36 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

من کی بات’ پروگرام میں وزیراعظم کی تقریر کا متن

Urdu News

نئی دہلی۔ میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار

آج کی ابتدا میں ہی ‘من کی بات’ ایک فون کال سے ہی کرتے ہیں۔

(فون)

معزز وزیر اعظم، میں کومل ترپاٹھی میرٹھ سے بول رہی ہوں ۔ 28 تاریخ کو قومی سائنس کا دن ہے … ہندوستان کی ترقی اور اس کی شرح ترقی مکمل طور پر سائنس سے جڑی ہے۔ جتنا ہی ہم اس میں تحقیق اور اختراعات کریں گے اتنا ہی ہم لوگ آگے بڑھیں گے اور خوشحال ہوں گے۔ ۔۔ کیا آپ ہمارے نوجوانوں کہ اختراعات کرنے کے لیے کچھ ایسے الفاظ کہہ سکتے ہیں جس سے کہ وہ سائنسی طریقے سع اپنی سوچ کو آگے بڑھائیں اور ہمارے ملک کو بھی آگے بڑھا  .. شکریہ!

آپ کے فون کال کے لئے بہت بہت شکریہ. سائنس کے بارے میں بہت سے سوالات میرے نوجوان ساتھیوں نے مجھ سے پوچھا ہے۔ کچھ نہ کچھ لکھتےرہتے ہیں۔  ہم نے دیکھا ہے کہ سمندر کا رنگ نیلے رنگ کا نظر آتا ہے ، لیکن ہم اپنے روزانہ کی زندگی کے تجربات سے جانتے ہیں کہ پانی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا ہے۔  کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ندی ہو سمندر ہے، پانی رنگین کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ سوال  1920 کے دہائی میں ایک نوجوان کے ذہن میں آیا تھا۔ اسی سوال نے جدید ہندوستان کے عظیم سائنسدان کو جنم دیا۔ جب ہم سائنس کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے، بھارت – رتن سر سی وی رمن کا نام ہمارے سامنے آتا ہے۔  انہیں لائٹ اسکیٹرنگ یعنی  روشنی کے پھیلاؤ سے متعلق امتیازی خدمات انجام دینے  کے لیے نوبل انعام فراہم کیا گیا تھا۔ ان کی ایک دریافت ‘‘رمن  ایفکٹ’’ کے نام سے مشہور ہے ۔ ہم ہر سال 28 فروری کو ‘نیشنل سائنس ڈے’ مناتے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اسی دن انہوں نے روشنی کی منتقلی کا اصول تلاش کی تھی۔ جس کے لئے انہیں  نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔  اس ملک نے سائنس کے میدان میں بہت سے عظیم سائنسدانوں کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف، عظیم ریاضی داں بھاسکر، برہم گپت اور آریہ بھٹ کی روایت رہی ہے تو دوسری علم طب کے شعبے میں سوشروت اور چرک ہمارے قابل فخر ہیں ۔ سر جگدیش چندر بوس اور ہر گووند کھرانہ سے لے کر ستیندر ناتھ بوس جیسے سائنس داں ، یہ ہندوستان کے لیے قابل فخر ہیں ۔ ستیندر ناتھ بوس کے نام پر تو مشہور پارٹیکل ‘بوسون’ رکھا گیا ۔ حال ہی میں مجھے ممبئی میں ایک پروگرام میں شامل ہونے کا موقع ملا ۔ وادھوانی انسٹی ٹیوٹ فار آرٹیفشیل انٹلی جینس کے افتتاح کے موقع پر۔ سائنس کے شعبہ میں جو چمتکار ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں جاننا بڑا دلچسپ تھا ۔ مصنوعی انٹلی جینس کے ذریعہ روبوٹس، بوٹس اور مخصوص کام کرنے والی مشینیں بنانے میں مدد ملتی ہے ۔ آجکل مشینیں سیلف لرننگ سے اپنے آپ کے انٹلی جینس کو اور اسمارٹ بناتی جاتی ہیں ۔ اس ٹکنالوجی کا استعمال غریبوں، محروموں یا حاجت مندوں کی زندگی بہتر بنانے کے کام آسکتے ہیں ۔ مصنوعی انٹلی جینس کے اس پروگرام میں میں نے سائنس دانوں سے درخواست کی کہ معذور بھائیوں اور بہنوں کی زندگی خوشگوار بنانے کے لیے کس طرح سے مصنوعی انٹلی جینس سے مدد مل سکتی ہے؟ کیا ہم مصنوعی انٹلی جینس کے ذریعہ قدرتی آفات کے بارے میں بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں ؟ کسانوں کو فصلوں کی پیداوار کو لے کر کوئی تعاون کر سکتے ہیں؟ کیا مصنوعی انٹلی جینس صحت کی خدمات تک رسائی کو آسان بنانے اور جدید طریقے سے امراض کے علاج میں معاون ہو سکتے ہیں ؟

