24 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

طبی برادری کو جدید طرززندگی کے سبب درپیش صحت خطرات کے بارے میں ملک گیر بیداری مہم کی شروعات کرنی چاہئے: نائب صدر جمہوریہ ہند

Urdu News

نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے طبی برادری سے زور دے کر کہا ہے کہ وہ غیر متعدی امراض کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں،نیزجدید طرززندگی کے سبب درپیش صحت خطرات کے بارے میں ملک گیر بیداری مہم کی شروعات کرے۔

آج چنئی میں جی ای ایم ہاسپٹل کا افتتاح کرنے کے بعد مجمع سے خطاب کرتے ہوئے جناب ایم وینکیا نائیڈو نے ڈاکٹروں سے زور دے کر کہا کہ وہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کا با قاعدگی سے دور ہ کریں تاکہ طلباء میں مسلسل جسمانی ورزش، صحت مند غذالینے، شراب اور تمباکو نوشی سے پرہیز کرنے کی ضرورت سے متعلق وسیع پیمانے پر بیداری پیدا کی جا سکے۔ گلوبل برڈن آف ڈیزیزیعنی امراض کا بوجھ (جی بی ڈی) 2016 کی رپورٹ ، جس میں دکھایا گیا ہے کہ غیر متعدی امراض (این سی ڈی) اورزخمی ہونا ہندوستان میں ہر ایک عمر گروپ کے لوگوں کے درمیان اموات کی اہم وجہ ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے جناب نائڈو نے کہا کہ یہ طبی برادری کا فرض بنتا ہے کہ وہ جدید طرززندگی کے سبب درپیش صحت خطرات  اور چیلنجزکے بارے میں وسیع بیداری پھیلانے کے لئے ایک ملک گیر مہم کی شروعات کرے ۔

نائب صدر جمہوریہ نے پرائیوٹ سیکٹر سے زور دے کر کہا کہ وہ عام شہریوں  کی بہتری کے لئے علاج و معالجے کوقابل رسائی اور سستا بنائے۔ انہوں نے صحت خدمات کی بڑھتی ہوئی لاگتوں پر اپنی تشویش  کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، جہاں مہنگے علاج کے سبب متعدد کنبے غریب ہو گئے ہیں یا وہ قرض میں ڈوب گئے ہیں۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ مرکز اور  ریاستوں کی حکومتوں کی کوششوں کے باوجود ملک کے کئی علاقوں میں کم عوامی خرچ، ڈاکٹر اور مریض کے کم تناسب، بڑھتے ہوئے جیب خرچ، میڈیکل کالجوں اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی قلت اور ناکافی بنیادی ڈھانچے کے سبب حفظان صحت کے نظام کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ صحت سے متعلق ان چیلنجوں سے اکیلے حکومت نہیں نمٹ سکتی ہے۔ انہوں نے نجی شعبے سے زور دے کر کہا کہ وہ دیہی علاقوں میں صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے اپنی توجہ مزید مرکوز کرے۔ انہوں نے کہا کہ صحت خدمات اور بیمہ میں دیہی اور شہری فرق اور تفاوت کے سبب بھی لوگوں کے مالی بوجھ میں اضافہ ہو رہاہے ۔

 نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ملک کے ہر ایک شہری کو معیاری جسمانی اور دماغی صحت خدمات حاصل کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ انہوں نے تمام شراکت داروں بشمول ڈاکٹروں، محققین، سرکاری اور نجی اداروں کی مربوط کوششوں کے لئے زور دیا اور کہا کہ  سبھی مل کر کام کریں تاکہ ملک کے شہریوں کی رسائی کفایتی اور سستے حفظان صحت خدمات تک  ہو سکے ۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ سرکاری و نجی شراکت داری تکنیکی اعتبار سے ترقی یافتہ بنیادی و ثانوی صحت خدمات مراکز، جو کہ امراض کی روک تھام اور عمومی خرابیٔ صحت کے علاج کے لئے پہلی اکائیوں کے طور پر کام کر تے ہیں، کی فراہمی کے ذریعہ اس خلیج کو پُر کرنے کے لئے رول ماڈل بن سکتی ہے ۔

اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہ ڈاکٹر اب ماضی کی طرح مریضوں کے ساتھ ضروری وقت نہیں گزارتے ہیں، جس طرح کسی زمانے میں فیملی معالج گزارا کرتے تھے۔  نائب صدر جمہوریہ نے ڈاکٹروں سے زور دے کر کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو آرام پہنچائیں، جوان کے پاس  مشکل اور پریشانی کے وقت میں آتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹروں سے مزید کہا کہ آ پ مریضوں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں اور انہیں ضروری درکار انسانی لمس اور احساس دلائیں، جس کی انہیں سخت ضرورت ہوتی ہے اور ان کا بہترین علاج کریں ۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ حکومت ہند کے ذریعہ شروع کردہ آیوشمان بھارت پروگرام ملک میں غریب اور ضرورتمند کنبوں کے لئے نہایت کارآمد ثابت ہوگا اور اس سے ملک میں بالخصوص دیہی علاقوں میں صحت  نتائج میں بہتری آئے گی۔  انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں 1.5لاکھ صحت اور ویلنس مراکز کے قیام کا مقصد جامع حفظان صحت  نظام مہیا کرانا ہے۔

