27 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

بی اے آئی ایف ،پونے کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر وزیر اعظم کی تقریب کا متن

नेपाल के प्रधानमंत्री की भारत की राजकीय यात्रा के दौरान प्रधानमंत्री द्वारा प्रेस वक्तव्य
Urdu News

 آج،  اگست،یعنی آج اس ادارے کے قیام کے دن  کوآپ  یوم فخر  کے طور پر مناتے ہیں

میں آپ کو “بائیف” ملک کی تعمیر میں  جو کردار  رہا ہےاس کے لئے مبارکباد دیتا ہوں.

میرے لئے ذاتی طور پر بہت خوشگوار ہو تا کہ میں آج  آپ کے درمیان آپ کی خوشیوں میں  شامل ہوتا ،  میں آپکے  نئے تجربات سنتا ، آپ سے کچھ نیا سیکھتا۔.

 مجھے یاد ہے جب کچھ سال قبل “واڈی” پروگرام کی شروعات ہوئی تھی تو نوساری اور ولساڈ میں آپ کے  پروگراموں کو میں نے بہت قریب دیکھاتھا۔اس لئے  “بائف” کے ساتھ میں  خود کو جذباتی طور  سے بہت جڑاس ہوا محسوس کرتا ہوں۔ جس  مشن کے ساتھ ملک کی کئی ریاستوں میں آپ کا ادارہ کام کر رہا ہے وہ ادارے کے لئے باعث اطمینان  کام ہے۔

آج یہاں اس پروگرام میں کئی ایوارڈ  دیے گئے ہیں۔ایوارڈ پانے والوں میں کچھ سیلف ہیلپ گروپ ہیں، کچھ  کوذاتی کوششوں کی وجہ سے ایوارڈ ملا ہے۔ کوئی کرناٹک کا ہے، کوئی گجرات کا ہے ، کوئی مہاراشٹر  کاہے، کوئی جھارکھنڈ کا ہے۔میں انہیں بھی مبارکباد دیتا ہوں اوریہ امید کرتا ہوں کہ وہ  اسی طرح سماجی  کام کرتے رہیں گے۔.

 دوستوں !اسی سال سابرمتی آشرم کے قیام کے 100 سال اور چمپارن ستیاگرہ کے  100 سال مکمل ہوئے  ہیں۔اسی سال  عوامی گنیش اتسو کے بھی 125 سال  پورے ہو رہےہیں۔ملک کی تاریخ میں تینوں  ہی پڑاؤ تحریک آزادی نئی سمت دینے والے ہیں۔ عوام کی شرکت سے   عزم کو کیسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے یہ اس کی علامت ہے۔.

 عوامی شراکت  سے عوامی فلاح و بہبود کا یہ ویزن ہندوستان کی ایگرو انڈسٹری فاؤنڈیشن کی بنیاد بھی  رہاہے۔ اس کے 50 سال بھلے ہی پورے ہو رہے ہوں لیکن اس کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جب 1946 میں منی بھائی، گاندھی جی کے  ہمراہ ارولی کنچن گاؤں پہنچے تھے۔ گاندھی جی کی ترغیب سے ، منی بھائی نے اس پورے  خطے  کی شکل بدلنے کا عہد کیا تھا اور اس کی شروعات کی تھی ، گجرات کے گیر سے گایوں کو یہاں لاکر ۔.

 ہمارے گاؤں میں یہ موجود روایتی علم اور سائنس کو جدید تکنیک سے جوڑ کر کسانوں کی آمدنی کیسے بڑھائی جا سکتی ہے یہ آپکے ادارے نے کر کے دکھایا ہے۔.

