36 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

26 فروری 2017 کو آل انڈیا ریڈیو پر وزیراعظم کے ’من کی بات‘ پروگرام کا متن

आकाशवाणी के मन की बात कार्यक्रम में 26 फ़रवरी 2017 को प्रधानमंत्री के उद्बोधन का मूल पाठ
Urdu News

نئی دہلی،26فروری 2017؛    میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ سردی کا موسم اب جانے کو ہے، بہار کے موسم نے ہم سب کی زندگی میں دستک دے دی ہے؛ موسم خزاں کے بعد درختوں میں نئے پتے آنے لگتے ہیں؛ پھول کھلتے ہیں؛ باغ باغیچے ہرے بھرے ہو جاتے ہیں پرندوں کی چہچہاہٹ آنکھوں اور دل کو اچھے لگنے لگتے ہیں؛ پھول ہی نہیں، پھل بھی درخت کی شاخوں پر کھلی دھوپ میں چمکتے نظر آتے ہیں۔ موسم گرما  کے پھل آم کے منجر موسم بہار میں ہی نظر آنے لگ جاتے ہیں، وہیں کھیتوں میں سرسوں کے پیلے پھول کسانوں کی امید جگاتی ہیں۔ ٹیسو یا پلاش کے سرخ پھول ہولی کے آنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ امیر خسرو نے موسم کی اس تبدیلی کے لمحوں کو بہت ہی  مزیدار لفظوں میں بیان کیا ہے، امیر خسرو نے لکھا ہے: –

“پھول رہی سرسوں سکل  بن،

امبوا پھوٹے، ٹیسو پھولے،

کویل بولے، ڈار-ڈار “

جب فطرت خوشنما ہوتی ہے، موسم سہانا ہوتا ہے؛ تو انسان بھی اس موسم کا پورا لطف اٹھاتا ہے۔ وسنت پنچمی، مہاشوراتری اور ہولی کا تہوار انسان کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرتا ہے۔ محبت، بھائی چارہ، انسانیت سے لبریز  ماحول میں ہم آخری ماہ پھاگن کو رخصت کرنے والے ہیں اور نئے مہینے  چیتر کا استقبال کرنے کو تیار بیٹھے ہیں، موسم بہار انہی دو مہینوں  کا تو سنگم ہے۔

میں سب سے پہلے تو ملک کے لاکھوں  شہریوں کا اس بات کے لیے  شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ‘من کی بات’ کے پہلے، جب میں صلاح مانگتا ہوں، ڈھیر سارے مشورے آتے ہیں۔ نریندر مودی ایپپ پر، ٹوئیٹر پر، فیس بک پر، ڈاک سے، میں اس کیلئے سب کا شکر گزار ہوں۔

مجھے شوبھا جالان، انہوں نے نریندر مودی ایپپ پر لکھا ہے کہ بہت سارے پبلک اسرو کی کامیابیوں کے بارے میں آگاہ نہیں ہے اور اس لئے انہوں نے کہا ہے کہ میں 104 سیٹلائٹ کے لانچ اور انٹرسیپٹر میزائل کے بارے میں کچھ معلومات دوں! شوبھا جی، آپ سب کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں کہ  ہندوستان کے فخر کی مثال کو آپ نے یاد کیا۔ چاہے غریبی سے نمٹنا ہو، بیماریوں سے بچنا ہو، دنیا سے جڑنا ہو، علم، جانکاریاں پہنچانی ہو – ٹکنالوجی نے، سائنس نے، اپنی جگہ درج کرا دی ہے۔ 15 فروری، 2017  کو ہندوستان کی تاریخ میں  فخر کا دن ہے۔ ہمارے سائنسدانوں نے دنیا کے سامنے  ہندوستان کا سر فخر سے اونچا کیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اسرو نے کچھ سالوں میں بہت سی بے مثال مشن کامیابی سے مکمل کئے ہیں۔ مریخ پر ’مارس مشن‘ ’منگل یان‘ بھیجنے کی کامیابی کے بعد، ابھی  گزشتہ دنوں اسرو  نے خلائی میدان میں، ایک عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسرو نے میگا مشن کے ذریعہ ایک ساتھ مختلف ممالک، جس میں امریکہ، اسرائیل، قزاقستان، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ،متحدہ عرب امارات اور ہندوستان بھی، 104  سیٹلائٹ خلاء میں کامیابی کے ساتھ لانچ کئے ہیں۔ ایک-ساتھ 104 سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیج کر تاریخ رقم کرنے والا  ہندوستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا اور یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ یہ مسلسل 38 واں پی ایس ایل وی کا کامیاب لانچ ہے۔ یہ نہ صرف اسرو کے لئے، بلکہ پورے ہندوستان کے لئے ایک تاریخی کامیابی ہے۔ اسرو کا یہ موثر لاگت والا خلائی پروگرام ساری دنیا کے لیے ایک عجوبہ بن گیا ہے اور دنیا نے کھلے دل سے ہندوستان کے سائنسدانوں کی کامیابی کو سراہا ہے۔

