26 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

‘من کی بات2.0 ’کی چھٹی کڑی میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

میرے پیارے ہم وطنوں، ‘من کی بات’ میں آپ سب کاخیر مقدم ہے ۔ آج من کی بات کی شروعات، نوجوان ملک  کے، نوجوان ، وہ گرمجوشی، وہ حب الوطنی، وہ سیوا کے رنگ میں رنگے نوجوان، آپ جانتے ہیں نا۔نومبر مہینے کا چھوتھا اتوار  ہر سال این سی سی ڈےکی شکل میں منایا جاتا ہے۔ عام طور پر ہماری نوجوان نسل  کو فرینڈ شپ ڈےبرابر یاد رہتا ہے۔ لیکن بہت لوگ ہیں جن کو این سی سی ڈےبھی اتنا ہی یاد رہتا ہے۔ تو چلئے آج این سی سی کے بارے میں باتیں ہو جائے۔ مجھے بھی کچھ یادیں تازہ کرنے کا موق مل جائے گا۔ سب سے پہلے توای سی سی کے سبھی سابق  اور موجودہ کیڈیٹ کو این سی سی ڈےکی بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ میں بھی آپ ہی کی طرح کیڈٹ رہا ہوں، اور من سے بھی، آج بھی اپنے آپ کو کیڈٹ مانتا ہوں،۔ یہ تو ہم سب کو معلم  ہی ہے این سی سی یعنی نیشنل کیڈٹ کورپس ۔ دنیا کے سب سے بڑے یونیفارم یوتھ آرگنائزیشن میں ہندوستان  کی این سی سی ایک ہے۔ یہ ایک ٹری سروس آرگنائزیشن ہے جس میں فوج، بحریہ  اور فضائیہ  تینوں ہی شامل ہیں۔ قیادت، حب الوطنی، جدوجہد، ڈسپلین، بے لوث خدمت ان سب کو اپنے کردارکا حصہ بنا لیں، اپنی عادت بنانے کی ایک دلچسپ سفر مطلب – این سی سی  اس سفرکے بارے میں کچھ اورزیادہ  باتیں کرنے کے لیے آج فون کالس سے کچھ نوجوانوں سے، جنہوں نے  این سی سی میں بھی اپنی جگہ بنائی ہے۔آئیے ان سے باتیں کرتے ہیں۔

وزیر اعظم:     ساتھیوں آپ سب کیسے ہیں۔

ترنم خان:       جے ہند پردھان منتری جی۔

وزیر اعظم:     جے ہند

ترنم خان:                 سر میرا نام جونیئر انڈر آفیسر ترنم خان ہے۔

وزیر اعظم:     ترنم آپ کہاں سے ہیں۔

ترنم خان:                 میں دلی کی رہنے والی ہوں، سر۔

وزیر اعظم:     اچھا۔ تواین سی سی میں کتنے سال، کیسے کیسے تجربات رہے آپ کے؟

ترنم خان:                 سر، میں این سی سی میں 2017 میں بھرتی ہوئی تھی اور یہ تین سال میری زندگی کے سب سے بہترین سال رہے ہیں۔

وزیر اعظم:     واہ، سن کر کے بہت اچھا لگا۔

ترنم خان:       سر، میں آپ کو بتانا چاہوں گی کہ میرا سب سے اچھا ترجبہ  جو رہا وہ ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’ کیمپ میں رہا تھا۔ یہ ہمارا کیمپ اگست میں ہوا تھا جس میں این ای آر ‘نارتھ ایسٹرن ریجن’ کے بچہ بھی آئے تھے۔ ان کیڈٹوں کے ساتھ ہم 10 دن کے لئے رہے۔ ہم نے ان کا رہن سہن سیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی زبان کیا ہے۔ ان کی روایت ان کی ثقافت ہم نے ان سے ایسی کئی ساری چیزیں سیکھی۔ جیسے وائیزوم کا مطلب ہوتا ہے۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔ ویسے ہی، ہماری کلچرل نائٹ ہوئی تھی،اس کے اندر انہوں نے ہمیں اپنا رقص سکھایا، تیہرا کہتے ہیں ان کے رقص کو۔ اور انہوں نے مجھے ‘میکھالا پہننا بھی سکھایا۔ میں سچ بتاتی ہوں،  اس کے اندر بہت خوبصورت ہم سبھی لگ رہے تھے دلی والے اور ہمارے ناگالینڈ کے دوست بھی۔ ہم ان کو دلی درشن پر بھی لیکر گئے تھے ،جہاں ہم نے ان کو نیشنل وار میموریل اور انڈیا گیٹ دکھایا ۔ وہاں پر ہم نے ان کو دلی کی چاٹ بھی کھلائی، بھیل پوری بھی کھلائی لیکن ان کو تھوڑا تیکھا لگا کیونکہ جیسا انہوں نے بتایا ہم کو کہ وہ زیادہ تر سوپ پینا پسند کرتے ہیں، تھوڑی ابلی ہوئی سبزیاں کھاتے ہیں، تو ان کو کھانا تو اتنا اچھا نہیں لگا، لیکن، اس کے علاوہ ہم نے ان کے ساتھ کافی تصویریں کھینچیں،  کافی ہم نے  تجربہ شیئر کیے اپنے۔

وزیر اعظم :    آپ نے ان سے رابطہ بنائے رکھا ہے ؟

ترنم خان :      جی سر، ہمارے رابطے  ان سے اب تک بنے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم :    چلئے ،اچھا کیا آپ نے۔

ترنم خان :                جی سر

وزیر اعظم :    اور کون ہے ساتھی آپ کے ساتھ؟

شری ہری جی وی :    جے ہند سر۔

وزیر اعظم:     جے ہند

شری ہری جی وی :    میں سینئر انڈر آفیسر شری ہری  جی وی بول رہا ہوں۔ میں بنگلورو، کرناٹک  کا رہنے والا ہوں۔

وزیر اعظم :    اور آپ کہاں پڑھتے ہیں ؟

شری ہری جی وی:     سر بنگلورو میں کرسٹوجینتی کالج میں۔

وزیر اعظم :    اچھا، بنگلورو میں ہی ہیں !

