30 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

من کی بات پروگرام کی 45ویں مرحلے میں وزیراعظم کی تقریر کا متن

Urdu News

نئیدہلی؛ نمسکار! میرے پیارے ہم وطنوں آج پھر ایک بار ’من کی بات‘ کے اس پروگرام میں آپ سب کے ساتھ روبہ رو ہونے کا موقع ملا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے بینگلورو میں ایک تاریخی کرکٹ میچ ہوا۔ آپ لوگ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں کہ میں ہندوستان اور افغانستان کے ٹیسٹ میچ کی بات کر رہا ہوں۔ یہ افغانستان کا پہلا بین الاقوامی میچ تھا اور یہ ہندوستان کے لیے فخر کی بات ہے کہ افغانستان کا یہ تاریخی میچ ہندوستان کے ساتھ تھا۔ اس میچ میں دونوں ہی ٹیموں نے بہترین مظاہرہ کیا اور دوسرے افغانستان کے ہی ایک بالر راشد خان نے تو اس سال آئی پی ایل میں بھی کافی اچھا مظاہر کیا تھا اور مجھے یاد ہے کہ افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی نے مجھے ٹیگ کر اپنے ٹوئیٹر پر لکھا تھا –’’ افغانستان کے لوگوں کو اپنے ہیرو راشد خان پر بہت فخر ہے‘‘ میں اپنے ہندوستانی دوستوں کا بھی شکرگزار ہوں، جنہوں نے ہمارے کھلاڑیوں کو اپنا ہنر دکھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ افغانستان میں جو افضل ہے راشد خان اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ کرکٹ کی دنیا کا ایسٹ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تھوڑا مزاحیہ انداز میں یہ بھی لکھا ’’نہیں ہم اسے کسی کو دینے والے نہیں ہیں۔‘‘ یہ میچ ہم سبھی کے لیے ایک یادگار رہے گا۔ خیر یہ پہلا میچ تھا اس لیے یاد رہنا تو بہت قدرتی بات ہے لیکن مجھے یہ میچ کسی ایک خاص وجہ سے یاد رہے گا۔  ہندوستانی ٹیم نے کچھ ایسا کیا، جو پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ ہندوستانی ٹیم نے ٹرافی لیتے وقت ایک فاتح ٹیم کیا کر سکتی ہے – انہوں نے کیا کیا! ہندوستانی ٹیم نے ٹرافی لیتے وقت ، افغانستان کی ٹیم جو کہ پہلی بار بین الاقوامی میچ کھیل رہی تھی، افغانستان کی ٹیم کو بلایا دیا اور دونوں ٹیموں نے ساتھ میں فوٹو لی۔ اسپورٹس مین اسپریٹ کیا ہوتی ہے، اسپورٹس مین شپ کیا ہوتی ہے – اس ایک واقعہ سے ہم محسوس کر سکتے ہیں۔ کھیل سماج کو ایک جٹ کرنے اور ہمارے نوجوانوں کا جو ہنر ہے، ان میں جو ہنرمندی ہے، اسے ڈھونڈھ نکالنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ ہندوستان اور افغانستان دونوں ٹیموں کو میری مبارکباد ۔ مجھے امید ہے ہم آگے بھی اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ پورے اسپورٹس مین اسپریٹ کے ساتھ کھیلیں گے بھی، کھلیں بھی۔