بھائیوں-بہنوں ، ان 104 سیٹلائٹ میں ایک بہت ہی اہم ہے – کارٹوسیٹ ٹو ڈی – یہ ہندوستان کا سیٹلائٹ ہے اور اس کے ذریعے سے کھینچی ہوئی تصاویر، وسائل کی نقشہ سازی، بنیادی ڈھانچے، ترقی کی تشخیص،شہری ترقی کے منصوبے کیلئے اس سے بہت مدد ملے گی ۔ خاص کر کے میرے کسان بھائی بہنوں کو ملک میں جو تمام پانی کے وسائل ہیں، وہ کتنا ہے، اس کا استعمال کیسے ہو سکتا ہے، کیا کیا خیال رکھنا چاہئے، ان سارے موضوعات پر یہ ہمارا نیا سیٹلائٹ کارٹوسیٹ ٹو ڈی بہت مددگار ہوگا۔ ہمارے سیٹلائٹ نے جاتے ہی کچھ تصاویر بھیجی ہیں۔ اس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ ہمارے لئے یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ اس سارے مہم کی قیادت، ہمارے نوجوان سائنسداں، ہماری خواتین سائنسداں  نے کیا ہے۔ نوجوانوں اور خواتین کی اتنی زبردست شرکت اسرو کی کامیابی میں ایک بڑا فخریہ پہلو ہے۔ میں ہم وطنوں کی طرف سے اسرو کے سائنسدانوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ عام عوام کے لئے، قوم کی خدمت کے لئے، خلائی سائنس کو لانے کے ان کے مقصد کو، وہ ہمیشہ بنائے رکھا ہے اور ہمیشہ نئے نئے ریکارڈ بھی وہ اخذ کرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ان سائنسدانوں کو، ان کی پوری ٹیم کو، ہم جتنی مبارکباد دیں اتنی کم ہیں۔

شوبھا جی نے ایک اور سوال پوچھا ہے اور وہ ہے ہندوستان کی سیکورٹی کے سلسلے میں۔ ہندوستان نے ایک بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے، اس کے متعلق۔ اس بات کی زیادہ ابھی بحث نہیں ہوئی ہے، لیکن شوبھا جی کی توجہ گئی ہے اس اہم بات پر۔ ہندوستان نے سکیورٹی کے شعبے میں بھی  بیلیسٹک میزائل انٹرسیپٹر کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ انٹرسیپشن ٹکنالوجی والے اس میزائل نے اپنے تجربہ کے دوران زمین سے قریب قریب 100 کلومیٹر کی اونچائی پر دشمن کی میزائل کو ڈھیر کرکے کامیابی رقم کردی۔ سیکورٹی کے میدان میں یہ بہت ہی اہم کامیابی ہے؛ اور آپ کو جان کر خوشی ہوگی، دنیا کے مشکل سے چار یا پانچ ہی ملک ہیں  جنہیں یہ مہارت حاصل ہے۔ ہندوستان کے سائنسدانوں نے یہ کرکے دکھایا، اور اس  کی طاقت یہ ہے کہ اگر 2000 کلومیٹر دور بھی، ہندوستان پر حملے کے لیے کوئی میزائل آتا ہے، تو یہ میزائل خلاء میں ہی اس کو تباہ کر دیتا ہے۔

