33 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

‘من کی بات 2.0’ کے 14ویں قسط میں وزیراعظم کا خطاب

Urdu News

میرے پیارے ہم وطنوں،  نمسکار۔ آج 26 جولائی ہے ، اور، آج کا دن بہت خاص ہے۔ آج، ‘کارگل وجے دِوس’ ہے۔ آج سے 21 سال قبل  آج کے ہی دن ہماری فوج نے کارگل جنگ میں فتح کا پرچم لہرایا تھا۔ ساتھیو، بھارت ان حالات کو کبھی بھول نہین سکتا جس کے تحت کارگل کی جنگ ہوئی تھی۔ پاکستان نے ہندوستان کی سرزمین پر تجاوزات کرنے کے غلط فہمیاں پیدا کیں، تاکہ وہاں موجود داخلی تنازعات کی طرف سے توجہ مبذول ہو سکے۔ اس وقت ہندوستان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ جیساکہ  کہا جاتا ہے :

‘‘بیرو اکارن سب کاہو سوں۔ جو کر ہیت ان ہیت  تاہو سوں۔’’

یعنی ، شریروں کی فطرت ہی ہوتی ہے، بغیر کسی وجہ کے ہر کسی سے دشمنی کرنا۔ اس طرح کے رجحان رکھنے والے لوگ اپنے خیر خواہوں کو بھی نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں… یہی وجہ ہے کہ جب ہندوستان نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو پاکستان نے پیٹھ میں چھرا گھونپ کر جواب دینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے بعد ، جب ہماری بہادر فوج نے بہادری کا مظاہرہ کیا تو، اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں – اونچے پہاڑوں پر بیٹھا ہوا دشمن اور نیچے سے لڑ رہے ہماری فوجیں، ہمارے بہادر جوان، لیکن ، فتح پہاڑ کی اونچائی کی نہیں – بھارتی فوجوں کے اونچے حوصلے اور بہادری کی ہوئی۔ ساتھیوں، اس وقت مجھے بھی کرگل جانے اور ہمارے جوانوں کی بہادری کو دیکھنے کا موقع ملا، وہ دن، میری زندگی کا سب سے بیش قیمت لمحہ ہے۔ میں، دیکھ رہا ہوں کہ آج ملک بھر میں لوگ کارگل وجے دوس کو یاد کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ہیش ٹیگ #courageinkargil کے ساتھ لوگ اپنے بہادروں  کو سلام کر رہے ہیں، اور جو شہید ہوئے ہیں انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ میں، آج سبھی ہم وطنوں کی طرف سے ، ہمارے ان بہادر جوانوں کے ساتھ ساتھ ، ان بہادر ماؤں کو بھی سلام کرتا ہوں جنہوں نے ماں بھارتی کے سچے بیٹوں کو جنم دیا، میرا ملک کے نوجوانوں سے گزارش ہے، کہ آج دن بھر کارگل فتح سے جڑے ہمارے جانبازوں کی کہانیاں، بہادر ماؤں کی قربانی کے بارے میں، ایک دوسرے کو بتائیں ، شیئر کریں۔ میں، ساتھیوں، آپ سے ایک گزارش کرتا ہوں – آج ۔ ایک ویب سائٹ ہے www.gallantryawards.gov.in آپ اس کو ضرور دیکھیں۔ وہاں آپ کو ، ہمارے  بہادر جنگجوؤں کے بارے میں، ان کی بہادری  سے متعلق ، بہت ساری جانکاریاں حاصل ہوں گی، اور ان جانکاریوں کو ، جب آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کریں گے – ان کے لیے بھی الہام کی ایک وجہ بنے گی۔ آپ اس ویب سائٹ پر ضرورت ویزٹ کیجیے، اور میں تو کہوں گا بار بار کیجیے۔

ساتھیو، کارگل جنگ کے وقت اٹل جی نے لال قلعے سے جو بھی کہا تھا، وہ آج بھی ہم سبی کے لیے بہت موزوں ہے۔ اٹل جی نے، اس وقت ملک کو گاندھی جی کے ایک قول کی یاد دلائی تھی۔  مہاتما گاندھی کا قول  تھا کہ اگر کسی کو کبھی کوئی الجھن ہو کہ اسے کیا کرنا ، کیا نہ کرنا ہے تو اسے بھارت کے سب سے غریب اور بے سہارا شخص کے بارے میں غور و فکر کرنی چاہیے۔ اسے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ جو کرنے جا رہا ہے، اس سے اس شخص کو فائدہ ہوگیا یا نہیں۔ گاندھی جی کے اس خیالات سے آگےبڑھ  کر اٹل جی نے کہا تھا کہ کارگل جنگ نے ہمیں ایک دوسرا منتر دیا ہے – یہ منتر تھا کہ کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے، ہم یہ سوچیں کہ کیا ہمارا یہ قدم ، اس سپاہی کے اعزاز کے مطابق ہے جس نے ان تکلیف دہ پہاڑیوں میں اپنی جان قربان کر دی تھی۔ آیئے اٹل جی کی آواز میں ہی، ان کے اس احساسات کو ہم سنیں، سمجھیں اور وقت کا تقاضہ ہے کہ اسے قبول کریں :

Sound bite of sh. Atal Ji ###

‘‘ہم سبھی کو یاد ہے کہ گاندھی جے نے ہمیں ایک منتر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی الجھن ہو کہ تمہیں کیا کرنا ہے، تو تم بھارت کے اس سب سے بے سہارا شخص کے بارے میں سوچو اور خود سے پوچھو کہ کیا تم جو کرنے جا رہے ہو اس سے اس شخص کی بہتری ہوگی۔ کارگل نے ہمیں دوسرا منتر دیا ہے –  کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے ہم یہ سوچیں کہ کیا ہمارا یہ قدم اس سپاہی کے اعزاز  کے مطابق ہے، جس نے ان ناقابل رسائی میں اپنے جانوں کی قربانی دی تھی۔’’

