجا گورنمنٹ نے اور میں گورنمنٹ کو تھینک یو کہتی ہوں کیونکہ انہوں نے اتنے سارے انٹرنیشنل ایکسپوزر دیئے ہمیں۔ نوجوان نسل کو بس ایک پیغام دوں گی کبھی گیو اپ مت کرو۔ اپنے آپ کو ایکسپلور کرو۔

میں پی گروراج ’من کی بات‘ پروگرام سننے والوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں۔ 2018 کامن ویلتھ گیمس میرا یہ میڈل جیتنے کا خواب تھا۔ میں پہلی بار پہلے کامن ویلتھ گیمس میں پہلے ہندوستان کو تمغہ دے کر میں بہت خوش ہوں۔ یہ تمغہ میرے گاؤں کُنداپور اور میری ریاست کرناٹک اور میرے ملک کو یہ وقف کرتا ہوں۔

میرابائی چانو، میں نے 21ویں کامن ویلتھ گیمس میں ہندوستان کے لیے پہلا گولڈ میڈل جیتا تھا۔ تو اسی میں مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میرا ایک خواب تھا ہندوستان کے لیے اور منی پور کے لیے ایک اچھا کھلاڑی بننے کے لیے، تو میں نے ساری فلمیوں میں دیکھی ہے۔ جیسے کہ منی پور کی میری دی دی اور وہ سب کچھ دیکھنے کے بعد میں نے بھی ایسا سوچا تھا کہ ہندوستان کے لیے منی پور کے لیے اچھا کھلاڑی بننا چاہتی ہوں۔ یہ میری کامیاب ہونے کی وجہ سے میرا  ڈسی پلین بھی ہے اور اخلاقیات ، وقف اور سخت محنت بھی ہے۔

دولت مشترکہ کھیلوں میں ہندوستان کا مظاہرہ بہترین تو تھا ہی، ساتھ ہی یہ خاص بھی تھا۔ خاص اس لیے کہ اس بار کئی چیزیں تھیں، جو پہلی بار ہوئی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس بار کامن ویلتھ گیمس میں ہندوستان کی جانب سے جتنے کھلاڑی تھے، سب کے سب تمغہ جیت کے آئے ہیں۔ منیکا بترا نے جتنے بھی ایوینٹ بھی مکمل کیا – سبھی میں میڈل جیتا۔ وہ پہلی ہندوستانی خواتین ہے، جنہوں نے انفرادی ٹیبل ٹینس میں ہندوستان کو گولڈ دلایا ہے۔ ہندوستان کو سب سے زیادہ میڈل نشانے بازی میں ملے۔ 15 سالہ ہندوستانی نشانہ باز انیش بھانوالا دولت مشترکہ کھیلوں میں ہندوستان کی جانب سے گولڈ میڈل جیتنے والے سب سے نوجوان کھلاڑی بنے۔ سچن چودھری دولت مشترکہ گیمس میں میڈل جیتنے کے لیے صرف ہندوستان پیرا پاور لیفٹر ہیں۔ اس بار کے کھیل خاص طور پر اس لیے بھی تھے کہ زیادہ میڈل حاصل کرنے والی خواتین کھلاڑی تھیں۔ اسکوائش  ہو، مکے بازی ہو، وزن اٹھانا ہو، نشانہ بازی ہو – خواتین کھلاڑیوں نے کمال کر دکھایا۔ بیڈمنٹن میں تو فائنل مقابلے ہندوستان کی ہی دو کھلاڑیوں سائنہ نہوال اور پی وی سندھو کے درمیان ہوا۔ سبھی پرجوش تھے کہ مقابلہ تو ہے لیکن دونوں میڈل ہندوستان کو ہی ملیں گے – پوری دنیا نے دیکھا۔ مجھے بھی دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑی، ملک کے مختلف حصوں سے ، چھوٹے چھوٹے شہروں سے آئے ہیں۔ کئی بندشیں، پریشانیوں سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں اور آج انہوں نے جو مقام حاصل کیا ہے، وہ جن ہدف تک پہنچے ہیں، ان کی اس زندگی کے سفر میں چاہے ان کے والدین ہوں، ان کے سرپرست ہوں، کوچ ہوں، معاون اسٹاف ہو، اسکول ہو، اسکول کے اساتذہ ہوں، اسکول کا ماحول ہو – سبھی کا تعاون ہے۔ ان کے دوستوں کا بھی تعاون ہے، جنہوں نے ہر حالات میں ان کا حوصلہ بلند رکھا۔ میں ان کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ ان سب کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