جب نئی ٹکنالوجی دیکھتے ہیں، کوئی نئی سائنسی کامیابی ہوتی ہے، تو ہم لوگوں کو مزہ آتا ہے اور انسانی زندگی کی ترقی کے سفر میں تجسس نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے، اور جو مخصوص عقل و ہنر رکھتے ہیں، وہ تجسس کو تجسس کے طور پر ہی رہنے نہیں دیتے؛ وہ اس کے اندر بھی سوال کھڑے کرتے ہیں؛ نئی تجسس تلاش کرتے ہیں، نئے تجسسیں پیدا کرتے ہیں اور وہی تجسس، نئے تلاش کا سبب بن جاتی ہے۔ وہ اس وقت تک چین سے بیٹھتے نہیں، جب تک اس کا جواب نہ ملے اور ہزاروں سال کی انسانی زندگی کی ترقی کے سفر کا اگر ہم جائزہ لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی کی اس ترقی کے سفر کا کہیں فل اسٹاپ نہیں ہے۔ فل اسٹاپ ناممکن ہے، کائنات کو، تخلیق کے قوانین، انسانی دماغ کو جاننے کی کوشش مسلسل چلتی رہتی ہے۔ نیا سائنس، نئی ٹکنالوجی اسی میں سے پیدا ہوتی ہے اور ہر ٹکنالوجی ، ہر نئے سائنس کا روپ، ایک نئے دور کو جنم دیتا ہے۔

میرے پیارے نوجوانوں، جب ہم سائنس اور سائنسدانوں کے محنت کی بات کرتے ہیں تو کئی بار میں نے ‘من کی بات’ میں اس بات کو کہا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو سائنس کی توجہ منتقل کرنی چاہئے۔ ملک کو بہت سارے سائنسدانوں کی ضرورت ہے۔ آج کے سائنسداں آنے والے زمانے میں آنے والی نسلوں کی زندگی میں ایک مستقل تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔

مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے – ’’سائنس ایک کامل شکل میں آسمان سے نہیں گرا ہے۔ تمام سائنس کی ترقی اور تجربے کے ذریعے فرغ پائے ہیں۔ ‘‘

معزز باپو نے یہ بھی کہا تھا –’’میں کچھ بھی نہیں ہوں، تمام تعریفیں جذبے ، صنعت اور قربانی کے لیے ہےجس نے صداقت کی تلاش میں جدید سائنسدانوں کو متحرک کر دیا ہے۔‘‘

سائنس جب عوام کی ضروریات کو ذہن میں رکھ کر ان اصولوں کا آسان استعمال کیسے ہو؛ اس کے لئے ذریعہ کیا ہو؛ ٹکنالوجی  کون سی ہو؛ کیونکہ عام انسان کے لیے تو وہی سب سے بڑی خدمت جانی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں، پالیسی کمیشن اور ہندوستان  کی وزارت خارجہ نے 14 ویں مہاجر ہندوستانی تارکین وطن کے دن کے دوران ایک بڑی انوکھی قسم کی مقابلہ جاتی منصوبہ بندی کی تھی۔ معاشرے کی کارآمد  جدت طرازی کو مدعو کیا گیا۔ ایسی جدت طرازی کو شناخت کرنا، نمائش کرنا، لوگوں کو جانکاری دینا اور ایسی جدت طرازی کو عوام کے لیے کس طرح کام آئیں، بڑے پیمانے پر پیداوار کیسے ہو، اس کا تجارتی استعمال کیسے ہو، اور میں نے جب اسے دیکھا، تو میں نے دیکھا کہ کتنے بڑے اہم کام کئے ہیں۔ جیسے ابھی ایک انوویشن میں نے دیکھا، جو ہمارے غریب  ماہی گیر بھائیوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ ایک عام موبائل ایپپ بنایا ہے، لیکن اس کی طاقت اتنی ہے کہ ماہی گیر مچھلی پکڑنے کیلئے جب جاتا ہے، تو کہاں جانا ہے؛ سب سے زیادہ مچھلی پکڑنے کا  اچھا علاقہ کہاں پر ہے؛ ہوا کی سمت کیا ہے؛ اسپیڈ کیا ہے؛ لہروں کی اونچائی کتنی ہے – یعنی ایک موبائل ایپپ پر ساری جانکاریاں دستیاب ہیں اور اس سے ہمارے ماہی گیر بھائی بہت ہی کم وقت میں جہاں زیادہ مچھلیاں ہیں، وہاں پہنچ کر کے اپنا مطلب حاصل کر سکتے ہیں۔