شری ہری جیوی:       یس سر

وزیر اعظم:     بتایئے

شری ہری جی وی :    سر، میں کل ہی یوتھ ایکسچینج پروگرام سنگاپور سے واپس آیا تھا

وزیر اعظم:     ارے واہ!

شری ہری جی وی:     ہاں سر

وزیر اعظم:     تو آپ کو موقع مل گیا وہاں جانے کا

شری ہری جی وی:     ہاں سر

وزیر اعظم:     کیسا  تجربہ رہا سنگاپور میں ؟

برطانیہ، امریکہ، سنگاپور، برونئی، ہانگ کانک اور نیپال، یہاں پر ہمیں لڑائی کی مشق اور بین الاقوامی فوجی مشق کا ایک ایکسچینج سیکھا تھا۔ یہاں پر ہماری کارکردگی کچھ الگ ہی تھی سر، ان میں سے ہمیں اوٹر اسپورٹس اور مہم جوئی کی سرگرمیاں سکھائی گئی تھی اور واٹرپولو ٹورنامنٹ میں ہندوستانی ٹیم نے جیت حاصل کی تھی سر اور ثقافتی میں ہم مجموعی طور پر کارکردگی کرنے والوں میں سے تھے سر، ہمارا ڈرل اور ورڈ آف کمانڈ بہت اچھا لگا تھا سر ان کو۔

وزیر اعظم:     آپ کتنے لوگ تھے ہری ؟

شری ہری جی وی:     20 لوگ سر ہم 10 لڑکے اور 10 لڑکیاں تھے سر۔

وزیر اعظم:     ہاں یہی، ہندوستان  کے سبھی الگ الگ ریاست  سے تھے؟

شری ہری جی وی:     ہاں سر۔

وزیر اعظم : چلئے، آپ کے سارے ساتھی آپ کا  تجربہ  سننے کےلیے بہت بے تاب ہوں گے لیکن مجھے اچھا لگا۔ اور کون ہے آپ کے ساتھ ؟

ونولے کسو :   جے ہند سر،

وزیر اعظم:     جے ہند

ونولے کسو : میرا نام ہے سینئر انڈر آفیسرونولے کسو۔ میں نارتھ  ایسٹرن ریجن ناگالینڈ ریاست سے ہوں سر

وزیر اعظم :    ہاں، ونولے، بتائیے کیا تجربہ  ہے آپ کا ؟

ونولے کسو :   سر، میں جوزف کالج، جکھاما آٹومس میں پڑھائی کر رہا ہے ، بی اے ہسٹری (آنرس) میں۔ میں نے 2017 سال میں این سی سی جوائن  کیا اور یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اور اچھا فیصلہ تھا، سر۔

وزیر اعظم:     این سی سی کے باعث ہندستان میں کہاں کہاں جانے کاموقع ملا ہے ؟

ونولے کسو :   سر، میں نے این سی سی جوائن  کیا اور بہت سیکھا تھااور مجھے مواقع بھی بہت ملے تھے اور میرا ایک تجربہ وہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ میں نے اس سال 2019 جون مہینے سے ایک کیمپ میں شریک ہوا اور وہ سازولی کالج کوہیما میں ہوا۔ اس کیمپ میں 400 کیڈٹ نے شرکت کی

وزیر اعظم:     تو ناگالینڈ میں سارے آپ کے ساتھی جاننا چاہتے ہوں گے کہ ہندستان میں کہاں گئے، کیا کیا دیکھا ؟ سب تجربہ بتاتے ہو سب کو ؟

ونولے کسو:    یس سر

وزیر اعظم:     اور کون ہے آپکے ساتھ ؟

اکھل:            جے ہند سر، میرا نام جونیئر انڈر آفیسر اکھل ہے۔

وزیر اعظم:     ہاں اکھل، بتایئے۔

اکھل:            میں روہتک، ہریانہ کا رہنے والا ہوں، سر۔

وزیر اعظم:     ہاں۔۔۔۔۔

اکھل:            میں دیال سنگھ کالج، دلی یونیورسٹی سے فزکس آنرس کر رہا ہوں،۔

وزیر اعظم:     ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔

اکھل:            سر، مجھے این سی سی میں سب سے اچھا ڈسپلن لگا ہے، سر۔

وزیر اعظم:     واہ۔۔۔۔۔۔

اکھل :           اس نے مجھے اور زیادہ ذمہ دارشہری بنایا ہے ، سر این سی سی کیڈٹ کی ڈرل یونیفارم مجھے بیحد پسند ہے۔

وزیر اعظم :    کتنے کیمپ کرنے کا موقع ملا، کہاں کہاںجانے کا موقع ملا ؟

اکھل :           سر، میں نے 3 کیمپ  کیے ہیں سر۔ میں حال ہی میں انڈین ملٹری اکیڈمی، دہرا دون میں اٹیچمنٹ کیمپ کا حصہ رہا ہوں۔

