28 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

پسماندہ طبقات کے تئیں رحم دل ہونا چاہئے اور ان کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آنا چاہئے: نائب صدر جمہوریہ کی ڈاکٹروں کو تلقین

Urdu News

نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ جناب ایم وینکیا نائیڈو نے نوجوان ڈاکٹروں اور عوام سے پسماندہ طبقات کے تئیں رحم دلی اپنانے اور ان کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آنےنیز ان کی باتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے طبی پیشے میں داخل ہونے کے لئے کہا۔ انہوں نے ڈاکٹروں سےکاروبار کے لئے نہیں بلکہ  خدمت خلق کے لئے  ایک مشن کے طور پر اس پیشے کو اپنانے کے لئے کہا۔

کرناٹک کے بیلاگوی میں واقع کے ایل ای ڈیمڈ یونیورسٹی کے 9ویں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے آج نائب صدر جمہوریہ نے نوجوان فارغ التحصیل سے قطار میں کھڑے غریب ترین شخص کو اعلیٰ معیاری کی طبی سہولیات تک رسائی کے قابل بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

حفظان صحت کے شعبے میں بڑھتی لاگت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ آبادی کا ایک بڑا طبقہ کینسر اور امراض قلب جیسے ناقابل علاج امراض میں سے چند کے علاج اور جدید ترین طریقہ تشخیص کی سہولت سے استفادہ کی اہل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حفظان صحت کی خدمات کو صرف قابل استطاعت ہی نہیں بنانا چاہئے بلکہ اسے عام آدمی کے قابل رسائی بھی بنانا چاہئے۔ نائب صدر جمہوریہ نے پرائیویٹ سیکٹر سے دیہی علاقوں میں جدید ترین حفظان صحت سہولیات بہم پہنچانے کی غرض سے پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے ذریعہ قابل استطاعت حفظان صحت کی سہولیات مہیا کرانے کی حکومت کی کوششوں میں شامل ہونے کی اپیل کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت جہاں ابتدائی صحت مراکز میں بہتر سہولیات فراہم کررہی ہے وہیں پرائیویٹ سیکٹر کو بھی دیہی علاقوں میں تشخیص اور علاج کی بہتر سہولیات فراہم کرانے میں تعاون کرنا چاہئے۔

جناب نائیڈو نے یہ کہتے ہوئے کہ سست طرز زندگی کی وجہ سے بھارت میں غیر متعدی امراض کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، انہوں نے کہا کہ ناقص خورد ونوش کی عادت، الکوہل اور تمباکو کا استعمال ان دیگر عادتوں کے ساتھ شامل ہیں جن کی وجہ سے موٹاپا، ہائپر ٹینشن، امراض قلب، ذیابیطس اور فالج جیسے غیر متعدی امراض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

اس خطرناک صورتحال کی روک تھام کے لئے  انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ڈاکٹر برادری آج کی طرز زندگی اور غیر صحت مند خورد ونوش کی عادت کی وجہ سے لاحق خطرات کے تعلق سے عوام کے مابین خصوصاً نوجوانوں کے درمیان بیداری پیدا کرے۔

یہ کہتے ہوئے کہ ڈاکٹر اور مریضوں کے رشتوں کے درمیان انسانی لگاؤ یا انسانی عنصر میں رفتہ رفتہ کمی آرہی ہے۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ اطمینان بخش طور پر بات چیت نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ مشینی انداز میں اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹروں سے یہ امید ظاہر کی کہ وہ مریضوں کےساتھ مؤثر انداز میں رابطہ قائم کریں۔

یہ کہتے ہوئے کہ عوام کو علم سے آراستہ کرنا انہیں بااختیار بنانے کا بہترین طریقہ ہے۔ جناب نائیڈو نے تعلیمی اداروں سے جیسے کے ایل ای سوسائٹی سے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو قابل استطاعت اور معیاری تعلیم کی سہولت مہیا کرانے کی حکومت کی کوششوں میں تعاون کرنے کی اپیل کی۔

