30 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ساز و سامان اور خدمات ٹیکس کے آغاز کے موقع پر پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں وزیر خزانہ کی تقریر کا متن

संसद के केंद्रीय कक्ष से वस्तु और सेवा कर के शुभारम्‍भ पर वित्‍त मंत्री के संबोधन का हिंदी अनुवाद
Urdu News

 ہم آج یہاں، اپنے ملک کے اہم سفر  کے تاریخی لمحے  کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ ہم تاریخ رقم کرنے کے عمل میں ہیں۔آدھی رات کو  ساز و سامان اور خدمات ٹیکس لانچ  ہونے کے ساتھ ہم  اپنی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ الوالعزم  ٹیکس اور اقتصادی اصلاحات کا پروگرام لانچ کریں گے۔ جی ایس ٹی بھلے ہی مقام پر مرکوز ٹیکس ہو، لیکن بھارت کے لئے ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔  ایک ایسا  سفر ہے جہاں بھارت اپنے اقتصادی افق اور شاندار سیاسی وژن کو توسیع دینے کے وسیع تر امکانات کا سامنا کرے گا۔  قدیم بھارت اقتصادی نقطہ نظر سے منقسم تھا، نیا بھارت ایک ملک کے لئے ایک ٹیکس، ایک بازار بنائے گا۔یہ ایسا بھارت  ہوگا، جہاں  مرکز اور ریاست مجموعی  خوشحالی کے مشترکہ مقصد کے لئے معاون  طریقے  سے  مخلصانہ انداز  میں مل کر کام کریں گے۔ ایسا  بھارت  ہوگا  جو نئی  پالیسی  لکھے گا۔

جی ایس ٹی پورے ملک کے لئے  نہایت اہم کامیابی ہے۔ جی ایس ٹی کونسل کے لئے اتفاق رائے کی بنیاد  پر مبنی  عمل، آئینی ترمیم  پر اتفاق رائے یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت تنگ نظری پر مبنی سیاست سے اوپر اٹھ سکتا ہے اور وسیع تر قومی  مفاد کے لئے ایک آواز میں  بول سکتا ہے۔ آئینی ترمیم اور جی ایس ٹی کونسل  میں عمدگی کی حامل  اور بالغ النظری پر مبنی  بحث اس بات کی علامت ہے کہ بھارت اجتماعی طور پر سوچ سکتا ہے اور وسیع تر مقاصد کے لئے بالغ النظری  کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ بھارت ریاستوں کا وفاق ہے۔ وفاق تبھی طاقتور ہوگا، جب ریاست اور مرکز دونوں مضبوط ہوں ۔ امداد باہمی پر مبنی وفاقیت  کے یہی حقیقی معنی ہیں۔جی ایس ٹی بناتے ہوئے نہ تو مرکز نے اور نہ ہی ریاستوں نے اپنی خودمختاری چھوڑی  ۔ انہوں نے اپنی خود مختاری کو بلاواسطہ ٹیکسیشن کے لئے متفقہ فیصلہ کرنے کے لئے آگے بڑھایا ہے۔

مرکز، اسمبلیوں سمیت  29 ریاستوں اور دو   مرکز کے زیر انتظام علاقوں والے کثیر پارٹی والی جمہوریت کے ایک وسیع اور دقیق نظام میں مفادات سے پرہیز کرتے ہوئے ہم نے آئینی ترمیم کو نافذ کیا اور بھارت کی سیاست کی اعلی ترین عظمت کو ظاہر کرتے ہوئے وسیع ٹیکس اصلاحات کو انجام دیا۔ہم  نےیہ کام ایسے وقت میں کیا ہے جبکہ پوری دنیا سست روی ،علیحدگی پسندی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات  کے فقدان سے نبردآزما  ہے۔جی ایس ٹی کے توسط سے بھارت نے یہ دکھا دیا ہے کہ شمولیت پر مبنی کھلے پن اور جرات کے ساتھ ان طاقتوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کام  میں تعاون دینے والے سبھی اراکین پارلیمنٹ،  ریاستی سرکاروں ، تمام سیاسی پارٹیوں، ریاستوں کے وزرائے خزانہ اور مرکز و ریاستی سرکاروں کے  ہمارے افسران کی مخلص ٹیم کی کھلے دل سے  تعریف کی جانی چاہیے اور ان کے تئیں اظہار تشکر کیا جانا چاہیے۔

