28 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

یوگداست سنگ مٹھ کے 100سال پورے ہونے پرخصوصی یادگاری ڈاک ٹکٹ کے اجراء کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

یوگداست سنگ مٹھ کے 100سال پورے ہونے پرخصوصی یادگاری ڈاک ٹکٹ کے اجراء کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن
Urdu News

یوگی خاندان کی تمام معززشخصیات ! آج 7 مارچ ہے، ٹھیک 65 سال پہلے ایک جسم ہمارے پاس رہ گیا اور ایک محدود دائرے میں بندھی ہوئی روح صدیوں کی عقیدت بن کر پھیل گئی۔

آج ہم 7 مارچ کو ایک خاص موقع پر جمع ہوئے ہیں ۔ میں شري شري ماتا جی کو بھی سلام کرتا ہوں کہ مجھے بتایا گیا کہ وہاں لاس اینجلس میں وہ بھی اس پروگرام میں شریک ہیں ۔

جیسا کہ سوامی جی بتا رہے تھے کہ دنیا کے 95 فیصد لوگ اپنی مادری زبان میں یوگی جی کی سوانح عمری پڑھ سکتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ اس بات پر میرا دھیان جاتا ہے، کیا ہوگی کہ دنیا میں جو انسان جو نہ اس ملک کو جانتا ہے ، نہ یہاں کی زبان جانتا ہے، نہ اس پہناوے کا کیا مطلب ہوتا ہے یہ بھی اس کو پتہ نہیں، اس کو تو یہ ایک كاسٹیوم لگتا ہے، کیا وجہ ہوگی گی کہ وہ اس کو پڑھنے کے لئے اپنی طرف متوجہ کرتی ہوگی، کیا وجہ ہو گی کہ اسے اپنی مادری زبان میں تیار کرکے اوروں تک پہنچانے کا دل کرتاہوگا۔ اس روحانی شعور کےاحساس کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر کوئی سوچتا ہے کہ میں ہی کچھ پرساد تقسیم کروں، ہم مندر میں جاتے ہیں تھوڑا سا بھی پرساد مل جاتا ہے تو گھر جاکر بھی تھوڑا تھوڑا بھی جتنے لوگوں کو تقسیم کرسکیں بانٹتے ہیں۔ وہ پرساد میرا نہیں ہے، نہ ہی میں نے اس کو بنایا ہے لیکن یہ کچھ مقدس ہے ، میں تقسیم کرتا ہوں تو مجھے اطمینان ملتا ہے۔

یوگی جی نے جو کیا ہے ہم اسے پرسادکے طورپر بانٹتے چلے جا رہے ہیں، تو ایک اندرونی روحانی سکھ کا احساس کر رہے ہیں اور وہی نجات کی راہ وغیرہ کی بحث ہمارے یہاں بہت ہوتی ہے، ایک ایسا بھی طبقہ ہے جس کی سوچ ہے کہ اس زندگی میں جو ہے سو ہے، کل کس نے دیکھا ہے کچھ لوگ ہیں جو نجات کے راہ کو ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یوگی جی کی پورے سفر کو دیکھ رہے ہیں تو وہاں نجات کے راستے کی نہیں داخلی سفر کی بحث ہے۔ آپ اندر اندر کتنے جا سکتے ہو، اپنے آپ میں موجود کیسے ہو سکتے ہو، خطاؤں سے پُر توسیع ایک فطرت ہے، روحانیت اندر اندر جانے کی ایک لامحدود سفر ہے اور اس سفر کو صحیح راستے پر، صحیح رفتار سے مناسب منزل پر پہنچانے میں ہمارے رشيوں نے، منيوں نے، آچاریوں نے، بھگوتنیوں، تپسويوں نے ایک بہت بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور وقت وقت پر کسی نہ کسی شکل میں یہ روایت آگے بڑھتی چلی آ رہی ہے۔

یوگی جی کی زندگی کی خاصیت، زندگی تو بہت معمولی مدت کی رہی، شاید وہ بھی کوئی روحانی اشارہ ہوگا۔ کبھی کبھی ہٹیوں کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن وہ نمایاں طور پرہٹ یوگ کے مثبت پہلوؤں کی مدلل طریقے سے تشریح کرتے تھے، لیکن ہر ایک کو کریہ یوگ کی طرف راغب کرتے تھے ۔ اب میں مانتا ہوں یوگ کی جتنی بھی اقسام ہیں، ان میں کریہ یوگ نے اپنا ایک مقام مقرر کیا ہوا ہے، جو ہمیں ہمارےاندر کی جانب لے جانے کے لئے جس قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ یوگا ایسے ہوتے ہیں جس میں جسمانی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کریہ یوگ ایسا ہے جس روحانی وقت کی ضرورت ہوتی ہے، جو روحانی قوت کے سفر کی جانب لے جاتا ہے اور اس وجہ سےزندگی کا مقصد کیسا، بہت کم لوگوں کے ایسے مقصد ہوتے ہیں۔ یوگی جی کہتے تھے بھائی میں اسپتال میں بستر پر مرنا نہیں چاہتا۔ میں تو جوتے پہن کر کے کبھی مہابھارتي کو یاد کرتے ہوئے آخری الوداعی لوں وہ روپ چاہتا ہوں، یعنی وہ بھارت کو الوداع، نمستے کرکے چل دئے، مغرب کی دنیا کو پیغام دینے کا خواب لے کر کے نکل پڑے، لیکن شاید ایک سیکنڈ بھی ایسی کوئی حالت نہیں ہوگی کہ جب وہ اس بھارت ماتا سے الگ ہوئے ہوں۔

