23 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

اترپردیش کے شہر وارانسی میں پندرہویں پراواسی بھارتیہ دیوس کنوینشن 2019میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب کا متن

Urdu News

نئی دہلی، ماریشش کے وزیر اعظم عزت مآب جناب پروند جگناتھ جی، ان کی اہلیہ محترمہ محترمہ کویتا جگناتھ جی، اترپردیش کے گورنر جناب رام نائک جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی سبھاش سوراج جی، وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ جناب منوہر لال کھٹر جی، اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ جناب ترویندر سنگھ راوت جی،مہاراشٹر کے میرے ساتھی اور دنیا بھرسے تشریف لانے والے اور کاشی  آنے والے میرے عزیز بھائیو اور بہنو!

سب سے پہلے آپ سبھی کا بہت بہت خیر مقدم  اور استقبال  ہے۔ آپ سبھی یہاں اپنے اپنے اجداد کی مٹی کی مہک سے کھنچے چلے آئے ہیں۔ کل جنہیں پراواسی بھارتیہ سمّان  ملنے والا ہے، انہیں میں اپنی طرف سے پیشگی مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آج کا دن میرے لئے بھی خاص دن ہے۔ جیسا کہ سشما جی   کہہ رہی تھیں میں آپ کے سامنے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ  کاشی کا رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناتے ایک میزبان کی  شکل سے موجود رہا۔ بابا وشو ناتھ اور ماں گنگا کا آشیرواد آپ سبھی پر  بنا رہا میری یہی دعا ہے۔

ساتھیوں آج آپ سے اپنی  بات شروع کرنے سے پہلے میں ڈاکٹر شری شری شری شیو کمار سوامی جی کے انتقال پر اپنی تعزیت کا اظہار کرنا چاہتاہوں۔ تمکُر کے شری سدھ گنگا مٹھ میں مجھے کئی بار ان سے آشیرواد لینے موقع ملا تھا اور جب بھی ان سے ملتا تھا وہ ایک بیٹے کی طرح مجھ سے اتنا پیار کرتے تھے، اتنا آشیرواد دیتے تھے۔ ایسے عظیم سنت مہارشی کاجانا ہم سبھی کے لئے بہت دکھ کی بات ہے۔ انسانیت کے لئے ان کے تعاون کو ملک ہمیشہ یاد رکھے گا۔ میں بہت ہی ادب سے انہیں سلام کرتا ہوں۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

بھائیو اور بہنو! دنیا بھر میں بسے آپ سبھی ہندوستانیوں سے بات چیت کی یہ مہم ہم سبھی کے پیارے اٹل  بہاری واجپئی جی نے شروع کی تھی۔ اٹل جی کے انتقال کے بعد یہ پہلا پراواسی بھارتیہ سمیلن(کانفرنس) ہے۔ اس موقع پر میں اٹل جی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ان کی اس وسیع  سوچ کے لئے سلام کرتا ہوں۔

ساتھیو! آپ سبھی کاشی میں موجود ہیں اور اس لئے میں کاشی اور آپ سبھی سے ایک برابری سے بھی دیکھ رہا ہوں۔بنارس شہر زمانہ قدیم سے ہی ہندوستان کی ثقافتی ، روحانی اور علم کی روایت سے دنیا میں ملک کاتعارف کراتی رہی ہے۔ آپ بھی اپنے دلوں میں ہندوستان اور ہندوستانیت کو پروئے ہوئے اس سرزمیں کی توانائی اس دنیا کو متعارف کرارہے ہیں۔ ساتھیوں! میں آپ کو ہندوستان کا برانڈ امبیسڈر ماننے کے ساتھ ہی ہندوستان کی طاقت اور ہندوستان کی صلاحیت ملک کی خصوصیات کی نمائندگی اور علامت بھی مانتا ہوں۔ اسی لئے ہی آپ ابھی جس ملک میں بھی رہ رہے ہیں، یہاں کے معاشرے کوبھی آپ نے اپنا پن دیا ہے۔ وہاں کی ثقافت اور معیشت کو فروغ دیا ہے۔ آپ نے ‘وسودیو کٹمبکم ’اس بھارتیہ درشن کا ہمارے خاندانی اقدار کی توسیع کی ہے۔ آپ سبھی جس ملک میں بسے ہیں ، وہاں کے سماج کے لگ بھگ ہر علاقے میں لیڈر شپ کے رول میں نظر آتے ہیں۔ماریشش کو شری پروند  جگناتھ جی پورے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پرتگال، تریناڈ ٹوبیگو اور آئر لینڈ جیسے متعدد ملکوں کوایسے باصلاحیت لوگوں کی قیادت ملی ہے، جن کی جڑیں ہندوستان میں ہے۔