گزشتہ مہینے ’من کی بات‘ کے دوران میں نے ہم وطنوں سے خاص کر اپنے نوجوانوں سے فٹ انڈیا کی گزارش کی تھی اور میں نے ہر کسی کو دعوت دی تھی  آیئے فٹ انڈیا سے جڑئے، فٹ انڈیا کو لیڈ کیجیے۔ اور مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ لوگ بڑے ہی جوش کے ساتھ اس کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے اس کے لیے اپنا تعاون دکھاتے ہوئے مجھے لکھا ہے، خط بھیجیے ہیں، سوشل میڈیا پر اپنا فٹ نیس منتر – فٹ انڈیا اسٹوریز بھی شیئر کیے ہیں۔

ایک شخص جناب ششی کانت بھونسلے نے سویمنگ پول کی اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے –

’’میرا ہتھیار میرا جسم ہے، میرا عنصر پانی ہے، میری دنیا سویمنگ ہے۔‘‘

روما دیو ناتھ لکھتی ہیں – ’’مارننگ والک سے میں خود کو خوش اور تندرست محسوس کرتی ہوں۔ اور وہ آگے کہتی ہیں – ’’میرے لیے – فٹنس مسکرانے سے آتی ہے اور ہمیں مسکرانا چاہیے، جب ہم خوش ہوتے ہیں۔‘‘

دیو ناتھ جی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خوشی ہی فٹنس ہے۔

دھول پرجاپتی نے ٹریکنگ کی اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے – ’میرے لیے ٹریولنگ اور ٹریکنگ ہی فٹ انڈیا ہے۔‘ یہ دیکھ کر کے کافی اچھا لگتا ہے کہ کئی معروف شخصیات بھی بڑے دلچسپ طریقے سے فٹ انڈیا کے لیے ہمارے نوجوانوں کو ترغیب دے رہے ہیں۔ فلمی اداکار اکشے کمار نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو شیئر کیا ہے۔ میں نے بھی اسے دیکھا ہے اور آپ سب بھی ضرور دیکھیں گے، اس میں وہ لکڑی کے تختے کے ساتھ ورزش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ ورزش پیٹھ اور پیٹ کے پٹھوں کے لیے کافی فائدہ مند ہے۔ ایک اور ان کا ویڈیو بھی مشہور ہو گیا ہے، جس میں وہ لوگوں کے والی بال پر ہاتھ آزما رہے ہیں۔ بہت سے اور نوجوانوں نے بھی فٹ انڈیا ایفرٹس کے ساتھ جڑ کر اپنے تجربات کو شیئر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی تحریک ہم سبھی کے لیے ، پوری دنیا کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اور ایک بات تو میں ضرور کہوں گا – بغیر خرچ کا فٹ انڈیا کی تحریک کا نام ہے ’یوگ‘ ۔ فٹ انڈیا مہم میں یوگ کی خاص اہمیت ہے اور آپ بھی تیاری میں لگ گئے ہوں گے۔ 21 جون ’بین الاقوامی یوگ کا دن‘ کی خصوصیت تو اب پوری دنیا نے قبول کیا ہے۔ آ پ بھی ابھی سے تیاری کیجیے۔ اکیلے نہیں – آپ کا شہر، آپ کا گاؤں، آپ کا خطہ، آپ کے اسکول ، آپ کے کالج ہر کوئی کسی بھی عمر کا – مرد ہو، خواتین ہو یوگ سے جڑنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ پورے جسم کے فروغ کے لیے، ذہنی  ترقی کے لیے، ذہنی یکسانیت کے لیے یوگ کا ایک استعمال ہے، اب ہندوستان میں اور دنیا میں بتانا نہیں پڑتا ہے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک اینیمیٹڈ ویڈیو جس میں مجھے دکھایا گیا ہے ، وہ ان دنوں کافی مشہور ہو رہا ہے۔ انیمیشن والوں کو میں اس لیے مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے بہت باریکی سے جو کام ایک استاد کر سکتا ہے وہ انیمیشن سے ہو رہا ہے۔ آپ کو بھی ضرور اس کا فائدہ ملے گا۔