 دوستو! ملک کی متوازن ترقی کے لئے بہت ضروری ہے کہ ملک کے گاؤں میں رہنے والے کسان مضبوط ہوں۔ ایک مضبوط کسان کے بغیر، نیو انڈیا کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور اس لئےحکومت 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کر نے کے ہدف پر کام کر رہی ہے اس لئے اب زرعی اسکیموں کی اپروچ میں بدلاؤ کرتے ہوئے انہیں پروڈکشن سینٹرک ہونے کے ساتھ ہی انکم سینٹرک بھی بنایا گیا ہے۔

آج حکومت بیج سے بازار تک کسانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ پانی کی ایک ایک بوند کے استعمال پر زور ہے ۔ آرگینک کھیتی اور فصل میں تنوع کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ کسانوں کو مٹی کی صحت کی جانکاری کے لئے اب تک 9 کروڑ سے زائد سوایل ہیلتھ کارڈ  دیے جا چکے ہیں۔

ای – نام اسکیم کے تحت پورے ملک کی 500سے زائد زرعی منڈیوں کو آن لائن جوڑا جا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ‘ پردھان منتری کسان سمپدا یوجنا’ بھی شروع کی گئی ہے اس کا مقصد ملک میں اسٹوریج کے مسئلہ سے نمٹنا ہے اور فوڈ پروسیسنگ کو فروغ دینا ہے۔

پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے ذریعہ یہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ اگر کسی وجہ سے فصل خراب بھی ہو گئی تو کسانوں کی زندگی پر آفت نا آئے ۔ کسانوں کو سود خوروں کے چنگل سے نکالنے کے لئے سب سے کم شرح سود پر قرض دیا جا رہا ہے۔

آپ دیکھیں گے کہ حکومت کی یہ کوشش اس لئے ہے کہ کسان کھیتی سے متعلق تشویشات سے باہر نکلیں ، ان کا خرچ کم ہو اور آمدنی بڑھے۔ جب ملک کا ان داتا تفکرات سے آزاد ہوگا تو ملک ترقی کی نئی بلندیاں سرکرے گا۔

‘بائف بہت ہی جذبہ خدمت سے برسوں سے اس کام میں لگا ہوا ہے لیکن آج وہ آپ کے درمیان کچھ نئے خیالات کی سیڈنگ یا بیج ڈالنا چاپتا ہوں ۔یہ کسی ایکسپرٹ کو رائے یا معلومات دینا نہیں بلکہ ایک ایکسپرٹ سے اپیل کرنے کی طرح ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ خواتین سیلف ہیلپ گروپ کی وساطت سے ‘ بائف’ کس طرح لاکھوں خواتین کو با اختیار بنا رہا ہے لیکن کیا اسے تھوڑا اور فوکس کیا جا سکتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں مویشی پروری کے شعبے کو تقریباََ 70 فیصد خواتین مل کر سنبھال رہی ہیں۔ خواہ جانوروں کے لئے چارے کا انتظام ہو، پانی کا نظم ہو، دوائی ۔ دودھ، سارے کام خصوصیت کے ساتھ خواتین ہی کر رہی ہیں یعنی ایک طرح سے ملک کا مویشی پروری کا شعبہ پوری طرح سے خواتین پر ٹکا ہوا ہے۔

اس لئے آج بہت ضروری ہے کہ خواتین سیلف ہیلپ گروپ کو ویٹرینری ایجوکیشن ، ریسرچ ، سروس ڈلیوری سسٹم کے بارے میں خصوصی ٹریننگ دی جائے۔ جتنی زیادہ خواتین اس فلڈ میں ٹرینڈ ہوں گی اتنا ہی ملک کا پشو دھن مضبوط ہوگا۔ اور خودخواتین کا بھی بھلا ہوگا۔

‘بائف’ جیسے ادارے زیادہ سے زیادہ خواتین کو اس کے لئے ترغیب دے سکتے ہیں جنہیں ٹریننگ دینے کے لئے پروگرام کی شروعات کر سکتے ہیں۔

دوستو ! ہمارے ملک میں ہر سال تقریباََ 40 ہزار کروڑ روپئے کا نقصان مویشیوں کو ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس صورتحال سے  نمٹنے  کے لئے کچھ  ریاستوں میں پشو آروگیہ میلے لگائے جاتے ہیں ،ان میں مویشیوں کے کٹریکٹس کے آپریشن سے لیکر دانتوں کی سفائی تک کے کام کئے جاتے ہیں لیکن اس طرح کے پشو آروگیہ میلے کی تعداد بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔ ‘ بائف’ جیسے ادارے ملک بھر میں ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر پشو آروگیہ میلے لگانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