وزیر اعظم:     کتنے دنوں  کا تھا ؟

اکھل :           سر، یہ 13 دن کا کیمپ کا تھا سر۔

وزیر اعظم      :         اچھا

اکھل :           سر، میں نے وہاں پر ہندوستانی  فوج میں افسر کیسےبنتے ہیں ،اسکو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور اس کے بعد میراہندستانی   فوج میں افسر بننے کاعہد اور زیادہ مستحکم  ہوا ہے سر۔

وزیر اعظم :    واہ۔۔۔

اکھل :           اور سر میں نے یوم جمہوریہ کے پیریڈ میں بھی حصہ لیا تھا اور وہ میرے لیے اور میرے خاندان  کے لیے بہت ہی فخر  کی بات تھی۔

وزیر اعظم:     شاباش۔۔۔

اکھل :           مجھ  سے زیادہ خوش میری ماں تھی سر۔ جب ہم صبح 2 بجے اٹھ کر راج پتھ پر مشق کرنے جاتے تھے تو جوش ہم میں اتنا ہوتا تھا کہ وہ دیکھنے لائق تھا۔ باقی فوجی دستوں کے لوگ جو ہماری اتنی حوصلہ افزائی  کرتے تھے راج پتھ پرمارچ  کرتے وقت ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے سر۔

وزیر اعظم :    چلئے آپ چاروں سے بات کرنے کا موقع ملااور وہ بھی این سی سی ڈے پر۔ میرے لئے بہت خوشی کی بات ہے کیونکہ میری بھی خوش قسمتی رہی  کہ میں بھی بچپن میں اپنے گاؤں کے اسکول میں این سی سی کیڈ ٹ رہا تھا تو مجھے معلوم ہے کہ یہ ڈسپلن، یہ یونیفارم اس کے باعث  جو اعتماد کی سطح بڑھتی ہے، یہ ساری چیزیں بچپن میں مجھے ایک این سی سی کیڈٹ کی حیثیت سےتجربہ کرنے کا موقع ملا تھا۔

ونولے :                   پردھان منتری جی میرا ایک سوال ہے۔

وزیر اعظم:     ہاں بتایئے۔۔۔۔

ونولے :                   کیا آپ بھی ایک این سی سی کا حصہ رہے ہیں؟

وزیر اعظم:     کون؛ ونولے بول رہے ہو؟

ونولے           یس سر، یس سر

وزیر اعظم:     ہاں ونولے بتائیے۔۔۔

ونولے :                   کیا آپ کو کبھی بھی سزا ملی تھی ؟

وزیر اعظم:     (ہنس کر) اس کا مطلب کہ آپ لوگوں کو سزا ملتی ہے؟

ونولے :                   ہاں سر۔

وزیر اعظم:     جی نہیں، مجھے ایسا کبھی ہوا نہیں کیونکہ میں بہت ہی، ایک طرح سے ڈسپلن میں یقین رکھنے والا تھا لیکن ایک بار ضرورغلط فہمی ہوئی تھی۔جب ہم کیمپ میں تھے تو میں ایک پیڑ پر چڑھ گیا تھا۔ تو پہلے تو ایسا ہی لگا کہ میں نے کوئی قانون توڑ دیا ہے لیکن بعد میں سب کو دھیان  آیا کہ وہاں، یہ پتنگ کی ڈور میں ایک  چڑیا  پھنس گئی تھی۔ تو اس کو بچانے کے لیے میں وہاں چڑھ گیا تھا۔ تو خیر، پہلے تو لگتا تھا کہ مجھ پر کوئی ڈسپلن ایکشن ہوں  گے لیکن بعد میں میری بڑی واہ واہی ہوئی۔تو اس طرح  سے ایک الگ ہی تجربہ ہوا مجھے ۔

ترنم خان :                جی سر، یہ جان کر بہت اچھا لگا سر۔

وزیر اعظم :    تھینک یو

ترنم خان:                 میں ترنم بات کر رہی ہوں،۔

وزیر اعظم :    ہاں ترنم، بتائیے۔۔۔

ترنم خان :      اگر آپ کی اجازت  ہو تو میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہوں گی سر۔

وزیر اعظم :    جی۔۔۔ جی۔۔۔ بتائیے۔

ترنم خان :                سر، آپ نے اپنے  پیغام  میں ہمیں کہا ہے کہ ہر ہندوستانی شہری کو 3 سالوں میں 15 جگہ تو جانا ہی چاہیئے۔ آپ ہمیں بتانا چاہیں گے کہ ہمیں کہاں جانا چاہیئے ؟ اور آپ کو کس جگہ جا کر سب سے اچھا محسوس ہوا تھا ؟

وزیر اعظم:     ویسے میں ہمالیہ کو بہت پسند کرتا رہتا ہوں،ہمیشہ۔

ترنم خان:                 جی ۔۔۔۔۔

وزیر اعظم:     لیکن پھر بھی میں ہندستان  کے لوگوں سے گذارش کروں گا کہ اگر آپ کو فطرت سے محبت ہے ۔

ترنم خان :      جی۔۔۔

وزیر اعظم:     گھنے جنگل، جھرنے، ایک الگ ہی طرح  کا ماحول دیکھنا ہے تو میں سب کو کہتا ہوں، آپ شمال مشرق  ضرور جائیں۔

ترنم خان  :     جی سر۔

وزیر اعظم :    یہ میں ہمیشہ بتاتا ہوں، اور اس کے باعث شمال مشرق میں سیاحت بھی بڑھے گا۔ معیشت کو بھی بہت فائدہ ہوگا اور ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’ کے  خواب  کو بھی وہاں مضبوطی ملے گی۔

ترنم خان :                جی سر۔

وزیر اعظم :    لیکن ہندستان میں ہر جگہ پر بہت کچھ دیکھنے  لائق  ہے، مطالعہ  کرنے کے لائق ہے اور ایک طرح سے روح  صاف کرنے جیسا ہے۔

