39 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ڈاکٹر ہرش وردھن نے ڈبلیو ایچ او کےایگزیکیوٹیوبورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ اپنی میعادمکمل کی

Urdu News

نئی دہلی: مرکزی وزیر صحت و خاندانی بہبودڈاکٹر ہرش وردھن نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے آج ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ نرمان بھون سے ڈبلیو ایچ او کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کے 149 ویں اجلاس سے خطاب کیا۔ ڈبلیو ایچ او کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے ڈاکٹر ہرش وردھن کی میعاد آج کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگئی۔

1.jpg

ڈاکٹرہرش وردھن نے سامعین کو ان بہادر،ممتاز اور معزز مرد و خواتین کی یاد دلائی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے دنیا بھر میں بطورکووڈ واریئر بے ہچک اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ انسانیت زندہ رہے۔

ان کی تقریر کچھ یوں ہے۔

یہ میرے لئے ملے جلے جذبات کے لمحات ہیں۔ ایک طرف، مجھے اس قابل قدر ادارہ کی خدمت کرنے پر خوشی محسوس ہورہی ہے تودوسری طرف، میرا دل بھاری (بار)محسوس ہوتا ہے جب میں بہت سارے ان کاموں کے درمیان اس عہدے سے سبکدوش ہو رہا ہوں جنہیں کرنا تھا اورجوابھی زیرالتوا ہیں اورفی الوقت پوری دنیا وبائی بحران اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔

مئی 2020 میں، مجھے ایگزیکیوٹیو بورڈ کا صدربنایا گیا۔ ایگزیکیوٹیو بورڈ کے 147 ویں اور 148 ویں سیشن کے ساتھ ساتھ کووڈ-19 رسپانس کے خصوصی سیشن کے دوران عالمی ادارہ صحت کی اعلی ترین گورننگ باڈی کی قیادت کرنا واقعی میرے لئے اعزاز اور فخر کی بات ہے۔

2.jpg

یہ واقعی باعث اعزاز ہے کہ 31 مئی 2021 کومنعقدہ 74 ویں عالمی ادارہ صحت میں، میں نے بورڈ کی نمائندگی کی اور مجھے یقین ہے کہ کووڈ-19سے نمٹنےاور تین ارب اور پائیدار ترقیاتی  کےاہداف کے حصول میں تقویت ملے گی۔

میں عالمی ادارہ صحت کووبائی امور کے تمام رکن ممالک کی مستقل حمایت پر سراہنا کرتا ہوں، مساویانہ حقوق اور اس سادہ سی حقیقت کے تئیں پوری طرح پرعزم ہوں کہ جب تک کہ ہر فرد محفوظ نہیں ہے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

کووڈ-19 ٹولز ایکسلریٹر تک رسائی تاریخ میں سب سے تیز،انتہائی مربوط اور کامیاب عالمی تعاون ہے جس نے کورونا کےٹیسٹ، علاج اور ٹیکہ کاری، ویکیسن کی پیداوار، اوراس تک ہر ملک کی مساوی رسائی کو فعال کیا ہے۔ کو-ویکس سہولت نے کووڈ-19ویکسینوں تک مناسب رسائی حاصل کرنے کے لئے ایک انتہائی ضروری میکانزم فراہم کیا ہے جو ہمارے اس زریں اصول کا ایک حقیقی تصور ہے کہ کسی کو بھی پیچھے نہ چھوڑا جائے۔

عالمی ادارہ صحت نے کووڈ-19 کی ادویات اور ویکسینوں کے لئے عالمی سطح پر مساوی رسائی کی بھرپور حمایت کی جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں۔ وبائی اثرات سے نمٹنے کے لیےتمام شعبوں میں عالمی یکجہتی اور تعاون ضروری ہے، اور انہیں مستقل طور پر مستحکم کیا جانا چاہئے۔

یہ فیصلہ کن اقدام کرنے کا وقت ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم سب سمجھتے ہیں کہ آئندہ دو دہائیوں میں صحت کے لئے بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ یہ تمام چیلنجز مشترکہ تعاون کا مطالبہ کرتے ہیں ، کیونکہ یہ ہمارے لیے مشترکہ خطرات ہیں جن پر عمل آوری کے لئے مشترکہ ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یقینا، یہ بھی عالمی ادارہ صحت کا بنیادی فلسفہ ہے۔ میں بار بار یہ کہتا رہا ہوں اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ  زیادہ سے زیادہ ممالک یک رائے ہوجائیں۔

اس طرح کے سنگین عالمی بحران کے وقت میں، خطرات کو کم کرنے کے انتظامات(رسک مینجمنٹ)اورتخفیف دونوں کے لئے عالمی شراکت داری کو مزید تقویت دینے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی صحت عامہ میں دلچسپی اور سرمایہ کاری کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے۔