میرے نوجوان ساتھیوں۔ آپ تو اب امتحان، امتحان، امتحان کے چکر سے نکل  کر اب چھٹیوں کی فکر میں لگے ہوں گے۔ چھٹیاں کیسے منانا ہے ، کہاں جانا ہے سوچتے ہوں گے۔ میں آج آپ کو ایک نئے کام کے لیے مدعو کرنا چاہتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے نوجوان ان دنوں کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کے لیے بھی اپنا وقت بتاتے ہیں۔ سمر انٹرن شپ کا چلن بڑھتا چلا جا رہا ہے اور نوجوان بھی اس کی تلاش کرتے رہتے ہیں، اور ویسے بھی انٹرن شپ اپنے آپ میں ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ چار دیواری کے باہر کاغذ قلم سے ، کمپیوٹر سے دور زندگی کو نئے طریقے سے جینے کا تجربہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہندوستانی حکومت کی تین وزارت اسپورٹس ، ایچ آر ڈی ، پینے کے پانی کا محکمہ – حکومت کے تین چار وزارت نے مل کر کے ایک سووچھ بھارت سمر انٹرن شپ 2018 لانچ کیا ہے۔ کالج کے طلبا – طالبات، این سی سی کے نوجوان، این ایس ایس کے نوجوان، نہرو یووا مرکز کے نوجوان، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، سماج کے لیے ملک کے لیے اور کچھ سیکھنا چاہتے ہیں، سماج کو تبدیل کرنے میں، جو اپنے آپ کو جوڑنا چاہتے ہیں، ایک مثبت توانائی کو لے کر  سماج میں کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا ارادہ ہے، ان سب کے لیے موقع ہے اور اس سے سووچھتا کو بھی قوت ملے گی اور جب ہم 2 اکتوبر سے مہاتما گاندھی کی 150ویں یوم پیدائش منائیں گے، اس کے پہلے ہمیں کچھ کرنے کا سکون ملے گا اور میں یہ بھی بتا دوں کہ جو اچھا سے اچھا انٹرنس ہوگا، جو کالج میں اچھا کام کیا ہوگا، یونیورسٹیز میں کیا ہوگا – ایسے سب کو قومی سطح پر انعام دیا جائے گا۔ اس انٹرن شپ کو کامیابی کے ساتھ پورا کرنے والے سبھی انٹرن کو سووچھ بھارت مشن کے ذریعے ایک سرٹیفیکٹ دیا جائے گا۔ اتنا ہی نہیں، جو انٹرن اسے اچھے سے پورا کریں گے، یو جی سی انہیں دو کریڈٹ پوائنٹ بھی دیگا۔ میں طالبعلموں کو، طالبات کو ، نوجوانوں کو پھر ایک بات کے لیے مدعو کرتا ہوں انٹرن شپ کے لیے آپ اس کا فائدہ اٹھائیں۔ آپ مائی گوو پر جاکر سوچھ بھارت سمر انٹرنشپ کے لیے رجسٹر کر سکتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان سوچھتا کے اس تحریک کو اور آگے بڑھائیں گے۔ آپ کی کوششوں کے بارے میں جاننے کے لیے میں بھی منتظر ہوں۔ آپ اپنی جانکاریاں ضرور بھیجیں، اسٹوری بھیجیے،  فوٹو بھیجیے، ویڈیو بھیجیے، آیئے! ایک نئے تجربے کے لیے ان چھٹیوں کو سیکھنے کا موقع بنا دیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! جب بھی موقع ملتا ہے تو دور درشن پر گُڈ نیوز انڈیا اس پروگرام کو ضرور دیکھتا ہوں اور میں تو ہم وطنوں سے بھی گزرش کروں گا کہ گُڈ نیوز انڈیا بھی ہمیں دیکھنا چاہیے اور وہاں پر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کے کس کس کونے میں کتنے کتنے لوگ کس کس طرح سے اچھا کام کر رہے ہیں، اچھی باتیں ہو رہی ہیں۔