شری ہری جی وی :    پردھان منتری جی، میں شری ہری بول رہا ہوں۔

وزیر اعظم :    جی ہری بتائیے۔۔۔

شری ہری جی وی:     میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں، کہ آپ ایک سیاستداں نہ ہوتے تو آپ کیا ہوتے ؟

وزیر اعظم :    اب یہ تو بڑا مشکل  سوال ہے کیونکہ ہر بچے کی زندگی  میں کئی پڑاؤ آتے ہیں۔ کبھی یہ بننے کا من کرتا ہے، کبھی وہ بننے کا من کرتا ہے لیکن یہ بات صحیح ہے کہ مجھے کبھی سیاست  میں آنے کا من نہیں تھا، نہ ہی کبھی سوچا تھا لیکن اب پہنچ گیا ہوں، تو جی جان سے ملک کے کام آؤں، اس کے لیے سوچتا رہتا ہوں، اور اسلئے اب میں ‘یہاں نہ ہوتا تو کہاں ہوتا’ یہ سوچنا ہی نہیں چاہیئے مجھے۔ اب تو جی جان سے جہاں ہوں، وہاں جی بھرکر کے جینا چاہیئے، جی جان سے جٹنا چاہیئے اور جم کر کے ملک  کے لیے کام کرنا چاہیئے۔ نہ دن دیکھنا ہے، نہ رات دیکھنی ہے بس یہی ایک مقصد سے اپنے آپ کو میں نے کھپا دیا ہے۔

اکھل :           پردھان منتری جی۔۔۔

وزیر اعظم:     جی۔۔۔

اکھل :           آپ دن میں اتنے مشغول رہتے ہیں تو میرا یہ تجسس تھا جاننے کے لیے کہ آپ کو ٹی وی۔ دیکھنے کا، فلم دیکھنے کا یا کتاب پڑھنے کا وقت ملتا ہے ؟

وزیر اعظم :    ویسے مجھے کتاب پڑھنے کی دلچسپی  تو رہتی تھی۔

فلم دیکھنے کی کبھی دلچسپی  بھی نہیں رہی، اس میں وقت کی بندش تو نہیں ہے اور نہ ہی اس  طرح سے ٹی وی دیکھ پاتا ہوں،۔ بہت کم۔ کبھی کبھی پہلے ڈسکوری چینل دیکھا کرتا تھا، تجسس کے باعث اور کتابیں پڑھتا تھا لیکن ان دنوں تو پڑھ نہیں پاتا ہوں، اور دوسرا گوکل کی وجہ سے بھی عادتیں خراب ہو گئی ہیں کیونکہ اگر کسی حوالے کو دیکھنا ہے تو فوراً شارٹ کٹ  ڈھونڈ لیتے ہیں۔ تو کچھ عادتیں جو سب کی بگڑی ہیں، میری بھی بگڑی ہے۔چلئے دوستوں، مجھے بہت اچھا لگا آپ سب سے بات کرنے کے لیے اور میں آپ کے توسط  سےاین سی سی کے سبھی کیڈٹ کو بہت بہت مبارکباد دیتا  ہوں،۔ بہت بہت شکریہ  دوستوں،تھینک یو

سبھی:  این سی سی کیڈٹ  بہت بہت شکریہ  سر، تھینک یو

وزیر اعظم:     تھینک یو، تھینک یو

سبھی:           این سی سی کیڈٹ جے ہند، سر

وزیر اعظم :    جے ہند۔

سبھی:           این سی سی کیڈٹ جے ہند، سر

وزیر اعظم:     جے ہند، جے ہند۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہم سبھی  ہم وطنوں  کو یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ 7 دسمبر کومسلح افواج  کے  پرچم  کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہم اپنے بہادر سپاہیوں  کو، ان کی طاقت کو، ان کی قربانی  کو یاد تو کرتے ہی ہیں لیکن  خدمات بھی کرتے ہیں۔ صرف  احترام کا جذبہ  اتنے سے بات چلتی نہیں ہے۔اشتراک ضروری ہوتا ہے اور 07 دسمبر کو ہر شہری  کو آگے آنا چاہیئے۔ ہر ایک کے پاس اس دن مسلح افواج کاپرچم ہونا ہی چاہیئے اور ہر کسی کی شرکت  بھی ہونی  چاہیئے۔ آئیے، اس موقع  پر ہم اپنی مسلح افواج کی بے مثال جرأت، بہادر اور خود سپردگی کے جذبے کے تئیں شکریہ ادا کریں اور بہادر فوجیوں کو یاد کریں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہندستان  میں فٹ انڈیا موومنٹ سے تو آپ  متعارف  ہو ہی گئے ہوں گے۔ سی بی ایس ای نے ایک قابل تعریف  پہل کی ہے۔ فٹ انڈیا ہفتہ  منانے کی۔ فٹ انڈیا، اسکول ہفتہ  دسمبر مہینے میں کبھی بھی منا سکتے ہیں۔ اس میں فٹنس  کو لیکر کئی طرح  کے پروگرام منعقد کئے جانے ہیں۔ اس میں کوئز، مضامین، ڈرائنگ اور روایتی وعلاقائی  کھیل، یوگاسن، رقص جیسے  کھیل کود  مقابلہ شامل  ہیں۔ فٹ انڈیا ہفتہ  میں طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ ما والدین بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ مت بھولنا کہ فٹ انڈیاکا مطلب صرف دماغی کسرت، کاغذی کسرت یا لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر پر یا موبائل فون پر فیٹنس کی ایپ دیکھتے رہنا۔ جی نہیں ! پسینہ بہانا ہے۔ کھانے کی عادتیں بدلنی ہے۔  زیادہ تر  توجہ سرگرمی انجام دینے  کی عادت بنانی ہے۔ میں ملک کی سبھی ریاستوں  کے اسکول بورڈ اور اسکول انتظامیہ سے اپیل کرتا ہوں، کہ ہراسکول میں، دسمبر مہینے میں، فٹ انڈیاہفتہ منایا جائے۔ اس سے فٹنس کی عادت ہم سبھی کی روزمرہ  میں شامل ہوگی۔ فٹ انڈیا مؤمنٹ میں فٹنس کو لیکر اسکولوں کی رینکنگ کے انتظامات  بھی کیے گئے ہیں۔ اس رینکنگ  کو حاصل کرنے والے سبھی اسکول، فٹ انڈیا لوگو اور پرچم کا استعمال بھی کر پائیں گے۔ فٹ انڈیا پورٹل  پر جاکر اسکول خود کو فٹ قرار دے سکتے ہیں۔ فٹ انڈیا  تھری اسٹار  اور فٹ انڈیا فائیو اسٹار ریٹنگ بھی دی جائیگی۔ میں گذارش کرتا ہوں کہ سبھی اسکول، فٹ انڈیا رینکنگ میں شامل ہوں اور فٹ انڈیا یہ آسان بنے۔ ایک عوامی تحریک بنے۔ بیدار پیدا ہو۔اس کے لیے کوشش کرنی چاہئے۔