ساتھیو، جنگ کے حالات میں ، ہم جو بات کہتے ہیں، کرتے ہیں، اس کا سرحد پر تعینات فوجیوں کے حوصلوں پر ، اس کے کنبوں کے حوصلوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ بات ہمیں کبھی بھولنی نہیں چاہیے اور اس لیے ہمارے اخلاقیات ، طرز عمل ، ہماری بولی، ہمارے بیانات ، ہمارے وقار ، مقاصد ، سبھی کچھ ضرور رہنا چاہیے کہ ہم جو کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں، اس سے فوجیوں کے حوصلوں  اور عزاز میں اضافہ ہو۔ ملک سب سے اوپر ہے کی سوچ کے ساتھ ، یکجہتی کے دھاگے  میں بندھے ہوئے  ہم وطنوں، ہمارے فوجیوں کی طاقت کو کئی ہزار گنا  بڑھا دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو کہا گیا ہے کہ ‘سنگھے شکتی کلو یوگے’۔

کبھی-کبھی ہم اس بات کو سمجھے بغیر سوشل میڈیا  پر ایسی چیزوں کو بڑھاوا دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا بہت نقصان  ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تجسس کی وجہ سے  فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ معلوم ہے یہ غلط ہے  پھر بھی کرتے رہتے ہ یں۔ آج کل، جنگ، صرف سرحوں پر ہی نہیں لڑی جاتی ہیں، ملک میں بھی کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑی جاتی ہے ، اور ہر ایک باشندے کو اپنا کردار کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اپنا کردار، ملک کی سرحد پر، مشکل ترین حالات میں لڑ رہے فوجیوں کو یاد کرتے ہوئے طے کرنی ہوگی۔

میرے پیارے ہم وطنوں، گزشتہ کچھ مہینوں سے پورے ملک میں ایک ساتھ مل کر کورونا سے مقابلہ کیا ہے، اس نے ، بہت سے خدشات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ آج، ہمارے ملک میں صحتیابی کی شرح دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہتر ہے، ساتھ ہی ، ہمارے ملک میں کورونا سے مرنے والوں کی شرح بھی دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے کافی کم ہے۔ یقینی طور پر ایک بھی شخص کو کھونا افسوسناک ہے، لیکن بھارت، اپنے لاکھوں باشندوں کی زندگی بچانے میں کامیاب بھی رہا ہے۔ لیکن ساتھیو، کورونا کا خطرہ ابھی برقرار ہے۔ کئی حصوں میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمیں بہت ہی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ خیال رکھنا ہے کہ کورونا اب بھی اتنا ہی مہلک ہے جتنا کہ شروع میں تھا، اس لیے ہمیں پوری احتیاط برتنی ہوگی۔ چہرے پر ماسک لگانا یا گمچھے  کا استعمال کرنا، دو گز کی دوری، مسلسل ہاتھ دھونا، کہیں پر بھی تھوکنا نہیں، صفائی ستھرائی کا پورا خیال رکھنا – یہی ہمارے ہتھیار ہیں جو ہمیں کورونا سے بچا سکتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں ماسک سے تکلیف ہوتی ہے اور من کرنا ہے کہ چہرے پر سے ماسک ہٹا دیں۔  بات چیت کرنا شروع کرتے ہیں۔ جب ماسک کی  سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، اسی وقت ماسک ہٹا دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں، میں آپ سے گزارش کرونگا کہ جب بھی آپ کو ماسک کی وجہ سے پریشانی محسوس ہوتی ہو، ماسک اتارنے کا من کرتا ہو، تو لمحہ بھر کے لیے ان ڈاکٹرس کو یاد کیجیے، ان نرسوں کو یاد کیجیے، ہمارے ان کورونا واریئرس کو یاد کیجیے، آپ دیکھیے ، وہ ماسک پہن کر کے گھنٹوں مسلسل ، ہم سب کی زندگی کو بچانے کے لیے لگے رہتے ہیں۔ آٹھ  -آٹھ ، دس – دس گھنٹے تک ماسک پہنے رکھتے ہیں۔ کیا ان کو تکلیف نہیں ہوتی ہوگی۔ ذرا ان کا بھی خیال کیجیے، آپ کو بھی لگے گا کہ ہمیں ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اس میں ذرا سی بھی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے اور نہ ہی کسی کو برتنے دینی چاہیے۔ ایک طرف ہمیں کورونا کے خلاف لڑائی کو پوری  چوکسی اور بیداری کے ساتھ لڑنی ہے تو دوسری جانب، سخت محنت سے، تجارت، نوکری، تعلیم ، جو بھی فرائض ہم انجام دیتے ہیں ، ان کو تیز کرنا ہوگا، اسے بھی نئی اونچائی پر لے جانی ہے۔ ساتھیو، کورونا کے  اس دور میں تو ہمارے دیہی علاقوں نے پورے ملک کو راہ دکھائی ہے۔ گاؤوں سے مقامی لوگوں کے، گرام پنچایتوں کے، دیگر اچھی کوششیں مسلسل سامنے آ رہی ہیں۔ جموں میں ایک گرام تریوا گرام پنچایت ہے۔ وہاں کی سرپنچ ہیں بلبیر کور جی۔ مجھے بتایا گیا کہ بلبیر کور جی نے اپنے پنچایت میں 30 بستروں والا ایک قرنطینہ مرکز بنوایا ہے۔ پنچایت آنے والے راستوں پر ، پانی کی معقول انتظام کی ہے۔ لوگوں کو ہاتھ دھونے میں کوئی دشواری نہ ہو ، اس بات کو یقینی بنایا ہے۔ اتنا ہی نہیں، یہ بلبیر کور جی، خود اپنے کندھوں پر اسپرے پمپ  ٹانگ کر، رضاکروں کے ساتھ مل کر، پورے پنچایت میں، آس – پاس کے علاقوں میں، سینی ٹائزیشن کا کام بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور کشمیری خواتین سرپنچ ہیں، گندربل کے چونٹلی وار کی زیتون بیگم ۔ زیتون بیگم جی نے عہد کیا کہ ان کی پنچایت کورونا کے خلاف جنگ میں لڑے گی اور کمائی کے لیے مواقع بھی پیدا کریں گی۔  انہوں نے ، پورے علاقے میں فری ماسک  اور راشن تقسیم  کیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے لوگوں کو فصلوں کے بیج اور سیب کے پودے بھی دیئے، تاکہ لوگوں کو کھیتی میں ، باغبانی میں، کوئی دشواری نہ آئے۔ ساتھیو، کشمیر سے ایک اور تحریک دینے والا واقعہ ہے۔ یہاں ، اننت ناگ میں میونسپل صدر ہیں – جناب محمد اقبال۔ انہوں  اپنے علاقے میں سینی ٹائزیشن کے لیے اسپریئر کی ضرورت تھی۔ انہوں نے  جانکاری حاصل کی تو معلوم ہوا ہے کہ دوسرے شہر سے مشین لانی ہوگی اور مشین کی قیمت ہے 6 لاکھ روپے، تو جناب اقبال جی نے خود ہی کوشش کر کے اپنے آپ سپریئر مشین بنا لی اور وہ بھی صرف پچاس ہزار روپے میں – اس طرح کی نہ جانے کتنے ہی مثالیں ہیں۔ پورے ملک میں ، کونے – کونے میں، ایسی ہی کئی متحرک واقعات روز سامنے آتی ہیں، یہ سبھی مبارکباد کے حقدار ہیں۔ چیلنجز آئے، لیکن لوگوں نے اتنی ہی قوت سے ، اس کا سامنا بھی کیا۔