میں نے گزشتہ دنوں دیکھا دلی کے ایسے نوجوانوں کی کہانی دکھا رہے تھے جو غریب بچوں کی تعلیم کے لیے بغیر کسی فائدے کے یکجا ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے گروپ نے دلی میں اسٹریٹ چائلڈ کو اور جھگیوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم کے لیے ایک بڑی مہم چھیڑ دی ہے۔ شروعات میں تو انہوں نے سڑکوں پر بھیک مانگنے والے یا چھوٹے موٹے کام کرنے والے بچوں کی حالت نے ان کو ایسا جھنجوڑ دیا کہ وہ اس کریٹیو کام کے اندر کھپ گئے ۔ دلی کی گیتا کالونی کے پاس جھگیوں میں 15 بچوں سے شروع ہوئی یہ مہم آج راجدھانی کے 12 جگہوں پر 2 ہزار بچوں سے جڑ چکی ہے، اس مہم سے جڑے نوجوان، استاد مصروف شیڈول سے 2 گھنٹے کا فری وقت نکال کر سماجی تبدیلی کی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

بھائیوں بہنو، اسی طرح سے اترا کھنڈ کے ہمالائی علاقے کے کچھ کسان ملک بھر کے کسانوں کے لیے ترغیب دینے والے بن گئے ہیں۔ انہوں نے مشترکہ کوششوں سے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے علاقے کی بھی تقدیر بدل ڈالی۔ اتراکھنڈ کے باگیشور میں خاص طور پر منڈوا، چولائی، مکّا یا جو کی فصل ہوتی ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کو اس کی صحیح قیمت نہیں مل پانی تھی  لیکن کپکوٹ تحصیل کے کسانوں نے ان فصلوں کو سیدھے بازار میں فروخت کر نقصان سہنے کے بجائے انہوں نے قیمت میں اضافہ کا راستہ اپنایا، ویلیو ایڈیشن کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے کیا کیا – انہوں نے کھیت کی پیداوار میں سے بسکٹ بنانا شروع کیا اور بسکٹ بیچنا شروع کیا ۔ اس علاقے میں تو یہ بڑی پکی بات ہے کہ آئرن ریچ ہے اور آئرن رچ، لوہے کے اجزا سے لیس یہ بسکٹ حاملہ عورتوں کے لیے تو ایک طرح سے بہت مفید ہوتے ہیں۔ ان کسانوں نے منار گاؤں میں ایک کوآپریٹیو ادارہ بنایا  ہے اور وہاں بسکٹ بنانے کی فیکٹری کھول لی ہے۔ کسانوں کی ہمت دیکھ کر انتظامیہ نے بھی اسے قومی اجیویکا مشن سے جوڑ دیا ہے۔ یہ بسکٹ اب نہ صرف باگیشور ضلع کے تقریباً پچاس آنگن واڑی مراکز میں، بلکہ الموڑا اور کوسانی تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ کسانوں کی محنت سے ادارہ کا سالانہ ٹرن اوور نہ صرف   10 سے 15 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے بلکہ 900 سے زیادہ کنبوں کو روزگار کے مواقع ملنے سے ضلع کے رہنے والوں کا گاؤں کے باہر جانے کا سلسلہ بھی رکنا شروع ہوا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنوں! جب ہم سنتے ہیں کہ مستقبل میں دنیا میں پانی کو لے کر جنگ شروع ہونے والی ہے۔ ہر کوئی یہ بات بولتا ہے لیکن کیا ہماری کوئی ذمہ داری ہے کیا؟ کیا ہمیں نہیں لگتا ہے کہ پانی کا تحفظ  سماجی ذمہ داری ہونی چاہیے؟ ہر انسان کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ بارش کی ایک ایک بوند ہم کیسے بچائیں اور ہم میں سے سب کو پتہ ہے کہ ہم ہندوستانی کے دل میں پانی کے تحفظ یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، کتابوں کا موضوع نہیں ہے، زبان کا موضوع نہیں رہا۔ صدیوں سے ہمارے آبا و اجداد نے اسے جی کر کے دکھایا ہے۔ ایک ایک بوند پانی کی اہمیت کو انہوں نے اہمیت دی ہے۔ انہوں نے ایسے نئے نئے طریقے ڈھونڈھے ہیں کہ پانی کی ایک ایک بند کو کیسے بچایا جائے؟ آپ میں سے شاید جن لوگوں کو تمل ناڈو میں جانے کا موقع ملتا ہوگا تو تمل ناڈو میں کچھ مندرایسے ہیں کہ جہاں مندروں میں آبپاشی کا انتظام ، آبی تحفظ کا انتظام، سکھے کا انتظام، اس کے بڑے بڑے تختیاں مندروں میں لکھے گئے ہیں۔ منارکوول، چران مہادیوی، کوولپٹی یا پدوکوٹٹئی ہو سب جگہ پر بڑی بڑی تختیاں آپ کو دکھائی دیں گی۔ آج بھی مختلف باوڑیاں، اسٹیپ ویلس ماحولیات مقام کے طور پر تو واقف ہوں لیکن یہ نہ بھولیں کہ یہ آبی ذخائر ہمارے آبا و اجداد کی مہم کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔ گجرات میں اڈالج اور پاٹن کی رانی کی واو (باوڑی) جو ایک یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے ان کی عظمت دیکھتے ہی بنتی ہے؛ ایک طرح سے باوڑیاں آبی مندر ہی تو ہیں۔ اگر آپ راجستھان جائیں تو جودھ پور میں چاند باوڑی ضرور جائیے گا۔ یہ ہندوستان کی سب سے بڑی اور خوبصورت باوڑی میں سے ایک ہے اور سب سے توجہ دینے والی بات یہ ہے کہ وہ اس سرزمین پر ہے جہاں پانی کی قلت رہتی ہے۔ اپریل ، مئی، جون، جولائی یہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ بارش کے پانی کو جمع کرنے کا سب سے اچھا موقع ہوتا ہے اور اگر ہم اڈوانس میں جتنی تیاریاں کریں اتنا ہمیں فائدہ ملتا ہے۔ من ریگا کا بجٹ بھی اس آبی تحفظ کے لیے کام آتا ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران آبی تحفظ اور آبی انتظام کی سمت میں ہر کسی نے اپنے اپنے طریقے سے کوشش کیے ہیں۔ ہر سال منریگا بجٹ سے ہٹ کر آبی تحفظ اور آبی انتظام اور اوسطاً  32 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ 18-2017 کی بات کریں تو 64 ہزار کروڑ روپے کے کل خرچ کا 55 فیصد یعنی تقریباً 35 ہزار کروڑ روپے آبی تحفظ جیسے کاموں پر خرچ کیے گئے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران اس طرح کے آبی تحفظ اور آبی انتظامی استعمالوں کے ذریعے تقریباً 150 لاکھ ہیکٹیئر زمین کو زیادہ مقدار میں فائدہ ملا ہے۔ آبی تحفظ اور آبی انتظام کے لیے ہندوستانی حکومت کے ذریعے جو من ریگا میں رقومات ملتی ہیں، کچھ لوگوں نے اس کا بہت اچھا فائدہ اٹھا یا ہے۔ کیرل میں کوٹوم پیرور ، اس ندی پر 7 ہزار من ریگا کے کام کرنے والے لوگوں نے 70 دنوں تک کڑی محنت کر کے اس ندی کو دوبارہ زندہ کر دیا۔  گنگا اور جمنا پانی سے بھری ہوئی ندیاں ہیں لیکن اتر پردیش میں کئی اور علاقے بھی ہیں، جیسے فتح پور ضلع کا سسر کھدیری نام کی دو چھوٹی ندیاں سوکھ گئیں۔ ضلع انتظامیہ نے منریگا کے تحت بہت بڑی مقدار میں مٹی اور آبی تحفظ کے کام کا ذمہ اٹھایا۔ تقریباً 45-40 گاوؤں کے لوگوں کی مدد سے اس سسر کھدیری ندی جو سوکھ چکی تھی، اسکو دوبارہ زندہ کیا۔ جانور ہو، پرندے ہو، کسان ہو، کھیتی ہو، گاؤں ہو کتنی بڑی مہربانی سے بھرپور یہ کامیابی ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ پھر ایک بار اپریل، مئی، جون، جولائی ہمارے سامنے ہیں، آبی جمع کرنا، پانی تحفظ کے لیے ہم بھی کچھ ذمہ داری اٹھائیں، ہم بھی کچھ منصوبہ بنائیں، ہم بھی کچھ کر کے دکھائیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! جب من کی بات ہوتی ہے تو مجھے چاروں طرف سے پیغام آتے ہیں، خطوط آتے ہیں، فون آتے ہیں۔ مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ ضلع کے دیوی تولا گاؤں کے آین کمار بنرجی نے مائی گوو پر اپنے کمنٹ میں لکھا ہے – ’’ ہم ہر سال یوم رویندر مناتے ہیں لیکن کئی لوگ نوبل انعام یافتہ رویندر ناتھ ٹیگور کی پرامن ، خوبصورت اور سالمیت کے ساتھ جینے کے فلسفہ کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں۔ برائے مہربانی ’من کی بات‘ پروگرام میں اس موضوع پر تبصرہ کریں تاکہ لوگ اس کے بارے میں جان  سکیں۔‘‘