میرے پیارے ہم وطنوں! اس 21 جون کو چوتھے ’یوگا دیوس‘ پر ایک الگ ہی نظارہ تھا۔ پوری دنیا ایک جٹ نظر آئی۔ دنیا بھر میں لوگوں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ یوگ ابھیاس کیا۔ بروسیلز میں یوروپین پارلیمنٹ ہو، نیو یارک میں واقع اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہو، جاپانی بحری فوج کے لڑاکو جہاز ہوں، سبھی جگہ لوگ یوگ کرتے نظر آئے۔ سعودی عرب میں پہلی بار یوگ کا تاریخی پروگرام ہوا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ بہت سارے آسنوں کا ڈیمونسٹریشن تو عورتوں نے کیا۔ لداخ کی اونچی برفیلی چوٹیوں پر ہندوستان اور چین کے فوجیوں نے ایک ساتھ مل کر یوگاابھیاس کیا۔ یوگ سبھی سرحدوں کو توڑ کر ، جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ سینکڑوں ممالک کے ہزاروں پرجوش لوگوں نے ذات، دھرم، حلقہ، رنگ یا جنس ہر طرح کے تفریق سے باہر جاکر اس موقعے کو ایک بہت بڑا تہوار بنا دیا۔ اگر دنیا بھر کے لوگ اتنے پرجوش ہوکر ’یوگ دوس‘ کے پروگراموں میں حصہ لے رہے تھے تو ہندوستان میں اس کی خوشی کئی گنا کیوں نہیں ہوگی۔

ملک کو فخر ہوتا ہے، جب سوا سو کروڑ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے حفاظتی دستوں کے جوانوں نے، بری – بحری اور فضائیہ تینوں جگہ یوگ  ابھیاس  کیا۔ کچھ بہادر فوجیوں نے جہاں آبدوز میں یوگ کیا، وہیں کچھ فوجیوں نے سیاچین کے برفیلے پہاڑوں پر یوگ ابھیاس  کیا۔ فضائیہ کے ہمارے لڑاکوں نے تو آسمان میں زمین سے 15 ہزار فٹ کی اونچائی پر یوگاسن کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ دیکھنے والا نظارہ یہ تھا کہ انہوں نے ہوا میں تیرتے ہوئے کیا، نہ کی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر کے۔ اسکول ہو، کالج ہو، دفتر ہو، پارک ہو، اونچی عمارت ہو یا کھیل کا میدان ہو، سبھی جگہ یوگ کا مشق ہوا۔ احمد آباد کا ایک منظر تو دل کو چھو لینے والا تھا۔ وہاں پر تقریباً 750  معذور بھائی – بہنوں نے ایک جگہ پر، ایک ساتھ جمع ہوکر یوگ  ابھیاس کر کے عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔ یوگ نے ذات، پنتھ اور جغرافیہ سے پرے جاکر دنیا بھر کے لوگوں کو جمع کرنے کا کام کیا ہے۔ ’واسودھیو کُٹمبکم‘ کے جس تاثر کو ہم صدیوں سے جیتے آئے ہیں۔ ہمارے رشی، منی، سنت جس پر ہمیشہ زور دیتے ہیں، یوگ نے اسے صحیح معنی میں ثابت کر کے دکھایا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ آج یوگ ایک ویلنیس، انقلاب کا کام کر رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یوگ سے ویل نیس کی جو ایک مہم چلی ہے، وہ آگے بڑھے گی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنوں ! مائی گوو اور نریندر مودی ایپ پر کئی لوگوں نے مجھے لکھا کہ میں اس بار کی ’من کی بات‘ میں ایک جولائی کو آنے والے ڈاکٹرس ڈے کے بارے میں بات کرو ں۔ صحیح بات ہے۔  ہم مصیبت کے وقت ہی ڈاکٹر کو یاد کرتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا دن ہے، جب ملک ہمارے ڈاکٹرس کی حصولیابیوں کو سیلیبریٹ کرتا ہے اور سماج کے تئیں ان کی خدمات اور عہد بندی کے لیے انہیں بہت بہت  مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم وہ لوگ ہیں، جو فطری طور پر ماں کو بھگوان کے طور ر پوجتے ہیں، بھگوان کے برابر مانتے ہیں کیونکہ ماں ہمیں زندگی دیتی ہے، ماں ہمیں جنم دیتی ہے، تو کئی بار ڈاکٹر ہمیں دوبارہ  زندگی دیتا ہے۔ ڈاکٹر کا رول صرف بیماریوں کا علاج کرنے تک ہی محدود نہیں ہے۔ اکثر ڈاکٹر خاندان کے دوست کی طرح ہوتے ہیں۔ ہمارے لائف اسٹائل گائڈس ہیں۔ ’’دے ناٹ اونلی کیور بٹ السو ہیل‘‘۔ آج ڈاکٹر کے پاس میڈیکل ایکسپرٹیز تو ہوتی ہی ہے، ساتھ ہی ان کے پاس جنرل لائف اسٹائل ٹرینڈس کے بارے میں، اس کا ہمارے صحت پر کیا اثر پڑتا ہے، ان سب کے بارے میں گہرا تجربہ ہوتا ہے۔ ہندوستانی ڈاکٹروں نے اپنی قابلیت اور مہارت سے پوری دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ میڈیکل پروفیشن میں مہارت، سخت محنت کے ساتھ ساتھ ہمارے ڈاکٹر کمپلیکس میڈیکل پروبلیمس کو سالو کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ’من کی بات‘ کے ذریعے سے میں سبھی ہم وطنوں کی جانب سے ہمارے سبھی ڈاکٹر ساتھیوں کو آئندہ 1 جولائی کو آنے والے ڈاکٹرس ڈے کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! ہم ایسے قسمت والے لوگ ہیں جو کا اس ہندوستان کی سرزمین پر پیدا ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی ایک ایسی وسیع تاریخ رہی ہے، جب کوئی ایسا مہینہ نہیں ہے، کوئی ایسا دن نہیں ہے، جس میں کوئی نہ کوئی تاریخی واقعہ نہ ہوا ہو۔ دیکھیں تو ہندوستان میں ہر جگہ کی اپنی ایک وراثت ہے۔ وہاں سے جڑا کوئی سنت ہے، کوئی مہاپرش ہے، کوئی مشہور آدمی ہے، سبھی کا اپنا اپنا تعاون ہے، اپنی قابلیت ہے۔