ساتھیوں! آپ سبھی کی تعاون سے گزشتہ ساڑھے چار سال کے عرصے میں ہندوستان نے دنیا میں اپنا قدرتی مقام پانے کے سمت میں ایک بڑا قدم بڑھایا ہے۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ ہندوستان بدل نہیں سکتا، ہم نے اس سوچ کو ہی بدل ڈالا ہے۔ ہم نے بدلاؤ کرکے دکھا دیا ہے۔

ساتھیوں!دنیا آج ہماری بات کو، ہماری تجویز کو پوری سنجیدگی کے ساتھ سن بھی رہی ہے اور سمجھ بھی رہی ہے۔ آب و ہوا اور ماحول کے تحفظ اور دنیا کی ترقی میں ہندوستان کے تعاون کو دنیا قبول کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سب سے بڑے آب وہوا سے متعلق اعزاز چیمپئن  آف دی ارتھ کے ساتھ ساتھ سول پیس پرائز کا ملنا اسی کا نتیجہ ہے۔

ساتھیوں! آج ہندوستان متعدد معاملوں میں دنیا کی قیادت کرنے کی حالت میں ہے۔انٹرنیشنل سولر الائنس یعنی آئی ایس اے ایسا ہی ایک فورم ہے۔ اس کے توسط سے ہم دنیا کو ون ورلڈ،ون سن، ون گرڈ اس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے اس مقصد کا بھی حصہ ہے، جس کے تحت ہم ہندوستان کے مسائل کے ایسے حل تیار کررہے ہیں، جس سے دوسرے ملکوں کی مشکلات بھی حل ہوسکے۔لوکل سولیوشن  گلوبل ایپلی کیشن کے اپروچ کے ساتھ ہم کام کررہے ہیں۔ ریفورم، پرفورم، ٹرانسفورم اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے طریقے پر چل رہے ہیں۔چلتے ہوئے ملک نے گزشتہ ساڑھے چار سال کے عرصے میں کیا پایا، اس کی ایک تصویر میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتاہوں۔

آج ہندوستان دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی طاقت ہے، تو کھیلوں میں بھی ہم بڑی طاقت بننے کی طرف نکل پڑے ہیں۔ آج بنیادی ڈھانچے کے بڑے اور جدید وسائل بن رہے ہیں تو اسپیس(خلاء) کے شعبے میں بھی ریکارڈ بن رہے ہیں۔

آج ہم دنیا کا سب سے بڑا اسٹارٹ اَپ ایکو سسٹم ہیں، تو دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ کیئر اسکیم آیوشمان بھارت بھی چل رہے ہیں۔ آج ہمارا نوجوان میک اِم انڈیا کے تحت ریکارڈ سطح پر موبائل فون، کار ، بس ، ٹرک اور  ٹرین بنا رہا ہے تو وہیں کھیت میں ریکارڈ اناج پیداوار ہورہی ہے۔ آپ کو میں ایک مثال دیتا ہوں۔