عزت مآب صدر جمہوریہ !یہ جو سفر تھا آپ اس کے سب سے زیادہ ممتاز گواہ ہیں کہ تقریباً 15 سال سے پہلے یہ  سفرشروع ہوا تھا۔ این ڈی اے  کی پہلی  حکومت نے ایک کمیٹی  تشکیل دی تھی جس کے چیئرمین جناب وجے  كیلكر اس ہال  میں موجود ہیں۔ انہوں نے سال  2003 میں ایک تاریخی رپورٹ پیش کی تھی کہ اس ملک کے اندر ایک ویلیو بیسڈ ٹیکسیشن جی ایس ٹی کے نام سے شروع  کیاجائے۔  2006 کے بجٹ میں یو پی اے  حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 2010 تک اس کو لاگو کرنے کی کوشش کی جائے گی اور 2011 کے بجٹ میں جب عالیجناب صدر جمہوریہ نے اس وقت  کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے بجٹ پیش کیا تھا تو اس کے فوراً بعد آپ نے آئینی ترمیم بھی ملک کے سامنے پیش کی  تھی جس کے ذریعے ریاست اور مرکز اپنے حقوق کو اکٹھا  کرکےسازو سامان اور خدمات ٹیکس وضع کریں۔ آپ کی اس کانسٹی ٹیوشن .. آئینی ترمیم کے بعدپارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی  نے بہت سود  مند تجاویز پیش کی تھیں۔  جناب  یشونت سنہا  آج اس سینٹر ہال میں موجود ہیں ، وہ اس کے صدر تھے اور اس کی سب سے اہم سفارشات میں سے ایک  یہ تھی کہ جی ایس ٹی کونسل  قائم  کی جائے جس میں ایک تہائی ووٹ مرکز کے ہوں گے، دو تہائی ووٹ ریاستوں کے ہوں گے لیکن فیصلہ کرنے کے لئے 3 -4 تین چوتھائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اس فیصلے کا  یہ اثر تھا کہ مرکز اور ریاستوں کو آئینی اعتبار سے اکٹھا  کام کرنے کے لئے مجبور کیا گیا اور جی ایس ٹی کونسل ، جس میں ایک طرح  سے اتفاق رائے بنا اس میں اس کا ایک بہت بڑا تعاون قائمہ کمیٹی کے اس  کے اس  مشورے  کا تھا۔

ایک متوازی فکر ریاستوں کے وزراء خزانہ کی تھی، ایک بااختیار کمیٹی تھی اور وقتاً فوقتاً  ہر حکومت نے ایک روایت قائم کی کہ کسی مخالف پارٹی کے گروپ  کی ، جس ریاست میں اس کی حکومت ہو، اس کا کوئی وزیر خزانہ اس بااختیار کمیٹی  کا صدر رہے۔ پہلے صدر  ڈاکٹر اسیم داس گپتا ہمارے درمیان میں ہیں اور کئی  برسوں تک ملک میں انہوں نے اتفاق رائے بنانے  کا ایک بہت بڑا کام کیا۔ مجھے ذاتی طور پر ان  کا شکریہ  اس لیے بھی ادا  کرنا ہے کہ مجھے جی ایس ٹی  کی پہلی تعلیم ان سے ہی ملی تھی، ایک اجلاس میں۔

پروفیسر داس گپتا کے بعد جموں -كشمير کے جناب عبدالرحیم راتھر، جناب سشیل مودی ، اس کے بعد کیرالہ کے جناب کے۔ ایم۔ منی، میرا خیال ہے کہ جناب منی بھی یہاں موجود ہیں اور پھر بنگال کے ڈاکٹر امت مترا، یہ ایک ریاستوں کے درمیان   عام رائے بناتے رہے اور اس پوری تاریخ کے بعد اس ملک کی سیاست نے ایسی  ایک بالغ النظری کی مثال پیش کی کہ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ آئینی  ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثر یت سے پاس  ہوئی جس سے جی ایس ٹی کونسل کی  تشکیل عمل میں آئی۔ اس تشکیل  کے بعد کونسل  کی پہلی ذمہ داری تھی کہ  وہ مرکز اور ریاستوں کے لئے قانون بنائے۔ وہ تمام قوانین، پانچ مرکز کے لئےاورایک سبھی  ریاستوں کے لئے متفقہ طور پر بنیں۔  پارلیمنٹ نے اسے متفقہ طور پر پاس کیا، ریاستوں نے  بھی اتفاق رائے  سے اسے  پاس کیا اور آج وہ ایک حقیقی شکل میں  ہمارے سامنے  موجود ہیں۔ جی ایس ٹی کونسل 18 مرتبہ  میٹنگ کر چکی ہے.۔کچھ میٹنگیں صبح سے شام تک اور دو دو تین تین دن چلتی رہیں اور ایک بھی فیصلہ پر ووٹ کروانے کی آج تک ضرورت نہیں پڑی۔ ہر ایک فیصلہ اتفاق رائے سے  ہوا جس میں  مختلف سیاسی جماعتوں اور مختلف ریاستی حکومتوں  کے نمائندے تھے اور ایک ووٹ سے ہر فیصلہ اس میں ہوا ۔ابھی تک 24 ضابطے بن چکے ہیں۔ ریاست اور مرکز کے دائرہ اختیار کے بارے میں بٹوارہ کیا رہے گا اس کے بارے میں  فیصلہ ہو چکا ہے۔1211 ایسے سامان ہیں جن پر ٹیکس کی شرح طے کرنی تھی۔ بغیر  کسی اختلاف کے، بغیر کسی اختلاف رائے کے ایک ایک سامان کا ٹیکس  باہمی اتفاق رائے سے طے ہوا اور اس کے پیچھے بھی دو اصول تھے کہ ایک عام اور غریب آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ آمدنی نیوٹرل رہے  کہ جتنی آمدنی ریاست اور مرکز اكٹھا کرتے ہیں، کم از کم وہ برقرار رہے اور جو موجودہ ٹیکسیشن ڈھانچہ  ہے اس سے بہت زیادہ کسی کے اوپر بوجھ نہ پڑے۔