میں نے کل کاشی میں تھا، بنارس سے ہی میں رات کو آیا اور یوگی جی کی سوانح عمری میں بنارس میں ان کے لڑكپن کی باتیں بھرپور مقدارمیں، جسم تو گورکھپور میں جنم لیا، لیکن بچپن بنارس میں گزرا اور وہ ماں گنگا اور وہاں کی ساری روایات اس روحانی شہر کی ان کی طبیعت پر جو اثر تھا، جس نے ان لڑكپن کو ایک طرح سے سجایا، سنوارا، گنگا کی مقدس دھارا کی طرح اس کو بہایا اور وہ آج بھی ہم سب کے اندر بہہ رہا ہے۔ جب یوگی جی نے اپنا جسم چھوڑا اس دن بھی وہ گامزن تھے، اپنے فرض کی راہ پر۔ امریکہ میں جو بھارت کے جو سفیر تھے، ان کی اعزازی تقریب چل رہی تھی اور ہندوستان کے اعزازی تقریب میں وہ لیکچر دے رہے تھے اور اسی وقت شاید کپڑے تبدیل کرنے میں دیر لگ گئی اتنی ہی دیر نہیں لگی ایسے ہی چل دیے اور جاتے جاتے ان کو آخری الفاظ تھے، میں سمجھتا ہوں کہ حب الوطنی ہوتی ہے انسانیت کی، روحانیت زندگی کے سفر کو کہاں لے جاتی ہے۔ ان الفاظ میں بڑے حیرت انگیز طور پر، آخری الفاظ ہیں یوگی جی کے اور اسی تقریب میں وہ بھی ایک سفیر کا، سرکاری پروگرام تھا، اور اس پروگرام میں بھی یوگی جی کہہ رہے ہیں جہاں گنگا، جنگل، ہمالیہ، گپھائیں اور انسان خدا کے خواب دیکھتے ہیں یعنی دیکھئے کہاں توسیع ہے غار بھی خدا کا خواب دیکھتا ہے، جنگل بھی خدا کا خواب دیکھتا ہے، گنگا بھی خدا کا خواب دیکھتا ہے، صرف انسان نہیں۔

میں خوش قسمت ہوں کہ میرے جسم نے اس وطن کو چھو ا ہے، جس جسم میں وہ بیٹھے تھے اس جسم کے ذریعے نکلے ہوئے آخری الفاظ تھے۔ پھر وہ روح اپنی بادبانی کر کے چلی گئی جو ہم لوگوں میں پھیلی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایکاتم بھاؤ، آدی شنکر نے ادیتو کے سدھانت کی بحث ہے، جہاں دویتّو نہیں ہے وہی ادویتوتي ہے۔ جہاں میں نہیں، میں اور تو نہیں وہیں ادویتّو ہے۔ جو میں ہوں اور وہ خدا ہے وہ نہیں مانتا، وہ سمجھتا ہے کہ خدا میرے میں ہے، میں خدا میں ہوں، وہ ادویتّو ہے اور یوگی جی نے بھی اپنی ایک نظم میں بہت بڑھیا طریقے سے اس بات کو، ویسے میں اس کو، اس میں لکھا تو نہیں گیا ہے۔ لیکن میں جب اس کا interpretation کرتا تھا، جب یہ پڑھتا تھا تو میں اس کو ادویت کے سددھات کے ساتھ بڑے قریب پاتا تھااور اس میں یوگی جی کہتے ہیں، ” برہما مجھ میں سما گیا، میں برہمامیں سما گیا ”. یہ اپنے آپ میں ادویتّہ کے اصولوں کی ایک سادہ شکل ہے۔ برہما مجھ میں سما گیا، میں براہما میں سما گیا۔ ” گیان، گیاتہ، گیہ ” سب کے سب ایک ہو گئے۔ جیسے ہم کہتے ہیں نہ ” کَرتااورکرم” ایک ہو جائے، تب کامیابی آسان ہو جاتی ہے۔ کرتاکو کِریانہیں کرنی پڑتی اور کرم، کرتا کا انتظار نہیں کرتا۔ کرتا اورکرم ایک روپ ہوجاتے ہیں، تب سِدّھی کی منفرد حالت ہو جاتی ہے۔