میں آین جی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ’من کی بات ‘ کے سبھی ساتھیوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ گرو دیو ٹیگور علم اور صوابدید سے مکمل انسانیت پسند  تھے، جن کی تحریر نے ہر کسی پر اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔ رویندر ناتھ – ایک ہنرمند انسان تھے، کثیرجہت شخصیت کے حامل تھے، لیکن ان کے اندر ایک استاد ہر وقت محسوس کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے گیتانجلی میں لکھا  ہے – ’وہ جو علم رکھتے ہیں وہ طلبا  کو فراہم کرائیں‘۔

میں بنگلہ زبان تو نہیں   جانتا ہوں، لیکن جب چھوٹا تھا مجھے بہت جلد اٹھنے کی عادت رہی –  بچپن سے اور مشرقی ہندوستان میں ریڈیو جلدی شروع ہوتا ہے، مغربی ہندوستان میں دیر سے شروع ہوتا ہے تو صبح موٹا موٹا مجھے انداز ہے؛ شاید 5.30 بجے رویندر سنگیت شروع ہوتا تھا، ریڈیو پر اور مجھے اس کی عادت تھی۔ زبان تو نہیں جانتا تھا صبح جلدی اٹھ کر کے ریڈیو پر رویندر سنگیت سننے کی میری عادت ہو گئی تھی اور جب آنند لوک اور آگونیر، پوروش مونی – یہ نظمیں سننے کا جب موقع ملتا تھا، من کو بڑی بیداری ملتی تھی۔ آپ کو بھی رویندر سنگیت نے ، ان کی نظموں نے ضرور متاثر کیا ہوگا۔ میں رویندر ناتھ ٹھاکر کو دل سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! کچھ ہی دنوں میں رمضان کا مبارک مہینا شروع ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں رمضان کا مہینہ پورے عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ روزہ کا اجتماعی پہلو یہ ہے کہ جب انسان خود بھوکا ہوتا ہے تو اس کو دوسروں کی بھوک کا بھی احساس ہوتا ہے۔ جب وہ خود پیاسا ہوتا ہے تو دوسروں کی پیاس کا اسے احساس ہوتا ہے۔ پیغمبر محمد صاحب کی تعلیم اور ان کے پیغام کو یاد کرنے کا موقع ہے۔  ان کی زندگی سے یکسانیت اور بھائی چارے کے راستے پر چلنا یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہیں۔ ایک بار ایک انسان نے پیغمبر صاحب سے پوچھا – ’’اسلام میں کون سا کام سب سے اچھا  ہے؟‘‘ پیغمبر صاحب نے کہا – ’’کسی غریب اور ضرورتمند کو کھلانا اور سبھی سے بھائی چارے سے ملنا، چاہے آپ نہیں جانتے  ہو یا نہ جانتے ہو‘‘۔ پیغمبر محمد صاحب علم اور ہمدردی میں یقین رکھتے تھے۔ انہیں کسی بات کا غرور نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے کہ غرور ہی علم کو شکست دیتا ہے۔ پیغمبر محمد صاحب کا ماننا تھا کہ اگر آپ کے پاس کوئی بھی چیز آپ کی ضرورت سے زیادہ ہے تو آپ اسے کسی ضرورتمند انسان کو دیں، اس لیے رمضان میں خیرات کی بھی کافی اہمیت ہے۔ لوگ اس مبارک مہینے میں ضرورتمندوں کو خیرات دیتے ہیں۔ پیغمبر محمد صاحب کا ماننا تھا کہ کوئی شخص اپنی پاک روح سے امیر ہوتا ہے نہ کہ دھن دولت سے۔ میں سبھی ہم وطنوں کو رمضان کے مبارک مہینے کی مبارک باد دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے یہ موقع لوگوں کو امن اور بھائی چارے کے ان کے پیغام پر چلنے کی ترغیب دیگا۔