ایک سب سے اہم کام یہ ہے کہ صدیوں سے انسانیت کو اپنی زد میں لینےوالی بیماریوں کے خاتمے کےسلسلے میں اعلی پیمانے پر ہمیں اپنےعزائم کی تکمیل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔  ہمیں شراکت داری کے ذریعہ ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی ضرورت ہے اور مشکل حالات پر قابو پانے کے لئے اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔

گرچہ عالمی ادارہ صحت پہلے سے ہی عوامی صحت کے شعبے میں پوری دنیا کی فکری قیادت کررہا ہے ، لیکن ہمیشہ ہی بہتر کرنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی  میں مزید تبدیلیوں کی گنجائش بھی ہمیشہ ہی موجود ہوتی ہے۔ ہمیں شراکت داری کو مضبوط کرنے کے لئے زیادہ جارحانہ ہونا پڑے گا جہاں مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، تحقیقی ایجنڈے کی تشکیل اور قابل قدر معلومات کی تشہیر اور فروغ میں بھی ہمیں مزید متحرک ہونا ہوگا۔

موجودہ وباکے نازک دور میں، صنعتوں کو دانشورانہ املاک کے حقوق کو غصب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعض اوقات، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ باہمی تعاون سے متعلق تحقیق کے لیے بہت کم رضامندی ہے۔ ہر فرد تک صحت کی خدمات کی آسان رسائی کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے باہمی ہم آہنگی ایک اہم عنصر ہے۔ ان سنگین حالات میں ڈبلیو ایچ او کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے دیگراداروں کے ساتھ اہم ادویات تک آسانی کے ساتھ رسائی کو یقینی بنانے کے لئے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔

ہم اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ نسل، مذہب، سیاسی عقیدے، معاشی یا معاشرتی حالات کی تفریق کے بغیر، صحت کے اعلی معیار سے لطف اٹھانا ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ وبائی مرض کےموجودہ پس منظر میں ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج ویکسینوں کی مساوی تقسیم ہے۔

مجھے یقین ہے کہ ہم سب کو اس موقع پر اٹھ کھڑا ہونا ہے، کمزور اور بے آواز لوگوں کو بچانا ہے،تاریکی کے ان ایام میں امیدکی شمع روشن کرن ہے۔ یہ ایک موقع ہے، ایک لمحہ جس میں یہ ثابت کرنا ہے کہ باہمی تعاون  کے ذریعہ ہر جنگ جیتی جاسکتی ہے اور اس بنیادی سچائی کو ایک بار پھر ثابت کرنا ہے کہ دنیا ایک ہے۔

میں ‘واسودیو کٹمبکم’ کے ہندوستانی فلسفہ سے یہ اخذ کرتا ہوں کہ پوری دنیا ایک کنبہ کی مانند ہے۔ لہذا، ہمیں رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ ادارہ اور پوری عالمی برادری کے تمام شراکت داروں  کے ساتھ مل کر ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ صحت سے متعلق عوامی ذمہ داریوں کو موثر، کارگراور جوابدہ بنایا جائے تاکہ اس کا فیض ہر فرد تک پہنچے۔

یہ وہی بنیادی عقیدہ ہے جو ہمارا رہنما اصول ہوگا۔ ہمارے لیے وبا سے بچنے کے لیے ویکسین تک رسائی متمول افراد کے ساتھ ساتھ ان افراد تک بھی ہونی چاہیے جو غریب ہیں اور اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

آپ میں سے بہت سے لوگوں نے تبصرہ کیا ہے کہ ایگزیکیوٹیو بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے میرا دور بہت تیزی سے گزرا ہے۔ اور  ہاں، یہ میرے لئے بہت مفیداور قابل قدرتجربہ رہا۔ یہ میرے لئے ایک بہت ہی شاندارتجربہ رہا ہے۔ اور اب میری خواہش ہے کہ اس اہم ترین عہدے کو اپنے جانشین کے حوالے کردوں۔

مجھے فخر ہے کہ آپ سب نے مجھ پر اعتماد کیا اور میں بنی نوع انساں کی تاریخ کے ایک انتہائی پریشان کن سال کے دوران ایگزیکیوٹیو بورڈ کا چیئرمین رہا۔ لیکن پھر بھی، یہ وہ سال ہے جہاں ہمارے سائنسدانوں نے انتھک محنت کی۔ وہ ہمیں زندگی بچانے والی کووڈ-19 کی ویکسین دینے کے لئے ریکارڈرفتار سے آگے بڑھے۔

میرے دوستو!، یہ سائنس کا سال بھی رہا ہے۔ سائنس، شواہد اور اعداد و شمار کے شعبوں میں ہونے والے اہم فیصلوں کے لئے یہ سال بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اچانک ناگہائی مصیبت میں ہم پڑ گئے۔ اس وقت ہم میں سے کسی کو بھی احساس نہیں تھا کہ ہماری کتنی خوفناک طریقے سے آزمائش ہوگی۔ لیکن ، “اسی اہم ترین لمحے میں” ہم نے کردکھایا جو ہمیں کرنا تھا۔