اسی طرح سے یوگی جی آگے کہتے ہیں، شانت، اکھنڈ، رومانچ، سدا، شانت، اکھنڈ، رومانچ سدا، شانت، اکھنڈ، رومانچ، سدا کیلئے جیتی جاگتی، نِتیہ-نوتن شانتی، نِت-نوین شانتی یعنی کل کی شانتی آج شائد کام نہ آئے۔ آج مجھے نِت، نوتن، نوین شانتی چاہئے اور اس وجہ سے یہاں سوامی جی نے آخر میں اپنے الفاظ کہے، ” اوم شانتی شانتی ”. یہ کوئی پروٹوکول نہیں ہے، انتہائی تپسیہ کے بعد کی ہوئی پرینیتی کا ایک مقام ہے۔ تبھی تو ‘اوم شانتی، شانتی، شانتی کی بات آتی ہے۔ تمام امیدوں اور تصورات سے پرے، تمام امیدوں اور تصورات سے پرے لطف دینے والا سمادھی کا پَرمانند۔ اس حالت کا بیان جوکہ ایک سمادھی نظم میں، یوگی جی نے بخوبی ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اتنی آسانی سے زندگی کو ڈھال دینا اور پورے یوگی جی کی زندگی کو دیکھیں، ہم ہوا کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ ہوا ہر لمحہ ہوتی ہے پر کبھی ہمیں ہاتھ ادھر لے جانا ہے تو ہوا کہتی نہیں ہے کہ رک جاؤ، مجھے ذرا ہٹنے دو۔ ہاتھ یہاں پھیلا ہوا ہے تو وہ کہتی نہیں کہ رک جاؤ مجھے یہاں بہنے دو۔ یوگی جی نے اپنا مقام اسی شکل میں ہمارے آس پاس قائم کر رکھا ہے کہ ہمیں احساس ہوتا رہے، لیکن رکاوٹ کہیں نہیں آتی ہے۔ خیال ہے کہ ٹھیک ہے آج یہ نہیں کر پاتا ہے کل کر لے گا.۔ یہ انتظار، یہ صبر بہت کم انتظامات اور روایات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یوگی جی نے نظامات کو اتنی لچک دی کہ آج صدی ہو گئی، خود تو اس ادارے کو جنم دے کر چلے گئے، لیکن یہ ایک تحریک بن گیا، روحانی شعور کی مسلسل حالت بن گیا اور اب تک شاید چوتھی نسل آج اس میں فعال ہو جائے گی۔ اس کے پہلے تین چار چلی گئی۔

لیکن نہ ڈِلیوزَن آیا اور نہ ڈائیورزن آیا۔ اگر ادارہ موہ ہوتا، اگر نظام پر مرکوز عمل ہوتا، تو فرد کے خیالات، اثرات، وقت کا اس پر اثر ہوتا، لیکن جو تحریک زمانے کی بندشوں میں بندھی نہیں ہوتی، الگ الگ نسلیں آتی ہیں، تو بھی نظامات میں نہ کبھی ٹکراؤ آتا ہے، نہ کبھی اس کے تئیں غلط جذبات ابھرتے ہیں۔ وہ ہلکے پھلكے طریقے سے اپنا مقدس کام کو کرتے رہتے ہیں۔