میرے پیارے ہم وطنوں!  بودھ پورنیما سبھی ہندوستانیوں کے لیے مخصوص دن ہے۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہندوستان ہمدردی، خدمات اور ایثار کی قوت دکھانے والے مہامانو بھگوان بودھ کی دھرتی ہے، جنہوں نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی رہنمائی کی۔ یہ بودھ پورنیما بھگوان بودھ کو یاد کرتے ہوئے ان کے راستے پر چلنے کی کوشش کرنے کا، عہد کرنے کا اور چلنے کا ہم سب کی ذمہ داری کو پھر سے یاد کراتا ہے۔ بھگوان بودھ یکسانیت، امن، بھائی چارے کی ترغیب ہے۔ یہ ویسے انسانی اقدار ہیں، جن کی ضرورت آج کی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈکر زور دے کر کہتے ہیں کہ ان کی سماجی فلسفہ میں بھگوان بودھ کی بڑی ترغیب رہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا – ’’میرا سماجی فلسفہ تین لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے ؛ آزادی، برابری اور بھائی چارہ۔ میرے فلسفے کی جڑیں مذہب میں ہیں سیاست میں نہیں۔ میں نے یہ اپنے گرو گوتم بودھ سے حاصل کیا ہے۔‘‘