گزشتہ دنوں، اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ مجھے گجرات کے احمدآباد میں ‘آئی کریئٹ ’ کے افتتاح کے لئے جانے کا موقع ملا تھا۔ وہاں، ایک نوجوان نے ایک ایسا ڈیجیٹل آلہ تیار کیا ہے جس میں اگر کوئی بات نہیں کرسکتا تو اس آلہ کے ذریعہ اپنی بات کو لکھتے ہی وہ آواز میں تبدیل ہوجاتا ہے اور آپ اسی  طرح بات کر سکتے ہیں جیسے کہ ایک بات کرسکنے والے شخص کے ساتھ آپ کرتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم مصنوعی انٹیلی جنس کا استعمال ایسے کئی طریقوں میں کرسکتے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی  قدر غیر جانبدار ہوتی ہے۔  ان میں قدر و قیمت خود بخود نہیں ہوتی  ہیں۔  کوئی بھی ویسے ہی کام کرے گی جیسے ہم چاہیں گے۔ لیکن یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم مشین سے کیا کام لینا چاہتے ہیں ۔ یہاں انسانی مقاصد اہم ہوجاتے ہیں ۔ سائنس  کا انسانی پہلو فلاح و بہبود کے لیے  ، انسانی زندگی کی بلند ترین اونچائیوں کو چھونے کے لیے استعمال ہے۔

لائٹ بلب کے موجد تھومس الوا ایڈیسن اپنے تجربات میں کئی بار ناکام رہے ہیں۔  ایک بار جب ان سے پوچھا گیا تو، انہوں نے جواب دیا – “میں نے لائٹ بلب نہیں بنانے کے دس ہزار طریقے تلاش کیے ہیں ’’، یعنی ایڈیسن نے اپنی ناکامیوں کو بھی اپنی طاقت بنا لیا ۔ اتفاق سے خوش قسمتی ہے کہ آج میں مہارشی اربندو کی کرم بھومی اوروویلے میں ہوں ۔ ایک انقلابی کے روپ میں انہوں نے برطانوی حکومت کو چیلنج کیا، ان کے خلاف لڑائی  لڑی، ان کی حکومت پر سوال اٹھائے ۔ اسی طرح انہوں نے ایک عظیم رشی کے روپ میں، زندگی کے ہر پہلو کے سامنے سوال رکھا ۔ جواب تلاش کر کے انسانی زندگی کو راہ دکھائی ۔ سچائی کو جاننے کے لیے بار بار سوال پوچھنے کا احساس اہم ہے۔ سائنسی دریافت کے پیچھے کی اصل ترغیب بھی تو یہی ہے۔ تب تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک کیوں ، کیا اور کیسے جیسے سوالوں کا جواب نہ مل جائے ۔ قومی سائنس ڈے کے موقع پر ہمارے سائنس داں سائنس سے جڑے سبھی لوگوں کو میں مبارکباد دیتا ہوں۔ ہماری نوجوان نسل سچائی اور سائنس کی تلاش کے لیے ترغیب حاصل کریں ، سائنس کی مدد سے سماج کی خدمت کرنے کے لیے محرک ہوں ، اس کے لیے میری جانب سے بہت بہت مبارکباد ۔