میرے پیارے  ہم وطنو ، ہمارا ملک اتنا عظیم ہے اتنے تنوع سے بھرا ہوا ہے کہ بہت سی   ہمارے دھیان میں ہی نہیں آتی ہیں اور فطری بھی ہے۔ ویسے ایک بات میں آپ کو شیئر کرنا چاہتا ہوں،۔ کچھ دن پہلے مائی گو  پر ایک کمنٹ پر میری نظر پڑی۔ یہ کمنٹ آسام  کے نوگاؤں  کے شریمان رمیش شرما جی نے لکھا تھا۔ انہوں نے لکھا برہم پتر ندی پر ایک  میلہ چل رہا ہے۔ جس کا نام ہے برہم پتر پشکر۔ 04 نومبر سے 16 نومبر تک یہ  میلہ  تھا اور اس برہم پتر پشکر میں شامل ہونے کے لیے ملک کے مختلف حصوں کئی لوگ وہاں  شامل ہوئے ہیں۔ یہ سن کر آپ کو بھی حیرانی ہوئی نہ۔ ہاں یہی تو بات ہے یہ اہم میلہ اور ہمارے اجداد نے اس کی تخلیق کی ہے  کہ جب پوری بات سنو گے تو آپ کو بھی حیرانی ہوگی۔لیکن بدقسمتی  سے اس کی جتنی وسیع  پیمانے پر تشہیر  ہونی چاہئے۔ جتنی ملک کے گوشے گوشے  میں جانکاری ہونی چاہیئے، اتنی تعداد میں نہیں ہوتی ہے۔ اور یہ بھی بات صحیح  ہے اس پورا  انعقاد ایک طرح ایک ملک ایک پیغام اور ہم سب ایک ہیں۔ اس جذبے کو بھرنے والا ہے، طاقت دینے والا ہے۔

سب سے پہلے تو رمیش جی آپ کا بہت بہت شکریہ  کہ آپنے ‘من کی بات’ کے توسط سے ہم وطنوں کے بیچ یہ بات شیئر کرنے کا عہد  کیا۔آپ نے دکھ   کا بھی اظہار کیا ہے کہ  اتنی اہم  بات کی کوئی وسیع پیمانے پر  چرچا نہیں ہوتی ہے، پرچار نہیں ہوتا ہے۔آپ کا دکھ  میں سمجھ سکتا ہوں،۔ملک میں زیادہ لوگ اس  کے بارے میں  نہیں جانتے ہیں۔ ہاں،اگر شاید کسی نے اسکو بین الاقوامی دریا فیسٹیول کہہ دیا ہوتا، کچھ بڑے شاندار لفظوں کا استعمال کیا ہوتا، تو شاید، ہمارے ملک میں کچھ لوگ ہیں جو ضرور اس پر کچھ نہ کچھ رائے کا اظہار کرتے اور تشہیر بھی ہو جاتی۔

میرے پیارے ہم وطنو  پشکرم، پشکرالو، پشکر کیا آپ نے کبھی یہ الفاظ  سنے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں آپ کو پتہ ہے یہ کیا ہے، میں بتاتا ہوں، یہ ملک کہ بارہ الگ الگ ندیوں پر جو فیسٹیول منعقد  ہوتے ہیں اس کے مختلف  نام ہیں۔ہر سال  ایک ندی پر یعنی اس ندی کا نمبر پھر بارہ سال  کے بعد آتا  ہے، اور یہ میلہ ملک  کے الگ الگ گوشے کی بارہ ندیوں پر ہوتا ہے، باری باری سے ہوتا ہے اور بارہ دن چلتا ہے کنبھ کی طرح ہی یہ میلہ  بھی قومی اتحاد  کو فروغ  دیتا ہے اور ‘ایک بھارت شریسٹھ بھارت’ کے درشن کراتا ہے۔پشکرم یہ ایسا اتسو ہے جس میں ندی کی اہمیت  ، ندی کافخر ،  زندگی میں  ندی کی اہمیت  ایک آسان طریقے سے  اجاگر ہوتی ہے!