کبھی کبھی مسئلہ بھی حل کیلئے سائنس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے ممبئی کے اندر 2005 میں بہت بارش ہوئی، سیلاب آیا، سمندر میں بھی طغیانی آگئی اور بہت پریشانیاں ہوئیں۔ اور جب کوئی بھی قدرتی بحران آتا ہے تو سب سے پہلے بحران غریبوں کو آتا ہے۔ دو لوگوں نے بڑے دل سے اس میں کام کیا اور انہوں نے ایک ایسے مکان کی تعمیر، جو ایسے بحران سے گھروں کو بچاتا ہے، گھر میں رہنے والوں کو بچاتا ہے، سیلاب سے بھی بچاتا ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ خیر، بہت ساری جدت طرازیاں تھیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں، ملک میں اس قسم کے کردار کے حامل  لوگ بہت ہیں۔ اور ہمارا معاشرہ بھی تو ٹکنالوجی ڈرائیوین ہوتا جارہا ہے؛ نظام ٹکنالوجی ڈرائیوین ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک قسم سے ٹکنالوجی ہماری زندگی کا لازمی جز بن رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ‘ڈیجی  دھن’ پر بڑا زور دکھائی دے رہا ہے۔ آہستہ آہستہ لوگ نقد سے نکل کر ڈیجیٹل کرنسی کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ڈیجیٹل لین دین بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خاص کر نوجوان نسل موبائل فون  سے ہی ڈیجیٹل پیمنٹ کی عادی بنتی جا رہی ہے، اس کو  مثبت اشارہ مانتا ہوں میں۔

ہمارے ملک میں گزشتہ دنوں ‘لکی گراہک یوجنا’، ‘ڈیجی دھن ویپاری یوجنا ‘اس کو زبردست حمایت ملی ہے۔ قریب قریب دو ماہ ہو گئے ہیں، روزانہ 15 ہزار لوگوں کو ایک ہزار روپے کا انعام ملتا ہے۔ اور ان دونوں اسکیموں کے ذریعہ ہندوستان میں ڈیجیٹل ادائیگی کو ایک بڑے پیمانے پر-تحریک بنانے کی ایک پہل – پورے ملک میں اس کا استقبال ہوا ہے۔ اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اب تک ‘ڈیجی  دھن یوجنا’ کے تحت دس لاکھ لوگوں کو انعام مل چکا ہے، پچاس ہزار سے زیادہ تاجروں کو انعام مل چکا ہے اور قریب قریب ڈیڑھ سو کروڑ سے بھی زیادہ رقم اس انعام میں، اس عظیم مہم کو آگے بڑھانے والے لوگوں کو ملا ہے۔  اس منصوبہ کے تحت سو سے زیادہ صارفین وہ  ہیں جن کو ایک ایک لاکھ روپے کا انعام ملا ہے؛ چار ہزار سے زیادہ تاجر وہ ہیں، جن کو پچاس پچاس ہزار روپے کے انعام ملے ہیں۔ کسان ہوں، تاجر ہوں، چھوٹے کاروباری ہوں، پیشہ ور ہوں، گھریلو  خواتین ہوں، طالب علم ہوں، ہر کوئی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے؛ ان کے فوائد بھی مل رہے ہیں۔ جب میں نے اس کا تجزیہ پوچھا کہ بھئی، دیکھئے صرف نوجوان ہی آتے ہیں کہ بڑی عمر کے لوگ بھی آتے ہیں، تو مجھے خوشی ہوئی کہ انعام حاصل کرنے والوں میں 15 سال کے نوجوان بھی ہیں، تو پینسٹھ سے ستر سال کے بزرگ بھی ہیں۔