’’وزیراعظم جی نمسکار! میں ڈاکٹر سریندر مشر بول رہا ہوں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ 28 جون کو آپ مگہر آ رہے ہیں۔ میں مگہر کے ہی پاس ایک چھوٹے سے گاؤں ٹڈوا، جو گورکھپور میں ہے، وہاں کا رہنے والا ہوں۔ مگہر کبیر کی سمادھی استھل ہے اور کبیر کو لوگ یہاں پر سماجی یکسانیت کے لیے یاد رکھتے ہیں اور کبیر کے خیالات کا ہر سطح پر ذکر ہوتا ہے۔ آپ کی منصوبہ بندی سے اس سمت میں سماج کی سبھی سطحوں پر کافی اثر ہوگا۔ آپ سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی حکومت ہند کی جو منصوبہ بندی ہے، اس کے بارے میں آگاہ کروانے کی مہربانی کریں۔‘‘

آ پ کے فون کال کے لیے بہت بہت شکریہ۔ یہ صحیح ہے کہ میں 28 تاریخ کو مگہر آ رہا ہوں اور ویسے بھی جب میں گجرات میں تھا، گجرات کا کبیروڈ تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب میں وہاں کام کرتا تھا تو میں نے ایک سنت کبیر کی روایت سے جڑے لوگوں کا ایک بڑا، ایک قومی اجلاس بھی کیا تھا۔ آپ لوگ جانتے ہیں، کبیر داس جی مگہر کیوں گئے تھے؟ اس وقت ایک کہاوت تھی کہ مگہر میں جس کی موت ہوتی ہے، وہ سورگ نہیں جاتا۔ اس کے الٹ کاشی میں جس کی موت ہوتی ہے وہ سورگ جاتا ہے۔ مگہر کو ناپاک مانا جاتا تھا لیکن سنت کبیرداس اس پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اپنے وقت کی ایسی ہی غلط رواج کو انہوں نے توڑنے کا کام کیا اور اس لیے وہ مگہر گئے اور وہیں ان کی موت ہوئی۔ سنت کبیرداس جی نے اپنی ساکھیوں اور دوہوں کے ذریعے سے سماجی یکسانیت، امن اور بھائی چارے پر زور دیا۔ یہی ان کے نظریات تھے۔ ان کی تخلیقات میں ہمیں یہی نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں اور آج کے دور میں بھی وہ اتنے ہی تحریک دینے والے ہیں۔ ان کا ایک دوہا ہے:

کبیر سوئی پیر ہے، جو جانے پر پیر۔

جو پر پیر نہ جان ہی ، سو کا پیر میں پیر۔

مطلب سچا پیر سنت وہی ہے جو دوسروں کے دکھ کو جانتا  اور سمجھتا ہے، جو دوسرے کے دکھ کو نہیں جانتے وہ بے درد ہے۔ کبیر داس جی نے سماجی یکسانیت پر خاص توجہ دی تھی۔ وہ اپنے وقت سے بہت آگے سوچتے تھے۔ اس وقت جب دنیا میں گراوٹ اور جدوجہد کا دور چل رہا تھا انہوں نے امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا اور لوگوں کو ایک ساتھ کر کے من مٹاؤں کو دور کرنے کا کام کیا۔

’’جگ میں بیری کوئی نہیں، جو من شیتل ہوئے۔

یہ آپا تو ڈال دے، دیا کرے سب کوئے۔‘‘

ایک دوسرے دوہے میں کبیر لکھتے ہیں –

’’جہاں   دیا تہم دھرم ہے، جہاں لوبھ تہاں پاپ۔

جہاں کرودھ تہاں کال ہے، جہاں چھما تہاں آپ۔‘‘

انہوں نے کہا :

’’ذات نہ پوچھو سادھو کی، پوچھ لیجیے گیان۔

اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ذات  پات سے اوپر اٹھ کر لوگوں کو علم کے طور پر مانیں، ان کی عزت کریں، ان کی باتیں صدیوں بعد بھی اتنی ہی اثردار ہے۔ ابھی جب ہم سنت کبیرداس جی کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو مجھے ان کا ایک دوہا یاد آتا ہے۔ جس میں وہ کہتے ہیں :