دوستوں ، بحران کے وقت حفاظت،  آفات ان سبھی موضوع پر مجھے بہت بار بہت کچھ پیغام آتے رہتے ہیں، لوگ مجھے کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ پنے سے شریمان رویندر سنگھ نے نریندر مودی موبائل اَیپ پر اپنے کمینٹ میں پیشہ ورانہ تحفظ پر بات کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے ملک میں کارخانے اور تعمیری مقامات پر تحفظ کا معیار اتنا اچھا نہیں ہے ۔ آئندہ مارچ کو ہندوستان کا قومی تحفظ ڈے ہے تو وزیر اعظم اپنے ‘من کی بات’ پروگرام میں تحفظ پر بات کریں تاکہ لوگوں میں تحفظ کو لے کر بیداری پیدا ہو۔ جب ہم عوامی تحفظ کی بات کرتے ہیں تو دو چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں۔  ایک وہ جو آفات کے وقت ضروری ہوتی ہے ، آفات کے دوران تحفظ اور دوسری وہ  ہےجس کی روز مرہ کی زندگی ضرورت پڑتی ہے  یعنی تحفظ روز مرہ کی زندگی میں۔ اگر ہم روز مرہ کی زندگی میں تحفظ کو لے کر بیدار نہیں ہیں ، اسے حاصل نہیں کر پا رہے ہیں تو پھر آفات کے دوران اسے پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم سب بہت بار راستوں پر لکھے ہوئے بورڈ پڑھتے ہیں ۔ اس میں لکھا ہوتا ہے :

‘‘دھیان ہٹا ، حادثہ ہوا۔’’

‘‘ایک بھول کرے نقصان، چھینے خوشیاں اور مسکان’’،

‘‘اتنی جلدی نہ دنیا چھوڑو ، حفاظت سے اب ناطہ جوڑو’’

حفاظت سے نہ کرو کوئی مستی ، ورنہ زندگی ہوگی سستی’’

