40 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

’نیوانڈیا کے لئے اعداد و شمار‘ کے موضوع پر منعقدہ گول میز کانفرنس سے شماریات اور پروگرام نفاذ کے وزیر جناب سدانند گوڑا کے خطاب کا متن

Urdu News

نئی دہلی، ’’نیو انڈیا کے لئے اعداد و شمار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ گول میز کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کا حصہ بننے پر مجھے انتہائی خوشی ہورہی ہے۔

جیسا کہ آپ واقف ہیں ترقیاتی سرگرمیوں میں حکومت کے بڑھتے ہوئے رول کے ساتھ ساتھ اعداد و شمار میں بھی اضافے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ یعنی سب کی ترقی کے ایجنڈے کو پیش نظر رکھتے ہوئے میری حکومت نے متعدد نئے پروگرام شروع کئے ہیں، جن میں میک ان انڈیا، اسکل انڈیا، اسٹارٹ اَپ انڈیا، اسمارٹ سٹیز، سوچھ بھارت، نیوانڈیا کے مقصد کے حصول کی خاطر سماجی -اقتصادی یکسر تبدیلی کے لئے جی ایس ٹی این شامل ہیں۔ ہماری حکومت نے 115 ایسپائریشنل اضلاع کی نشان دہی کی ہے، تاکہ ترقی کے نقطہ نظر سے ان پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاسکے۔ ان اقدامات کو آگے بڑھانے اور انھیں مزید مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے میں سرکاری اعداد و شمار کا ایک مضبوط نظام اہم رول ادا کرسکتا ہے، اس طرح سے اعداد و شمار میں اضافہ کی ضرورت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

پالیسی سازوں کے لئے ایسے اعداد و شمار کی بہت ضرورت ہوتی ہے جو کہ پالیسی سے متعلق فیصلے کرنے کے لئے موزوں، درست، بروقت اور قابل اعتبار ہوں۔ ادارے چاہے وہ سرکاری ہوں یا پھر نجی، وہ بہت حد تک منظرعام پر موجود اعداد و شمار اور شماریات پر انحصار کرتے ہیں۔ جمہوری طرز حکومت کی کامیابی کا انحصار ایسے شماریاتی اطلاعات پر  ہوتا ہے، جس کا استعمال شہری سرکاری اقدامات تک رسائی کے لئے کرسکتے ہوں۔

پوری دنیا میں یہ بات تسلم کی جاتی ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے لئے ضروری ہے کہ وہ چند مخصوص بنیادی اصولوں پر مبنی ہوں، جن میں رازداری، پیشہ وارانہ آزادی، غیرجانبداری، خارجی جواب دہی اور شفافیت شامل ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ متعلقہ اعداد و شمار پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو اور بحیثیت عوام وہ انھیں زیادہ باخبر بناسکیں۔  سرکاری اعداد و شمار سے متعلق بنیادی اصولوں کا احاطہ 1994 میں تیار کئے گئے اقوام متحدہ کے سرکاری اعداد و شمار سے متعلق بنیادی اصولوں میں کیا گیا ہے۔

2014 میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ان بنیادی اصولوں سے متعلق ایجنڈے کو اٹھایا تو ہندوستان میں اس سے متعلق قرارداد کی اسمبلی میں حمایت کی۔ 2014 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے توثیق کے بعد میری حکومت نے باقاعدہ طور پر ان اصولوں کو 2016 میں اپنایا۔

ان اصولوں کو آگے بڑھانے کے لئے میری حکومت سرکاری اعداد و شمار سے متعلق ایک قومی پالیسی تیار کرنے میں مصروف ہے۔ اس کا مقصد ہمارے سرکاری شماریاتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے ایک لائحۂ عمل دستیاب کرانا ہے۔

ہندوستان جیسے ملک میں، سرکاری شماریات کا دائرۂ کار بہت وسیع ہے۔ اس راہ میں کئی چیلنجز ہیں۔ معیارات کا تعین کرنے اور مسلسل انھیں اپڈیٹ کرتے رہنے سے شماریات میں عوام کا اعتماد بڑھتا ہے۔ نظام سے جو اعداد و شمار نکل کر آتے ہیں، ان کا بندوبست کرنا اور ان اعداد و شمار کی رازداری کو برقرار رکھنا ایک دوسرا بڑا کام ہے۔ شماریات سے متعلق مصنوعات پر عوام کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کسی خارجی ماہر کے ذریعے ان اعداد و شمار کا آڈٹ (احتساب) کرایا جائے، خاص طور پر ایسے اعداد و شمار کا جو کسی دفتر کے ذریعے مسلسل یا ایک مخصوص دورانیے پر تیار کیا جاتا ہے۔ داخلی کوالٹی کنٹرول کا نظام کافی نہیں ہے۔ کئی ملک جدید ترین کوالٹی کنٹرول فریم ورک اور اعداد و شمار کے آڈٹ کے نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں، جن کے امکانات ہندوستانی تناظر میں تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ غیر ضروری ڈپلی کیشن  سے پرہیز اور تخمینوں سے متعلق تسلسل کو یقینی بنانا بھی ایسے امور ہیں جن پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر تفصیلی تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔

کسی بھی نظام کی کامیابی اور پائیداری کا انحصار صلاحیت سازی اور بین الاقوامی اشتراک پر ہے۔ ہمارے یہاں بین الاقوامی شہرت کے حامل تحقیقی اور تعلیمی اداروں کی کمیابی نہیں ہے، تاہم ان اداروں کے نظام اور سرکاری شماریات سے متعلق نظامات کی صلاحیت میں اضافےکے لئے ان اداروں کی تحقیقی صلاحیتوں کا مکمل استعمال کئے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ شماریات کے شعبے میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ لوگوں کی سرکاری شماریات کے شعبے میں داخلے کی رغبت کم ہورہی ہے، جس کی وجہ سے شماریاتی  ایجنسیوں کو دوسرے پیشہ وروں پر انحصار کرنا  پڑرہا ہے۔ ہر سطح پر اس شعبے کے احتساب کی ضرورت ہے۔

تیز رفتاری کے ساتھ ڈیجیٹل کاری کے سبب بڑی مقدار میں اعداد و شمار اور اطلاعات سامنے آرہے ہیں، جن سے اب بھی خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا رہا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑی مقدار میں موجود ان اعداد  و شمار کا استعمال کیا جائے، تاکہ ضرورت کے وقت اور ریئل ٹائم پر یہ اعداد و شمار بہم پہنچائے جاسکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعداد و شمار کے تجزئیے کے روایتی طریقۂ کار کی جگہ پر جدید طریقہ کار کو بروئے کار لایا جائے، جن میں نیورل نیٹ ورکس، آرٹیفیشیل انٹلیجنس  اور کوگنیٹیو اینیلیٹکس شامل ہیں، تاکہ بروقت اور زیادہ قابل اعتماد اطلاعات بہم پہنچائی جاسکیں۔  ڈیٹا سائن ایک ایسا تصور ہے جس کا مقصد شماریات، اعداد و شمار اور اطلاعات کو مربوط کرنا ہے، تاکہ حقیقی مسائل اور امور کو سمجھا جاسکے اور ان کا تجزیہ کیا جاسکے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ریاضی، شماریات، اطلاعاتی سائنس اور کمپیوٹر سائنس کا مرکب ہے۔ شماریاتی برادری کو چاہئے کہ وہ نہ صرف شماریاتی ایڈوانسمنٹ کو اپڈیٹ کرنے پر توجہ مرکوز کریں بلکہ اپنی توجہ متعلقہ شعبوں پر بھی مرکوز کرے۔

ہماری حکومت آسٹریلیا، کناڈا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں رائج بہترین طور طریقوں اور کامیابی کی کہانیوں کو سامنے رکھ کر ہر پہلو سے شماریاتی نظام کو بہتر بنانے کے تئیں پابند عہد ہے۔ ہم مختلف شعبوں اور عالمی شماریاتی پروگراموں میں شماریاتی  میتھاڈولوجی  کو بہتر بنانے والے بین الاقوامی فورموں کا حصہ رہے ہیں، جن میں عالمی بینک کے ذریعے منعقدہ انٹرنیشنل کمپریزن پروگرام یعنی بین الاقوامی تقابلی پروگرام، شامل ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنے شماریاتی نظامات کو بہتر کرنے کے لئے دوسروں کی مدد کریں اور دوسرے ملکوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں سے مدد لیں۔

جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں، سرکاری شماریات سے متعلق ایک نئی پالیسی تیار کرنے سے متعلق ہماری کوششوں سے شماریاتی نظام میں اصلاحات کی ہماری شدید خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس گول میز کانفرنس کا وقت بہت ہی مناسب اور ایک مستحسن قدم ہے۔ میں عالمی بینک کے اہلکاروں ، آسٹریلیا، کناڈا اور برطانیہ کے ممتاز مہمانوں اور میری وزارت کے افسروں کا اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے شکرگزار ہوں۔

مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس میں آئندہ دو دنوں میں جو غور و خوض ہوگا، ان سے ہمارے شعور اور ہمارے شماریاتی نظام کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لئے بہت مفید ثابت ہوگا۔ ان الفاظ کے ساتھ میں اس کانفرنس کا افتتاح کرتا ہوں اور اس کی کامیابی کے لئے دعاگو ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More