میری آپ سے خصوصی اپیل اس لئے ہے کیونکہ آپ کے ادارے پہلے ہی 15 ریاستوں میں کام کر رہے ہیں اور آپ کی صلاحیت پورے ملک میں کام کرنے کی ہے۔ملک کی شمال مشرقی ریاستیں بھی ‘بائف’ کے قدم وہاں جمنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ ملک  کی شمال مشرقی ریاستیں جنہیں میں اشٹ لکشمی  کہتا ہوں وہاں آرگینک فارمنگ کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ انہیں آپ کے تجربے سے کافی فائدہ مل سکتا ہے۔

اسی طرح ادویاتی اور خوشبو دار پودوں کی کھیتی کے تعلق سے کسانوں میں بیداری پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں ادویاتی اور خوشبو دار پودوں کی ہزاروں قسمیں موجود ہیں ۔دنیا بھر میں ان کی مانگ ہے لیکن ڈیمانڈ اور سپلائی کے درمیان کا گیپ بہت زیادہ ہے۔ حکومت ترقی پسند کسان اور بائف جیسے ادارے  اس کی کھیتی کے ساتھ ہی پوری سپلائی چین کی جانکاری دینے کا کام مضبوطی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔

دوستو ! گرین ریولیوشن اور وائٹ ریولیوشن سے ملک اچھی طرح واقف ہے۔ وقت کا مطالبہ ہے کہ بلیو ریولیوشن کے ذریعہ ہمارے ماہگیر بھائی کی زندگی میں تبدیلی لائی جائے، سویٹ ریولیوشن یعنی مدھومکھی پالن اور شہد کی پیداوار کے ذریعہ کسانوں کی آمدنی بڑھائی جائے۔گرین ریولیوشن ، وائٹ ریولیوشن کے ساتھ اب ہم بلیو ریولیوشن، سویٹ ریولیوشن اور واٹر ریولیوشن کو جوڑنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

کھیتی صرف گیہوں- چاول اور سرسوں پیدا کرنا ھی نہیں ہے۔روایتی کھیتی کےساتھ – ساتھ جتنا کھیتی سےجڑےسب کے سب سیکٹروںپر دھیان دیا جائیگا۔ اُتنا ھی کسان کو آمدنی بڑہانےمیں مد ملے گی۔جیسےمدھو مکھی پالن  کو ھی لیجئے۔ایک ریسرچ کےمطابق روایتی کھیتی کرنے والا  کسان , 50 bee کالونی کی چھوٹی یونٹ لگاکر 2 لاکھ روپئے سالانہ  تک اضافی آمدنی حاصل کرسکتا ہے۔ ۔ مدھومکھیاںشہد کی پیداوار  کےساتھ – ساتھ pollination support  میں بھی بہت بڑی ذمہ داری نبھاتی ہیں۔

مدھومکھی پالن ھو،  مچھلی پالن ھو، گننے کے پھوک وغیرہ ان سے آج کےسماج کی ضرورت  پوری ھوتی ہے اور اسلئے روایتی کھیتی میں لگےکہوئے سانوں کو ایسے ذیلی شعبوں کے تئیں متوجہ  کرنےکا کام ،  اُنکی مدد کرنےکا کام بخوبی کرسکتی ہیں۔

ساتھیوں، مہاراشٹر کا ودربھ خطہ ہو، مدھیہ پردیش،  راجستھان،  تیلنگانا – آندھر پردیش کےکچھ علاقے ھوں، یو پی کا بندیل کھنڈ ھو، یہ کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں پر کسان پانی کی کمی کی وجہ سے پریشان رہتا ہے ۔

حکومت کے ذریعے اپنی طرف سےپانی کی کمی دور کرنےکی کوشش لگاتار کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کرشی سنچائی منصوبہ کےتحت 99 ایسے پروجیکٹ پورےکئے جا رہےہیں جو بہت وقت سےاَدھورےپڑےہوئے تھے۔ ان میں سے21 پروجیکٹ اس سال پورےھو چکےہیں۔ اسکے ساتھ – ساتھ اس بات پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ پانی کی ھر بوند کا ھم بہتر استعمال کریں۔ ڈرپ الیگیشن، مائیکرو ارریگیشن اور کروپ ڈائیورسی فکیشن بھی اس کا ذریعہ ہے۔ منریگا کی بھی 60 فیصد سےزیادہ رقم حکومت پانی کے تحفظ  اور پانی کے انتظام پر ہی خرچ کر رہی ہے۔