میرے پیارے ہم وطنوں، صحیح اور مثبت نقطہ نظر سے ہمیشہ آفات کو مواقع میں، مشکلات کو ترقی میں بدلنے میں بہت مدد  ملتی ہے۔ابھی ہم کورونا کے وقت بھی  دیکھ رہے ہیں، کہ کیسے ہمارے ملک کے نوجوان – خواتین  نے اپنے ہنر اور اسکل کے دم پر کچھ نئی کوششیں شروع کی ہیں۔ بہار میں کئی وومین سیلف ہیلپ  گروپس نے مدھوبنی پینٹنگ والے ماسک بنانا شروع کیا ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے ، یہ خوب مشہور ہو گئے ہیں۔ یہ مدھوبنی ماسک ایک طرح سے اپنی روایت  کو فروغ تو دے ہی رہے ہیں، لوگوں کو ، صحت کے ساتھ، روزگار بھی مہیا کرا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں شامل مشرق میں بانس کتنی بڑی مقدار میں ہوتی ہے، اب اسی بانس سے ترپورہ ، منی پور ، آسام کے کریگروں نے اعلیٰ درجے کا پانی کی بوتل  اور ٹفن باکس بنانا شروع کیا ہے۔ اگر آپ بانس کوالیٹی دیکھیں گے تو آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ بانس کی بوتلیں بھی اتنی شاندار ہو سکتی ہیں، اور پھر یہ بوتلیں ایکو فرینڈلی بھی ہیں۔ انہیں، جب بناتے ہیں، تو بانس کو پہلے نیم اور دوسرے ادویاتی پودوں کے ساتھ اوبالا جاتا ہے، اس سے ان میں ادویاتی خصوصیات بھی مل جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مقامی مصنوعات سے کس طرح بڑی کامیابی حاصل ہوتی ہے، اس کی ایک مثال جھارکھنڈ سے بھی ملتی ہے۔ جھارکھنڈ کے بشنوپور میں ان دنوں 30 سے زیادہ گروپس مل کر لیمن گراس کی کاشت کر رہے ہیں۔ لیمن گراس چار مہینوں میں تیار ہو جاتی ہے، اور اس کا تیل بازار میں اچھے قیمتوں میں فروخت ہوتا ہے۔ آج کل اس کی مانگ  بھی کافی ہے۔ میں ملک کے دو علاقوں کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں، دونوں ہی ایک دوسرے سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے، اور اپنے اپنے طریقے سے بھارت کو آتم نربھر بنانے کے لیے  کچھ مختلف کام کر رہے ہیں – ایک ہے لداخ اور دوسرا ہے کچھ۔ لیہ اور لداخ کا نام سامنے آتے ہی خوبصورت وادیوں اور اونچے اونچے پہاڑوں کے مناظر ہمارے آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں، تازی ہوا کے جھونکے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ وہیں کچھ کا ذکر ہوتے ہی ریگستان، دور – دور تک ریگستان، کہیں پیڑ – پودے، بھی نظر نہ آئے، یہ سب ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ لداخ میں ایک خاص طرح کا پھل ہوتا ہے جس کا نام چولی یا اپری کوٹ یعنی خوبانی ہے۔ یہ فصل اس علاقے کی معیشت کو بدلنے کی قوت رکھتی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سپلائی چین، موسم کی مار جیسے کئی چیلنجز سے دوچار رہتا ہے۔ اس کی کم سے کم بربادی ہو، اس کےلیے آج کل ایک نئے انوویشن کا استعمال شروع ہوا ہے – ایک ڈوول سسٹم ہے، جس کا نام ہے، سولر ایپریکوٹ ڈرائر اینڈ اسپیس ہیٹر۔ یہ، خوبانی اور دوسرے دیگر پھلوں و سبزیوں کو ضرورت کے مطابق سکھا سکتا ہے، اور وہ بھی  صحت مند طریقے سے۔ پہلے جب خوبانی کو کھیتوں کے پاس سکھاتے تھے، تو اس سے بربادی تو ہوتی ہی تھی، ساتھ ہی گرد اور بارش کے پانی کی وجہ سے پھلوں کی کوالیٹی بھی متاثر ہوتی تھی۔ دوسری جانب ، آج کل کچھ میں کسان ڈریگن فرٹس کی کھیتی کے لیے قابل ستائش کوششیں کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ جب سنتے ہیں تو انہیں حیرت ہوتی ہے – کچھ اور ڈریگن فرٹس۔ لیکن وہاں آج کئی کسان اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ پھل کی کوالیٹی اور کم زمین  میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کی وجہ سے کافی اختراع کیے جا رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ڈریگن فرٹس کی مقبولیت دن دن بڑھ رہی ہے، خاص کر ، ناشتے میں اس کا استعمال بڑھا ہے۔ کچھ کے کسانوں کا عزم ہے کہ ملک کو ڈریگن فرٹس درآمد نہ کرنا پڑے – یہی تو آتم نربھرتا کی بات ہے۔