’’گرو گووند دو او کھڑے ، کاکے لاگو پا ئے

بلیہاری گرو آپ نے، گووند دیو بتائے۔‘‘

ایسی ہوتی ہے گرو کی مہانتا اور ایسے ہی ایک گرو ہیں، جگت گرو – گرو نانک دیو۔ جنہوں نے کوٹی کوٹی لوگوں کو سچا راستہ دکھایا، صدیوں سے ترغیب دیتے رہے۔ گرو نانک دیو نے سماج میں ذات پات کے تفریق کو ختم کرنے اور بنی نوع انسان کو ایک مانتے ہوئے انہیں گلے لگانے کی تعلیم دی۔ گرو نانک دیو کہتے تھے غریبوں اور ضرورتمنوں کی خدمت ہی بھگوان کی خدمت ہے۔ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے سماج کی بھلائی کے لیے کئی پہل کی۔ سماجی تفریق سے پاک رسوئی کا انتظام جہاں ہر ذات، مذہب  یا کمیونٹی کا فرد آکر کھانا کھا سکتا تھا۔ گرو نانک دیو نے ہی تو اس لنگر نظام کی شروعات کی۔ 2019 میں گرو نانک دیو جی کا 550واں پرکاش پرو منایا جائے گا۔ میں چاہتا ہوں ہم سب لوگ جوش کے ساتھ اس سے جڑیں۔ آپ لوگوں سے بھی میری درخواست ہے گرو نانک دیو جی کے 550ویں پرکاش پرو پر پورے سماج میں اور دنیا بھر میں اسے کیسے منایا جائے، نئے نئے آئیڈیا کیا ہوں، نئے نئے مشورہ کیا ہوں، نئے نئے خیالات کیا ہوں، اس پر ہم سوچیں، تیاریاں کریں اور فخر کے ساتھ اس کو ہم سب، اس پرکاش پرو کو پریرنا پرو بھی بنائیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد بہت لمبی ہے، بہت وسیع ہے، بہت گہری ہے، بے حساب شہادتوں سے بھری پڑی ہے۔ پنجاب سے جڑی ایک اور تاریخ ہے۔ 2019 میں جلیاں والا باغ کی اس خوفناک واقعہ کے بھی 100 سال پورے ہو رہے ہیں جس نے پورے بنی نوع کو شرم سار کر دیا تھا۔ 13 اپریل ، 1919 کا وہ کالا دن کون بھول سکتا ہے جب طاقت کا غلط استعمال کر کے بے رحمی کی ساری حدیں پار کر کے بے گناہ اور معصوم لوگوں پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ اس واقعہ کے 100 سال پورے ہونے والے ہیں۔ اسے ہم کیسے یاد کریں، ہم سب اس پر سوچ سکتے ہیں، لیکن اس واقعہ نے جو امر پیغام دیا، اسے ہم ہمیشہ یار رکھیں۔ یہ تشدد اور ظلم سے کبھی کسی مسئلہ کا حل نہیں کیا جا سکتا۔ جیت ہمیشہ امن اور عدم تشدد کی ہوتی ہے، قربانی کی ہوتی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنوں! دلی کے روہنی کے جناب رمن کمار نے نریندر مودی موبائل ایپ پر لکھا ہے کہ آنے والی 6 جولائی کو ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کا یوم پیدائش ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس پروگرام میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے بارے میں ہم وطنوں سے بات کروں۔ رمن جی سب سے پہلے تو آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ہندوستان کی تاریخ میں آپ کی دلچسپی دیکھ کر کافی اچھا لگا۔ آپ جانتے ہیں، کل ہی ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کی  سالگرہ  تھی 23 جون کو۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کئی شعبوں سے جڑے رہے  لیکن جو شعبہ ان کے سب سے قریب رہے وہ تھے تعلیم، انتظامیہ اور پارلیمنٹری افیئرس ، بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ وہ کولکتہ یونیورسٹی کے سب سے کم عمر کے وائس چانسلر تھے۔ جب وہ وائس چانسلر بنے تھے تب ان کی عمر صرف 33 سال تھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ 1937 میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کی دعوت پر جناب گرو دیو رویندر ناتھ ٹیگور نے کولکتہ یونیورسٹی میں کونووکیشن کو بنگلہ زبان میں خطاب کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب انگریزوں کی سلطنت تھی اور کولکتہ میں کسی نے بنگلہ زبان میں کونووکیشن کو خطاب کیا تھا۔ 1947 سے 1950 تک ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی ہندوستان کے پہلے صنعت کے وزیر رہے اور ایک معنی میں کہیں تو انہوں نے ہندوستان کی صنعتی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھی تھی ، ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کیا تھا۔ 