ساتھیوں! آپ میں سے متعدد لوگوں نے ہمارے ملک کے ایک سابق  وزیر اعظم کی بدعنوانی کو لے کر کہیں ایک بات ضرور سنی ہوگی۔ انہوں نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت دہلی سے جو پیسے بھیجتی ہے اس کا صرف 15 فیصد ہی لوگوں تک پہنچ پاتا ہے۔ اگر دہلی سے ایک روپیہ نکلتا ہے تو 15 پیسے گاؤں تک پہنچتا ہے  تو 85 پیسے چھو منتر ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک سابق وزیر اعظم نے ہمارے ملک میں کہا تھا۔  اتنے سال تک ملک میں جس پارٹی نے حکومت کی، اس نے ملک کو جو نظام دیا تھا اس سچائی کو وزیر اعظم رہتے ہوئے انہوں نے قبول کیاتھا، لیکن افسوس یہ رہا کہ بعد کے اپنے دس پندرہ سال کے دورہ حکومت میں بھی  اس لوٹ کو اس لیکیج کو بند کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بیماری تو پتہ چلی، بیماری کو قبول بھی کیا ، لیکن علاج کرنے کی سمت میں نہ سوچا، نہ کچھ کیا۔ ملک کا متوسط طبقہ ایمانداری سے ٹیکس دیتا رہا ہے اور 85 فیصد کی یہ لوٹ بھی چلتی رہی ہے۔

ساتھیوں! اب میں آپ کو آج کی سچائی بھی بتانا  چاہتاہوں۔ ہم نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اس 85 فیصد کی لوٹ کو صد فیصد ختم کردیا ہے۔ گزشتہ ساڑے چار سال کے عرصے میں قریب قریب پانچ لاکھ 80 ہزار کروڑ روپے یعنی قریب قریب 80 بلین ڈالر ہماری سرکار نے الگ الگ اسکیموں کے تحت  سیدھے لوگوں کے لئے ان کے بینک اکاؤنٹ میں  منتقل کئے ہیں۔کسی کو گھر کے لئے ، کسی کو پڑھائی کے لئے، کسی کو اسکالر شپ کے لئے، کسی کو گیس سیلنڈر کے لئے تو کسی کو اناج کے لئے یہ رقم دی گئی ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیے  اگر ملک اپنے پرانے طور طریقے سے ہی چلتا رہتا ہوتا تو آج بھی اس 5پانچ لاکھ 80ہزار کروڑ روپے میں سے قریب قریب 4.5لاکھ سے بھی زیادہ ہزار کروڑ ، 4.5ہزار لاکھ کروڑ سے سے زیادہ  یہ رقم چھو منتر ہوجاتی۔ لیک ہوتی اگر ہم نظام میں تبدیلی نہیں لاتے ہوتے تو یہ رقم اسی طرح لوٹ لی جاتی ، جیسے سابق وزیر اعظم نے قبول کیا تھا کہ لوٹی جاتی تھی۔

ساتھیوں! یہ سدھار پہلے بھی ہوسکتا تھا ، لیکن نیت نہیں تھی، خواہش نہیں تھی اور پالیسی کی امید کرنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ ہماری حکومت اب اس راستے پر چل رہی ہے کہ سرکار کے ذریعے دی جانے والی ہر مدد ڈائریکٹ بینی فٹ  ٹرانسفر اسکیم کے تحت سیدھے مستفدین کے بینک کھات میں منتقل کی جائے۔ میں آپ کو ایک اور آنکڑا دیتا ہوں۔ پچھلے ساڑھے چار سال میں قریب قریب سات کروڑ ایسے فرضی لوگوں کو پہچان کر انہیں نظام سے ہٹایا ہے۔ یہ سات کروڑ لوگ وہ تھے، جب کبھی پیدا ہی نہیں تھے، جو حقیقت میں تھے ہی نہیں، لیکن یہ سات کروڑ لوگ سرکاری سہولیات  کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ کاغذ پر وہ تھے،  کاغذ پر پیدا  بھی ہوئے، بڑے بھی ہوئے اور فائدہ بھی اٹھاتے رہے، آپ سوچئے پورے  برطانیہ میں جتنے لوگ ہیں، پورے فرانس میں جتنے لوگ ہیں، پورے اٹلی میں جتنے لوگ ہیں، ایسےمتعدد ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہمارے یہاں وہ لوگ ہیں  جو صرف کاغذوں میں ہی جی رہے اور کاغذوں میں سرکاری سہولیات کا فائدہ چلاجاتاتھا۔ ان سات کروڑ فرضی لوگوں کو ہٹانے کا کام ہماری سرکار نے کیا ہے۔  یہ اس تبدیلی  کی ایک جھلک ہے جو پچھلے ساڑھے چار سال میں آنا شروع ہوئی ہے۔

