33 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت نے بھار ت کی قابل تجدید توانائی کے نشانے کے بارے میں شبہات پیدا کرنے والی رپورٹوں کی تردید کی ہے

Urdu News

نئی دہلی : میڈیا کے ایک سیکشن میں  سی آر آئی ایس آئی ایل  رپورٹ کے حوالے سے  یہ خبریں  شائع ہوئی ہیں کہ بھارت 2022 تک  ایک لاکھ 75  ہزار میگاواٹ کے قابل تجدید توانائی کے نشانے کو شاید حاصل  نہ کرسکے ۔نئی اورقابل تجدید توانائی کی وزارت نے اس طرح  کے دعووں کی تردید کی ہے ۔

          وزارت نے کہا ہے :’’  میڈیا کی حالیہ کچھ رپورٹوں  میں  اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ آیا بھارت  2022 تک  ایک لاکھ 75  ہزار میگاواٹ قابل تجدید توانائی پیداکرنے کے اپنے مقررہ نشانے کو حاصل نہیں کرسکے گا۔ میڈیا کی ان خبروں میں  سی آر آئی ایس آئی  ایل  کی ستمبر 2019  کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے ۔

          لیکن یہ خدشات صحیح  نہیں ہیں  اور ان سے موجودہ صوررتحال اورآنے والے منصوبوں کی صحیح عکاسی نہیں ہوتی ۔  بھارت نے ستمبر 2019  کے اختتام تک 82580   میگاواٹ سے زیادہ  قابل تجدید توانائی    کی صلاحیت  پیدا کرلی تھی اور تقریباََ 31150  میگاواٹ صلاحیت  تنصیب کے مختلف مراحل میں  ہے ۔ اس طرح  2021  کی پہلی سہ ماہی تک بھارت ایک لاکھ  13  ہزار میگاواٹ سے زیادہ قابل تجدید توانائی  کی صلاحیت قائم کرلے گا۔ یہ اس کے مقررہ نشانے کا تقریباََ 65 فیصد ہوگا۔ اس کے علاوہ  تقریباََ  39 ہزار میگاواٹ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت   نیلامی کے مختلف مرحلوں میں  ہے ، جو  ستمبر 2021  تک قائم کردی جائے گی اور اس طرح  مقررہ نشانے کا 87 فیصد سے زیادہ حصہ پورا ہوجائے گا۔ اب جب کہ صرف 23  ہزار میگاواٹ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت  نیلامی کے لئے باقی رہ گئی ہے ، بھارت کو امید ہے کہ وہ ایک لاکھ 75  ہزار قابل تجدید توانائی کی صلاحیت  نہ صرف حاصل کرلے گا بلکہ اس نشانے سے بھی آگے نکل جائے گا۔

          وزارت  وقتاََفوقتاََ پیداہونےوالے  مختلف مسائل کو باقاعدہ  طور پر حل کرنے کے لئے کام کیا ہے  اور اس نے اس نشانے کو حاصل کرنے کے لئے کاروبار کو آسان بنانے سے متعلق پالیسیوں اور پروگراموں سے کام لیا ہے۔قابل تجدید توانائی کی صنعت  ، ڈیولپرس اور دیگر ساجھیداروں  نے  شفاف  نیلامی   اور بجلی کو سستے داموں  حاصل کرنے کی وزارت کی کوششوں کی تعریف  کی ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں  شمسی  اور ہوا کے ذریعہ پیدا کی جانے والی بجلی کی شرحوں میں کافی کمی آئی ہے ۔ ہوا کے ذریعہ  پیدا کی جانے والی  بجلی کی شرح  2016  میں  4.18 روپے  فی یونٹ تھی ،جو   پچھلے سال کے دوران کم ہوکر 2.43 روپے فی یونٹ ہوگئی اور اس وقت یہ 2.75 روپے فی یونٹ سے بھی کم ہے۔اسی طرح  شمسی توانائی کی شرح میں  بھی کمی ہوئی ہے اور یہ 4.43 روپے فی یونٹ سے کم ہوکر 2.44 روپے فی یونٹ ہوگئی ہے ۔ بھارت سرکار کی یہ کوشش ہے کہ قابل تجدید توانائی ایسی شرح پر حاصل کی جائے جو تقسیم کار کمپنیوں  کے لئے قابل قبول ہو ۔

          مارچ  2014سے  بھارت کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت  34 ہزار میگاواٹ سے بڑھ کر 82580  میگاواٹ ہوگئی ہے ، جو 138 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے ۔عالمی اعتبار سے شمسی توانائی کے معاملے میں   بھارت  پانچویں نمبر پر ، ہوا کے ذریعہ حاصل ہونے والی توانائی کے بار ے میں چوتھے نمبر پر اور قابل تجدید توانائی کے معاملے میں  بھی چوتھے نمبر پر ہے ۔ اگر  اس میں   پن بجلی کو بھی شامل کیا جائے تو عالمی اعتبار سے بھارت قابل تجدید توانائی کے معاملے میں تیسرے نمبر  پر ہے ۔ بھارت کا قابل تجدید توانائی کا پروگرام بجلی کی پیداوار سے کہیں آگے کی چیز ہے ۔ یہ  بہت سے پہلوؤں  کا احاطہ کرتا ہے ،جس میں  ٹھنڈا کرنے   ، گرم کرنے ،سکھانے اور دیگر صنعتی کاموں کے لئے تھرمل  توانائی کا استعمال   بھی شامل ہے۔  قابل تجدید توانائی  صحیح معنیٰ  میں  کئی طرح سے فائدہ  پہنچانے والے نظام کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے ۔

