33 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبو د کی وزار ت کے بجٹ 19-2018کی اہم خصوصیات

Urdu News

نئی دہلی، کا بجٹ زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کےساتھ ساتھ 2022 تک کسانوں کی آمدنی دو گنا کرنے کے وزیراعظم کے عزم کے تئیں حکومت کے عہد کی عکاسی کرتا ہے۔ بجٹ میں زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کی وزارت کیلئے 18-2017 کیلئے 51.576کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں، جس میں  اس سال کیلئے 58.080کروڑروپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ قابل غور بات  یہ ہے کہ اگر ہم  2009 سے 2014 سال سے کانگریس کے دورحکومت کے دوران بجٹ الاٹمنٹ کا موازنہ کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ  اس بجٹ میں مودی حکومت کے 5سال میں 211694کروڑروپے کا اضافہ کیا گیا ہے، جو کانگریس کے دور میں  1،21،082کروڑروپے تھا۔ یہ اضافہ 74.5فیصد ہے۔

مختلف شعبوں میں پانچ سال کا تقابلی بجٹ الاٹمنٹ حسب ذیل ہیں:

شعبہ بجٹ الاٹمنٹ (کروڑمیں) اضافہ فیصد میں
2009-14 2014-19
فصل بیمہ 6,182 33,162 436%
بہت چھوٹی آبپاشی 3193 12711 298%
سوائل ہیلتھ مینجمنٹ 162 1,573 871%
زراعتی میکانزم 254 2408 846%
زراعت کی توسیع سے متعلق ذیلی مشن 3163 4046 28%
زراعتی مارکیٹنگ 2666 6150 131%
بارش والے علاقوں کی ترقی 189 1322 700%
ڈیری کی ترقی 8114 10725 32%
نیلا انقلاب 1772 2913 64%
زرعی تعلیم، تحقیق اور توسیع 12252 13748 12%
  • بجٹ مختص کئے جانے کے علاوہ:
  • بہت چھوٹی آبپاشی کیلئے فنڈ 5ہزار کروڑروپے۔
  • ڈیری پروسیسنگ اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا فنڈ(ڈی آئی ڈی ایف) 10،881کروڑروپے۔
  • زرعی مارکیٹ  بنیادی ڈھانچے کیلئے فنڈ 2ہزارکروڑروپے۔
  • مچھلی اور ایکواکلچر بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے فنڈ۔
  • کُل 10ہزار کروڑروپے۔
  • مویشی پالن کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا فنڈ۔

ایک طرف ہماری حکومت پیداوار بڑھانےا ور مختلف زرعی فصلوں کی پیداواریت میں اضافہ کرنے کی سمت کام کر رہی ہے ، تو دوسری طرف حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کا صحیح دام ملے۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی رہنمائی میں اس مقصد کے حصول کیلئے دو اہم اعلانات کئے گئے ہیں۔

(الف )مختلف زرعی فصلوں کیلئے کم سے کم امداد ی قیمت  اِن پُٹ کاسٹ یعنی بیج اور کھاد کی قیمت کے مقابلے 1.5گُنا زیادہ ہوگی۔ اس فیصلے کے ساتھ مودی حکومت نے اپنے منشور میں کئے گئے سب سے اہم وعدے کو پورا کر دیا ہے۔

(ب)ہماری حکومت نے بار بار اس بات کو دوہرایا ہے کہ ہم محض کم سے کم امدادی قیمت کا اعلان کرنا نہیں چاہتے ہیں، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسان کم سے کم امدادی قیمت کا فائدہ حاصل کریں۔ مودی حکومت نے گزشتہ 4سال میں دالوں، آئل سیڈس اور فصلوں کی خریداری میں غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔

اس سمت میں مزید آگے بڑھتے ہوئے بجٹ میں بھی اعلان کیا گیا ہے کہ نیتی آیوگ مرکز اور ریاستی سرکاروں کے تعاون سے ایک میکانزم کو فروغ دے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کسان اپنی پیداوار کی کم سے کم امدادی قیمت حاصل کر سکیں۔

(ج)حکومت نے طویل مدت کیلئے درآمد-برآمدپالیسی کے سلسلے میں ایک ادارہ جاتی میکانزم قائم کرنے کی بھی تجویز رکھی ہے۔ ہم 2022 اور2023 تک 100ملین امریکی ڈالر کا برآمدی نشانہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کیلئے  تمام میگا فوڈ پارکس میں جدید ٹسٹنگ سہولیات قائم کی جائیں گی۔

