31 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نائب صدر جمہوریہ کا عام لوگوں کو در پیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اختراعی حل پر زور

Urdu News

نئی دہلی: نائب صدر جمہوریۂ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ ہندوستانی سماج کاقیام بنیادی طور پر روادار تہذیب  پر عمل میں آیا اور مذہبی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے  یہاں مذہبی تنوع  کا جشن منایا جاتا ہے۔

آج حیدرآباد کے مفخم جاہ کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کے گریجویشن ڈے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا ہندوستان ایسی شمولیت میں یقین رکھتا ہے جس میں ہر شہری کو  اپنے مذہبی میلانات سے قطع نظر یکساں حقوق  حاصل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر شہری کو مذہبی امتیاز کے بغیر آئین کے تحت مساوات کی ضمانت دی گئی ۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ ‘‘سب کا ساتھ ، سب کا وکاس’’ کی بنیاد ہندوستانی تہذیب کے اہم اصولوں سے  وابستہ ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ اقلیتوں کو ووٹ بینک کے طور پر دیکھنے کی غلطی سے ناگزیر سماجی و سیاسی اثرات مرتب ہونگے۔  انہوں نے کہا کہ اب  حالات بدل رہے ہیں چونکہ جدید ، جواں سال اور  خواہش مند ہندوستان تیزی سے ابھر رہا ہے۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ ہندوستان میں زندگی کے ہر شعبے میں مذہبی مساوات دکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے کئی رہنماؤں کو  زندگی کے دیگر شعبوں جیسے موسیقی، ثقافت، اسپورٹس، فلم وغیرہ  میں اہم خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ انہیں صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ ، وزیر اعظم ،گورنر، چیف جسٹس، وزراء اعلی ، وزراء ، چیف الیکشن کمشنر، اٹارنی جنرل اور فوجی سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کا موقع ملا ۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان دنیا کے چار اہم مذاہب جیسے ہندومت، بودھ مت، جین اور سکھ کی جنم بھومی بھی ہے  اور تین دیگر مذاہب جیسے اسلام، عیسائی، زرطشت  کے ماننے والوں کی اچھی خاصی آبادی  ہندوستان میں  مقیم ہے۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ اس طرح دنیا کے سات اہم مذاہب کے ماننے والوں کا مل جل کر رہنا اخوت، مساوات، باہمی میل جول اور سکونت اس  کا واضح ثبوت ہےجو ہندوستانی طرز زندگی اور طرز فکر کے  اٹوٹ حصہ ہونے کی گواہی دیتا ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا  کہ مختلف عہدوں میں  ہندوستان کے فلسفیوں، حکمرانوں اور جدید سیاسی قیادت نے مساوات اور رواداری کے اصولوں کو قائم و دائم رکھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی  کہا کہ دنیا کو اس پر یقین ہونا چاہیے کہ ہندوستان  مذہبی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی مذہبی تنوع کا جشن مناتا ہے۔کوئی دوسرا ملک اس طرح کے تنوع اور ایسے رنگ برنگے گلدستے کے تحفظ کے تئیں عہد بستگی میں ہندوستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

نائب صدر جمہوریہ نےعام لوگوں کو در پیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے طلباء  سے  نئے اور اختراعی حل کے ساتھ سامنے آنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ٹکنالوجی کی ہر دریافت کا مقصد موسمیاتی تبدیلی ، آلودگی، بڑے پیمانے پر صنعت کاری ، شہری آباد کاری ، پانی کی قلت اور زرعی  مسائل   کے باعث درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہونا چاہیے۔  انہوں نے زراعت کو مفید اور پائیدار بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔

مستقبل کے علمبرداروں کو تیار کرنے میں اعلی تعلیم کے منفرد رول کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آنے والی  نسل میں حب الوطنی، ایمانداری، سماجی ذمہ داری ، نظم و ضبط، غم خواری ، خواتین کے تئیں احترام  اور تکثیریت کے اہم اقدار کا جذبہ بیدار کریں ۔

انہوں نے کہا کہ ‘‘طلباء کو  روایتی اقدار کے تحفظ اور سماجی طور پر باشعورنیز مونس غم خوار ہونے کی ضرورت  کے بارے میں آگاہ  کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے اندر مثبت رجحان پیدا کرنا چاہیے اور منفی رجحان کو ختم کرنا چاہیے۔’’

انہوں نے یونیورسیٹیوں اور اعلی تعلیمی اداروں سے کہا   کہ وہ تحقیق اور معیاری بین الاقوامی جرنلوں میں معیاری مقالات کی اشاعت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ آپ میں سے ہر ایک کو دانشورانہ ملکیت کے حقوق  کی اہمیت اور پیٹنٹ کا فارم پر کرنے کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان  ایک ابھرتی معیشت ہے  اور اعلی تعلیم کا تصورلازمی طور پر انسانی وسائل کی صلاحیت کوتمام تر  مساوات اور شمولیت کے ساتھ بروئے کار لانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘تعلیم ہماری نوجوان آبادی کو قومی اثاثے میں تبدیل کرنے کے لیے سب سے اہم عنصر ہے’’

جناب نائیڈو نے گریجویٹ ہونے والے طلباء سے کہا کہ وہ بے خوف ہو کر نئے خطے کا چارٹ تیار کریں اور ٹیم ورک کو اپنی کے لیے منتر بنائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ طلباء بڑے خواب دیکھیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے سخت جد و جہد کریں ۔

تلنگانہ کے وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی ، عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر  پروفیسر ایس رامچندرن ، سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی کے سکریٹری جناب ظفر جاوید ، سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئرمین جناب خان لطیف محمد خان اور دیگر شخصیات بھی اس موقع پر موجود تھیں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More