دنیا بھر میں صحت کے شعبے میں کرنے والے کارکن اسپتالوں میں مسلسل ،انتھک کام کررہے ہیں، وہ  اسپتالوں کے بیس منٹ یا ہوٹلوں میں سوتے ہیں تاکہ ان کے  کنبے کے افراد متاثر نہ ہونے پائیں۔ سائنسداں  اضافی وقت  لگا کر نئی ویکسین اور علاج کی تلاش میں سرگرم رہے ہیں۔ آپ سب میڈیا چینلز میں گردش کرنے والی نہ ختم ہونے والی جھوٹی داستانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ڈاکٹرز اپنے مطب(ڈسپینسری) کو دوبارہ کھول رہے ہیں تاکہ اپنے مریضوں کی صحت کی ان ضروریات کو پورا کرسکیں جو اب تک زیر التوا تھے۔ اس سب کے درمیان لاکھوں طبی کارکن اور فرنٹ لائن ورکرز ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے۔

لیکن، میں پرُامید ہوں۔ اوریہ امید ہم پر منحصر ہے۔

یہ ہم پر منحصر ہے یعنی ڈبلیو ایچ او پر –  ایک ایسا ادارہ جو پوری دنیا کو روشنی دکھاتا ہے۔  اسے یہ بتانا ہے کہ کیسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کویہ سمجھایا جاسکے،  ان کے اندر خوداعتمادی پیدا کی جاسکے۔ کیسے ہماری آواز بن کر اس مشکل و پُرآشوب دور میں لوگوں میں اعتماد پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس خطرناک دور میں آگے بڑھ کر کیسے قیادت کی جا سکتی ہے۔

ہم سب کے لیے، اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔ معاشرے کی خدمت کے لیے آپ کی اولوالعزمی  اور ثابت قدمی نے اس مشکل ترین دور میں ترقی کے منازل طے کیے۔ میں آپ کی محنت اور قربانیوں کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو آپ نے اپنے مشکل فیصلوں کے ذریعہ حاصل کیا۔

میں ایک بار پھر ڈبلیو ایچ او کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کے صدر کی حیثیت سے مجھ پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایگزیکیوٹیو بورڈ کے اجلاسوں کے کامیاب انعقاد میں، تمام نائب صدور، ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس، تمام علاقائی ڈائریکٹرز، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیاء کے خطے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پونم کھیترپال سنگھ کی حمایت کا تہہ دل سےشکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی ستائش بھی کرتا ہوں۔ میں بورڈ کے سبھی ممبروں بشمول – سبکدوش ہونے والے ممبروں سمیت ان کا ہر لحظہ تعاون اور رہنمائی اور جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے اس کے لئے بھی ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے عالمی ادارہ صحت کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کے سبکدوش ہونے والے چیئرپرسن، ڈاکٹر ہرش وردھن کو عالمی صحت کے حوالے سے ان کی نمایاں قیادت کے لئے مبارکباد پیش کی۔ ڈاکٹر ٹیڈروس نے اپنے تبصرے میں ڈاکٹر ہرش وردھن کو ایگزیکیوٹیو بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری کو کماحقہ ادار کرنے پر ستائشی کلمات سے نوازتے ہوئے ایک تحفہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے بحیثیت چیئرپرسن ڈاکٹر ہرش وردھن کی سرکاری طور پر تعاون کے علاوہ ذاتی شراکت کو بھی سراہا۔ انہوں نے ڈبلیو ایچ او کے خصوصی ڈائریکٹر جنرل کا ایوارڈ حاصل کرنے پر مرکزی وزیر صحت کو مبارکباد بھی پیش کی۔ تمباکو پرکنٹرول کے سلسلے میں ان کے شاندار کام کی تعریف کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ڈاکٹر ہرش وردھن نےقومی سطح پر تمباکو پر کنٹرول کرنے کے لیے ‘نیشل ٹوبیکو کوئیٹ لائن’کی مہم کے ذریعہ اور ای سگریٹ پر پابندی نافذ کرنے کے اقدامات کی وجہ سے تمباکو کنٹرول کے حقیقی چیمپئن ہیں، وہ منشیات کی روک تھام کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

3.jpg

کینیائی شہری ڈاکٹر پیٹرک اموٹھ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کا نیا چیئر پرسن منتخب کیا گیا ہے۔ اس موقع پر ڈبلیو ایچ او کے ایگزیکیوٹیو بورڈ کے معزز اراکین کے علاوہ، ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر ٹیڈروس آدنوم گیبریسس، ممبر ممالک کے نمائندگان، ڈبلیو ایچ او کے تمام ریجنل ڈائریکٹرز موجود تھے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More