ساتھیو، جب ہم کچھ نیا کرنے کی سوچتے ہیں ، انوویٹیو سوچتے ہیں، تو ایسے کام بھی آسان ہو جاتے ہیں،  جن کی عام طور پر  کوئی تصور بھی نہیں کرتا، جیسا کہ بہار کے کچھ نوجوانوں کو ہی لیجیے۔ پہلے یہ عام نوکری کرتے تھے، ایک دن انہوںنے طے کیا کہ وہ موتی یعنی پرلس کی کھیتی کریں گے۔ ان کے علاقے میں لوگوں کو اس بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں تھی، لیکن ان لوگوں نے پہلے ساری جانکاری حاصل کی ، جے پور اور بھوبنیشور  جاکر ٹریننگ لی اور اپنے گاؤں میں ہی موتی کی کھیتی شروع کر دی۔ آج، یہ خود تو اس سے کافی اچھی کمائی کر ہی رہے ہیں، انہوں نے مظفرپور، بیگوسرائے اور پٹنہ میں دیگر ریاستوں سے لوٹے مائیگرینٹ مزدوروں کو اس کی ٹریننگ بھی دینی شروع کر دی ہے۔ کتنے ہی لوگوں کے لیے ، اس سے آتم نربھرتا کے راستے کھل گئے ہیں۔

ساتھیو، ابھی کچھ دن بعد رکشا بندھن کا مقدس تہوار آ رہا ہے۔ میں ان دنوں دیکھ رہا ہوں کہ کئی لوگ اور تنظیمیں اس بار رکشا بندھن کو الگ طریقے سے منانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ کئی لوگ اسے وکل فار لوکل  سے بھی جوڑ رہے ہیں، اور بات بھی صحیح ہے۔ ہمارے تہوار، ہمارے سماج کے ، ہمارے گھر کے پاس ہی کسی فرد کے کاروبار میں اضافہ ہو، اس کا بھی تہوار خوشحال ہو، تب ، تہوار کی خوشی، کچھ اور ہی ہو جاتی ہے۔ سبھی ہم وطنوں کو رکشا بندھن کی بہت بہت مبارکباد۔

ساتھیو، 7  اگست کو  نیشنل ہینڈلوم ڈے ہے۔ بھارت کا ہینڈلوم ، ہمارا ہینڈی کرافٹس ، خود سینکڑوں سالوں کی ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ ہم سبھی کی کوشش ہونی چاہیے کہ نہ صرف ہندوستانی ہینڈلوم اور ہینڈی کرافٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں، بلکہ اس سے متعلق ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھی بتانی چاہیے۔ بھارت کا ہینڈلوم اور ہینڈی کرافٹ کتنا اعلیٰ درجے کا ہے ، اس میں بہت زیادہ تنوع ہے، یہ دنیا جتنی زیادہ اس کے بارے میں جانے گی ، ہمارے لوکل کاریگروں اور بن کروں کو اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔

ساتھیو، خاص کر میرے نوجوان ساتھیو، ہمارا ملک بدل رہا ہے۔ کیسے بدل رہا ہے؟ کتنی تیزی سے بدل رہا ہے؟ کیسے کیسے شعبوں میں بدل رہا ہے؟ ایک مثبت سوچ کے ساتھ اگر نظرثانی کریں تو ہم خود حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ ایک وقت تھا، جب کھیل – کود سے لے کر کے دیگر شعبے میں زیادہ تر لوگ یا تو بڑے بڑے شہروں سے ہوتے تھے یا بڑے – بڑے خاندان سے یا پھر مشہور اسکول یا کالج سے ہوتے تھے۔ اب، ملک بدل رہا ہے۔ گاؤوں سے ، چھوٹے شہروں سے، عام کنبوں سے ہمارے نوجوان آگے آرہے ہیں۔ کامیابی کی نئی اونچائی چوم رہی ہے۔ یہ لوگ مصیبت کے دوران بھی نئے نئے خواب سجاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہمیں ابھی حال ہی میں جو بورڈ ایگزام کے ریزلٹ آئے  ہیں، اس میں بھی دکھتا ہے۔ آج ‘من کی بات’ میں ہم کچھ ایسے ہی باصلاحیت بیٹے بیٹیوں سے بات کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک باصلاحیت بیٹی ہے کرتیکا ناندل۔ کرتیکا جی ہریانہ میں پانی پت سے ہیں۔