1948 میں آئی آزاد ہندوستان کی پہلی صنعتی پالیسی ان کے آئڈیاز اور ویژن کی چھاپ لے کر کے آئی تھی۔ ڈاکٹر مکھرجی کا خواب تھا کہ ہندوستان ہر شعبے میں صنعتی طور سے خود مختار ہو، ہنرمند اور وسیع ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان بڑی صنعتوں کو ڈیولپ کریں اور ساتھ ہی ایم ایس ایم ای ، ہتھ کرگھا، کپڑا اور چھوٹی  صنعت پر بھی پوری توجہ دیں۔ کٹیر اور چھوٹی صنعتوں کی پوری ترقی کے لیے انہیں فنانس اور آرگنائزیشن سیٹ اپ ملے، اس کے لیے 1948 سے 1950 کے درمیان آل انڈیا ہینڈی کرافٹس بورڈ، آل انڈیا ہینڈلوم بورڈ اور کھادی اینڈ ویلیج انڈسٹریز بورڈ قائم کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر مکھرجی کا ہندوستان کے دفاعی  پروڈکشن کے سودیشی کرن پر بھی خاص زور تھا۔ چترنجن لوکوموٹیو ورکس فیکٹری، ہندوستان ایئرکرافٹ فیکٹری، سندری کا کھاد کارخانہ اور دامودر گھاٹی نگم، یہ چار سب سے کامیاب اور بڑے پروجیکٹس اور دوسرے ریور ویلی پروجیکٹس کے قیام میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کا بہت بڑا تعاون تھا۔ مغربی بنگال کی ترقی کو لے کر وہ کافی جذباتی تھے۔ ان کی سمجھ، دانش مندی اور سرگرمی کا ہی نتیجہ ہے کہ بنگلہ کا ایک حصہ بچایا جا سکا اور وہ آج بھی ہندوستان کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے لیے، جو سب سے اہم بات تھی، وہ تھی ہندوستان کی صداقت اور اتحاد – اور اسی کے لیے 52 سال کی کم عمر میں ہی انہیں  اپنی جان گنوانی پڑی۔ آیئے۔ ہم ہمیشہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے یکجہتی کے پیغام کو یاد رکھیں، یکجہتی اور بھائی چارے کی سوچ کے ساتھ ، ہندوستان کی ترقی کے لیے جی جان سے جڑے رہیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! گزشتہ کچھ ہفتوں میں مجھے ویڈیو کال کے ذریعے سے حکومت کی مختلف منصوبوں کے استفادہ کنندگان  سے بات کرنے کا موقع ملا۔ فائلوں سے باہر جاکر لوگوں کی زندگی میں جو تبدیلی آ رہی ہے، ان کے بارے میں براہ راست انہیں سے جاننے کا موقع ملا۔ لوگوں نے اپنے عزم، اپنے سکھ دکھ ، اپنی حصولیابیوں کے بارے میں بتایا۔ میں مانتا ہوں کہ میرے لیے یہ محض ایک سرکاری پروگرام نہیں تھا بلکہ یہ ایک الگ طرح کا لرننگ تجربہ تھا اور اس دوران لوگوں کے چہرے پر جو خوشیاں دیکھنے کو ملیں، اس سے بڑا سکون کا لمحہ کسی کی بھی زندگی میں کیا ہو سکتا ہے؟ جب ایک عام انسان کی کہانیاں سنتا تھا۔ ان کے بھولے بھالے جملے اپنے تجربے کی کہانی وہ جو کہہ رہے تھے، دل کو چھو جاتی تھی۔ دور دراج کے گاؤوں میں بیٹیاں کامن سروس سینٹر کے ذریعے سے گاؤوں کے بزرگوں کی پنشن سے لے کر پاسپورٹ بنوانے تک کے خدمات دستیاب کروا رہی ہیں۔ جب چھتیس گڑھ کی کوئی بہن سیتاپھل کو جما کر اس کی آئس کریم بنا کر روزگار کرتی ہے۔ جھارکھنڈ میں انجن پرکاش کی طرح ملک کے لاکھوں نوجوان ادویاتی مرکز چلانے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے گاؤوں میں جاکر سستی دوائیاں دستیاب کروا رہے ہوں۔ وہیں مغربی بنگال کا کوئی نوجوان دو تین سال پہلے نوکری ڈھونڈھ رہا ہو اور اب وہ صرف اپنا کامیاب روزگار کر رہا ہے؛ اتنا ہی نہیں، دس پندرہ لوگوں کو اور نوکری بھی دے رہا ہے۔ ادھر تمل ناڈو، پنجاب، گوا کے اسکول کے طالب علم اپنی چھوٹی عمر میں اسکول کی ٹنکرنگ لیب میں ویسٹ مینجمنٹ جیسے اہم موضوع پر کام کر رہے ہوں۔ نہ جانے کتنی کتنی کہانیاں تھیں۔ ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں ہوگا جہاں لوگوں کو اپنی کامیابی کی بات کہنی نہ ہو۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے ان تمام پروگرام میں حکومت کی کامیابی سے زیادہ عام انسان کی کامیابی کی باتیں ملک کی قوت، نئے ہندوستان کے خوابوں کی طاقت، نئے ہندوستان کے عزم کی قوت – اسے میں محسوس کر رہا تھا۔ سماج میں کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ وہ جب تک مایوسی کی باتیں نہ کریں، غیریقینی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں، جوڑنے کے بجائے توڑنے کے راستے نہ کھوجیں، تب تک ان کو سکون نہیں ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں عام انسان جب نئی امید، نئے جوش اور اپنی زندگی میں ہونے والے واقعات کی بات لے کر کے آتا ہے تو وہ سرکار کا کریڈٹ نہیں ہوتا۔ دور دراز ایک چھوٹے سے گاؤں کی چھوٹی سی بچی کا واقعہ بھی سوا سو کروڑ ہم وطنوں کے لیے ترغیب بن جاتا ہے۔ میرے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے، ویڈیو بریج کے ذریعے سے استفادہ کنندگان کے ساتھ وقت گزارنے کا ایک لمحہ بہت ہی سکون دینے والا ، بہت ہی ترغیب دینے والا رہا اور اس سے کام کرنے کا سکون تو ملتا ہی ہے لیکن اور زیادہ کام کرنے کا جذبہ بھی ملتا ہے۔ غریب سے غریب شخص کے لیے زندگی گزارنے کا ایک اور نیا خوشی، ایک اور نئی جوش اور نئی ترغیبات حاصل ہوتی ہیں۔ میں ہم وطنوں کا بہت شکر گزار ہوں۔ 40-40، 50-50 لاکھ لوگ اس ویڈیو بریج کے پروگرام میں جڑے اور مجھے نئی قوت دینے کا کام آپ نے کیا۔ میں پھر ایک بار آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! میں ہمیشہ محسوس کرتا ہوں، اگر ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ اچھا ہوتا ہے۔ اچھا کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اچھائی کی خوشبو ہم بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بات میرے ذہن میں آئی اور یہ بڑا منفرد مجموعہ ہے۔ اس میں ایک جانب جہاں پروفیشنلز اور انجینئرس ہیں وہیں دوسری جانب کھیت میں کام کرنے والے ، کھیتی سے جڑے ہمارے کسان بھائی بہن ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو دو بالکل الگ الگ صنعت ہیں – ان کا کیا تعلق؟ لیکن ایسا ہے، بینگلورو میں کارپوریٹ پروفیشنلس، آئی ٹی انجینئرس ساتھ آئے۔ انہوں نے مل کر ایک آسان ’سمردھی ٹرسٹ‘ بنایا ہے اور انہوں نے کسانوں کی آمدنی دوگنی ہو، اس کے لیے اس ٹرسٹ کو ایکٹیویٹ کیا۔ کسانوں سے جڑتے گئے، منصوبے بناتے گئے اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے کامیاب کوشش کرتے رہے۔ کھیتی کی نئی تکنیک سکھانے کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی کھیتی کیسے کی جائے؟ کھیتوں میں ایک فصل کے ساتھ ساتھ اور بھی فصل کیسے اگائی جائے؟ یہ ٹرسٹ کے ذریعے ان پروفیشنلز ، انجینئر، ٹیکنوکریٹ  کے ذریعے کسانوں کو ٹریننگ دی جانے لگی۔ پہلے جو کسان اپنے کھیتوں میں ایک ہی فصل پر منحصر ہوا کرتے تھے۔ اپج بھی اچھی نہیںہوتی تھی اور منافع بھی زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ آج وہ نہ صرف سبزیاں اگا رہے ہیں اور بلکہ اپنی سبزیوں کی مارکیٹنگ بھی ٹرسٹ کے ذریعے سے کر کے، اچھی قیمت حاصل کر رہے ہیں۔ اناج پیدا کرنے والے کسان بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک طرف فصل کی پیداوار سے لے کر مارکیٹنگ تک پوری چین میں کسانوں کا ایک اہم رول ہے تو دوسری جانب منافع میں کسانوں کی حصہ داری کو یقینی بنانا ان کے حق کو یقینی بنانے کی کوشش ہے۔ فصل اچھی ہو، اس کے لیے اچھی نسل کے بیج ہوں۔ اس کے لیے الگ سیڈ بینک بنایا گیا ہے۔ خواتین اس سیڈ بینک کا کام دیکھتی ہیں۔ خواتین کو بھی جوڑا گیا ہے۔ میں ان نوجوانوں کو اس اہم تجربہ کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ پروفیشنلس، ٹیکنوکریٹ، انجینئرنگ کی دنیا سے جڑے ان نوجوانوں نے اپنے دائرے سے باہر نکل کر کے کسان کے ساتھ جڑنا، گاؤں کے ساتھ جڑنا، کھیت  کے ساتھ جڑنے کا جو راستہ اپنایا ہے۔ میں پھر ایک بار اپنے  ملک کی نوجوان نسل کو ان کے ان اہم تجربوں، کو کچھ جو شاید میں نے جانا ہوگا، کچھ نہیں جانا ہوگا، کچھ لوگوں کو پتہ ہوگا، کچھ پتہ نہیں ہوگا لیکن مسلسل لوگ کچھ نہ کچھ اچھا کر رہے ہیں، ان سب کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد ۔