(د)بجٹ میں قیمت اور مانگ کی پیش گوئی کرنے کیلئے ایک ادارہ جاتی میکانزم قائم کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے کسان فصل کے بارے میں  بروقت فیصلے کر سکیں گے اور یہ بھی طے کر سکیں گے کہ انہیں کتنا فائدہ ہوگا۔

اس بجٹ میں زرعی مارکیٹوں میں نئی اصلاحات کی گنجائش رکھی گئی ہے تاکہ کسانوں کو پیداوار کی صحیح قیمت فراہم کی جا سکے۔ اس بجٹ میں زرعی مارکیٹ ترقیاتی فنڈ کیلئے 2000کروڑروپے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرعی مارکیٹنگ کے شعبے میں خردہ مارکیٹ کی اہمیت ہے۔ ا ن مارکیٹس کوگرامین ریٹیل ایگریکلچر مارکیٹ کےنام سے جانا جاتا ہے۔ ان مارکیٹس کے ذریعے 22 ہزار دیہی ہاٹ اور 585 اے ایم سی مارکیٹس کے بنیادی ڈھانچے کوفروغ دیا جائے گا۔

ٹماٹر، پیاز، آلوپورے ملک میں سال بھر دستیاب رہتے ہیں اور ان کی پورے سال کھپت رہتی ہے۔ گزشتہ 70سال کےدوران کسانوں اور صارفین کو نقصان ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ آپریشن گرین کےنام سے ایک نئی پہل شروع کی گئی ہے تاکہ کسانوں کو صحیح قیمت مل سکے اور ان کی پیداوار مناسب داموں پر صارفین کیلئے مہیا ہوں۔ اس مقصد کیلئے 500کروڑروپے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

زراعت کےشعبےمیں زیادہ شرح ترقی حاصل کرنے کیلئے کیپٹل سرمایہ کاری کی ضرورتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ 2 بجٹ سالوں میں اصلاحات کی گئی ہیں۔ 10ہزار کروڑروپے ماہی پروری اور ایکواکلچربنیادی ڈھانچے کی ترقی کا فنڈ اور مویشی پروری بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے فنڈ کیلئے اس بجٹ میں 10ہزار کروڑروپے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کیلئے ریاستی سرکاریں کوآپریٹیو اور انفرادی سرمایہ کار، ماہی پروری، مویشی پالن، بنیادی ڈھانچے کیلئے سستی شرحوں پر قرضے حاصل کر سکیں گے۔

کسانوں کو بروقت قرض فراہم کرنا بھی بہت اہم ہے۔ اس کیلئے زرعی قرض، جو گزشتہ سال 10لاکھ کروڑروپے تھا، میں اضافہ کرکے اس سال 11لاکھ کروڑکیا گیا ہے۔ یہ قرض ان کسانوں کو بھی مل سکے گا، جو مویشی پالن اور ماہی پروری سے جڑے ہوئے ہیں۔

زراعت اور غیر زرعی سرگرمیوں میں اضافے کے مقصد سے اس بجٹ میں بانس کے قومی مشن کو متحرک کرکے ایک ہزار 290 کروڑکی تجویز ہے۔ اس سے چھوٹی صنعتوں کے قیام میں بھی مدد ملے گی اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

تمام ایس پی او ایس، جس میں کسانوں کی پیداوار خریدنے والی کمپنیاں شامل ہیں، کو بجٹ میں انکم ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ اس پہل کے ذریعے چھوٹے اور منجھولے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔

اس بجٹ میں ماڈل لینڈ لائنس کلٹی ویٹر ایکٹ کے اعلان بھی شامل ہے، جس سے وہ کسان ، جو کرائے پر کھیتی کر رہے ہیں ،ادارہ جاتی قرض انتظامات کے فائدے حاصل بھی کر سکیں گے۔

اسی مقصد کیلئے نیتی آیوگ ریاستی حکومتوں کی مدد سےضروری کارروائی کرے گی ۔

اس بجٹ میں نامیاتی کھیتی کے اعلان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے کامیاب نفاذ کیلئے کلسٹر پر مبنی کھیتی کو فروغ دیا جائے گا اور اس کو مارکیٹ کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ شمال مشرق اور پہاڑی ریاستیں اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔

دلی این سی آر خطے میں آلودگی سے نمٹنے کیلئے فصل کے انتظام کیلئے خصوصی اسکیم لائی جائے گی۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More