مودی جی – ہیلو ، کریتکا جی نمستے۔

کرتیکا  –  نمستے سر۔
مودی جی  – اچھے نتائج کے لئے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
کرتیکا  –  شکریہ سر۔
مودی جی  –  اور آپ تو ان دنوں ٹیلی فون ریسیو کرتے کرتے آپ تھک گئی ہوں گی۔ اتنے سارے لوگوں کا فون آتے ہوں گے۔
کرتیکا  –  جی سر۔
مودی جی –  اور جو لوگ مبارکباد دیتے ہیں وہ بھی فخر محسوس کرتے ہوں گے کہ وہ آپ کو جانتے ہیں۔ آپ کو کیسا لگ رہا ہے۔
کرتیکا  –  سر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ والدین کو فخر محسوس کرا کر خود کو بھی اتنا فخر محسوس ہو رہا ہے۔
مودی جی  –  اچھا یہ بتایئے کہ آپ سب سے زیادہ تحریک کن سے ملتی ہے؟
کرتیکا  –  سر ، مجھے میری ماں سے سب سے زیادہ تحریک ملتی ہے۔
مودی جی  –  واہ! اچھا ، آپ ممی سے کیا سیکھ رہی ہو۔

کرتیکا – سر، انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی مشکلیں دیکھی ہیں، پھر بھی وہ اتنی بولڈ اور اتنی مضبوط ہیں، سر، انہیں دیکھ دیکھ کر مجھے اتنی تحریک ملتی ہے کہ میں بھی انہیں کی طرح بنوں۔

مودی جی – ماں کتنی  تعلیم یافتہ ہیں۔

کرتیکا – سر بی اے کیا ہوا ہیں انہوں نے۔

مودی جی – بی اے کیا ہوا ہے۔

کرتیکا – جی سر۔

مودی جی – اچھا! تو ، ماں آپ کو سکھاتی بھی ہوں گی۔

کرتیکا – جی سر! سکھاتی ہیں، دنیا داری کے بارے میں ہر بات بتاتی ہیں۔

مودی جی – وہ ، ڈانٹتی بھی ہوں گی۔

کرتیکا – جی سر، ڈانٹتی بھی ہیں۔

مودی جی – اچھا بیٹا، آپ آگے کیا کرنا چاہتی ہیں؟

کرتیکا – سر ہم ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔

مودی جی – ارے واہ!

کرتیکا – ایم بی بی ایس۔

مودی جی – دیکھیے ڈاکٹر بننا آسان کام نہیں ہے۔

کرتیکا – جی سر۔

مودی جی – ڈگری تو حاصل کر لیں گی کیونکہ آپ بہت ہی ہوشیار ہیں بیٹا؛ لیکن ڈاکٹر کی زندگی جو ہے ، وہ معاشرے کے لیے سرشار ہوتا ہے۔

کرتیکا – جی سر۔

مودی جی – ڈاکٹر رات میں، کبھی سکون سے سو نہیں سکتا ہے۔ کبھی مریض کا فون آجاتا ہے، اسپتال سے فون آجاتا ہے تو پھر دوڑنا پڑتا ہے۔ یعنی ایک طرح سے 24×7 ، 365 دن ۔ ڈاکٹر کی زندگی لوگوں کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔

کرتیکا – یس سر۔

مودی جی – اور خطرہ بھی رہتا ہے، کیونکہ ، کبھی پتا نہیں، آج کل جس طرح کی بیماریاں ہیں تو ڈاکٹر کے سامنے بھی بہت بڑی مصیبت رہتا ہے۔

کرتیکا – جی سر۔

مودی جی – اچھا کرتیکا، ہریانہ تو کھیل – کود میں پورے ہندوستان کے لیے ہمیشہ ہی ایک حوصلہ افزا اور تحریک دینے والا ریاست رہا ہے۔

کرتیکا – جی سر۔

مودی جی – تو آپ بھی تو کھیل کود میں حصہ لیتی ہیں کیا، کچھ کھیل – کود پسند ہے کیا آپ کو؟

کرتیکا – سر، باسکیٹ بال کھیلتے تھے، اسکول میں۔

مودی جی – اچھا ، آپ کی اونچائی کتنی ہے، زیادہ ہے اونچائی۔

کرتیکا – نہیں سر، پانچ دو کی ہے۔

مودی جی – اچھا، تو  کیا آپ کو کھیل پسند ہے؟

کرتیکا – سر وہ تو بس جنون ہے، کھیل لیتے ہیں۔

مودی جی – اچھا – اچھا! چلیے کرتیکا جی، آپ کی والدہ کو میری طرف سے سلام کہیے، انہوں نے آپ کو اس طرح قابل بنایا۔ آپ کی زندگی کو سنوارا۔ آپ کی والدہ کو سلام اور آپ کو بہت بہت مبارکباد، اور بہت بہت نیک خواہشات۔

کرتیکا – شکریہ سر۔

آیئے ! اب ہم چلتے ہیں کیرلہ، ایرناکّلم۔ کیرلہ کے نوجوان سے بات کریں گے۔

مودی جی – ہیلو۔

وینایک – ہیلو سر نمسکار!

مودی جی – تو وینایک، مبارک ہو!