اس موقع پر تمل ناڈوکے وزیراعلیٰ جناب ای کے پلنی سامی، تمل ناڈو کے نائب وزیر اعلیٰ جناب او پنیر سیلوم، تمل ناڈو کی ریاستی حکومت میں ماہی پروری، عملے اور انتظامی اصلاحات کے وزیر جناب ڈی جے کمار، ٹرانسپورٹ کے وزیر جناب ایم آر وجے بھاسکر، جی ای ایم ہاسپٹل کے بانی ڈاکٹر سی پلانی ویلو اور دیگر معززین موجودتھے ۔

نائب صدر جمہوریہ ہند کی تقریر کا مکمل متن حسب ذیل ہے:

‘‘ہندوستان نے جدید ترین طریقۂ علاج اور بہتر حفظان صحت کی سہولتوں کی دستیابی کے ساتھ لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے میں قابل ذکرپیش رفت کی ہے۔ تاہم ملک میں ایک جامع حفظانِ صحت نظام قائم کرنے کے لئے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ملک کے دیہی  اور شہری علاقوں  کے درمیان پایا جانے والافرق اور تفاوت ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آزادی کے بعد سے ملک میں قائم ہونے والی یکے بعد دیگرے حکومتوں کی اولین ترجیح صحت خدمات رہی ہے، لیکن اس کے باوجود اس سلسلے میں مسلسل مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس میں ملک کے دیہی علاقوں میں  کم عوامی خرچ، ڈاکٹر اور مریض کے تناسب میں کمی، مریض اور  بیڈ کا کم تناسب ، بڑھتا ہو ا جیب خرچ، میڈیکل کالجوں ا ور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی قلت اور نا کافی بنیادی ڈھانچہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں صحت بیمے کی کمی اور امراض کی ناکافی نگرانی اور امتناعی میکانزم کی قلت بھی ا س میں شامل ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نجی سیکٹر حفظان صحت کی سہولتیں مہیا کرانے میں حکومت کی کوششوں اور پروگراموں کو نافذ کرنے میں  اہم تعاون دے رہا ہے۔ تاہم میں اس بات سے اچھی طر ح واقف ہوں کہ کارپوریٹ سیکٹر کی زیادہ تر توجہ شہری علاقوں تک محدود ہے۔ اب وقت آ گیاہے کہ نجی سیکٹر اپنی سہولتوں کی توسیع دیہی علاقوں تک کرے، جہاں ہندوستان کی  بیشتر آبادی رہائش پذیر ہے۔

سرکاری و نجی شراکت داری تکنیکی اعتبار سے ترقی یافتہ بنیادی وثانوی صحت خدمات مراکز، جو کہ امراض کی روک تھام اور عمومی خرابیٔ صحت کے علاج کے لئے پہلی اکائیوں کے طور پر کام کر تے ہیں، کی فراہمی کے ذریعہ اس خلیج کو پُر کرنے کے لئے رول ماڈل بن سکتی ہے ۔جہاں تک حفظان صحت کے نظام کا معاملہ ہے صحت بیمہ  میں شہری اور دیہی فرق بھی لوگوں کے مالی بوجھ میں اضافے کا سبب ہے۔

اس بات کوہمیشہ ذہن میں رکھئے       کہ ہندوستان میں  ایک ڈاکٹر کا کافی احترام  پایا جاتاہے اور ڈاکٹر کو خدا کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔ پیشہ ور افراد کی حیثیت سے آپ کو ہمیشہ مریضوں کے ساتھ نہایت شفقت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آنا چاہئے اور انہیں انسانی لمس اور احساس کرائیں، جس کی انہیں سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح  آپ کوان کا بہترین علاج کرنا چاہئے ۔

ان دنوں  مجھے لگتا ہے کہ  ڈاکٹر ماضی کی طرح اپنے مریضوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارتے ہیں، جس طرح پہلے فیملی معالج گزارا کرتے تھے۔ آپ کو ایسے لوگوں کو فوری آرام پہنچانا چاہئے، جو آپ کے پاس مشکل اور پریشانی کے وقت میں آتے ہیں۔

طبی شعبے میں ہونے والی ترقی کے سبب  ملک میں علاج کا جدید ترین طریقۂ کار اب دستیاب ہے۔ لہذا وقت کی ضرورت ہے کہ ان جدید ترین طریقۂ علاج کو ملک کے عام لوگوں کے لئے سستا اور قابل رسائی بنایا جائے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جہاں مہنگے علاج کے سبب کئی کنبے غریب ہو گئے ہیں یا وہ   قرض  میں ڈوب گئے ہیں۔