بابا صاحب نے آئین کے ذریعے دلت ہوں، مظلوم ہوں، دبے کچلے محروم ہوں، حاشیے پر کھڑے کروڑوں لوگوں کو بااختیار بنایا۔ ہمدردی کی اس سے بڑی مثال نہیں ہو سکتی۔ لوگوں کی تکلیف کے لیے یہ ہمدردی بھگوان بودھ کے سب سے عظیم اوصاف میں سے ایک تھی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ بودھ بھکشو مختلف ممالک کا سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ بھگوان بودھ کے وسیع خیالات کو لے کر کے جاتے تھے اور یہ سبھی دور میں ہوتا رہا ہے۔ پورے ایشیا میں بھگوان بودھ کی تعلیمات ہمیں وراثت میں ملی ہیں۔ وہ ہمیں مختلف ایشیائی ممالک، جیسے چین، جاپان، کوریا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، میانمار کئی انیک ملک وہاں بودھ کی اس روایت ، بودھ کی تعلیم جڑوں میں جڑی ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم بدھشٹ ٹوریزم کے لیے انفراسٹرکچر فروغ دے  رہے ہیں، جو جنوب مشرقی ایشائی کے اہم مقامات کو، ہندوستان کے خاص بودھ مقامات کے ساتھ جوڑتا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ ہندوستانی حکومت کئی بودھ مندروں کے تجدیدکاری کے کاموں میں حصہ دار ہے۔ اس میں میانمار میں باگان میں صدیوں پرانا عظیم آنند مندر بھی شامل ہے۔ آج ملک میں ہر جگہ ٹکراؤ اور انسانی درد دیکھنے کو ملتی ہے۔ بھگوان بودھ کی تعلیم نفرت کو ہمدردی سے مٹانے  کا راستہ  دکھاتی ہے۔ میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھگوان بودھ کے تئیں عزت رکھنے والے، ہمدردی کے اصول میں یقین کرنے والے – سب کو بودھ پورنیما کی مبارکباد دیتا  ہوں۔ بھگوان بودھ سے پوری دنیا کے لیے خیر مانگتا ہوں، تاکہ ہم ان کی تعلیم پر مبنی ایک امن سے لبریز اور ہمدردی سے لبریز دنیا کی تعمیر کرنے میں اپنی ذمہ داری نبھا سکیں۔ آج جب ہم بھگوان بودھ کو یاد کر رہے ہیں۔ آپ نے لافنگ بودھا کی مورتیوں کے بارے میں سنا ہوگا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لافنگ بودھا گڈ لک لاتے ہیں لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اسمائلنگ بودھا  ہندوستان کی سلامتی کے تاریخ کے ایک اہم واقعہ سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسمائلنگ بودھا اور ہندوستان کی فوجی قوت کے درمیان کیا تعلق ہے؟ آپ کو یاد ہوگا آج سے 20 سال پہلے 11 مئی ، 1998 کی شام کو اس وقت کے ہندوستان کے وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپئی جی نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی باتوں نے پوری دنیا کو فخر، بہادری اور خوشی کے پل سے بھر دیا تھا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندوستانی لوگوں میں نئی خود اعتمادی پیدا ہوئی تھی۔ وہ دن تھا بودھ پورنیما کا۔ 11 مئی، 1998 ، ہندوستان کے مغربی کنارے پر راجستھان کے پوکھرن میں ایٹمی تجربہ کیا گیا تھا۔ اسے 20 سال ہو رہے ہیں اور یہ تجربہ بھگوان بودھ کے آشرواد کے ساتھ بودھ پورنیما کے دن کیا گیا تھا۔ ہندوستان کا تجربہ کامیاب رہا ور ایک طرح سے کہیں تو سائنس اور تکنیک کے شعبے میں ہندوستان نے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن ہندوستان کی تاریخ میں اس کی فوجی طاقت کے مظاہرے کی شکل میں درج ہے۔ بھگوان بودھ نے دنیا کو دکھایا ہے – اندرونی طاقت  سکون کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح جب آپ ایک ملک کے طور پر مضبوط ہوتے ہیں تو آپ سب کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ بھی سکتے ہیں۔ مئی ، 1998 کا مہینہ ملک کے لیے صرف اس لیے اہم نہیں ہے کہ اس مہینے میں ایٹمی تجربے ہوئے، بلکہ وہ جس طرح سے کیے گئے تھے وہ اہم ہے۔ اس نے پوری دنیا کو دکھایا کہ ہندوستان کی سرزمین عظیم سائنسدانوں کی سرزمین ہے اور ایک مضبوط لیڈرشپ کے ساتھ ہندوستان روز نئے مقام اور اونچائیوں کو حاصل کر سکتا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی جی نے منتر دیا تھا – ’’ جے جوان جے کسان، جے وگیان‘‘ آج جب ہم 11 مئی ، 1998 اس کا 20واں سال منانے جا رہے ہیں، تب ہندوستان کی طاقت کے لیے اٹل جی نے جو ’جے وگیان کا ہمیں منتر دیا ہے، اسے اختیار کرتے ہوئے جدید ہندوستان بنانے کے لیے طاقتور ہندوستان بنانے لیے، باصلاحیت ہندوستان بنانے کے لیے ہر نوجوان تعاون کرنے کا عزم کرے۔ اپنے اختیار کو ہندوستان کے اختیار کا حصہ بنائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جس سفر کو اٹل جی نے شروع کیا تھا، اسے آگے بڑھانے کی ایک نئی خوشی، نئے اطمینان کو ہم بھی حاصل کر پائیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنوں، پھر ’’من کی بات‘‘ میں ملیں گے تب اور باتیں کریں گے۔

بہت بہت شکریہ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More