33 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

وزیردفاع جناب راجناتھ سنگھ نے سرحد کے اس پار کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ہندوستان کے مصمم عزم اورارادے کو دہرایا

Urdu News

نئی دہلی، وزیر دفاع جناب راجناتھ سنگھ نے کہاکہ ہندوستان  سرحد کے اس پار کی دہشت گردی سے نمٹنے  اور سختی سے جواب دینے کی  صلاحیت رکھتا ہے اور2016 اور 2019 میں دہشت گردانہ  حملوں کے خلاف کارروائیوں نے اس بات کو ظاہر کردیا تھا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کے تئیں ملک کے ارادے بہت مضبوط ہے۔ آج یہاں دفاعی مطالیات اور تجزیوں انسٹی ٹیوٹ میں بارہویں جنوبی ایشیائی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب راجناتھ سنگھ نے حکومت کے اس موقوف کو دہرایا کہ بات چیت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے انہوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ اپنی سرزمین سے ہندوستان پر مختلف حملے شروع کرنے کے لئے ذمہ دار دہشت گرد ملکوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔

 وزیر دفاع نے کہا کہ ہندوستان خطے کی سلامتی اور امن کے لئے مشترکہ طریقہ کار کو فروغ دینے کے لئے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔ انہوں نے جنوب ایشیائی ایسوسی ایشن برائے علاقائی تعاون  سارک جیسی علاقائی تنظیم کے ممبرملکوں پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کو  ہرانے کی کوششوں  کے سلسلے میں  متحد ہوں۔ جناب راجناتھ سنگھ نے کہا کہ پاکستان کو چھوڑ کر سارک ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے اصولوں پر کار بند ہے اور وہ سرحد پار کی دہشت گردی کی حمایت نہیں کررہے ہیں۔

کسی ملک کانام لئے بغیر جناب راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ایک واحد ملک کی پالیسیوں اور رویے کی وجہ سے سارک کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار نہیں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کس طرح 2015 میں کاٹھمنڈو کے پچھلے اجلاس میں سارک موٹر گاڑیوں سے متعلق سمجھوتہ رک گیا۔  انہوں نے مزید کہا کہ اسی ملک نے ہی  مذاکرات کے ذریعہ تنازعات کے پر امن تصفیے کے بجائے بھارت کے تئیں ایک سرکاری پالیسی کے طور پر دہشت گردی استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ جناب راجناتھ سنگھ نے کہا کہ اپنی  خارجہ  اور سلامتی پالیسی میں دہشت گردی کے استعمال کا ایک وسیلے کے طور پر کرنے کا چلن جاری رہا ہے اور اس  سے خطے میں انتہا پسندی اور دہشت  گردی کو  فروغ ملا ہے اور خطے کے تمام ملکوں کی سلامتی کے لئے  سنگین چنوتیاں پیدا کردی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپریل 2019 میں ایسٹرن بم حملے  اس بات کی تازہ مثال ہیں کہ کس طرح  خطے اور  اس سے آگے کے  علاقوں کے لئے  خطرناک پالیسی رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا  کہ ہندوستان میں ممبئی، پٹھان کوٹ، اڑی اور پلوامہ میں دہشت گردانہ حملے ایک پڑوسی ملک کی دہشت گردی کا  واضح ثبوت ہیں۔جسے حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ جناب راجناتھ سنگھ نے کہا کہ خطے میں سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے ہندوستان نے ہمیشہ یہ کوششیں کی ہے کہ اپنی خوشحالی کو پڑوسی کے ساتھ شیئر کی جائیں ۔ حکومت کی پڑوسی پہلے کی پالیسی  کے لازمی خط و خال کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپسی فائدے اور وسیع بنیاد کے طور طریقے ، جوترقی اور سلامتی کے عوامل  دونوں پر مشتمل ہیں، پڑوسی ملکوں کی ترجیحات کےلئے جامع اور حساس ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے پڑوسیوں کو سب سے اہم خارجہ پالیسی ترجیح کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

علاقائی اتحاد اور تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے  جناب راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ہندوستان نے ہمیشہ ویدوں اور اپنیشد کے ذریعہ روایتی معلومات اور بھائی چارگی کی ثقافتی قدروں کی پرورش کی ہے اور پرانوں نے اس ملک کو اتحاد کی طاقت سیکھائی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں  حکومت کا سب کا ساتھ سب کا وکاس کے اصول میں پختہ عزم ہے اور یہ سب کے لئے کامیابی لائے گی اور سبھی لوگوں کو فائدہ ہوگا۔

 اس بات سے مطلع کرتے ہوئے کہ  حکومت گزشتہ دس سال کے عرصے میں پڑوسی ملکوں کو تقریباً چار ارب ڈالر کی  امداد   اور 13.14 ارب ڈالر قرض دینے کے تئیں عہد بستہ ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ضروری بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے کے لئے پڑوسیوں کے لئے دستیاب وسائل پیدا کرکے ہندوستان پڑوسی پہلے کی پالیسی کے تحت ترقی کے محاذ پر ایک سرکردہ اور نمایاں رول ادا کرنے کا خواہش مند ہے اس سے خطے میں کنکٹیویٹی بڑھے گی،  سامان کی نقل وحمل میں اضافہ ہوگا، خدمات  اور عوام کے درمیان ربط وضبط پیدا ہوگا۔

 جناب راجناتھ سنگھ نے کہا کہ  جنوب ایشیا اس وقت تاریخ کے ایک سنگین موڑ پر کھڑا ہے جہاں موقع کی دنیا اسے اپنی جانب کھینچ رہی ہیں۔ جناب راجناتھ سنگھ نے کہا کہ علاقائی خوشحالی کو  ان مخصوص ملکوں کے مفادات کے لئے یرغمال نہیں بننا چاہئے جو علاقائی تعاون میں رخنہ ڈالنے کی تمام کوششیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی تجارت بے پایہ طور پر کم ہوئی ہے اور انہوں نے حدوں سے تجاوز کرنے پر زور دیا۔

 کانفرنس اور منتظمین کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ سول سوسائٹی کی جانب سے اس طرح کے پروگرام ان کی سرگرم کوششوں کے ذریعہ حکومتوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوب ایشیا کی سول سوسائٹی کا یہ فرض ہے کہ  اس طرح کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں۔  انہوں نے خطے کی سول سوسائٹی سے اس بات کے لئے بھی زور دیا کہ وہ خطے میں تعاون کا ایک کلچرل پیدا کرنے میں مدد کرے۔

 آئی ڈی  ایس اے کے ڈائریکٹر جنرل امبیسڈر جناب سوجن آر چنوائے اور دیگر سینئر فوجی اور وزارت دفاع کے اعلی افسران بھی اس موقع پر موجود تھے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More