وینایک – ہاں ، شکریہ سر۔

مودی جی – شاباش وینایک، شاباش۔

وینایک – ہاں، شکریہ سر۔

مودی جی – ہاؤ از دا جوش؟

وینایک  – ہائی سر۔

مودی جی – کیا آپ کوئی کھیل کھیلتے ہیں؟

وینایک – بیڈمنٹن۔

مودی جی – بیڈمنٹن۔

وینایک – ہاں۔

مودی جی – کسی اسکول میں یا آپ کو کوئی ٹریننگ کا موقع ملا ہے؟

وینایک – نہیں، اسکول میں ہم نے پہلے کچھ تربیت حاصل کر لی تھی۔

مودی جی – ہوں ہوں۔

وینایک –  ہمارے اساتذہ سے۔

مودی جی – ہوں ہوں۔

ونایک  –  تاکہ ہمیں باہر حصہ لینے کا موقع ملے۔

مودی جی – واہ!

وینایک  –  اسکول ہی سے۔

مودی جی  –  آپ نے کتنی ریاستوں کا دورہ کیا ہے؟

وینایک  – میں نے صرف کیرالہ اور تمل ناڈو کا دورہ کیا ہے۔

مودی جی –  صرف کیرل اور تمل ناڈو ۔

وینایک –  اوہ ہاں۔

مودی جی – تو ، کیا آپ دہلی جانا پسند کریں گے؟

وینایک –  جی ہاں سر ، اب ، میں اعلی تعلیم کے لیے دہلی یونیورسٹی میں درخواست دے رہا ہوں۔

مودی جی  –  واہ ، تو آپ دہلی آرہے ہیں؟

وینایک –  ہاں ہاں سر۔

مودی جی  –  مجھے بتائیں ، کیا آپ کے ساتھی طلبا کے لئے کوئی پیغام ہے،جو مستقبل میں بورڈ کے امتحانات دے گا؟

وینایک –  سخت محنت اور وقت کا مناسب  استعمال۔

مودی جی –  اتنا صحیح وقت کا استعمال ۔

وینایک –  جی ہاں ، سر۔

مودی جی –  ونایاک ، میں آپ کے مشاغل جاننا چاہتا ہوں۔

وینایک  –  ……… بیڈمنٹن اور اس کے بعد روئنگ ۔

مودی جی  –  تو ، آپ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔

وینایک –  نہیں ، ہمیں اسکول میں کسی بھی گیجٹ،الیکٹرانک اشیاء کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

مودی جی –  تو آپ خوش قسمت ہیں۔

وینایک –  جی ہاں سر۔

مودی جی  –  ٹھیک ہے ، وینایک ، ایک بار پھر مبارکباد اور آپ سب کی نیک خواہشات۔

وینایک –  شکریہ، سر۔

آیئے ! ہم اترپردیش چلتے ہیں۔ اترپردیش میں امروہا کے جناب عثمان سیفی سے بات کریں گے۔

مودی جی – ہیلو عثمان، بہت بہت مبارکباد، آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔

عثمان – شکریہ سر۔

مودی جی – اچھا آپ عثمان بتایئے، کہ آپنے جو چاہا تھا وہی ریزلٹ آیا کہ کچھ کم آیا۔

عثمان – نہیں، جو چاہا تھا وہی ملا ہے۔ میرے والدین بھی بہت خوش ہیں۔

مودی جی – واہ، اچھا خاندان میں اور بھائی بھی، بہت ہی ہوشیار ہیں کہ گھر میں آپ ہی ہیں جو اتنے ہوشیار ہیں۔

عثمان – صرف میں ہی ہوں، میرا بھائی تھوڑا شرارتی ہے۔

مودی جی – ہاں، ہاں۔

عثمان – باقی مجھ سے سب بہت خوش رہتے ہیں۔

مودی جی – اچھا، اچھا۔ اچھا آپ جب پڑھ رہے تھے ، تو عثمان آپکا پسندیدہ موضوع کون سا تھا؟

عثمان – میتھ میٹکس۔

مودی جی – ارے واہ! تو کیا میتھ میٹکس میں کس چیز میں دلچسپی تھی؟کیسے ہوئی؟ کس ٹیچر نے آپ کو تحریک دی؟

عثمان – جی ہمارے ایک سبجیکٹ ٹیچر رجت سر۔ انہوں نے مجھے تحریک دی اور وہ بہت اچھا پڑھاتے ہیں اور میتھ میٹکس شروع سے ہی میرا اچھا رہا ہے اور کافی انٹریسٹنگ سبجیکٹ بھی ہے۔

مودی جی – ہوں، ہوں۔

عثمان – تو جتنا زیادہ کرتےہیں، اتنا زیادہ انٹریسٹ آتا ہے تو اس لیے میرا پسندیدہ موضوع ہے۔

مودی جی –  ہوں، ہوں۔ آ پ کو معلوم ہے ایک آن لائن ویدک میٹھ میٹکس کے کلاس چلتے ہیں۔

عثمان – ہاں سر۔

مودی جی – ہاں کبھی ٹرائی کیا ہے اس کا؟

مثمان – نہیں سر، ابھی نہیں کیا۔

مودی جی –  آپ دیکھیے،  آپ کے بہت سارے دوستوں کو لگے گا کہ جیسے آپ جادوگر ہیں کیونکہ کمپیوٹر کی اسپیڈ سے آپ گنتی کر سکتے ہیں ویدک میتھ میٹکس کی۔ بہت آسان ٹیکنک ہے اور آج کل وہ آن لائن پر بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

عثمان – جی سر۔

مودی جی – اچھا عثمان ، آپ خالی وقت میں کیا کرتے ہیں؟

عثمان – خالی وقت میں سر، کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں میں۔ مجھے لکھنے میں بہت مزہ آتا ہے۔

مودی جی – ارے واہ! مطلب آپ میتھ میٹکس میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور لٹریچر میں بھی ۔