اس سے آگے ان جملوں کا ہماری زندگی میں کبھی کبھی کوئی استعمال ہی نہیں ہوتا ہے ۔ قدرتی آفات کو اگر چھوڑ دیں تو زیادہ تر حادثات ہماری کوئی نہ کوئی غلطی کا ہی نتیجہ ہوتی ہیں ۔ اگر ہم بیدار رہیں ضروری قوانین پر عملدر آمد کریں تو ہم اپنی زندگی کی حفاظت تو کر ہی سکتے ہیں لیکن بہت بڑے حادثوں سے بھی ہم سماج کو بچا سکتے ہیں ۔ کبھی کبھی ہم نے دیکھا ہے کہ کام کی جگہ پر تحفظ کو لے کر بہت کچھ لکھے ہوتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں تو کہیں اس پر عمل در آمد نظر نہیں آتا ہے ۔ میری تو درخواست ہے کہ مہانگر پالیکا ، نگر پالیکا جن کے پاس فائر بریگیڈ ہوتے ہیں انہیں ہفتے میں ایک بار یا مہینے میں ایک بار الگ الگ اسکولوں میں جا کر اسکول کے بچوں کے سامنے موک ڈریل کرنا چاہیے ۔ اس سے دو فائدے ہوں گے ۔ فائر بریگیڈ کو بھی ہوشیار رہنے کی عادت رہتی ہے اور نئی نسل کو اس کی تعلیم بھی ملتی ہے اور اس کے لیے نہ کوئی الگ سے خرچ ہوتا ہے ۔ ایک طرح سے تعلیم کا ہی ایک سلسلہ بن جاتا ہے اور میں ہمیشہ اس بات کی اپیل کرتا رہتا ہوں ۔ جہاں تک سانحوں  کی بات ہے ، قدرتی آفات کی بات ہے تو ہندوستان جغرافیائی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے تنوع  سے بھر پور  ملک ہے ۔ اس ملک میں نہ کوئی قدرتی اور انسانوں کے باعث آفات جیسے کیمیاوی اور ٹکنالوجی سے متعلق حادثوں کو جھیلا ہے ۔ آج نیشنل ڈس آسٹر مینجمنٹ اتھاریٹی یعنی این ڈی ایم اے ملک میں آفات سے نمٹنے میں قیادت کر رہا ہے ۔ زلزلہ ہو ، سمندری طوفان ہو ، زمین کھسکنے جیسی آفات کو بچاؤ آپریشن ہو ، این ڈی ایم اے فورا پہنچتا ہے ۔ انہوں نے رہنما خطوط جاری کیے ہیں ، ساتھ ساتھ وہ صلاحیت ساز کے لیے لگا تار تربیت کے کام بھی کرتے رہتے ہیں ۔ سیلاب ، سمندری طوفانی کے خطرے میں ہونے والے ضلعوں میں رضاکاروں کی ٹریننگ کے لیے بھی ‘‘آفات دوست’’ نام کی پہل کی گئی ہے ۔ ٹریننگ اور  بیداری کا بہت اہم رول ہے ۔ آج سے دو تین سال پہلے لو لگنے سے ہر سال ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا دیتے تھے ۔ اس کے بعد این ڈی ایم اے نے گرمی کی لہر سے نمٹنے کے لیے ورکشاپ کا انعقاد کیا ، لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی ۔ محکمہ موسمیات نے درست پیش گوئی کی ۔ سب کی شراکت داری سے ایک اچھا نتیجہ سامنے آیا۔ 2017 میں لو سے ہونے والی اموات کی تعداد غیر متوقع طور پر کم ہو کر تقریبا 220 ہوگئی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم تحفظ کو ترجیح دیتے ہیں ، ہم تحفظ حاصل کر سکتے ہیں ۔ سماج میں اس طرح سے کام کرنے والے بے شمار لوگ ہوں ، سماجی تنظیمیں ہوں ، بیدار شہری ہوں  – میں ان سب کی ستائش کرنا چاہتا ہوں جو کہیں بھی آفت آئے منٹوں میں راحت اور بچاؤ کام میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ اور ایسے گمنا ہیرو کی تعداد کوئی کم نہیں ہے۔ ہماری فائر اور بچاؤ خدمات ، نیشنل ڈس آسٹر ریسپونس فورسز، مسلح افواج، نیم فوجی دستے یہ بھی بحران کے وقت پہنچنے والے جیالے بہادر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ این سی سی، اسکاؤٹ جیسے ادارے بھی ان کاموں کو آجکل کر بھی رہے ہیں ، ٹریننگ بھی دے رہے ہیں ۔ پچھلے دنوں ہم نے ایک کوشش یہ بھی شروع کی ہے کہ جیسے دنیا کے ملکوں میں مشترکہ فوجی مشق ہوتے ہیں  تو کیوں نہ دنیا کے ممالک آفات سے نمٹنے کے لیے بھی مشترکہ مشق کریں ۔ ہندوستان نے اس کی قیادت کی ہے ۔ بی آئی ایم ایس ٹی ای سی ، بنگلہ دیش ، ہندوستان ، میانمار، سری لنکا، تھائی لینڈ بھوٹان اور نیپال ، ان ملکوں کی مشترکہ ڈس آسٹر مینجمنٹ ایکسر سائز بھی کی گئی ، یہ اپنے آپ میں ایک پہلا اور بڑا انسانی تجربہ تھا ۔ ہمیں ایک خطرات کے تئیں بیدار سماج بننا ہوگا ۔ اپنی تہذیب میں ہمیں اقدار کی حفاظت ، اقدار کے تحفظ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں لیکن ہمیں اقدار کے تحفظ ، تحفظ کے اقدار کو بھی سمجھنا ہوگا ۔ ہمیں اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا ۔ ہم نے اپنی عام زندگی میں دیکھا ہے کہ ہم سینکڑوں بار ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں اور ہوائی جہاز کے اندر ایر ہوسٹس شروعات میں تحفظ سے متعلق اطلاعات دیتی ہیں ۔ ہم سب نو سو بار انہیں سنا ہوگا لیکن آج ہمیں کوئی ہوائی جہاز میں لے جا کر کھڑا کرے اور پوچھے کہ کون سی چیز کہاں ہے ؟ لائف جیکٹ کہاں ہے ؟ کیسے استعمال کرنا چاہیے ؟ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں ، ہم میں کوئی نہیں بتا پائے گا ۔ مطلب یہ ہوا کہ کیا جانکاری دینے کا انتظام تھا ؟ تھا ۔ براہ راست اس طرف نظر کر کے دیکھنے کے لیے امکان تھا ؟ تھا ۔ لیکن ہم نے کیا نہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ ہم عادت سے بیدار نہیں ہیں اور اس لیے ہمارے کان ، ہوائی جہاز میں بیٹھنے کے بعد سنتے تو ہیں لیکن ‘یہ اطلاعات میرے لیے ہیں ’ ایسا ہم میں سے کسی کو لگتا ہی نہیں ہے ۔ ویسا ہی زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارا تجربہ ہے ۔ ہم یہ نہ سوچیں کہ سیفٹی کسی اور کے لیے ہے ، اگر ہم سب اپنی سیفٹی کے لیے بیدار ہوجائیں تو سماج کی سیفٹی کا احساس بھی مخفی ہوتا ہے ۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، اس بار بجٹ میں ‘صاف بھارت’ کے تحت گاؤں کے لئے بایو گیس کے ذریعے waste to wealth اور waste to energy بنانے پر زور دیا گیا۔ اس کے لئے پہل کی گئی اور اسے نام دیا گیا ‘GOBAR-Dhan’ – Galvanizing Organic Bio-Agro Resources۔  اس ‘گوبر دھن ’ منصوبہ بندی کا مقصد ہے، گاؤں کو صاف بنانا اور جانوروں کے گوبر اور کھیتوں کے ٹھوس فضلہ مواد کو کمپوسٹ اور بایو گیس میں تبدیل کر کے ، اس سے دولت اور توانائی پیدا  کرنا۔ ہندوستان میں مویشیوں کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں تقریبا 30 کروڑ مویشی ہیں اورگوبر کی پیداوار روزانہ تقریبا 30 لاکھ ٹن ہے۔  کچھ یورپی ممالک اور چین جانوروں کی گندگی اور دیگر نامیاتی فضلہ کا استعمال کرتی ہیں لیکن اسے پوری طرح ہندوستان میں استعمال نہیں کی جا رہی تھی۔  ہم ‘صاف بھارت دیہی مشن ‘ کے تحت اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