لیکن، بھائیوں اور بہنوں ، جب تک سارےکسان اس کوشش کےساتھ نہیں جڑینگےتب تک ھم اسےکامیاب نہیں بنا پائیں گے۔ مجھےبتایا گیا ہے کہ آج اس پروگرام میں ہیورےبازار سےجناب  پوپٹ راؤ پوار بھی آئے ہوئے ہیں۔ ہیو رےبازار ایک بہترین مثال ہے کہ ایک – ساتھ  مل کر، ایک دوسرےکے مفادکو دھیان میں رکھتےہوئے ھم کس طرح سےپانی کا صیح استعمال کر سکتےہیں، تاکہ کفایت کے ساتھ پانی استعمال کرنے کی ھماری  صلاحیت بڑہےتاکہ  ھمارے زیر زمین آبی ذخیرے دیر تک استعمال ہوں ۔ مجھے“بائف” سےامید ہے کہ جن گاؤں میں وہ کام کر رہےہیں وہاں“جن – آندولن اور پانی – آندولن” کی مثال قائم کرینگے۔

اسکے علاوہ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا اور بینکوں سےھی قرض لینےکےلئے آمادہ کرکےبھی ان علاقوں کےکسانوں کی زندگی آسان بنانےمیں آپ مدد کر سکتےہیں۔

بھائیوں اور بہنوں، راشٹرسنت تکڑوجی مہاراج نےگرام گیتا میں لکھا ہے – “گرام سدھارنیچا مول منتر، سجناننی وہاوےئیکتر ! سنگھٹن ھیچی شکتچےسوتر،  گرام راجیہ نرمان کری” !!

یعنی گاؤں کے سدھار کا بہترین ذریعہ ہے سبھی لوگ ایک جٹ ہوکر اجتماعی طاقت کے ساتھ کام کریں۔ تبھی گاؤں کی تعمیر ہوگی۔ یہی منتر مہاتما گاندھی نےدیا تھا، اسی کی پیروی من بھائی دسائی نےکی۔آج آپکے ادارے کی تنظیمی طاقت سےگاؤں کی ترقی کا نیا دروازہ کھل سکتا ہے۔ آج ضرورت  اس بات کی ہے  کہ ھم اپنے گاؤں پر فخر کریں۔ گاؤں کےلوگ یوم تاسیس منائیں،  ایک وژن اپنائیں، اُسےلے کر آگے بڑہیں۔ آپ جن 80 ہزار گاؤوں میں کام کر رہےہیں ،ان میں گاؤں کی قیادت ایک وژن کےساتھ آگے بڑہے۔یہی نیوانڈیا کےتعمیر کا ایک ذریعہ ھوگا۔

ساتھیوں، کھیتی کی input cost کم کرنےکےلئے حکومت لگاتار کام کر رہی ہے۔ آج سایل ھیلتھ مینجمنٹ  کی وجہ سے ، سایل ھیلتھ کارڈ کی وجہ سے , یوریا کی نیم کوٹنگ کی وجہ سے , ڈرپ ارگیشن کو بڑہاوا دینےکی وجہ سے , کھیتی پر ھونےوالا کسانوں کا خرچ کم ہوا ہے۔ سولر پنپ کا زیادہ سےزیادہ استعمال کرکےبھی کسان ڈیزل پر ھونےوالا خرچ بچا رہےہیں۔ان جدید تکنیکوں کےاستعمال  سےفصل کی پیداوار بھی بڑھی ہے۔اس سلسلے میں “بایف” کا بھی پرانا تجربہ  رہا ہے اور اسلئے کھیتی کی input cost کم کرنےکےلئے اور کیا – کیا کیا جا سکتا ہے، اس بارےمیں آپکی تجاویز کا ہمیشہ خیرمقدم ہے۔ آپ جتنا زیادہ کسانوں کو اس کوشش میں جوڑینگے، اُتنا کسانوں کی بچت ھوگی اور منافع بڑہیگا۔