عثمان – ہاں سر۔

مودی جی – کیا لکھتے ہیں؟ نظمیں لکھتے ہیں، شاعری لکھتے ہیں۔

عثمان – کچھ بھی کرنٹ افیئرس سے متعلق کوئی بھی ٹاپک ہو اس پر لکھتا رہتا ہوں۔

مودی جی – ہاں، ہاں۔

عثمان – نئی نئی جانکاریاں ملتی رہتی ہیں جیسے جی ایس ٹی چلا تھا اور نوٹ بندی – سب کچھ۔

مودی جی – ارے واہ! تو آپ کالج کی تعلیم کے لیے آگے کیا پلان بنا رہے ہیں؟

عثمان – کالج کی پڑتعلیم، سر میرا جی مینس کا فرسٹ اٹیمپٹ کلیئر ہو چکا ہے اور اب میں ستمبر کے لیے سیکنڈ اٹیمپٹ میں بیٹھونگا۔ میرا اصل مقصد ہے کہ میں پہلے آئی آئی ٹی سے بیچلر ڈگری لوں اور اس کے بعد سول سروسز میں جاؤ اور ایک آئی اے ایس بنوں۔

مودی جی – ارے واہ! اچھا آپ ٹکنالوجی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں؟

عثمان – ہاں سر، اس لیے میں آئی ٹی اوپٹ کیا ہے فرسٹ ٹائم آئی آئی ٹی کا۔

مودی جی – اچھا چلیے عثمان، میری طرف سے بہت بہت مبارکباد  اور آپ کا بھائی شرارتی ہے ، تو آپ کا وقت بھی اچھا جاتا ہوگا اور آپ کے والدین کو بھی میری طرف سے سلام کہیے۔ انہوں نے آپ کو اس طرح سے مواقع فراہم کیے، حوصلہ بلند کیا اور یہ مجھے اچھا لگا کہ آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر بھی مطالعہ کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ دیکھیے لکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات میں شارپ نیس آتی ہے۔ بہت اچھا فائدہ حاصل ہوتا ہے لکھنے سے۔ تو بہت بہت مبارکباد میری طرف سے۔

عثمان – شکریہ سر۔

آیئے ! چلیے پھر ایک قدم سے نیچے جنوب میں چلتے ہیں۔ تمل ناڈو، ناماکل سے بیٹی کننگا سے بات کریں گے اور کننگا کی بات تو بہت ہی متاثر کن ہے۔

مودی جی – کننگا جی، وڈکم۔

کننگا – وڈکم، سر۔

مودی جی – ہاؤ آر یو؟

کننگا – فائن سر۔

مودی جی – سب سے پہلے میں آپ کی بڑی کامیابی کے لیے آپ کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔

کننگا – شکریہ سر۔

مودی جی – جب میں نمکل کے بارے میں سنتا ہوں تو میں انجنئر مندر کے بارے میں سوچتا ہوں۔

کننگا – جی سر۔

مودی جی – اب میں آپ کے ساتھ اپنی بات چیت کو بھی یاد کروں گا۔

کننگا – ہاں سر۔

مودی جی – تو، پھر سے مبارکباد ۔

کننگا – شکریہ سر۔

مودی جی –  آپ نے امتحانات کے لیے بہت محنت کیا، تیاری کرتے وقت آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

کننگا – سر، ہم شروع سے ہی سخت محنت کر رہے ہیں۔ لہذا مجھے اس نتیجے کی توقع نہیں تھی لیکن میں نے اچھا لکھا ہے اور لیے مجھے اچھا  ریزلٹ حاصل ہوا۔

مودی جی – آپ کی توقع کیا تھی؟

کننگا – 485 اور 486 کے قریب، میں نے سوچا تھا۔

مودی جی – اور اب

کننگا – 490

مودی جی – تو آپ کے  اہل خانہ اور آپ کے اساتزہ کا کیا رد عمل ہے؟

کننگا – وہ بہت خوش تھے اور انہیں بہت فخر تھاسر۔

مودی جی –  آپ کا پسندیدہ مضمون کون سا ہے؟

کننگا – میتھ میٹکس

مودی جی –  اوہ! اور آپ کے مستقبل کے منصوبے کیا ہیں؟

کننگا –  اے ایف ایم سی سر میں اگر ممکن ہو تو میں ڈاکٹر بننے جا رہا ہوں۔

مودی جی  – اور آپ کے کنبے کے ممبر بھی میڈیکل پیشہ میں ہیں یا کہیں اور؟

کننگا – نہیں سر، میرے والد ڈرائیور ہیں لیکن میری بہت ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

مودی جی – ارے واہ! لہذا سب سے پہلے میں آپ کے والد کو سلام کروں گا جو آپ کی بہن اور آپ کی بہت دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی خدمت ہے جو وہ کر رہے ہیں۔

کننگا – جی سر۔

مودی جی – اور وہ سب کو تحریک دینے والے ہے۔

کننگا – جی سر۔

مودی جی  – تو آپ کو ، آپ کی بہن اور آپ کے والد اور آپ کے اہل خانہ کو میری طرف سے مبارکباد۔

کننگا –  شکریہ سر۔

ساتھیو، ایسے اور بھی کتنے نوجوان دوست ہیں ، مشکل حالات میں بھی جن کے حوصلے کی، جن کی کامیابی کی کہانیاں ہمیں تحریک دیتی ہے۔ میرا من تھا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ساتھیوں سے بات کرنے کا موقع ملے، لیکن، وقت کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ میں سبھی نوجوان ساتھیوں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اپنی کہانی ، اپنی زبانی جو ملک کو تحریک دے، وہ ہم سب کے ساتھ، ضرور شیئر کریں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، سات سمندر پار، ہندوستان سے ہزاروں میل دور ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا نام ہے سورینام۔ ہندوستان کا سورینام کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات ہیں۔ سو سال سے بھی زیادہ وقت پہلے، ہندوستان سے لوگ وہاں گئے اور اسے ہی اپنا گھر بنا لیا۔ آج ، چوتھی ، پانچویں نسل وہاں موجود ہے۔ آج، سورینام میں ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی ہندوستانیوں کی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ، وہاں کی عام زبان میں سے ایک سرنامی بھی ، بھوجپوری کی ہی ایک زبان ہے۔ ان ثقافتی تعلقات کی وجہ سے ہم ہندوستانی کافی فخر محسوس کرتے ہیں۔