ساتھیوں! یہ ملک میں ہورہے بڑے پیمانے پر ہورہے تبدیلی کی نیو انڈیا کے نئے قابل فروسہ کی جھانکی بھر ہے۔ ہندوستان کے باعث فخر ماضی کو پھر قائم کرنے کے لئے 130 کروڑ بھارتیوں کے عہد کا یہ نتیجہ ہے اور میں آج بہت فخر سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس عہد میں آپ بھی شامل ہیں۔

ساتھیوں! سرکار کی پوری کوشش ہے کہ آپ جہاں بھی رہیں خوشی اور سکھ سے رہیں۔ گزشتہ ساڑھے چار سال کے عرصے کے دوران بحران میں پھنسے دو لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں کو سرکاری کی کوششوں  سے دنیا کے مختلف ملکوں میں مدد پہنچائی گئی ہے۔  آپ کی سوشل سیکوریٹی کے ساتھ ساتھ پاسپورٹ ویزا ، پی آئی او اور او سی آئی کارڈ کو لے کر بھی تمام عمل کو آسان کرنے کی کوشش سرکار کررہی ہے۔

سبھی کے لئے پاسپورٹ سیوا سے جڑا ایک سینٹر لائزڈ سسٹم تیار ہو جائے گا۔ بلکہ اب تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے چپ پر مبنی ای –پاسپورٹ جاری کرنے کی سمت میں بھی کام چل رہا ہے۔

ساتھیوں ! پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ ویزا سے جڑے ضابطوں کو بھی آسان کیا جا رہا ہے۔ ای –ویزا کی سہولت ملنے سے آپ کے وقت کی بچت بھی ہو رہی ہے اور پریشانیاں بھی کم ہوئی ہیں۔ ابھی بھی کوئی مسئلہ اس میں ہے تو اس کے سدھار کے لئے بھی قدم اٹھائے جا رہے ہیں ۔ آپ میں سے متعدد لوگ اس بات سے بھی واقف ہوں گے کہ ہماری حکومت نے پی آئی او کارڈ کو او سی آئی کارڈ میں بدلنے کے عمل کو بھی  آسان بنایا ہے۔

ساتھیوں! آپ  اپنی مٹی سے بھلے ہی دور ہیں لیکن  نیو انڈیا کی  تعمیر میں آپ کی سرگرم حصہ داری میںاور اضافہ ہو  اس کے لئے مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارت میں جو تبدیلی آ رہی ہے ، جو نئے مواقع بن رہے ہیں ، اس میں آپ کا تعاون بہت زیادہ اہم ہے۔ بدلتے ہوئے اس بھارت میں آپ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اور انوویشن میں بڑا رول ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت یہ بھی کوشش کر رہی ہے کہ بھارت اسٹارٹ اپ اور این آر آئی مینٹرس کو ایک ساتھ ایک پلیٹ فارم پر لائیں ۔  دفاعی مینوفیکچرنگ بھی آپ کے لئے ایک اہم شعبہ ہو سکتا ہے۔