میرے پیارے ہم وطنوں ! جی ایس ٹی کو ایک سال پورا ہونے والا ہے۔ ’ون نیشن، ون ٹیکس‘ ملک کے لوگوں کا خواب تھا، وہ آج حقیقت میں بدل چکا ہے۔ ون نیشن ون تیکس ریفارم، اس کے لیے اگر مجھے سب سے زیادہ کسی کو کریڈٹ دینا ہے تو میں ریاستوں کو کریڈٹ دیتا ہوں۔ جی ایس ٹی کوآپریٹیو فیڈرالزم کی ایک بہترین مثال ہے، جہاں سبھی ریاستوں نے مل کر ملک کے حق میں فیصلہ لیا اور تب جاکر ملک میں اتنا بڑا ٹیکس ریفارم نافذ ہو سکا۔ اب تک جی ایس ٹی کونسل کی 27 میٹنگ ہوئی ہیں اور ہم سب فخر کر سکتے ہیں کہ مختلف سیاسی سوچ والے لوگ وہاں بیٹھتے ہیں، مختلف ریاستوں کے لوگ بیٹھتے ہیں،  الگ الگ پرائیوریٹی والے ریاست ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی جی ایس ٹی کونسل میں اب تک جتنے بھی فیصلہ کیے گئے ہیں، وہ سارے سب کی مرضی سے کیے گئے ہیں۔ جی ایس ٹی سے پہلے ملک میں 17 الگ الگ طرح کے ٹیکس ہوا کرتے تھے لیکن اس نظام میں اب صرف ایک ہی ٹیکس پورے ملک میں نافذ ہے۔ جی ایس ٹی ایمانداری کی جیت ہے اور ایمانداری کا ایک تہوار بھی ہے۔ پہلے ملک میں کافی بار ٹیکس کے معاملے میں انسپکٹر راج کی شکایتیں آتی رہتی تھیں۔ جی ایس ٹی میں انسپکٹر کی جگہ آئی ٹی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ ریٹرن سے لے کر ریفنڈ تک سب کچھ آن لائن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ہوتا ہے۔ جی ایس ٹی کے آنے سے چیک پوسٹ ختم ہو گئی اور مال سامانوں کی آمد و رفت تیز ہو گئی، جس سے نہ صرف وقت بچ رہا ہے بلکہ لاجسٹکس کے شعبے میں بھی اس کا کافی فائدہ مل رہا ہے۔ جی ایس ٹی شاید دنیا کا سب سے بڑا ٹیکس ریفارم ہوگا۔  ہندوستان میں اتنا بڑا ٹیکس ریفارم کامیاب اس لیے ہو پایا کیونکہ ملک کے عوام نے اسے اپنایا اور اتنا بڑا ریفارم ، اتنا بڑا ملک، اتنی بڑی آبادی اس کو پوری طرح سے مستحکم ہونے میں 5 سے 7 سال کا وقت لگتا ہے لیکن ملک کے ایماندار لوگوں کا جوش ، ملک کی ایمانداری کا تہوار لوگوں کی حصہ داری کا نتیجہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر یہ نیاٹیکس نظام اپنی جگہ بنا چکا ہے، استحکام حاصل کر چکا ہے اور ضرورت کے مطابق اپنی ان بلٹ نظام کے ذریعے وہ اصلاح بھی کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی کامیابی سوا سو کروڑ ہم وطنوں نے حاصل کی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنوں! پھر ایک بار ’من کی بات‘ کو ختم کرتے ہوئے اگلے من کی بات کا انتظار کر رہا ہوں، آپ سے ملنے کا، آپ سے باتیں کرنے کا۔ آپ کو بہت بہت مبارکباد۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More