حال ہی میں ، شری چندریکا پرساد سنتوکھی سورینام کے نئے صدر بن گئے ہیں۔ وہ ہندوستان کے دوست ہیں ، اور ، انہوں نے سال 2018 میں منعقدہ پرسن آف انڈین آریجن (پی آئی او)پارلیمانی کانفرنس میں بھی شریک ہوئے تھے۔ شری چندریکا پرساد سنتوکھی جی نےحلف برداری کی شروعات وید منتروں کےساتھ کی، وہ سنسکرت میں بولے۔ انہوں نے ، ویدوں کا ذکر کیا اور ’’اوم شانتی، شانتی‘‘ کے ساتھ اپنی حلف برداری مکمل کی۔ اپنے ہاتھ میں وید لے کر وہ بولے – میں چندریکا پرساد سنتوکھی اور آگے، انہوں نے حلف میں کیا کہا؟ انہوں نے وید کا ہی ایک منتر پڑھا۔ انہوں نے کہا –

اوم اگنے ورتپتے ورتم چریشیامی تجھ کیئم تنمے رادھیاتام۔ اِدم ہمنرتات ستیہ مو پیمی۔

یعنی۔ ہے اگنی ، عزم کے خدا، میں ایک عہد کر رہا ہوں۔ مجھے اس کے لیے قوت فراہم کریں۔ مجھے جھوٹ سے دور رہنے اور حق کی جانب گامزن ہونے کا آشرواد پردان کریں۔ سچ میں، یہ ہم سبھی کے لیے ، فخر کی بات ہے۔

میں شری چندریکا پرساد سنتوکھی کو مبارک دیتا ہوں ، اور اپنے ملک کی خدمت کرنے کے لیے ، 130 کروڑ ہندستانیوں کی طرف سے ، انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔

میرے ہم وطنوں ، اس وقت بارش کا موسم بھی ہے۔ پچھلی بار بھی میں نے آپ سے کہا تھا ، کہ برسات میں گندگی اور ان سے ہونے والی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اسپتالوں میں بھیڑ بھی بڑھ جاتی ہے، اس لیے ، آپ صاف صفائی کا  بہت زیادہ خیال رکھیں۔  قوت مدافعت بڑھانے والی چیزیں، آیورویدک کاڑھا وغیرہ لیتے رہیں۔ کورونا انفیکشن کے وقت ، ہم، دیگر بیماریوں سے دور رہیں۔ ہمیں اسپتال کے چکر نہ لگانے پڑیں، اس کا پورا خیال رکھنا ہوگا۔

ساتھیو، بارش کے موسم میں، ملک کا ایک بڑا حصہ ، سیلاب کا سامنا کر رہا ہے۔ بہار، آسام جیسے ریاستوں کے کئی علاقوں میں تو سیلاب نے کافی مشکلیں پیدا کی ہوئی ہیں۔ یعنی ایک طرف کورونا ہے ، تو دوسری طرف یہ ایک اور چیلنج ہے، ایسے میں، سبھی حکومتیں ، این ڈی آر ایف کی ٹیمیں ریاست کی آفات سے نمٹنے والی ٹیمیں، رضاکارانہ تنظیمیں، سب ایک ساتھ مل کر ، ہر طرح سے راحت اور بچاؤ کے کام کر رہے ہیں۔ اس آفات سے متاثرہ سبھی لوگوں کے ساتھ پورا ملک کھڑا ہے۔

ساتھیوں، اگلی  بار ، جب ہم، ‘من کی بات’ میں ملیں گے، اس کے پہلے ہی 15 اگست بھی آنے والا ہے۔ اس بات 15 اگست بھی،  مختلف حالات میں ہو گا۔ کورونا وبا کی اس مشکل وقت کے درمیان ہوگا۔
میرا ، اپنے نوجوانوں سے، سبھی ہم وطنوں سے، گزارش ہے، کہ ہم یوم آزادی پر، وبائی امراض سے آزادی کا عہد کریں، آتم نربھر بھارت کا عہد کریں، کچھ نیا سیکھنے، اور سکھانے کا، عہد کریں، اپنے فرائض کی تکمیل کریں۔ ہمارا ملک آج جس اونچائی پر ہے، وہ بہت ساری عظیم شخصیات کی تپسیا کی وجہ سے ہے، جنہوں نے اپنی زندگی قوم کی تعمیر کے لیے وقف کر دی ہے، ان عظیم شخصیات میں سے ایک لوک مانیہ تلک۔ یکم اگست 2020 کو لوک مانیہ تلک جی کی 100ویں یوم وفات ہے۔ لوک مانیہ تلک جی  کی زندگی ہم سب کے لیے بہت ہی تحریک دینے والی ہے۔ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتی  ہے۔

اگلی بار جب ہم ملیں گے ، تو ، پھر بہت ساری باتیں کریں گے، مل کر کچھ نیا سیکھیں گے، اور سب کے ساتھ شیئر کریں گے۔ آپ سب ، اپنا خیال رکھیے ، اپنے کنبے  کا خیال رکھیے، اور صحتمند رہیے۔ سبھی ہم وطنوں کو آنے والے سبھی تہواروں کی بہت بہت نیک کواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More