بھائیو  اور بہنوں ! ماں بھارتی کا تحفظ  معیشت کے ساتھ ساتھ اپنی  روحانی اور ثقافتی وراثت سے بھی  آپ کا جڑاؤ اور مضبوط ہو سکے ۔ اس کے لئے پرواسی تیرتھ درشن یوجنا کی بھی شروعات کی جا رہی  ہے۔  میں اس اسٹیج پر پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور آج پھر دوہرانا چاہتا ہوں کہ آپ جس بھی ملک میں رہتے ہیں وہاں سے اپنے آس پاس کے کم از کم پانچ کنبوں اور وہ بھی  غیر ہندوستانی  پانچ کنبوں کو بھارت آنے کے لئے  آپ  رغبت دلائیں ۔ آپ کی یہ کوشش ملک میں ٹورزم میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اسی طرح آپ اس سال گاندھی جی کی 150 ویں یوم پیدائش پر اپنے ملک میں رہتے ہوئے کیسے ان کی باتوں کو ، بھارت کی باتوں کو  دیگر لوگوں تک پہنچائیں گے ، اس پر بھی غور  کیجیئے۔  گذشتہ دنوں سشما جی کی قیادت میں دنیا کے کئی ملکوں میں ایک اچھا تجربہ ہوا وہاں کی ہماری سبھی سفارت خانوں نے گاندھی جی کی 150 وین جینتی پر اس ملک کے فن کاروں کو ’ویشنو جن   تو تینے کہئے‘، گاندھی جی کے محبوب بھجن ان کو گانے کے لئے درخواست کی۔  یو ٹیوب پر اس کی ساری ویڈیو ز دستیاب ہیں ۔  آپ بھی حیران ہو جائیں گے کہ  بیرون ملک  کے شہری ، بیرون ملک کے فنکار کتنے  والہانہ جذبے سے’ویشنو جن   تو تینے کہئے‘ گا رہے ہیں۔ ایک طرح سے گاندھی گلوبل ہینڈ ، یہ احساس ہم سب  اس کو سن کر کر سکتے ہیں اور اس لئے کچھ خصوصی پروگرام اگر آپ کرنا چاہیں تو ہندوستانی سفارتخانہ کے ذریعے بھی آپ کی ہر ممکنہ مدد کی جائے گی۔ اس سال ہم سبھی گرونانک دیوجی کی 550 ویں جینتی بھی منا رہے ہیں۔ گربانی کو ہم کیسے دوسرے ملکوں کے لوگوں تک پہنچائیں ، انہیں ہندوستان کی خوشحال ثقافتی وراثت سے کیسے متعارف کرائیں ،  اس بارے میں بھی میں چاہوں گا کہ آپ جس بھی ملک میں ہوں ، کچھ نہ کچھ منصوبے بننے چاہئے، کچھ نہ کچھ کوشش ہونی چاہئے۔

ساتھیوں! یہ باتیں صر ف مشورے کے طور پر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ، مجھے پتہ ہے کہ آپ میں سے بہت سے لوگ پہلے سے ایسا کرتے  آ رہے ہیں۔  لیکن آپ سے  محبت ایسی ہے کہ میں خود کو روک نہیں پاتا ہوں ۔