جناب وینکیا نائیڈو نے میڈیکل تعلیم کے نصاب میں بایو ایتھکس، ہیومنٹیز اور مواصلات کے ہنر کو شامل کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے تعلیمی اداروں سے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے بھی اپیل کی کہ نوجوانوں میں احتیاطی حفظان صحت کے پہلوؤں، خصوصیت کےساتھ یوگا، خورد ونوش اور ورزش کی عادت ڈالنے کے لئے ان کے نصاب میں انہیں شامل کریں۔

کے ایل ای ڈیمڈ یونیورسٹی کے چانسلر اور رکن پارلیمنٹ (راجیہ سبھا) ڈاکٹر پربھاکر کورے، یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر وویک اے ساؤجی، بورڈ آف مینجمنٹ کے اراکین، شعبوں کے ڈین، اداروں کے سربراہان، یونیورسٹی کے افسران، شعبے کے اراکین، طلبا اور دیگر معززین بھی اس موقع پر موجود تھے۔

 نائب صدر جمہوریہ ہند کے خطاب کامتن مندرجہ ذیل ہے:

‘‘مجھے خوشی ہے کہ کے ایل ای ڈیمڈ یونیورسٹی کے نویں تقسیم اسناد کے جلسے کے لئے میں اس صبح میں آپ کے ساتھ ہوں۔اس موقع پر میں گریجویشن کرنے والے تمام طلباء کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے تابناک کے مستقبل کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔میں ڈاکٹر پربھاکر کوریجی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اس تقریب میں مدعو کرکے آپ کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع دیا ۔ میں کے ایل ای سوسائٹی اور کے ایل ای ڈیمڈ یونیورسٹی کے ذریعے پچھلے کئی برسوں سے تعلیم اور حفظان صحت کے شعبے میں کئے جانے والے بہترین کام سے واقف ہوں اور میں بیلا گاوی اور اس ڈیم ڈیونیورسٹی کا دورہ کرنے کا موقع تلاش کررہا تھا۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ کے ایل ای سوسائٹی غریبوں اور محروم طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے ایک صدی پہلے سات اساتذہ نے تشکیل دی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ عوام کو تعلیم فراہم کرنا انہیں بااختیار بنانے کا بہترین طریقہ ہے۔ انہوں نے اس مشکل وقت میں چند اسکول اور کالجوں سے شروعات کی۔انہوں نے یہ کام اپنی املاک فروخت کرکے اور گھر گھر جاکر چندہ جمع کرکے کیا تھا۔ان کی مدد کچھ ہمدرد لوگوں نے بھی کی۔مجھےیہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ آج بھی کے ایل ای  سوسائٹی ہمدردی اور عطیات کے اصولوں کاربند ہے، جو کےایل ای سوسائٹیوں کے بانیوں نے قائم کئے تھے۔

یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ کے ایل ای ڈیمڈ یونیورسٹی اپنے آغاز سے ہی صحت سے متعلق سائنس کے مختلف شعبوں میں معیاری تعلیم فراہم کرنے میں سب سے آگے رہی ہے اور یہ تحقیق کے محاذ پربھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ یونیورسٹی پرائیویٹ سیکٹر میں ملک کی سرکردہ یونیورسٹیوں میں شامل ہے اور یہ زچہ اور بچے کی حفظان صحت میں معیاری تحقیق بھی کررہی ہے۔میں اس کامیابی کے لئے یہاں کی فیکلٹی کو مبارکباد دیتاہوں۔مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی بیلا گاوی شہر اور آس پاس تقریباً 300کلومیٹر تک اپنے 400ہزار سے زیادہ بستروں والے اسپتال کے ساتھ سپر اسپیشلٹی اور جدید ترین لیباریٹریوں کے ساتھ لوگوں کو معیاری حفظان صحت فراہم کررہی ہے۔یہ کامیابیاں ڈاکٹر پربھاکر کورے کے عزم و استقلال اور ویژن والی قیادت کے ساتھ ساتھ فیکلٹی اور دیگر عملے کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔

دوستو! جیسا کے آپ جانتے ہیں اعلیٰ تعلیم ، خاص طورپر صحت کے سیکٹر میں اعلیٰ تعلیم،ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تشخیص کے جدید آلات نہ صرف تشخیص بلکہ ان کے علاج کے لئے بھی بہت مفید ہے، جن میں کچھ لا علاج بیماریاں جیسے کینسر اور دل کے امراج کا بھی کامیاب علاج کیا جاسکتا ہے، لیکن اس  کے ساتھ ہی ان تکنیکی جدت سے ان کی بہت زیادہ لاگت کی وجہ سے عوام کے ایک بہت بڑے طبقے کے لئے یہ جدید ٹیکنالوجی دستیاب نہیں ہوتی۔

اس لئے ہمیں ایک توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ہم سب کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ حفظان صحت کی خدمات عام آدمی کے لئے بھی قابل برداشت اور قابل رسائی ہو۔وقت کی ضرورت یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر سرکاری –پرائیویٹ ساجھیداری کے ذریعے قابل برداشت حفظان صحت فراہم کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ ہاتھ ملائے۔

مجھے خوشی ہے کہ مرکز اور کئی ریاستی حکومتوں نے غریبوں اور ضرورت مندوں کو صحت سے متعلق خدمات فراہم کرنے کے لئے ہیلتھ انشورنس اسکیمیں شروع کیں ہیں۔

یہ نوجوان، جو آج گریجویشن مکمل کررہے ہیں، انہیں سماج کے محروم طبقے کے لئے ہمیشہ ہمدردی کا جذبہ رکھنا چاہئے اور ہمدردی اور مفاہمت کے ساتھ ان کا علاج کرنا چاہئے۔انہیں ہمیشہ سمجھنا چاہئے کہ یہ عظیم پیشہ ایک تجارتی پیشہ نہیں ہے، بلکہ عوام کی خدمت کا ایک مشن ہے۔میں نوجوان گریجویٹس پر زور دینا چاہوں گا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ معیاری طبی خدمات قطار میں لگے آخری انسان تک بھی پہنچے۔ایک اور بڑا چیلنج ، جسے ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہےکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دیہی علاقوں میں حفظان صحت کی جدید ترین سہولیات دستیاب ہوں۔اگرچہ حکومتیں بنیادی صحت مراکزوں کی سہولیات فراہم کررہی ہیں، پرائیویٹ سیکٹر کو بھی چاہئے کہ وہ دیہی علاقوں میں تشخیص اور علاج کے جدید ترین سہولیات فراہم کریں۔

طبی سائنس کا شکر ادا کیا جانا چاہئے کہ انفرادی زندگی کی معیاد میں اضافہ ہوگیا ہے ۔اس لئے ہمیں اپنی بزرگ آبادی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

البتہ حفظان صحت کے محاذ پر بھارت میں سب سے بڑی تشویش، غیر متعدی بیماریوں میں اضافہ ہے۔آرام دہ طرز زندگی ، کھانے پینے کی خراب عادتیں، الکحل اور تمباکو کا استعمال اور دیگر وجوہات سے موٹاپا، ہائپرٹینشن،امراض قلب، ذیابیطس اور فالج جیسی غیر متعدی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

میڈیکل فیکلٹی کے سامنے بڑا چیلنج اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا اور لوگوں میں ، خاص طورپر نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنا ہے، تاکہ انہیں جدید دور کے طرز زندگی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں معلوم ہوسکے۔

مجھے یقین ہے کہ مستقبل کے ڈاکٹریقیناً ان چیلنجوں کے لئے کام کریں گے اور جدت طرازی پر مبنی حل پیش کریں گے۔

طبی میدان میں ٹیکنالوجی میں ترقی کے پیش نظر ایک چیز میں نے نوٹس کی ہے کہ ڈاکٹر اور مریض کے درمیان تعلق میں انسانیت یا انسانی ہمدردی کا جذبہ رفتہ رفتہ ختم ہوتاجارہا ہے۔میں سمجھتاہوں کہ آج کے ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ مناسب طورپر گفتگو نہیں کرتے، بلکہ اپنے فرائض کی انجام دہی ایک مشینی انداز میں کرتے ہیں اور شاید وہ کام کے دباؤ کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔

میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹر اور اس کے مریض کے درمیان مؤثر بات چیت ہونی چاہئے۔یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مریض ڈاکٹروں کو بھگوان کا درجہ دیتے ہیں اور ڈاکٹر وں کو بھی ان کے ساتھ ہمدردی اور انسانیت کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ بہترین اخلاقی معیار برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے۔