ہمارے  اجداد  نے فطرت کو ماحولیات، پانی کو،  زمین کو ، جنگل کوبہت اہمیت دی۔انہوں نے ندیوں کی اہمیت کو سمجھا اور سماج کو ندیوں کے تئیں مثبت جذبہ کیسے پیدا ہو، ایک سنسکار کیسے بنیں ، ندی کے ساتھ سنسکرتی کی دھارا، ندی کے ساتھ سنسکار کی دھارا ، ندی کے ساتھ سماج کو جوڑ نے کی کوشش  یہ مسلسل  چلتا رہا اور مزیدار بات یہ ہے کہ سماج ندیوں سے بھی جڑا اور آپس میں بھی جڑا۔پچھلے سال تمل ناڈو کے تعمیر برنی ندی پر پشکرم ہوا تھا۔اس سال یہ برہم پتر ندی پر منعقد ہوا اور آنے والے سال میں تنگ بھدرا ندی آندھر پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک میں منعقد ہوگا۔ایک طرح سے آپ ان بارہ مقامات  کا سفر ایک ٹورسٹ سرکٹ  کی شکل میں بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں میں آسام  کے لوگوں کی گرم جوشی ان کی ضیافت کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے پورے ملک سے آئے تیرتھ یاتریوں کے ساتھ بہت خوبصورت برتاؤ  کیا۔منتظمین  نے صفائی  کا بھی پورا خیال رکھا۔ پلاسٹک فری زون یقینی بنایا ۔ جگہ جگہ بایو ٹوائلٹ کا بھی انتظام کیا ۔مجھے امید ہے کہ ندیوں کے تئیں  اس طرح کے جذبے کو ابھارنے کا یہ ہزاروں سال پرانا ہمارا  میلہ آئندہ نسل کو بھی جوڑے۔ فطرت ، ماحولیات ، پانی یہ  ساری چیزیں ہماری سیاحت کا بھی حصہ بنیں، زندگی کا بھی حصہ بنیں۔

میرے پیارے ہم وطنو نمو ایپ پر مدھیہ پردیش سے بیٹی شویتا لکھتی ہے، اور اس نے لکھا ہے، سر،میں  نویں کلاس میں ہوں، میرے بورڈ کے امتحان میں ابھی ایک سال کاوقت  ہے لیکن میں طالب علموں اور ایگزام واریئر کے ساتھ آپ کی بات چیت لگاتار سنتی ہوں، میں نے آپ کو اسلئے لکھا ہے کیونکہ آپ نے ہمیں اب تک یہ نہیں بتایا ہے کہ اگلے امتحان  پربات چیت  کب ہوگی۔ مہربانی کرکے  آپ اسے جلد سے جلد کریں۔اگر، ممکن ہو تو ، جنوری میں ہی اس  پروگرام کا انعقاد کریں ۔ ساتھیو،‘من کی بات’ کے بارے میں مجھے یہی بات بہت اچھی لگتی ہے – میرے نوجوان دوست مجھے، جس حق اور محبت کے ساتھ شکایت کرتے ہیں، حکم دیتے ہیں، صلاح دیتے ہیں – یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔شویتا جی، آپ نے بہت ہی صحیح وقت پر اس موضوع  کو اٹھایا ہے۔ امتحانات آنے والے ہیں تو، ہر سال کی طرح ہمیں امتحانات کے بارے میں بات چیت بھی کرنی ہے۔ آپ کی بات صحیح ہے اس  پروگرام کو تھوڑا پہلے منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔

پچھلے پروگرام کے بعد کئی لوگوں نے اسے اور زیادہ مؤثر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی بھیجی ہیں، اور، شکایت بھی کی تھی کہ پچھلی بار دیر سے ہوا تھا، امتحانات  ایک دم قریب آگئے تھے۔ اور شویتا کی رائے صحیح  ہے کہ مجھے، اسکو، جنوری میں کرنا چاہیئے۔ ایچ آر ڈی منسٹری اور مائی گو کی ٹیم ملکر، اس پر کام کر رہی ہیں۔ لیکن،میں، کوشش کروں گا، اس بار امتحان پر بات چیت  جنوری کے شروع میں یا وسط  میں ہو جائے۔ملک بھر کے طالب علم کے پاس دو مواقع  ہیں۔  پہلا، اپنے اسکول سے ہی اس پروگرام  کا حصہ بننا۔دوسرا، یہاں دلی میں ہونے والے  پروگرام  میں حصہ  لینا۔ دلی کے لیے ملک  بھر سے طالب علموں  کا انتخاب مائی گو کے توسط  سے کیا جائیگا۔ ساتھیو، ہم سب کو ملکر امتحان  کے خوف کو بھگانا ہے۔ میرے نوجوان   ساتھی امتحانات کے وقت ہنستے کھلکھلاتے دکھیں، والدین تناؤ  سے آزاد  ہوں، اساتذہ مطمئن ہوں، اسی مقصد  کو لیکر، پچھلے کئی سالوں سے، ہم،‘من کی بات’ کے توسط سے  ‘پریکشا پر چرچا’ ٹاؤن کے توسط سے یا پھر ایگزام واریئرس بک  کے توسط سے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ اس مشن کو ملک بھر کے طلبا  نے، والدین نے، اور اساتذ نے رفتار  دی اسکے لیے میں ان سب کا شکر گذار ہوں۔ اور، آنے والی امتحان پر بات چیت کا پروگرام ہم سب مل کر کریں گے۔ آپ سب کو دعوت دیتا ہوں۔