میں خاص طور سے آج اترپردیش  حکومت کو بھی مبارکباد دینا چاہتا ہوں ۔ عام طور پر کسی ریاست میں  پرواسی بھارتیہ دوس کا اتنا بڑا پروگرام لینا ہو ، دنیا کے اتنے مہمان آنے والے ہوں ، تو اس ریاست کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے،بہت  پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔ قریب قریب ایک سال اس میں لگ جاتا ہے۔ اور ایک پروگرام کرنے کے بعد ایک سال تھکان اترنے میں چلا جاتا ہے۔  میں اترپردیش کو اس لئے مبارکباد  دیتا ہوں کہ کمبھ جتنا بڑا پروگرام چل رہا ہوں ، اتنا بڑا نظام  لگا ہوا ہو ، کمبھ میلے کی تیاری میں دو تین سال مسلسل کام کرنا پڑتا ہے اور مجھے تردد ہو رہا تھا  کہ کمبھ کے میلے کی ذمہ داری اترپردیش کے پاس ہے ، ساری سرکاری  مشینری اس میں مصروف ہے ، دس کروڑ لوگوں کے وہاں آنے کا امکان ہے ایسے میں کاشی میں یہ پروگرام کریں یا نہ کریں ۔ میرے من میں جھجھک تھی لیکن میں یوگی جی کو ، ان کی پوری ٹیم کو ، اترپردیش کی انتظامیہ اور حکومت کو  تہہ دل سے مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے ایک ساتھ دو اتنے بڑے پروگرام  منعقد کرائے۔ اس بات نے دنیا کو  اس چیز کا  احساس کرا دیا ہے کہ اترپردیش کی حکومت ، اترپردیش کی بیورو کریسی ، اترپردیش کے ملازم  یہ بھی دنیا میں کسی سے کم نہیں ہے اور اس لئے میں  خاص طور پر  ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میں کاشی کے رہنے والوں کو سر جھکا کر سلام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں نے پرواسی بھارتی دوس کو گجرات میں بھی کیا ہوا ہے اور  شاید گجرات کے وزیراعلیٰ کہیں  یا آج وزیراعظم کے عہدے پر دیکھیں ۔ شاید ہندوستان میں   میں واحد ایسا انسان ہو ں جو قریب قریب سبھی پرواسی بھارتی دوس پروگرام میں حاضر رہا ہوں  جب وزیراعلیٰ تھا تب بھی آتا تھا، وزیراعظم بننے کے بعد تو فرض ہو گیا ہے۔ ایک بار صرف میں  ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے  شریک ہوا تھا  ورنہ میں  جسمانی طور پر ہی جاتا ہوں ۔ میں نے اتنے پروگرام دیکھے ہیں ، گجرات میں بھی میں میزبان تھا لیکن کاشی نے جس طرح سے اس پروگرام کو سرکاری پروگرام نہیں بننے دیا  بلکہ  عوام کا پروگرام بن گیا ۔  ہر کاشی واسی نے اپنا پروگرام بنا لیا۔  قریب قریب  چار سو لوگ کنبوں  کے درمیان ٹھہرے ہوئے ہیں اور یہاں کی ٹینٹ سٹی کا نظارہ ایسا ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ کئی لوگ جو ہوٹل میں ٹھہرے تھے وہ ہوٹل چھوڑ کر کے ٹینٹ سٹی کا مزہ لینے چلے آئے ہیں ۔  ایک نیا تجربہ کرنے کے لئے چلے آئے ۔ میں سمجھتا ہوں اور گذشتہ دو مہینے سے میں  مسلسل دیکھ رہا تھا کہ کاشی کے باشندوں نے کاشی کو ایک طرح سے گلوبل ہیڈ کوارٹر بنا دیا ہو، ایسا ماحول بنا دیا تھا ۔یہاں آیا ہوا ہر مہمان کاشی کے باشندوں کو لگ رہا ہے کہ اس کے خود کے خاندان کا مہمان ہے۔ ایسا ماحول پرواسی بھارتیہ سمیلنوں  میں  اس سے پہلے میں کبھی دیکھ نہیں پایا ہوں ، جو کاشی کے باشندوں نے دکھایا ہے اور اس لئے میں کاشی کے باشندوں کو خاص طور پر سلام کرتا ہوں۔ میں مقامی انتظامیہ کو بھی  ، یہاں کے افسروں کو بھی  دل سے  بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں  کہ انہوں نے اپنے بل بوتے پر اتنے بڑے نظام کو چلایا ، بڑھایا اور آگے بڑھایا  اور ان سب کے پس پشت سشما جی کی قیادت اور ان کی پوری ٹیم  یہ تو مبارکباد کے حق دار ہیں ہی۔  کاشی کا وقار بڑھا تو یہاں کے رکن پارلیمنٹ کے ناطے میری خوشی چار گنی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

محنت آپ لوگوں نے کی ،  منصوبہ آپ لوگوں نے بنایا ، پسینہ آپ نے بہایا ،دن رات بغیر سوئے ، بغیر تھکے آپ لوگ   چلتے رہے ، لیکن لوگ پیٹھ میری تھپتھپا رہے ہیں ۔ یہ آپ کا پیار ہے ، آپ کی محنت ہے ، جس کے سبب یہ ممکن ہوا ہے۔ اور اس لئے کاشی  کے رکن پارلیمنٹ کے ناطے میرے اس میدان عمل کے ناطے میں آج ایک خاص  قسم  کا اطمینان  محسوس کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میری کاشی  آپ کے وسیلے سے پھر ایک بار دنیا کے ہر شخص کے دل میں جگہ بنائے گی اور ہر کسی کو  کاشی آنے کا من کرے گا۔