میسور سے جناب سنتوش جی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نریندر مودی ایپپ پر لکھا ہے کہ انہیں ‘لکی گراہک یوجنا ‘ کے تحت ایک ہزار روپے کا  انعام ملا۔ لیکن سب سے بڑی بات جو انہوں نے لکھی ہے، جو مجھے لگتا ہے کہ مجھے شیئر کرنا چاہئے؛ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک ہزار روپے کا یہ  انعام ملا اور اسی وقت میرے ذہن میں آیا کہ ایک غریب عمر رسیدہ خاتون کے گھر میں آگ لگ گئی تھی، سامان جل گیا تھا؛ تو مجھے لگا کہ جو مجھے انعام ملا ہے، شاید اس کا حق اس غریب عمر رسیدہ  ماں کا ہے؛ تو میں نے ہزار روپے اسی کو دے دیے۔ مجھے اتنا سکون ملا۔سنتوش جی، آپ کا نام اور آپ کا کام ہم سب کو سکون دے رہا ہے۔ آپ نے ایک بہت بڑا ترغیب دینے والا کام کیا ۔

دہلی کے 22 سالہ کار ڈرائیور بھائی سبير، اب وہ اپنے کام کاج میں نوٹ بندی کے بعد ڈیجیٹل کاروبار سے جڑ گئے اور حکومت کی جو ‘لکی گراہک یوجنا‘ تھی، اس میں وہ ایک لاکھ روپے کا انعام حاصل کیا۔ اب آج وہ کار چلاتے ہیں، لیکن ایک طرح سے اس  منصوبہ بندی کے سفیر بن گئے ہیں۔ تمام  مسافروں کو ہر  وقت وہ ڈیجیٹل کا علم دیتے رہتے ہیں۔ اتنے جوش سے باتوں کو بتاتے رہتے ہیں، اوروں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