یوگی جی کا ایک بہت بڑا تعاون ہے کہ وہ ایک ایسانظام دے کر گئے ، جس نظام میں بندش نہیں ہے، تو بھی جیسے خاندان کا کوئی آئین نہیں ہے، لیکن خاندان چلتا ہے۔ یوگی جی نے بھی اس کا ایسا نظام وضع کیا کہ جس میں بدیہی طور پر سارے کام چل رہے ہیں۔ ان کے باہر جانے کے بعد بھی وہ چلتی رہی اور آج ان کے روحانی لطف کو پاتے-پاتے ہم لوگ بھی اس کو چلا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑا رول ہے۔ دنیا آج اقتصادی زندگی سے متاثرہے، ٹیکنالوجی سے متاثر ہے اور اس وجہ سے دنیا میں جس کا جو علم ہوتا ہے، اسی ترازو سے وہ دنیا کو تولتا بھی ہے۔ میری سمجھ کے حساب سے میں آپ کا اندازہ لگاتا ہوں۔ اگر میری سمجھ کچھ اور ہوگی، تو میں آپ اندازہ مختلف لگاؤنگا، تو یہ سوچنے والے کی صلاحیت، مزاج اور اس ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے دنیا کی نظر سے بھارت کا موازنہ ہوتا ہوگا، تو آبادی کے ضمن میں ہوتا ہوگا، جی ڈی پی کے تناظر میں ہوتاہوگا، روزگار-بے روزگار کے تناظر میں ہوتی ہوگا، تو یہ دنیا کے و ہی ترازو ہیں، لیکن دنیا نے جس ترازو کو کبھی نہیں جانا، پہچانا نہیں، بھارت کی شناخت کا ایک معیار ہے، ایک ترازو ہے اور وہی بھارت کی طاقت ہے، وہ ہے بھارت کی روحانیت۔ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کچھ لوگ روحانیت کو بھی مذہب مانتے ہیں، یہ اور بدقسمتی ہے۔ مذہب، ریلیجن، فرقہ یہ اور روحانیت بہت مختلف ہے اور ہمارے سابق صدر عبدالکلام جی بار بار کہتے تھے کہ بھارت کی روحانیت کاری یہی اس کی طاقت ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہنا چاہئے۔ اس روحانیت کو عالمی اُفق پر پہنچانے کی کوشش ہمارے رشيوں-منيو ں نے کی ہے۔ یوگا ایک سادہ اِنٹری پوائنٹ ہے ۔ میرے حساب سے دنیا کے لوگوں کو آپ آتم وَت سروبھوتیشو سمجھانے جاؤ گے، تو کہاں میل بیٹھے گا۔ ایک طرف جہاں ایٹ ڈِرِنک اینڈ بی مِرّی(یعنی کھاؤ پیو اور خوش رہو) کی بات ہوتی ہے۔ وہاں تین-تیکتین-بھُنجتا کہوں گا تو کہاں گلے اترے گالیکن میں اگر یہ کہوں کہ بھئی آپ ناک پکڑ کر ایسے بیٹھو تھوڑا آرام مل جائے گا، تو وہ اس کو لگتا ہے چلو شروع کر دیتے ہیں۔ تو یوگا جو ہے وہ ہماری روحانی سفر کا اِنٹری پوائنٹ ہے ۔ کوئی اسے آخری نہ مان لیکن بدقسمتی سے دَھن بَل کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ دولت کا میلا ن بھی رہتا ہے اور اس کی وجہ اس کا بھی كمرشيلائزیشن بھی ہو رہا ہے ۔ اتنے ڈالر میں اتنی سمادھی ہوگی یہ بھی … اور کچھ لوگوں نے یوگا کو ہی آخری مان لیا ہے ۔

یوگا آخری نہیں ہے۔ اس آخر کی طرف جانے کا پہلا گیٹ وے ہے اور کہیں پہاڑ پر ہماری گاڑی چڑھانی ہو وہاں دھکے لگاتے ہیں گاڑی بند ہو جاتی ہے لیکن ایک بار چالو ہو جائے تو پھر رفتار پکڑ لیتی ہے، یوگا کا ایک ایسا انٹرنس پوائنٹ ہے کہ ایک بار پہلی بار اس کو پکڑ لیا، نکل گئے پھر تو وہ چلتا رہتا ہے۔ پھر زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی ہے ، وہ عمل ہی آپ کو لے جاتا ہے، کِریہ یوگ ہوتاہے۔

ہمارے ملک میں ایک بار پھر کاشی کی یاد آنا بہت فطری ہے ۔ مجھے سنت کبیر داس جیسے ہمارے سنتوں نے ہر چیز کو کتنی آسانی سے پیش کیا ہے۔ سنت کبیر داس جی نے ایک بڑی دلچسپ بات کہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ یوگی جی پر مکمل طورپر لاگو ہوتی ہے، انہوں نے کہا ہے اودھوتا يگن يگن ہم یوگی … آوے نہ جائے، مٹے نہ كبهوں، سبد اناهت بھوگی … کبیر داس کہتے ہیں یوگی، یوگی تو یُگوں یُگوں تک رہتا ہے … نہ آتا ہے نہ جاتا ہے … نہ ہی مٹتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آج ہم یوگی جی کے اس روحانی شکل کے ساتھ ایک سفرکا احساس کرتے ہیں، تب سنت کبیر داس کی یہ بات اتنی ہی درست ہے کہ یوگی جاتے نہیں ہیں، یوگی آتے نہیں ہیں، وہ تو ہمارے درمیان ہی ہوتے ہیں ۔

اسی یوگی کو نمن کرتے ہوئے آپ کے درمیان اس مقدس ماحول میں مجھے وقت گزارنے کا موقع ملا، مجھے بہت اچھا نہیں لگا پھر ایک بار یوگی جی کی اس عظیم روایت کو سلام کرتے ہوئے تمام سنتوں کو سلام کرتے ہوئے اور روحانی سفر کو آگے بڑھانے کیلئے کوشش کرنے والے ہر شہری کے تئیں احترام کا اظہار کرتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتاہوں۔ شکریہ !

Related posts

7 comments

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More