طبی صحت بیمہ کی کمی کی وجہ سے تقریباً 62.58فیصد افراد اپنے بل بوتے ہی علاج  اور اسپتال کے خرچے اٹھا رہے ہیں۔  مرکزی  حکومت نے 10.74کروڑ دیہی کنبوں کوعلاج کے دوران  مالی تحفظ فراہم کرنے کے لئے آیوشمان بھارت کا آغاز کیا ہے۔آیوشمان بھارت پروگرام کے تحت فی سال فی کنبہ 5لاکھ روپے کا انشورنس کور دیا جائے گا۔

مجھے پورا یقین ہے کہ آیوشما ن بھارت ملک میں ضرورتمند اور غریب کنبوں کے لئے نہایت کارآمد ثابت ہوگا۔ اس سے ملک میں بالخصوص دیہی علاقوں میں  وسیع پیمانے پر صحت نتائج بہتر ہوں گے۔مزید برآں ملک بھر میں 1.5لاکھ صحت اور ویلنس مراکز کے قیام کا مقصد جامع حفظان صحت نظام مہیا کرنا ہے۔

ملک میں تشویش کی ایک بات یہ ہے کہ یہاں فی 10 ہزار افراد معالجوں کی مناسب تعداد دستیاب نہیں ہے، جبکہ ترقی یافتہ  ملکوں میں یہ تعداد مناسب طور پر موجود ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں 10 ہزار لوگوں کے لئے 20 ڈاکٹر دستیاب ہیں، وہیں ہندوستان میں یہ تعداد صرف 6چھ ہے۔

عالمی صحت ادارہ (ڈبلیو ایچ او) کے اصول کے برخلاف ہندوستان میں 1700 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہےے، جبکہ اصول یہ ہے کہ ایک ہزار افرادکے لئے ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے پہلے کی منصوبہ بندی کمیشن (اب نیتی آیوگ) نے ملک میں سال 2022 تک مزید 187 میڈیکل کالج قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔

پیارے دستو!آئین ہند کی دفعہ 21 کے تحت ملک کے ہر ایک شہری کو زندگی کے تحفظ اور شخصی آزادی کا حق حاصل ہے ۔ اس میں ہر ایک شہری کو معیاری  جسمانی اور دماغی صحت تک رسائی کا حق بھی شامل ہے۔

جیسا کہ آپ سبھی واقف ہیں کہ متعدد ریاستی حکومتوں اور مرکزی  حکومت نے ہمارے ملک کے شہریوں کی حفظانِ صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متعد د اسکیموں کا آغاز کیا ہے۔ حکومت ہند نے حفظانِ صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صحت اخراجات کو بڑھا کر سال 2025 تک اپنی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)  کا 2.5فیصد کرنے کا نشانہ مقرر کیا ہے۔

کم قیمت والے جنرک میڈیسن کو بڑھاوا دینا اور طبی اداروں کو ریسرچ و تحقیق کے لئے مناسب فنڈ مہیا کرانا اولین ترجیح ہونی چا ہئے۔ یہاں نجی سیکٹر کو بالخصوص بڑے کارپوریٹ گھرانے کو طبی تحقیق کو فروغ دینے کے لئے اپنے منافع کا ایک حصہ اپنے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری  (سی ایس آر) سرگرمیوں کے حصے کے طور پر مختص کرنا چاہئے ۔

پیارے بھائیو اور بہنو!گلوبل برڈن آف ڈیزیز(جی بی ڈی) 2016 یعنی مرض کا عالمی بوجھ کے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ غیر متعدی امراض (این سی ڈی) اور زخمی ہونا  ہندوستان میں ہر ایک عمر کے گروپ کے لوگوں کے درمیان اموات کی اصل وجہ ہے ۔

چونکہ غیر متعدی امراض (این سی ڈی) بڑے پیمانے پر مہلک بنتے جا رہے ہیں۔ لہذا یہ طبی برادری کا فرض ہے کہ وہ  موجودہ عہد کے جدید طرز زندگی کے سبب درپیش صحت چیلنجوں اور خطرات کے بارے میں وسیع پیمانے پر ایک ملک گیر مہم کی شروعات کرے۔ جسمانی ورزش کی کمی، ناقص اور غیر متوازن غذا ، تمباکو و شراب نوشی اور ماحولیاتی عوامل ایسے اسباب ہیں، جن کے سبب غیر متعدد امراض میں اضافہ  ہور ہا ہے۔

تمام شراکت داروںسرکاری و نجی سیکٹر ، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) ، عوامی صحت کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد اور ماہرین کو ایک صحت مند ، متحرک، درخشاں اور تابناک ہندوستان کی تعمیر کے لئے ایک ساتھ مل کرکام کرنا چاہئے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More