مہاراشٹر سے ایک نوجوان ساتھی پوجا نیماڑے جو پی جی کی طالبہ ہیں، انہوں نے بھی روپے کارڈ، ای-والیٹ کا استعمال اپنے  کنبے میں کس طرح ہو رہا ہے اور اس کو کرنے میں کتنا مزہ  آ رہا ہے، اس کا اپنا تجربہ اپنے ساتھیوں کو شیئر کرتی رہتی ہیں۔ اور ایک لاکھ روپے کا انعام اس کے لیے کتنا معنی رکھتا ہے، لیکن اس نے اسے  اپنے مشن موڈ میں لے لیا ہے اور وہ بھی اوروں کو اس کام کے لیے لگا رہی ہیں۔ میں اہل وطن سے، ملک کے نوجوانوں سے خاص کر   اور اس ‘لکی گراہک یوجنا ‘ یا پھر ‘ڈیجی دھن کاروبار کی منصوبہ بندی’ – انہیں جو انعام ملا ہے، ان سے میں زور دے کر کہوں گا کہ آپ خود اس کے سفیر بنیں۔ اس تحریک کی آپ  قیادت کیجئے۔ آپ اس کو فروغ دیں اور یہ کام ایک طرح سے بدعنوانی اور کالے دھن کے خلاف جو جنگ ہے، اس میں بہت بڑا اہم کردار ہے اس کا۔ اس کام میں جڑے ہوئے ہر کوئی میری نظر سے، ملک میں ایک نئی اینٹی کرپشن کیڈر ہیں۔ ایک قسم سے آپ سلاست کے فوجی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ‘لکی گراہک یوجنا ‘ – سو دن جب پورے ہوں گے، 14 اپریل کو ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی یوم پیدائش ہے؛ یادگار دن ہے۔ 14 اپریل کو ایک بہت بڑا کروڑوں روپے کے پرائز کا ڈرا ہونے والا ہے؛ اب قریب چالیس  پینتالس دن باقی ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کو یاد رکھتے ہوئے کیا آپ ایک کام کر سکتے ہیں؟ ابھی ابھی بابا صاحب امبیڈکر کی 125 ویں جینتی گئی ہے۔ ان کو یاد کرتے ہوئے آپ بھی کم از کم 125 لوگوں کو بھیم ایپپ ڈاؤن لوڈ کرنا سکھایئے ، اس سے لین دین کیسے ہوتی ہے، وہ سكھایئے اور خاص کرکے اپنے آس پاس کے چھوٹے چھوٹے تاجروں کو سكھایئے۔ اس بار بابا صاحب امبیڈکر کی یوم پیدائش اور بھیم ایپپ ، اس کو خاص اہمیت دیں اور اس لئے میں کہنا چاہوں گا، ڈاکٹر بابا صاحب کی رکھی ہوئی بنیاد کو ہمیں مضبوط بنانا ہے؛ گھر گھر جا کر سب کو جوڑ کر 125 کروڑ ہاتھوں تک بھیم ایپپ پہنچانا ہے۔ گزشتہ دو تین ماہ سے، یہ جو تحریک چلی ہے، اس کا اثر یہ ہے کہ کئی ٹاؤن شپ ، بہت سے گاؤں، کئی شہروں میں بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک کی معیشت کے مرکز میں زراعت کا بہت بڑا رول ہے۔ گاؤں کی اقتصادی طاقت، ملک کی اقتصادی رفتار کو قوت دیتی ہے۔ میں آج ایک  بہت خوشی کی بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔ ہمارے کسان بھائیوں بہنوں نے سخت محنت کر اناج کے ذخائر بھر دیئے ہیں۔ ہمارے ملک میں کسانوں کی محنت سے اس سال ریکارڈ اناج کی پیداوار ہوئی ہے۔ سارے اشاریے یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے کسانوں نے پرانے سارے ریکارڈ  توڑ دیے ہے۔ کھیتوں میں اس بار فصل ایسی لہرائی ہے، ہر روز لگنے لگا، جیسے پونگل اور بیساکھی آج ہی منائی ہے۔ اس سال ملک میں تقریباً دو ہزار سات سو ملین ٹن سے بھی زیادہ اناج کی پیداوار ہوئی ہے۔ ہمارے کسانوں کے نام جو آخری ریکارڈ  درج ہوا تھا، اس سے بھی یہ 8 فیصد زیادہ ہے، تو یہ اپنے آپ میں بے مثال کامیابی ہے۔ میں خاص طور پر ملک کے کسانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ کسانوں کا شکریہ اس لئے بھی ادا کرنا چاہتا ہوں کہ وہ روایتی فصلوں کے ساتھ ساتھ ملک کے غریب کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف دالوں کی بھی کاشت کریں کیونکہ دال ہی سے سب سے زیادہ پروٹین غریب کو حاصل ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے ملک کے کسانوں نے غریبوں کی آواز سنی اور قریب قریب دو سو نوے ملین ہیکٹر زمین پر مختلف دالوں کی کاشت کی۔ صرف دال کی پیداوار نہیں ہے، کسانوں کی طرف سے ہوئی میرے ملک کے غریبوں کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ میری ایک گزارش کو، میری ایک التجا کو، میرے ملک کے کسانوں نے جس طرح سے سر آنکھوں پر بٹھا کر محنت کی اور دالوں کا  ریکارڈ  پیداوار کیا، اس کے لئے میرے کسان بھائی بہن خصوصی شکریہ کے مستحق  ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، یہ ہمارے ملک میں، حکومت کی طرف سے، معاشرے کی طرف سے، اداروں کی طرف سے، تنظیموں کی طرف سے، ہر کسی کی طرف سے، حفظان صحت کی اس سمت میں کچھ نہ کچھ چلتا ہی رہتا ہے۔ ایک قسم سے ہر کوئی کسی نہ کسی طور پر حفظان صحت کے سلسلے میں بیدار نظر آ رہا ہے۔ حکومت مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں آبی صفائی کی جو حکومت ہند کی وزارت ہے ‘پینے کے پانی اور حفظان صحت کی وزارت’۔ ہمارے سکریٹری کی قیادت میں 23 ریاستی حکومتوں کے سینئر حکام کا ایک پروگرام تلنگانہ میں ہوا اور تلنگانہ ریاست کے وارنگل میں صرف بند کمرے میں سیمینار نہیں ہوا۔ براہ راست حفظان صحت کے کام کی اہمیت کیا ہے، اس کو استعمال کرتے ہوئے کرنا۔ 17-18 فروری کو حیدرآباد میں ٹوائلیٹ پِٹ ایمپٹی ایکسرسائز منعقد ہوئی ۔ چھ گھر کے ٹوائلیٹ پِٹس خالی کرکے اس کی صفائی کی گئی اور حکام نے خود دکھایا کہ ٹئین پٹ ٹوائلیٹ کے استعمال ہو چکے گڈھوں کو، اسے خالی کرکے دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دکھایا کہ یہ نئی  تکنیک کے بیت الخلا کتنے آسان ہیں اور انہیں خالی کرنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے، کوئی شبہ نہیں ہوتا ہے؛ جو نفسیاتی رکاوٹ ہوتی ہے، وہ بھی آڑے نہیں آتی ہے اور ہم بھی مزید صفائی کرتے ہیں، ویسے ہی ایک ٹوائیلٹ کے گڈھے صاف کر سکتے ہیں؛ اور اس کوشش کا نتیجہ  یہ ہوا، ملک کے میڈیا نے اس کی بہت نشرو اشاعت بھی کی ۔ اس کو اہمیت بھی دی۔ اور قدرتی ہے، جب ایک آئی اے ایس افسر خود ٹوائلٹ  کے گڈھے کی صفائی کرتا ہو، تو ملک کی توجہ جانا بہت فطری بات ہے۔ اور یہ جو ٹوائلٹ  پٹ کی صفائی ہے اور اس میں سے جو جسے آپ-ہم کوڑا کچرا مانتے ہیں، لیکن کھاد کی نظر سے دیکھیں، تو یہ ایک قسم سے یہ سیاہ سونے جیسا ہوتا ہے۔ فضلہ سے دولت کیا ہوتی ہے، یہ ہم دیکھ سکتے ہیں، اور یہ ثابت ہو چکا ہے۔ چھ افراد والے کنبوں کے لئے ایک اسٹینڈرڈ ٹوائن پٹ ٹوائلٹ – یہ ماڈل تقریباً پانچ سال میں بھر جاتا ہے۔ اس کے بعد ردی کی ٹوکری کو آسانی سے دور کر کے، دوسرے پِٹ میں ری ڈائریکٹ کیا جا سکتا ہے۔ چھ بارہ مہینوں میں پٹ میں جمع فضلہ کی ٹوکری مکمل طور پر ڈی کمپوز ہو جاتی ہے۔ اس ڈی کمپوز فضلہ کی ٹوکری ہینڈل کرنے میں بہت ہی محفوظ ہوتا ہے اور کھاد کی نظر سے انتہائی اہم کھاد ’این پی کے‘۔ کسان اچھی طرح ’این پی کے‘سے واقف ہیں، نائٹروجن، فاسفورس، پوٹاشیم  – یہ غذائی اجزاء سے مکمل ہوتا ہے؛ اور یہ زراعت میں بہت ہی بہترین کھاد سمجھا جاتا ہے۔