ساتھیو، پچھلے ‘من کی بات’ میں ہم نے 2010 میں ایودھیا معاملے میں آئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بارے میں بات چیت  کی تھی، اور، میں نے کہا تھا کہ ملک نے تب کس طرح سے امن  اور بھائی چارہ بنائے رکھا تھا۔ فیصلے  آنے کے پہلے بھی، اور، فیصلہ  آنے کے بعد بھی۔اس بار بھی، جب، 9 نومبر کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، تو 130 کروڑ  ہندوستانی  نے،پھر سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کے لیے ملک کے مفاد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ملک میں امن، اتحاد اور یکجہتی کے اقدار سب سے اوپر ہیں۔ رام مندر پر جب فیصلہ آیا تو پورے ملک نے اسے دل کھول کر گلے لگایا۔ پوری دلجوئی اور امن وامان کے ساتھ قبول کیا۔آج،‘من کی بات’ کے  توسط سے میں ہم وطنوں کو مبارکباد دیتا ہوں،شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے جس طرح کے صبر وتحمل اور باشعور ہونے کا ثبوت دیا ہے میں، اسکے لیے خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں،۔ایک طرف، جہاں، طویل عرصے کے بعد قانونی لڑائی ختم  ہوئی ہے، وہیں، وہیں دوسری طرف عدلیہ کے تئیں ملک کا احترام اور بڑھا ہے۔ صحیح معنوں میں یہ فیصلہ ہماری عدالیہ کے لیے بھی سنگ میل کا ثابت ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس تاریخی  فیصلے کے بعد، اب ملک ، نئی امیدوں اور نئی تمناؤوں کے ساتھ نئے راستے پر، نئے ارادے لیکر چل پڑا ہے۔ جدید ہندوستان اسی جذبے کو اپنا کر امن، ایکتا اور یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھے – یہی میری تمنا ہے، ہم سب کی آرزو  ہے۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، ہماری تہذیب، ثقافت اور زبانیں پوری دنیا کو  کثرت میں وحدت ، پیغام دیتی ہیں۔  130 کروڑ  ہندوستانیوں کا یہ وہ  ملک ہے ہے، جہاں کہا جاتا تھا، کہ، ‘کوس کوس پر پانی بدلے اور چار کوس پر وانی’۔ہمارے ہندوستان کی سرزمین پر سیکڑوں زبانیں صدیوں سے پھل پھول رہی ہیں ۔حالانکہ، ہمیں اس بات کی بھی فکر  ہوتی ہے کہ کہیں زبانیں  اور بولیاں ختم تو نہیں ہو جائیں گی ! پچھلے دنوں، مجھے، اتراکھنڈ کے دھارچلا کی کہانی پڑھنے کو ملی۔مجھے کافی اطمینان ہوا ۔ اس کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح  لوگ اپنی زبانوں ، اسے  فروغ ا دینے کے لیے، آگے آ رہیں ہے۔ کچھ، اختراعات کر رہیں ہیں دھارچلا خبر میں نے، میرا، دھیان بھی، اسلئے گیا کہ کسی وقت ،میں، دھارچولا میں آتے جاتے رکا  کرتا تھا۔ اُس پار نیپال، اِس پار کالی گنگا – تو فطری طور پر  دھارچلا سنتے ہی، اس خبر پر، میرا دھیان گیا۔  پتوڑا  گڑھ کے دھارچولا میں، رنگ طبقے کے کافی لوگ رہتے ہیں، انکی، آپسی بات چیت کی زبان  رگلو ہے۔یہ لوگ اس بات کو سوچ کر بہت  دکھی ہو جاتے تھے کہ ان کی زبان  بولنے والے لوگ لگاتار کم ہوتے جا رہے ہیں – پھر کیا تھا، ایک دن، ان سب نے، اپنی زبان کو بچانے کا عہد کرلیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس مشن میں رنگ طبقے  کے لوگ جڑتے چلے گئے۔آپ حیران ہو جائیں گے، اس طبقے  کے لوگوں کی  تعداد ، گنتی بھر کی ہے۔موٹا موٹا انداز کر سکتے ہیں کہ شاید دس ہزار ہو، لیکن، رنگ زبان  کو بچانے کے لیے ہر کوئی مصروف ہو گیا، چاہے، چوراسی سال کے بزرگ دیوان سنگھ ہوں یا بائیس سال  کی نو جوان  ویشالی گبریال پروفیسر ہوں یا تاجر ، ہر کوئی،ہر ممکن  کوشش میں لگ گیا۔اس مشن میں، سوشل مڈیا کا بھی بھرپور پر استعمال کیا گیا۔  کئی واٹس ایپ گروپ بنائے گئے۔  سیکڑوں لوگوں کو، اس پر بھی، جوڑا گیا۔ اس زبان  کا کوئی رسم الخط   نہیں ہے۔صرف، بول چال میں ہی ایک طرح  سے اسکا چلن ہے۔ایسے میں، لوگ کہانیاں، نظمیں  اور گانے پوسٹ کرنے لگے۔ ایک دوسرے کی زبان  ٹھیک کرنے لگے۔ ایک طرح  سے واٹس ایپ ہی کلاس روم بن گیا  بن گیا جہاں ہر کوئی استاد بھی  ہے اور طالب علم بھی!رنگ لوک زبان  کو تحفظ کرنے کی کوشش  میں ہے۔ طرح طرح کے  پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ رسالے  نکالے جا رہے ہیں۔ اس میں سماجی اداروں کی بھی مدد مل رہی ہے۔

ساتھیو، خاص بات یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ  نے 2019 یعنی اس  سال  کو ‘مقامی زبانوں کا بین الاقوامی سال’ قرار دیا ہے۔ یعنی ان زبانوں  کو تحفظ فراہم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جو ختم ہونےکے قریب ہیں۔ ڈیڑھ سو سال پہلے، جدید ہندی  کے بانی ، بھارتیندو ہریش چندر جی نے بھی کہا تھا :-