آج  جو  نظام  تھا، اس نظام میں ریاستوں اور مرکز کو  ملاکر 17   ٹرانزکشن ٹیکس ہیں -سترہ ۔ 23 محصول  ہیں، ان سب کو ختم کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ صرف ایک ٹیکس رہے گا۔ اس ہر ٹیکس  کے لئے الگ ریٹرن جاتا تھا، آج ایک ریٹرن جائے گا۔ ہر ایک  رسائی رکھنے والے  کو الگ الگ ٹیکس حکام  کے ساتھ انٹرفیس  کرنا پڑتا تھا۔ آج صرف اس کو اپنے سافٹ ویئر کے  ساتھ  ایک ریٹرن کے ذریعے سے انٹرفیس  کرنا پڑے گا اور صرف سافٹ ویئر کے اوپر رجسٹریشن لے لینا اور اس رجسٹریشن  کے بعد ہر ماہ کی دس تاریخ تک صرف  کمپویٹر پر ایک فارم  بھرنا  کہ  میرے گزشتہ ماہ کی ٹرانزکشن  کیا ہے، اس میں ڈال دینا  اور اس کے ذریعے سے ٹیکس کے اوپر ٹیکس نہ لگنا یہ اس کی ایک خصوصیت ہے۔

پورے ملک کے اندر الگ الگ ریاستوں میں مختلف شرح اور محصول۔  ناكوں کے  اوپر ٹركوں کی بھیڑ ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد ایک  طرح سے سنگل فلو گُڈ اینڈ سروسز کا کا پورے ملک کے اندر ہوگا۔

اور اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ جو ایک بار آپ نے ان پٹس کے ٹیکس  دے دیا، اوپر آؤٹ پٹ  کی سطح پر اس کا آپ کو فائدہ ملنے لگے گا۔ مہنگائی کے اوپر بھی لگام لگے گی۔ ٹیکس سے بچنا مشکل ہوگا، ریٹ پہلے کے مقابلے میں کم ہوں گے۔ ملک کی جی ڈی پی  کو فائدہ ملے گا اور جو زیادہ ریاستوں کو اور مرکز کو وسائل حاصل ہوں  گے وہ اس ملک کے غریبوں  کی خدمت میں استعمال ہوں گے۔ریاست نے، مرکز نے، سبھی سیاسی جماعتوں نے، تمام ممبران پارلیمنٹ نے تمام اسمبلیوں کے ارکان نے، تمام ریاستی حکومتوں نے اتفاق رائے سے اس میں کام کیا ہے۔یہاں خاص طور پر میں سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

جی ایس ٹی کونسل کے جو رکن ہیں، ریاستوں کے وزرائے خزانہ ہیں  وہ صبح سے شام تک کئی دنوں تک بیٹھے رہے، ان فیصلوں کو لینے کے لئے اور ایک لگن کے ساتھ ان کی مدد میں جو افسر ان ریاستوں کے اور مرکز کے رات رات بھر لگے رہے، جو ملک کو، اکثر لوگوں کو توقع نہیں تھی کہ یکم  جولائی کا ہدف پورا ہوپائے گا ۔ اس  ہدف  تک پہنچنے  کے لئے   آج  ہم نے ماحول  تیار کر دیا ہے۔ میں خاص طور پر ان سبھی افسران کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں  اور آپ سب ممبران پارلیمنٹ  جو یہاں  آئے ہیں ان سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتے ہوئے، میں  عزت مآب وزیر اعظم سے درخواست کروں گا کہ آپ کے ذریعے آپ کو اور پورے ملک کو  خطاب کریں۔ شکریہ۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More