23 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ایم این آر ای کے ذریعہ بون، جرمنی میں، 2022 تک ’175 جی ڈبلیو کے حصول کے لئے جدت طرازی پر مبنی مالی اور منڈی ترقیات کے موضوع پر پینل تبادلہ خیالات کا اہتمام ‘

Urdu News

نئی دہلی، بھارت نے مساوی ہمہ گیر ترقیات کی فراہمی کے لئے قابل احیا توانائی نشانوں کے حصول کا عہد کررکھا ہے۔ نئی اور قابل احیاء توانائی (ایم این آر ای) کی وزارت، حکومت ہند،  نے بھارتی صنعتوں کی کنفیڈریشن (سی آئی آئی) کے تعاون و اشتراک سے 16 نومبر 2017 کو بون، جرمنی میں پارٹیز کی کانفرنس میں بھارتی پویلین میں ایک پینل تبادلہ خیالات کا اہتمام کیا۔ اس تبادلہ خیالات کا موضوع تھا ’’2022 تک 175 جی ڈبلیو قابل احیاء وسائل کے حصول کے لئے جدت طرازی کے حصول پر مبنی سرمایہ اور منڈی ترقیات‘‘۔

پورے مضبوط ارادے اور شفافیت کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھنے کے بھارت کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے، ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی، حکومت ہند کی وزارت کے سکریٹری جناب سی کے مشرا نے کہا کہ ہم   پوری قوت سے قابل احیاء توانائی صلاحیتوں کی بہم رسانی کے لئے متعین کردہ نصب العینوں کے حصول کے لئے کوشاں ہیں اور اپنی توانائی ضروریات کے مرکبات  کو بدلتے رہے ہیں اور مساوی ہمہ گیر ترقیات کے حصول کے لئے آئندہ بھی ایسا کرتے رہیں گے۔

ایم این آر ای کے مشیر ڈاکٹر پی سی میتھانی نے حکومت کی جانب سے کی جانے والی دخل اندازی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ منڈی کی ضروریات کے  لحاظ سے درپیش چنوتیوں کا سامنا کرنے کی غرض سے لگاتار بنیادوں پر پالیسیاں وضع کی جارہی ہیں۔ اس بات کی مثال پیش کرتے ہوئے کہ اب سوال وسائل کی دستیابی کا نہیں ہے ، بلکہ اصل معاملہ سستے وسائل کی دستیابی  کا ہے، جناب کے  ایس  پوپلی سی ایم ڈی انڈین رینیویبل انرجی ڈیولپمنٹ ایجنسی لمیٹیڈ (آئی آر ای ڈی اے) نے کہا کہ منڈیاں بالغ النظر ہوگئی ہیں  اور اس کا ایک اشارہ اس امر سے ملتا ہے کہ کس طریقے سے بانڈ پر مبنی منڈیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔

دی انرجی اینڈ ریسورسز  انسٹی ٹیوٹ  (ٹی ای آر آئی) کے ڈی جی ڈاکٹر اجے ماتھر نے زور دیکر کہا کہ اسٹوریج ٹکنالوجی میں اعلی تحقیق درکار ہے اور اس کے ذریعہ کمزور ، قابل احیاء بجلی  فراہمی کو تقویت فراہم کی جاسکتی ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ ذخیرہ کی لاگت میں فوری طور پر کمی لائی جائے۔

قابل احیاء توانائی کے معاملے بھارت نے کافی لمبا سفر طے کیاہے اور اس نے 2022 تک 175 جی ڈبلیو کے حصول کا  الوالعظم نشانہ مقرر کررکھا ہے۔شمسی اور ہوائی توانائی کی قیمتیں 2013 میں 9 سے 12 فی یونٹ کے مقابلے میں ڈرامائی طور پر گھٹ کر 3 سے 4 فیصد کے ڈبلیو ایچ ہوگئیں جبکہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ صلاحیت 47.5 جی ڈبلیو تک پہنچ گئی ہے۔ پالیسی سازوں اور صنعت  دونوں کو اب پورا یقین ہے کہ وہ ترقی کے اس راستے پر آگے بڑھ سکیں گے اور بجلی فراہم کرسکیں گے اور 2025 سے قبل 5 روپے فی یونٹ کی تخمینہ لاگت پر بجلی کا  اسٹوریج ممکن ہوسکے گا۔

قابل احیا توانائی منڈیوں کے دائرہ امکان کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ہیرو فیچرس انرجی کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب راہل منجال نے کہا کہ صنعت میں غیر معمولی توسیع ہوئی ہے اور اب معیشت حیونات کے نظام کے تحت تقریباً 10 ہزار فرمیں مصروف عمل ہیں۔ یہ مثبت تبدیلی کاروباری ماحول اور سرمایہ کاری میں ساز گار ماحول کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔ ایسے ہی مماثل خیالات اور امید  کا اظہار کرتے ہوئے سی ایل پی انڈیا کے ایم ڈی جناب راجیو رنجن مشرا نے کہا کہ  قابل احیاء توانائی وسائل بھارت جیسی معیشتوں کے لئے زیادہ سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے جارہے ہیں اور ان کے توسط سے عوام کے بڑے طبقے تک بجلی بہم پہنچائی جانی ہے۔ ہندوستان پاور پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ  (ایچ پی پی پی ایل) کے چیئرمین جناب راتل پوری نے واجبی قیمتوں پر بجلی دستیاب کرانے کی ضروریات کو نمایاں کیا اور کہا کہ بھارت کی صنعت اس نصب العین کے حصول کےلئے کوشاں ہے۔

پینل میں کے ایف ڈبلیو ڈیولپمنٹ بینک کے پرنسپل پروجیکٹ منیجر، مسٹر فرینک ڈیٹرمین ، انڈیا اسمارٹ گرڈ فورم کے جناب ریجی پلئی بھی دیگر افراد کے ساتھ شامل تھے۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More