نج بھاشا انتی اہے، سب انتی کو مول،

بن نج بھاشا گیان کے، مٹت نہ ہیہ کو سول۔

یعنی ، مادری زبان کے علم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں رنگ طبقے  کی یہ پہل پوری دنیا کو ایک راہ دکھانے والی ہے۔ اگر  آپ بھی اس کہانی سے متاثر ہوئے ہیں، تو، آج سے ہی، اپنی مادری زبان  یا بولی کا خود استعمال  کریں۔ خاندان کو، سماج کو ترغیب دیں۔

19ویں صدی  کے آخری عہد  میں عظیم شاعر سبرامنیم بھارتی جی نے کہا تھا اور تمل میں کہا تھا۔ وہ بھی ہم لوگوں کے لیے بہت ہی اثر انگیز ہے۔ سبرمنیم بھارتی جی نے تمل بھاشا میں کہا تھا :

مپدو کو ڈی مگمڈییال

ایر موئمبر اوندڈییال

اول سیپو مولی پدھنیٹوڈییال

اینرسندنیؤندڈ

اور اس وقت یہ 19ویں صدی کے  یہ نصف آخر کی بات ہے اور انھوں نے کہا کہ مادر ہند کے 30 کروڑ چہرے ہیں، لیکن جسم ایک ہیں، یہ 18 زبانیں بولتی ہیں، لیکن سوچ ایک ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، کبھی کبھی زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہمیں بہت بڑا پیغام دے جاتی ہیں۔ اب دیکھئے نہ میڈیا میں ہی اسکیوبا ڈائیورس کی ایک کہانی پڑھ رہا تھا۔ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر ہندوستانی کو تحریک دینے والی ہے۔ وشاکھاپٹم میں غوطہ خوری کی تربیت دینے والے اسکیوبا ڈائیورس ایک دن  منگاماری پیٹا ساحل پر سمندر سے لوٹ رہے تھے تو سمندر میں تیرتی ہوئی کچھ پلاسٹک کی بوتلیں اور پاؤچ سے ٹکرا رہے تھے۔ اسے صاف کرتے ہوئے انھیں معاملہ بڑا سنجیدہ لگا۔ ہمارا سمندر کس طرح سے کچرے سے بھرا جارہا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے یہ غوطہ خور سمندر میں ساحل کے قریب 100 میٹر دور جاتے ہیں، گہرے پانی میں غوطہ لگاتے ہیں اور پھر وہاں موجود کچرے کو باہر نکالتے ہیں۔  اور مجھے بتایا گیا ہے کہ 13 دنوں میں ہی یعنی دو ہفتہ کے اندر اندر تقریباً چار ہزار کلو سے زائد پلاسٹک فضلا انھوں نے سمندر سے نکالا ہے۔ ان اسکیوبا ڈائیورس کی چھوٹی سی شروعات ایک بڑی مہم کی شکل لیتی جارہی ہے۔ انھیں اب مقامی لوگوں کی بھی مدد ملنے لگی ہے۔ آس پاس کے ماہی گیروں نے بھی انھیں ہر طرح کی مدد دینے لگے ہیں۔ ذرا سوچئے اس اسکیوبا ڈائیورس سے تحریک لے کر اگر ہم بھی صرف اپنے آس پاس کے علاقے کو پلاسٹک کے کچرے سے آزاد کرنے کا عہد کرلیں تو پھر پلاسٹک سے آزاد پوری دنیا کے لیے ایک نئی مثال پیش کرسکتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، دو دن بعد 26 نومبر ہے۔ یہ دن پورے ملک کے بہت خاص ہے۔ ہمارے جمہوریت کے لیے خاص طور سے اہم ہے۔ کیوں کہ اس دن کو ہم یوم آئین کی شکل میں منانے ہیں۔ اور اس بات کا یوم آئین اپنے آپ میں خاص ہے۔ کیوں کہ اس بار آئین کو اپنانے کے 70 سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس بار اس موقع پر پارلیمنٹ میں  خاص پروگرام منعقد ہوں گے اور پھر سال بھر پورے ملک میں الگ الگ پروگرام ہوں گے۔ آیئے اس موقع پر ہم  آئین ساز اسمبلی کے سبھی ارکان کو بصد احترام سلام کریں۔ اپنی خراج عقیدت پیش کریں۔ ہندوستان کا آئین ایسا ہے جو ہر شہری کے حقوق اور عزت کی حفاظت کرتا ہے۔ اور یہ ہمارے آئین سازوں کی دور اندیشی کی وجہ سے یقینی ہوسکا ہے۔ میں تمنا کرتا ہوں کہ یوم آئین  ہمارے آئین کے اصولوں کو قائم رکھنے اور  ملک کی تعمیر میں  اپنی خدمت انجام دینے کی ہماری عہد بستگی کو مستحکم کریں۔ آخر، یہی خواب تو ہمارے آئین سازوں نے دیکھا تھا۔

میرے پیارے ہم وطنو! سردی کا موسم شروع ہو رہا ہے۔ گلابی سردی اب محسوس ہو رہی ہے۔ ہمالیہ کے کچھ حصے برف کی چادر اوڑھنا شروع کئے ہیں۔ لیکن یہ موسم فٹ انڈیا مومنٹ کا ہے۔ آپ، آپ کا خاندان، آپ کے دوست واحباب موقع مت گنوایئے، فٹ انڈیا مومنٹ کو آگے برھانے کے لیے موسم کا بھرپور فائدہ اٹھائیے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More