ساتھیوں،waste to wealth بھی ایسا موضوع ہے ، جو آج کی ضرورتوں اور مستقبل کے چیلنجوں سے جڑا ہوا ہے۔Agriculture waste کی recycling کا کام ھو،compost بنانےکا کام ھو، اس سے بھی کسانوں کی آمدنی بڑھ سکتی ہے اور پورےگاؤں کواسکا فائدہ مل سکتا ہے۔

آج کھیت میں کوئی چیز بیکار نہیں ہے ، ھر چیز استعمال ھو سکتی ہے، وہ  دولت بن سکتی ہے।

اسی طرح گاؤں میں سؤر ایندھن کو بڑہاوا دے کر بھی پورےگاؤں کو بجلی کےمعاملہ میں خود کفیل بنایا جا سکتا ہے۔ کھیتوں کےکناریے تنی جگہ ھوتی ہے،  وہاں پر سولر پینل لگاکر بجلی بنانےکےلئے بھی کسانوں کو آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے پورے ملک میں دودھ کاپریٹو ھوتی ہے، ویسےھی سولر کاپریٹو بناکر بجلی کی پیداوار کی جا سکتی ہے  اور اُسےبیچا جا سکتا ہے۔

ساتھیوں، آج آپ لوگ دیکھتے ھونگے کہ  گاؤں میں بھی لگ بھگ ھر گھر کےاُوپر ایک چھوٹی سی چھتری دکھ جاتی ہے۔یہ ڈیجیٹل  تکنیک ھی تو ہے جس نے سب کچھ اتنا آسان کر دیا ہے۔ پہلےایک دو چینل آتےتھے، اب سؤ – دو سؤ چینل آتےہیں۔ رموٹ اب اُنکےلئے بہت مشکل اوزار نہیں رہ گیا ہے۔ دو – تین سال کا بچہ بھی رموٹ سےچینل بدل لیتا ہے۔

تکنیک سےایسے ہی پورے ملک میں ڈیجیٹل گاؤں کا منصوبہ سرکار بنائے گی۔ ایسا گاؤں جہاں زیادہ تر لین – دین ڈیجیٹل طریقے سےھو، قرض سےلیکر اسکالرشپ تک ، سارےفارم آن لائن بھرےجائیں، اسکولوںمیں ڈیجیٹل تکنیک سےپڑہائی ھو، صحت خدمت بھی ڈیجیٹل تکنیک سےجڑی ھو۔

ڈیجیٹل گاؤں کے اس تصور کو پورا کرنےکےلئے حکومت ملک کی ھر پنچایت کو آپٹکل فائبر سےجوڑ رہی ہے۔ لیکن ذریعہ اور وسائل کا استعمال ہی کافی نہیں ہوگا۔ اُنکا استعمال کرنےکےلئے لوگوں کو ساتھ لے کر کرنےکا کام آپ جیسی تنظیمیں ہی کر سکتی ہیں۔ اسلئے کیا آپکی تنظیم یہ عہد کرسکتی ہے کہ ھر سال کم سےکم 500 گاؤں کو “کم کیش گاؤں” بنائیگی۔ آپ دیکھئے گا ، آپ 500 گاؤں کو “کم کیش” بنائیں گےتو آس پاس کےایک دو ہزار گاؤں اپنے آپ اس انتظام کو اَپنانےلگیں گے۔ ایک chain reaction کی طرح یہ ایک گاؤں سےدوسرےگاؤں میں پھیلے گا۔ساتھیوں، گاندھی جی کا نظریہ  گاؤں کو بااختیار بناکر ہی ملک کو مضبوط کرنے کا تھا۔ اُس  نظریے پر  چلتےہوئے “بایف” کی خدمت  نےلاکھوں کسانوں کی زندگی بدلی ہے،  اُنہیں اپنا روزگار چلانا سکھایا ہے۔سنگلب سے سدھی کیسےکی جاتی ہے، اُسکی واضح مثال آپ کی تنظیم ہے۔

میری آپ سے درخواست ہے ک جو خیال آپکےسامنے  رکھےہیں، اُن سےجڑےہوئے کچھ نئے عزائم کو اپنے ساتھ جوڑیئے۔2022 میں، جب ملک آزادی کے75 سال پورےکرے گا، تب آپکےعزائم  کی تکمیل سےملک کےکروڑوں کسانوں کی کامیابی ثابت ہوگی۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More