طبی کورس کے نصاب میں بایوایتھکس، ہیومنیٹیز اور مواصلاتی صلاحیت جیسے مضامین شامل کئے جانے چاہئے۔میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ طبی تعلیم میں ہمیشہ علاج کے پہلو پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے، جبکہ مرض کے روک تھام کے پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔میں ذاتی طورپر اس پرانی کہاوت پر یقین رکھتا ہوں کہ‘علاج سے زیادہ بہتر مرض کی روک تھام’۔ یہ کہاوت آج کے دور میں بھی اتنی ہی اہم اور ضروری ہے۔

اچھی اورصحت مند طرز زندگی، متوازن غذا، یوگا، مراقبہ، جسمانی ورزش وغیرہ جیسی ورزش بہت سی بیماریوں کی روک تھام اور کنٹرول میں بہت مفید ہوتے ہیں۔اس لیے میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ روک تھام سے متعلق حفظان صحت کے پہلوؤں ، خاص طورپر یوگا، خوراک اور ورزش جیسے پہلوؤں پر زیادہ توجہ دی جائے۔

ہمارے پاس انتہائی جدید حفظان صحت کے نظام موجود ہیں، جن میں جدید طب (ایلوپیتھی) ایک طرف اور آیوروید ، ہومیوپیتھی اور نیچرو پیتھی جیسی روایتی طریقہ علاج دوسری جانب موجود ہیں۔انہیں جہاں بھی ممکن ہو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرنے کے امکانات تلاش کئے جانے چاہئے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی بھی شخص کو جامع علاج فراہم کرسکتا ہے۔

مجھے بتا یا گیا ہے کہ کے ایل ای ڈیمڈ یونیورسٹی نے ایک ہی چھت کے نیچے یہ تمام طریقہ علاج فراہم کئے جارہے ہیں۔اس لئے یہ آپ کے لئے ممکن ہے کہ مربوط طبی حفظان صحت کی فراہمی کے ذریعے زیادہ بہتر طبی نتائج حاصل ہوں۔

پیاری بہنواور بھائیو! جہاں تک طبی تعلیم کا تعلق ہے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک صحت مند علامت ہے، البتہ ہمیں تعلیم کے معیار پر ، جو ہم اپنے مستقبل کے شہریوں کو فراہم کررہے ہیں، زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔آج کی عالمگیریت والی دنیا میں ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے تعلیم معیار دنیا میں بہترین معیار سے مطابقت رکھتے ہیں۔

ایسے میں جبکہ ہم ایک ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ ملک میں تبدیل ہورہے ہیں، ہمیں اپنی طبی تعلیم کو مسلسل جدید بنانے اور اس کی بحالی پر زور دینے کی ضرورت ہے، جبکہ ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتیں مناسب حد تک بڑھ سکیں اور ان میں مقابلہ آرائی کا جذبہ پیدا ہو۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انہیں اپنے رویے کو درست کرنا چاہئے۔جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے، انہیں طبی پیشے کو صرف رقم کمانے والا پیشہ نہیں بنانا چاہیے، بلکہ انہیں سماج کے محروم طبقے کے تئیں ہمدردی ہونی چاہئے اور انہیں آگے بڑھانے میں اپنا تعاون کرنا چاہئے۔

آخر میں گریجویشن کرنے والے طلباء کے لئے میرا مشورہ ہے کہ آپ خود کو اور اپنے والدین کو سماج اور ملک کی ہر ممکن طورپر خدمت کرکے انہیں فخر کرنے کا موقع دیں۔آپ علم اور ضروری صلاحیتوں سے لیس ہیں اس لئے وقت آگیا ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کریں۔ اختراعی انداز میں سوچیں، سخت محنت کریں اور اپنی کامیابیوں سے خود کو اور مادروطن کو فخر کرنے کا موقع فراہم کریں۔

میں ایک بار پھر آپ کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کی مستقبل کی تمام کوششوں کے لئے اپنی نیک خواہشات پیش کرتاہوں۔ آیئے ایک نیا بھارت تعمیر کرنے کے لئے ہم ایک ساتھ مل کر کوششیں کریں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More