28 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

مرکز نے وزرائے اعلی کو ہوشیار کیا کہ اگر ریئل اسٹیٹ ایکٹ 30 اپریل تک کی مقررہ مدت میں پوری نہیں کی گئی، تو اس شعبہ میں خلاء پیدا ہو سکتاہے

Urdu News

نئی دہلی،12فروری 2017؛ جہاں خریدار اس سال یکم مئی سے ریئل اسٹیٹ (ریگولیشن اور ترقی) ایکٹ، 2016 کے تحت راحت حاصل کرنے کے مستحق ہیں، وہیں مرکزی حکومت نے ریاستوں کو آگاہ کیا ہے کہ اگر اس سے پہلے قانون نہیں بنائے گئے، تو اس ایکٹ کے تحت ضروری ادارہ جاتی طریقۂ کار کی غیر موجودگی میں اس شعبہ میں خلاء پیدا ہونے کی سنگین صورتحال کا امکان ہے۔

ابھی تک صرف چار ریاستوں اور چھ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی جانب سے ریئل اسٹیٹ سے متعلق حتمی قوانین اور کچھ ریاستوں کی جانب سے ایکٹ کے کچھ دفعات کی خلاف ورزی کی شکایات موصول ہونے کے پیش نظر ہاؤسنگ اور شہری غربت کے خاتمے کے مرکزی وزیر جناب ایم وینکیا نائیڈو نے گزشتہ ہفتہ وزرائے اعلی سے ایکٹ کے کلّی طور پر نفاذ کو یقینی بنانے میں ذاتی دلچسپی لینے کی اپیل کی۔ 9 فروری، 2017 کو تمام ریاستوں کے وزرائے اعلی کو لکھے ایک خط میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ، ‘ریئل اسٹیٹ ایکٹ اس شعبہ کے لئے سب سے اہم اصلاحات میں سے ایک ہے، جس سے تمام شراکت داروں کو فائدہ پہنچے گا۔ لہذا میری آپ سے درخواست ہے کہ براہ مہربانی آپ اس مسئلے پر ذاتی توجہ دیں، جس سے اس ایکٹ کا نفاذ بر وقت اور صحیح طرح سے ہو سکے، جس کے لئے اسے پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیا گیا تھا۔

‘ جناب نائیڈو نے وزرائے اعلی کو یہ کہتے ہوئے آگاہ بھی کیا کہ ‘متعلقہ حکومتوں سے زیادہ سے زیادہ 30 اپریل، 2017 تک ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی اور اپیلیٹ ٹربيونل قائم کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ وقت کی حد اہم ہے، کیونکہ یہ ایکٹ یکم مئی 2017 سے مکمل طور پر قابل عمل ہو جائے گا اور قوانین اور ریگولیٹری اتھارٹی اور اپیلیٹ ٹربيونل کی عدم موجودگی میں ایکٹ کا نفاذ آپ کی ریاست میں مؤثر ہو گا، جس سے اس شعبے میں خلاء کی صورتحال پیدا جائیں گی۔

‘ وزیر موصوف نے وزرائے اعلی کو لکھے اپنے دو صفحات کے خط میں کہا کہ رئیل اسٹیٹ ایکٹ، 2016 پارلیمنٹ کی طرف سے منظور سب سے زیادہ صارفین دوست قوانین میں سے ایک ہے اور اس پر بر وقت عمل درآمد مرکزی اور ریاستی حکومتوں دونوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ یہ نہ صرف صارفین کو ضروری تحفظ فراہم کرے گا، بلکہ اس سے ریئل اسٹیٹ کے شعبہ کو بھی فروغ ملے گا، جس کے باعث تمام شراکت داروں کو فائدہ پہنچے گا۔

ہاؤسنگ اور شہری غربت کے خاتمے کی وزارت (ایچ یو پی اے) نے گزشتہ ماہ 17 تاریخ کو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ ایک مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد کیا تھا تاکہ ان کی طرف سے کی گئی پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے اور اس ایکٹ کے تحت ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں انہیں بتایا جا سکے۔ اس کے علاوہ، اس ورکشاپ کا مقصد اس سال یکم مئی سے نافذ العمل ہونے والے اس ایکٹ سے فائدہ اٹھانے میں صارفین کو فعال بنانے کے لئے وقت کی حد کو پورا کرنا بھی تھا۔ ساتھ ہی اس بات کی یقین دہانی کرانی تھی کہ ان سے متعلق قوانین ایکٹ کی اصل روح سے الگ نہ ہوں۔

ایکٹ کے 60 سے زائد سیکشن کو ہاؤسنگ اور شہری غربت کے خاتمے وزارت کی جانب سے گزشتہ سال یکم مئی کو نوٹیفائی کیا گیا تھا۔ اس میں سیکشن 84 بھی شامل تھا، جس کے تحت ریاستوں کو گزشتہ سال 31 اکتوبر تک ریئل اسٹیٹ قوانین کو نوٹیفائی کرنے اور اس کی طرف سے ایکٹ کے نفاذ کے لئے زمین تیار کرنے کی ضرورت تھی۔

جن ریاستوں نے حتمی قوانین کا اعلان کیا ہے، وہ ہیں – گجرات، مدھیہ پردیش، کیرالہ اور اتر پردیش۔ وزارت نے ان میں سے کچھ ریاستوں کی جانب سے ایکٹ کے کچھ دفعات کی خلاف ورزی کی کچھ شکایات موصول کی ہیں، جس کی وجہ سے ایکٹ کی روح کمزور پڑ گئی ہے۔ وزارت نے ان شکایات کو راجیہ سبھا کی ماتحت قانون ساز کمیٹی کو سونپ دی ہے۔ اس پس منظر میں، جناب وینکیا نائیڈو نے وزرائے اعلی سے اس ایکٹ کے نفاذ کو یقینی بنانے پر زور دیا، جیسا کہ پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیا گیا ہے۔

ایکٹ کی دفعات کے تحت ریئل اسٹیٹ پراپرٹی کے خریدار اور ڈویلپر دونوں ہی اس سال یکم مئی سے ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری حکام کے پاس جاکر معاہدے کی شرائط اور ایکٹ کے دیگر دفعات کی خلاف ورزی کی صورت میں راحت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ عام قوانین اور فروخت قوانین کے معاہدے سمیت ریئل اسٹیٹ اتھاریٹی اور اپیلیٹ ٹربيونل کے تمام قوانین مناسب طریقے سے لاگو ہوں۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More