میں آخر میں پھر سے ایک بار آپ سبھی کا کاشی میں تشریف لانے کے لئے دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہندوستان میں آپ کا یہ قیام   خوش کن رہے ، اسی دعا کے ساتھ بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ذاتی طور پر  وزیراعظم  کی شکل میں نہیں، رکن پارلیمنٹ کی شکل میں نہیں ، ذاتی طور پر اپنی خوشی کے لئے گذشتہ ایک دو برس سے پروگرام کرر ہا ہوں ۔ ہندوستان میں مارچ مہینہ ایک طرح سے امتحان کا مہینہ ہوتا ہے اور دسویں ، بارہویں  کے امتحانات یعنی  خاندان میں سال بھر ایک تناؤ کا ماحول رہتا ہے۔ ہر کسی کو لگتا ہے کہ بچے کو دسویں  میں زیادہ مارکس ملیں ، بارہویں میں زیادہ مارکس ملیں ، ایک تناؤ کا ماحول ہوتا ہے ۔ تو میں ہمیشہ کوشش کر رہا ہوں کہ امتحان کے پہلے سبھی بچوں سے ، ان کے والدین سے ، ان کے گارجین سے ان کے  اتالیقوں سے ان کے اساتذہ سے میں بات چیت کروں اور امتحان کو بڑی مصیبت نہ مانیں لوگ، اس کے لئے جو باتیں سمجھا سکتا ہوں  میں سمجھاؤں ۔ مجھے خوشی ہے کہ 29 جنوری کو میں ملک بھر کے اور اس بار تو بیرون ملک کے لوگ بھی جڑ رہے ہیں ۔ ان کے بچے بھی  ان کے خاندان کے لوگ بھی  نریندر مودی ایپ کے توسط سے  ، ویڈیو کے ذریعے سے  جڑنے والے ہیں ، کروڑوں کروڑوں خاندانوں کے ساتھ ایگزام واریئرس  کے سلسلے میں میں بات کرنے والا ہوں ۔ بچوں سے بات چیت کرنے والا ہوں اور امتحان کا تناؤ بچوں کو نہ رہے اس کے لئے جو بھی طور طریقے بتا سکتا ہوں ، میں بتا نے والا ہوں ۔ 29 جنوری  ، گیارہ بجے ، مجھے یقین ہے کہ آپ  بھی  اپنے خاندان کے لوگوں  کو اطلاع دیں گے کہ  وہاں  آپ کے خاندان کے لوگ بھی اگر اس امتحان کے اس دورانیئے میں ہوں تو وہ بھی اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

میں ایک بار پھر ایک شاندار انعقاد کے لئے اور ہمارے دوست پروند ر جگناتھ جی کا خاندان کے ساتھ یہاں آنا ، وقت دینا ، اس پروگرام  کی زینت میں اضافہ کرنا ، میں اس کے لئے انکا دل کی گہرائیوں سے شکریہ اد اکرتا ہوں ۔ ان کے والد صاحب نے ماریشس کو بنانے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے ۔ ایک طرح سے جدید ماریشس  کے وہ معمار ہیں ۔ ان کا بھی اتنا ہی پیار ہم سب پر بنا ہوا ہے۔  گذشتہ دنوں ان کے والد صاحب خاص طور پر خاندان کے ساتھ کاشی کی یاترا کے لئے آئے تھے ، آج پرویندر جی کا آنا ہو گیا۔ خاندان کے ساتھ کویتا جی کو لے کر کے آ گئے۔ میں مانتا ہوں ان کا ہندوستان کے تئیں  جو غیر معمولی پیار ہے ، وہ دنوں و دن    بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ انہوں نے وقت دیا ، زینت بڑھائی ، ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ میں پھر ایک بار آپ سب کا مبارکبادیوں کے ساتھ ساتھ بہت بہت شکریہ  اداکرتا ہوں!

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More