جس طرح سے حکومت نے یہ  پہل کی ہے، اوروں نے بھی بہت سے ایسے اقدامات کیے ہوں گے۔ اور اب تو دوردرشن میں حفظان صحت کی خبروں کا ایک خصوصی پروگرام آتا ہے، اس میں ایسی باتیں جتنی اجاگر ہوں گی، اتنا فائدہ ہو گا۔ حکومت میں بھی الگ الگ محکمہ حفظان صحت پكھواڑا  مسلسل مناتے ہیں۔ مارچ مہینے کے پہلے ہفتہ میں خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت، ان کے ساتھ قبائلی ترقی کی وزارت – قبائلی امور کی وزارت- یہ صفائی مہم کو تقویت دینے والے ہیں، اور مارچ کے دوسرے حصے میں اور دو وزارت – جہاز رانی کی وزارت اور آبی وسائل کی وزارت، دریاکی ترقی اور گنگا کی صفائی کی وزارت- یہ وزارت بھی مارچ کے آخری دو ہفتوں میں صفائی مہم کو آگے بڑھانے والے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کا کوئی بھی شہری جب بھی کچھ اچھا کرتا ہے تو پورا ملک ایک نئی توانائی محسوس کرتا ہے، اعتماد میں اضافہ ہے۔  ریو پیراولمپکس میں ہمارے معذور کھلاڑیوں نے جو مظاہرہ کیا، ہم سب نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ اسی ماہ منعقدہ بلائنڈ ٹی-20 عالمی کپ کے فائنل میں ہندوستان نے پاکستان کو ہراتے ہوئے مسلسل دوسری بار عالمی چمپئن بن کر ملک کا فخر بڑھایا ہے۔ میں ایک بار پھر ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ملک کو ہمارے ان معذور ساتھیوں کی کامیابی پر فخر ہے۔ میں یہ ہمیشہ مانتا ہوں کہ معذور بھائی بہن  قوت سے لبریز  ہوتے ہیں، یقین کامل ہوتا ہے، بہادر ہوتے ہیں، پرعزم ہوتے ہیں۔ ہر پل ہمیں ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔

بات چاہے کھیل کی ہو یا خلائی سائنس کی – ہمارے ملک کی خواتین  کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھ رہی ہیں اور اپنی کامیابیوں سے ملک کا نام روشن کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں ایشیائی رگبی سیونس ٹرافی  میں ہماری خواتین کھلاڑیوں نے چاندی کے میڈل جیت لیے، ان تمام کھلاڑیوں کو میری طرف سے ڈھیر ساری مبارک باد۔

8 مارچ کو پوری دنیا  یوم خواتین مناتی ہے۔ ہندوستان میں بھی بیٹیوں کو اہمیت دینے، خاندان اور معاشرے میں ان کے تئیں بیداری پیدا کرنے، حساسیت بڑھانے  کے  ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’ کی تحریک تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ آج یہ صرف سرکاری پروگرام نہیں رہا ہے۔ یہ ایک سماجی احساس کی، عوامی تعلیم کی مہم بن گئی ہے۔ ماضی کے دو سال کے دوران اس پروگرام نے عام  لوگوں کو شامل کر لیا ہے، ملک کے ہر کونے میں اس معاملے پر لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور برسوں سے چلے آ رہے پرانے رسم و رواج کے تئیں لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لایا ہے ۔ جب یہ خبر ملتی ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر جشن منایا گیا، اتنا لطف آتا ہے۔ ایک طرح سے بیٹیوں کے تئیں مثبت سوچ سماجی قبولیت کا سبب بن رہی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ تمل ناڈو ریاست کے کڈّالور ضلع نے ایک خصوصی مہم کے تحت بچوں کی شادی پر روک لگا دی ہے۔ اب تک تقریبا 175 سے زیادہ بچوں کی شادیاں روکی جا چکی ہیں۔ ضلع انتظامیہ نے ‘سكنيا سمردھی یوجنا’ کے تحت قریب قریب 60-55 ہزار سے زیادہ بیٹیوں کے بینک اکاؤنٹ کھولے ہیں۔ جموں و کشمیر کے کٹھوا ضلع میں کنورزینس ماڈل کے تحت تمام محکموں کو ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ منصوبہ’ میں شامل  کیا ہے اور گرام سبھاؤں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ضلع انتظامیہ کی طرف سے یتیم بچیوں کو گود لینا، ان کی تعلیم  کو یقینی بنانے، اس کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ مدھیہ پردیش میں ‘ہر گھر دستک’ کے پروگرام کے تحت گاؤں گاؤں گھر گھر بیٹیوں کی تعلیم کے لئے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ راجستھان نے ‘اپنا بچہ، اپنا اسکول’ مہم چلا کر جن بچیوں کا ڈراپ-آؤٹ ہوا تھا، ان کو دوبارہ اسکول میں داخل کرانا، دوبارہ پڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنے کی مہم چلائی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’ اس تحریک نے بھی کئی شکل اختیار کی ہے۔پوری تحریک عوام کی تحریک بنی ہے۔ نئے نئے تصورات اس کے ساتھ جڑے ہیں۔ مقامی ضروریات کے مطابق اس کو موڑا گیا ہے۔ میں اسے ایک بہترین نشانی مانتا ہوں۔ جب ہم 8 مارچ کو ‘یوم خواتین’ منانے والے ہیں، تب ہمارا ایک ہی جذبہ ہے: –

’’مہیلا، وہ شکتی ہے، سشکت ہے، وہ بھارت کی ناری ہے،

نہ زیادہ میں، نہ کم میں، وہ سب میں برابر کی ادھیکاری ہے‘‘

میرے پیارے ہم وطنوں، آپ سب سے ‘من کی بات’ میں وقت وقت پر کچھ نہ کچھ بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ بھی سرگرمی کے ساتھ جڑتے رہتے ہیں۔ آپ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ زمین پر کیا چل رہا ہے، گاؤں، غریب کے من میں کیا چل رہا ہے، وہ مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔ آپ کی شراکت کے لئے میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More