          توانائی کے معاملے میں قابل تحدید توانائی کے حصے میں توسیع کا سفر چیلنجوں  بھرا رہا ہے ۔  جب آندھر ا پردیش کی حکومت نے اپنے اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ  پہلےسے دستخط شدہ  بجلی کی خریداری کے سمجھوتوں  ( پی پی ایز ) پر نظرثانی کرنے کا ارادہ رکھتی ہےتو وزارت  نے فوراََ ہی اس بات کی وضاحت کردی  کہ  کسی  پی پی ایز  پر اس وقت تک نظر ثانی نہیں کی جاسکتی جب تک کہ سمجھوتے میں اس طرح  کی دفعہ شامل نہ ہو یا  کرپشن  کا کوئی بہت بڑا واقعہ سامنے نہ آئے ۔

          وزار ت ، متعلقہ حکومتوں کے صلاح ومشورے سے گجرات میں زمین  الاٹ کرنے کے مسئلے اور راجستھان میں  زمین کی فراہمی کے چارجز پر نظرثانی سے متعلق معاملات  پر  توجہ دے رہی ہے ۔اصل گرڈ  میں  ایک لاکھ 75  ہزا رمیگاواٹ بجلی داخل کرنے کی غرض  سے 66500   میگاواٹ  زائدترسیلی نظام کی تنصیب کے معاملے پر بھی عمل درآمد  کیا جارہا ہے ۔ مقامات پر مبنی  ضرورتوں پر انحصار کرتے ہوئے  فاضل  ترسیل  مرحلے وار طریقے پر اکتوبر 2021 تک  پوری ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ وزارت زمین الاٹ کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی خاطر الٹرا میگا رینیوایبل   انرجی پارکس  کو  ترقی دینے  کے عمل سے گزررہی ہے ۔ ان پارکوںمیں   زبردست ترسیلی  نظام ہوگا۔ اس طرح  کا  پہلا پارک ایس ای سی آئی  کے ذریعہ گجرات میں  دھولیرا  کے مقام پر قائم کئے جانے کا منصوبہ ہے ۔ اس کے علاوہ وزارت  نے  سرمایہ کاروں کے اعتمادکو مضبوط  بنانے کی خاطر  پی پی اے دفعات کو بھی مستحکم بنایا ہے ۔

          وزار ت نے تین نئی اسکیمیں  شروع کی ہیں۔ پہلی اسکیم  12 ہزار میگاواٹ گرڈ  قائم کرنے سے متعلق ہے ، جو  ایس پی وی بجلی پروجیکٹوں سے منسلک ہوگی۔اس اسکیم کو سرکاری سیکٹر کے مرکزی ادارے (سی پی ایس یو ) کے دوسرے مرحلے کے تحت قائم کیا جائے گا۔ دوسری اسکیم   پی ایم –  کے یو ایس یو ایم  (پردھان منتری کسان اورجا سرکشیوم  اٹھان  مہاابھیان )  ہے،جس  پر اگلے چار برسوں  میں عمل درآمد کیا جائے گا۔ تیسری  اسکیم  روف ٹاپ  سولر فیز  2   پروگرام سے تعلق رکھتی ہے ۔ جس کے تحت ملک میں  چھتوں  پر شمسی  توانائی  کے نظام کے ذریعہ  بجلی تیار کرنے کے سلسلے میں تیزی لائی جائے گی۔

          میڈیا نے سی آر آئی ایس آئی ایل  کی جس رپورٹ کا حوالہ دیا ہے وہ نہ تو صحیح  ہے اور نہ ہی اس میں  ان  اقدامات  کو شامل کیا گیا ہے ،جو  نئی اورقابل تجدید توانائی کی وزارت نے  ملک میں  قابل تجدیدتوانائی کےفروخت  کے سلسلے میں کئے ہیں ۔ یہ رپورٹ ہر اعتبارسے ناقابل بھروسہ ہے ، کیونکہ سی آر آئی ایس آئی ایل نے   وزارت  کے خیالات معلوم کرنے کے لئے  اس سے رابطہ کرنے کی زحمت  بھی گوارہ نہیں کی ۔

وزارت کو نہ صرف یہ اعتماد ہے کہ وہ ایک لاکھ 75  ہزار  میگاواٹ  کا اپنا نشانہ حاصل کرلے گی بلکہ  اس سے  آگے نکل جائے گی۔‘‘

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More