24 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

راج ناتھ سنگھ کا عالمی ماحولیاتی کانفرنس سے خطاب

श्री राजनाथ सिंह ने विश्व पर्यावरण सम्मेलन को संबोधित किया
Urdu News

نئی دہلی، 26 مارچ      نیشنل گرین ٹریبونل نے آج نئی دہلی میں ’عالمی ماحولیاتی کانفرنس‘ کا انعقاد کیا۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر کے اہم اقتباسات حسب ذیل ہیں:

’’اس بین الاقوامی کانفرنس میں حصہ لیتے ہوئے مجھے خوشی ہو رہی ہے۔ میں اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) کو مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کانفرنس ماحولیاتی مسائل کے بارے میں خیالات کے تبادلے اور تجربے اور معلومات کا اشتراک کرنے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔ مجھے آج مہاتما گاندھی کے وہ سنہری الفاظ یاد آ رہے ہیں جو انہوں نے کہا تھا، ’’زمین کے پاس ہر کسی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، لیکن وہ کسی کے حرص کو پورا نہیں کر سکتی”۔

انسانیت کی خوشحالی، ماحولیات اور معیشت کے کام کا نظام، بالآخر اس زمین پر دستیاب قدرتی وسائل کے معقول اور ذمہ دارانہ انتظام پر انحصار کرتی ہے۔ انسانیت اس سے زیادہ قدرتی وسائل کا استعمال نہیں کر سکتی، جتنا کہ دھرتی ماں ہمیں فراہم کر سکتی ہے۔

انسانیت کو آج جس بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس نے ہمیں انسانی فطرت کے پورے تعلقات کا جائزہ لینے کے لئے پابند کر دیا ہے۔ یہ بات گزشتہ 5 دہائیوں میں ہوئے واقعات اور اندھا دھند ترقی کے مستقبل کی حکمت عملی کے تناظر میں زیادہ اہم ہے۔ ہندوستان کے لوگوں کا ہمیشہ یہ یقین رہا ہے کہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے رشتے برقرار رکھے جائیں اور ہم اسے ماں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم فطرت کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ فطرت کا استحصال نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ محض انسانی خوشحالی کے لئے اس کا تحفظ ضروری ہے۔ فطرت کے ساتھ توازن کی صورت میں ہماری زندگی اور دنیا جس میں ہم رہتے ہیں، کے درمیان ایک توازن بنا رہتا ہے۔ ہماری قدیم مذہبی کتابوں میں ہمیشہ انسان اور فطرت کے درمیان ایک صحت مند اور مستحکم تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اتھرو وید میں یہ حتمی فرض بتایا گیا ہے کہ ہمیں زمین کی حفاظت ضرور کرنی ہے، تاکہ زندگی کا تسلسل بنا رہے۔ زمین کے ساتھ اپنے تعلق کو ہم نے ‘ماں بھومی پترو  اہم پرتھويا’ کے طور پر بیان کیا ہے۔

ہندوستان کے آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاستوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ماحول کا تحفظ کریں اور اس میں بہتری لائیں اور ملک کے جنگلات اور جنگلی جانوروں کو تحفظ فراہم کریں۔ ہندوستان کے شہری ہونے کے ناطے جنگلات، جھیلوں، دریاؤں اور جنگلی جانوروں سمیت قدرتی ماحول کی حفاظت ہماری حتمی ذمہ داری ہے۔

ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں میں بھی ماحول کو شامل کیا گیا ہے۔ زندگی کے بنیادی حق کی تشریح میں بھی ماحول موجود ہے۔ صاف اور صحت مند ماحول، جیسا کہ سپریم کورٹ نے بھی ہدایت دی ہے، کسی بھی مہذب معاشرے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔

آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی ہمارے حال پر برا اثر ڈال رہے ہیں اور ہمارے مستقبل پر بھی ان کے سنگین اثرات پڑنے جا رہے ہیں۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر کھپت اور پیداوار کا موجودہ پیٹرن جاری رہا تو 2050 تک دنیا کی آبادی 9.6 ارب ہو جائے گی۔ ایسا ہونے پر ہمیں اپنی زندگی کے طریقوں اور کھپت کو استحکام فراہم کرنے کے لئے تین سیاروں کی ضرورت پڑے گی۔

آج موسمیاتی تبدیلی کو ایک عالمی چیلنج کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں ہمارا یقین ہے کہ موسمیاتی تبدیلی گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا نتیجہ ہے اور اس کے نتیجے میں جو زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، ان کی وجہ سے ملکوں میں ہوئی صنعتی ترقی ہے جو حیاتیاتی ایندھن کی کھپت سے ہو رہاہے۔ ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے ہندوستان کا مفروضہ سے کچھ زیادہ سروکار نہیں ہے، لیکن اس کے مہلک اثرات اسے بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ہمارے کروڑوں کسانوں کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے، چونکہ اس سے موسم کے پیٹرن میں تبدیلی ہو رہا ہے اور قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ ہو رہا  ہے۔

دونوں سمتوں میں برف پگھلنے کے باعث بڑھتے ہوئے سمندر تشویش کا سبب ہے۔ آرکٹک اور انٹارکٹک میں اس سال برف میں ریکارڈ کمی درج ہوئی ہے اور پگھلتے قطب ہماری سرحدوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ ہمیں ہندوستان میں اس بات کی بھی فکر ہے کہ ہمالیہ کے گلیشیئر کم ہورہے ہیں، جو ہماری دریاؤں کو پانی دیتے ہیں اور ہماری تہذیب کی پرورش کرتے ہیں۔

پیرس معاہدے کے تحت دنیا کی حکومتوں نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ عالمی حدت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کے لئے اپنے کاربن کے اخراج میں زبردست کمی لائیں گے۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے زیادہ تر ممالک نے ہدف حاصل کرنے کے لئے پہلے ہی قومی ایکشن پلان تیار کر لئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ منصوبے ہمارے دور کے تئیں زیادہ پر عزم ہوں گے۔

ہندوستان عالمی خطرات کی ہر کوشش میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حکومت ہند نے حال ہی میں یہ ہدف مقرر کیا ہے کہ 2022 تک 175 گيگاواٹ قابل تجدید توانائی پیدا کی جائے گی۔ 2030 تک ہماری بجلی کی تنصیبی صلاحیت کا 40 فیصد غیر حیاتیاتی ایندھن پر مبنی ہوگی۔ حکومت ہندآٹوموبائلس کے لئے ایندھن کا معیار بڑھا رہی ہے اور ہندوستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے کوئلے پر ٹیکس لگایا ہے۔ ہم نے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی بھی کم کی ہے۔ یہاں تک کہ قابل تجدید توانائی کے لئے ہم نے ٹیکس فری بانڈ بھی شروع کئے ہیں۔ ہم نے اپنے جنگلات کو بڑھانے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی بھی منصوبہ بندی کی ہے۔

مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس میں بات چیت سے جو نتیجے اخذ ہوں گے  اور جو سفارشات پیش کی جائیں گی وہ ماحول سے قانون سازی اور نظریات میں حقیقی پیش رفت لانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔‘‘

Related posts

6 comments

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More