جانوروں کے گوبر، زرعی فضلہ، باورچی خانے کے فضلہ کو استعمال کرنے کا مقصد بایو گیس  کی بنیاد پر توانائی بنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔  ‘گوبر دھن یوجنا’ کے تحت دیہی ہندوستان میں کسانوں، بہنوں، بھائیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ گوبر اور فضلہ کو صرف فضلہ کے طور پر نہیں بلکہ آمدنی کے ذرائع کے طور پر دیکھیں۔  ‘گوبر دھن  منصوبہ’ سے  دیہی علاقوں میں بہت سے فائدے ہونگے ۔ اس سے گاؤں کو صاف رکھنے میں مدد ملے گی۔  جانوروں کی صحت بہتر بنے گی اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔  بایوگیس کھانا پکانے اور روشنی کے علاوہ توانائی میں خود انحصاری  بڑھانے میں معاون ہوگا۔  آمدنی بڑھانے کے لئے کسانوں اور کسانوں کے مویشی کو مدد ملے گی۔  فضلہ جمع کرنے، نقل و حرکت، بائیوگیس فروخت وغیرہ کے لئے نئی ملازمتوں کا موقع ملے گا۔  ‘گوبر دھن یوجنا’ کے نظام کے لئے ایک آن لائن ٹریڈنگ پلیٹ فارم بھی بنایا جائے گا جو کسانوں کو خریداروں سے مربوط کرے گا تاکہ کسانوں کو گوبر اور زرعی فضلہ  کا صحیح دام مل سکے۔  میں کاروباریوں سے درخواست کرتا ہوں، خاص طور پر ان کی بہنوں کو دیہی ہندوستان میں رہنے والی بہنیں، آگے آئے ، سیلف ہیلپ گروپ بنائیں اور اس موقع کا مکمل فائدہ اٹھائیں۔  میں آپ کو صاف توانائی اور ماحول دوست کام  کی اس تحریک کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔  اپنے گاؤں میں فضلہ کو دولت میں تبدیل کرنے اور گوبر سے گوبر دھن بنانے کی سمت میں پہل کریں ۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، جب تک ہم میوزک فیسٹول، فوڈ فیسٹول ، فلم فیسٹول نہ جانے کتنے کتنے اقسام کے فیسٹول کے بارے میں سنتے آئے ہیں ۔ لیکن چھتیس گڑھ کے رائے پور میں انوکھی کوشش کرتے ہوئے ریاست کا پہلا ‘کچرا مہوتسو’ منعقد کیا گیا ۔ رائے پور نگر نگم کے ذریعہ منعقدہ اس مہوتسو کے پیچھے جو مقصد تھا وہ تھا صفائی کو لے کر بیداری ۔ شہر کے فضلہ کا تخلیقی استعمال کرنا اور کچرے کو از سر نو استعمال میں لانے کے مختلف طریقوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ۔ اس مہوتسو کے دوران طرح طرح کی سرگرمی ہوئی جس میں طلباء سے لے بڑوں تک ، ہر کوئی شامل ہوا۔ کچے کا استعمال کر کے الگ الگ طرح کی فنکاری کے نمونے بنانے گئے ۔ فضلہ کے بندوبست کے سبھی پہلوؤں پر لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے ورکشاپ منعقد کیے گئے ۔ صفائی کے موضوع پر موسیقی پیش کیے گئے ۔ آرٹ ورک بنائے گئے ۔ رائے پور سے حوصلہ پاکر دیگر اضلاع میں بھی الگ الگ قسم کے ‘کچرا اتسو’ ہوئے ۔ ہر کسی نے اپنی اپنی طرف سے پہل کرتے ہوئے صفائی کو لے کر اختراعی آئیڈیا ساجھا کیے ، مباحثے ہوئے ، نظمیں سنائی گئیں ۔ صفائی کو لے ایک جشن سا ماحول تیار ہوگیا ۔ خاص کر اسکولوں کے بچوں نے جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، وہ منفرد حیثیت کا حامل تھا۔ فضلہ کے بندو بست اور صفائی کی اہمیت کاجس انداز میں اس جشن میں مظاہرہ کیا گیا ، اس کے لیے رائے پور نگر نگم ، پورے چھتیس گڑھ کے عوام اور وہاں کی حکومت اور انتظامیہ کو میں بہت ساری مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔

8 مارچ کو ہر سال ‘بین الاقوامی خواتین کا دن’ منایا جاتا ہے. ملک اور دنیا میں بہت سے پروگرام ہوتے  ہیں۔  اس دن، ملک میں ‘ناری شکتی پرسکار’ سے ایسی خواتین کو نوازا بھی جاتا ہے جنہوں نے گذشتہ دنوں میں مختلف شعبوں میں مثالی کام کیے ہوں ۔ آج  ملک خواتین کی ترقی سے پہلے خواتین کی قیادت کی ترقی کی طرف آگے بڑھ رہی ہے. آج، ہم خواتین کی قیادت کے تحت خواتین کی ترقی سے آگے خواتین کی زیر قیادت ترقی کی سمت میں بڑھ رہا ہے ۔ آج ہم خواتین کی ترقی سے آگے خواتین کی قیادت میں ترقی کی بات کر رہے ہیں ۔ اس موقع پر مجھے سوامی وویکانند کے وچن یاد آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا ‘The idea of perfect womanhood is perfect independence’ – سوا سو سال پہلے سوامی کا یہ خیال ہندوستانی تہذیب میں خواتین کی طاقت کے بارے غور و فکر کو ظاہر کرتا ہے ۔ آج سماجی ، اقتصادی زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی برابری کی حصہ داری کو یقینی بنانا ، ہم سب کا فرض ہے۔ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔

ہم اس روایت کا حصہ ہیں، جہاں مردوں کی شناخت خواتین سے ہوتی تھی۔ یشودا – نندن، کوشلیا-نندن، گندھاری پتر ، یہی شناخت ہوتی تھی کسی بیٹے کی۔ آج ہماری خواتین نے اپنے کاموں سے اپنی خود اعتمادی کو ثابت کیا  ہے۔  خود کو خود انحصار بنایا ہے۔ انہوں نے خود کو آگے بڑھایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک اور معاشرے کو آگے بڑھایا ہے اور ایک نئے مقام پر لے جانے کا کام کیا ہے ۔آخر ہمارا ‘نیو انڈیا’ کا خواب یہی تو ہے جہاں خواتین بااختیار ہوں، خوشحال ہوں ، ملک کی مکمل ترقی میں برابر کی حصہ دار ہوں۔ پچھلے دنوں مجھے ایک بہت ہی اچھا مشورہ کسی نے دیا تھا ۔ انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ 8 مارچ ‘یوم خواتین’ منانے کے مختلف پروگرام ہوتے ہیں ۔ کیا ہر گاؤں شہر میں جنہوں نے  100 سال پورے کیے ہیں ایسی ماؤں بہنوں کے اعزاز میں پروگرام منعقد کیے جاسکتے ہیں ؟ اور اس میں ایک طویل عمر کی باتیں کی جاسکتی ہیں کیا؟ مجھے مشورہ اچھا لگا ، آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔ خواتین کی طاقت کیا کر سکتی ہے ، آپ کو ڈھیر سارے مثالیں ملیں گی ۔ اگر آپ آس پاس میں جھانکیں تو کچھ نہ کچھ ایسی کہانیاں آپ کی زندگی میں ترغیب کا باعث بنیں گی۔

ابھی ابھی جھارکھنڈ سے مجھے ایک خبر ملی ہے. ‘سوچھ بھارت مشن ‘ کے تحت جھارکھنڈ میں تقریبا 15 لاکھ خواتین نے – یہ اعداد و شمار چھوٹا نہیں ہے۔  15 لاکھ خواتین نے منظم ہوکر ایک مہینے کی صفائی مہم چلائی ۔ 26 جنوری، 2018 کو شروع ہونے والے اس مہم کے تحت، ان خواتین نے صرف 20 دنوں میں 1لاکھ  70 ہزار بیت الخلاء کی تعمیر کر کے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اس میں تقریبا ایک لاکھ سکھی منڈل شامل ہوئیں ۔ 14 لاکھ خواتین، پنچایت کے 2 ہزار خواتین نمائندوں، 29 ہزار جل سہیا ، 10 ہزار خاتون سوچھا گرھی اور 50 ہزار خواتین راج مستری۔ آپ سوچ  سکتے ہیں کہ کتنا بڑا واقعہ ہے۔ جھارکھنڈ کی ان خواتین نے دکھایا ہے کہ عورتوں کی طاقت، سوچھ بھارت مہم کی ایک ایسی طاقت ہے، جو عام زندگی میں حفظان صحت کے مہم کو، حفظان صحت کی سنسکار کو مؤثر طریقے سے عوام کے مزاج میں تبدیل کرکے رہے گی۔

بھائیوں اور بہنوں، میں صرف دو دن قبل یہ خبر دیکھ رہا تھا کہ ایلفنٹا جزیرے کے تین گاؤں میں آزادی کے 70 سال بعد بجلی پہنچی ہے اور وہاں لوگوں میں کتنا جوش و خروش ہے. آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں ، ایلفنٹا جزیرہ ، ممبئی سے سمندر میں 10 کلومیٹر دورہے۔ یہ سیاحت کا بہت بڑا اور پرکشش مرکز ہے۔ ایلیفنٹا کے غار یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ ہیں۔  ہر روز ہندوستان اور بیرون ملک سے سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے ۔ ایک اہم سیاحتی مقام ہے۔  مجھے یہ بات جان کر حیرانی ہوئی کہ ممبئ کے پاس ہونے اور سیاحت کا اتنا بڑا مرکز ہونے کے باوجود آزادی کے اتنے سالوں تک ایلفنٹا میں بجلی نہیں پہنچی ۔ 70 سال تک ایلفنٹا جزیرے کے تین گاؤں راج بندر ، مور بندر اور سینت بندر وہاں کے لوگوں کی زندگی میں جو اندھیرا چھایا تھا ، اب جا کر وہ اندھیرا چھٹا ہے اور ان کی زندگی روشن ہوئی ہوئی ہے۔ میں وہاں کی انتظامیہ اور عوام کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ مجھے خوشی ہے کہ اب ایلفنٹا کے گاؤں اور ایلفنٹا کے غار بجلی سے روشن ہوں گے۔ یہ صرف بجلی نہیں بلکہ ترقی کے دور کی ایک نئی شروعات ہے ۔ ہم وطنوں کی زندگی روشن ہو، ان کی زندگی میں خوشیاں آئے اس سے بڑھ کر اطمینان اور خوشی کا لمحہ کیا ہوسکتا ہے۔

میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں ابھی ابھی ہم لوگوں نے شیوراتری کا تہوار منایا ۔ اب مارچ کا مہینہ لہلہاتے فصلوں سے سجے کھیت، اٹکھیلیاں کرتی گیہوں کی سنہرے بالیاں اور دل کو موہ لینے والے آم کے منجر کی دلکشی  یہی تو اس مہینے کی خصوصیات ہیں ۔ لیکن یہ مہینہ ہولی کے تہوار کے لیے بھی ہم سبھی کا نہایت پیارا ہے۔ 2 مارچ کو پورا ملک ہولی کا تہوار جوش و خروش سے منائے گا۔ ہولی میں جتنی اہمیت رنگوں کی ہے اتنی ہی اہمیت ‘ہولیکا دہن’ کی بھی ہے کیونکہ یہ دن برائیوں کا آگ میں جلا کر خاکستر کرنے کا دن ہے۔ ہولی دلوں کی ساری کدورت بھول کر ایک ساتھ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کی خوشی میں شریک بننے کا پرمسرت موقع ہے اور پیار ، اتحاد نیز بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔ آپ سبھی ہم وطنوں کو ہولی کے رنگ کے جشن کی بہت بہت مبارکباد، رنگ سے بھری مبارکباد۔ یہ ہمارے ہم وطنوں کی زندگی میں رنگ برنگی خوشیوں سے بھرا رہے ، یہی نیک خواہشات۔ میرے پیارے ہم وطنوں ، بہت بہت شکریہ ، نمسکار۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More